شادی کے مسائل

مصنف : حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : مئی 2022

پردہ اور پسند کی شادی
سوال: اسلامی پردے کی رو سے جہاں ہمیں بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں وہاں دو ایسے نقصانات ہیں جن کا کوئی حل نظر نہیں آتا بجز اس کے کہ صبر وشکر کر کے بیٹھ جائیں۔اول یہ کہ ایک تعلیم یافتہ آدمی جس کا ایک خاص ذوق ہے اور جو اپنے دوست منتخب کرنے میں ان سے ایک خاص اخلاق اور ذوق کی توقع رکھتا ہے، فطرتاً اس کا خواہش مند ہوتا ہے کہ شادی کے لیے ساتھی بھی اپنی مرضی سے منتخب کرے۔ لیکن اسلامی پردے کے ہوتے ہوئے کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا ساتھی چنے بلکہ اس کے لیے وہ قطعاً دوسروں یعنی ماں یا خالہ وغیرہ کے دست نگر ہوتے ہیں۔ ہماری قوم کی تعلیمی حالت ایسی ہے کہ والدین عموماً اَن پڑھ اور اولاد تعلیم یافتہ ہوتی ہے اس لیے والدین سے یہ توقع رکھنا کہ موزوں رشتہ ڈھونڈ لیں گے ایک عبث توقع ہے۔ اس صورتحال سے ایک ایسا شخص جو اپنے مسائل خود حل کرنے اور خود سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو سخت مشکل میں پڑ جاتا ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ایک لڑکی جو گھر سے باہر نہ نکلنے کی پابند ہو وہ کیونکر ایسی وسعت نظر، فراست اور عقل عام کی مالک ہو سکتی ہے کہ بچوں کی بہترین تربیت کر سکے اور ان کی ذہنی صلاحیتوں کو پوری طرح سے بیدار کر دے، اس کو تو دنیا کے معاملات کا صحیح علم ہی نہیں ہوسکتا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اتنی ہی تعلیم بھی حاصل کر لے جتنی ایک بے پردہ لڑکی نے حاصل کی ہوتی ہے تو بھی اس کی ذہنی سطح کم ہوگی کیونکہ اسے اپنے علم کو عملی طور پر پرکھنے کا کوئی موقع ہی حاصل نہیں۔ امید ہے آپ اس مسئلہ پر روشنی ڈال کر ممنون فرمائیں گے۔

جواب: آپ نے اسلامی پردے کی جن خرابیوں کا ذکر کیا ہے اولاً تو وہ ایسی خرابیاں نہیں ہیں کہ اس کی بناء پر آدمی لاینحل مشکلات میں مبتلا ہو جائے اور ثانیاً حیاتِ دنیوی میں آخر کون سی ایسی چیز ہے جس میں کوئی نہ کوئی خامی یا کمی نہ پائی جاتی ہو۔ لیکن کسی چیز کے مفید یا مضر ہونے کا فیصلہ اس کے صرف ایک یا دو پہلوؤں کو سامنے رکھ کر نہیں کیا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ مجموعی طور پر اس میں مصالح کو غلبہ حاصل ہے یا مفاسد کو۔ یہی اصول پردے کے بارے میں اختیار کیا جائے گا۔ اسلامی پردہ آپ کی رائے میں بھی بے شمار فوائد کا حامل ہے لیکن فقط یہ مشکل کہ اس کی پابندی سے آدمی کو شادی کے لیے اپنی مرضی کے مطابق لڑکی منتخب کرنے کی آزادی نہیں مل سکتی، پردے کی افادیت کو کم یا اس کی پابندی کو ترک کرنے کے لیے وجہ جواز نہیں بن سکتی۔ بلکہ اگر ہر لڑکے کو لڑکی کے انتخاب اور ہر لڑکی کو لڑکے کے انتخاب کی کھلی چھٹی دے دی جائے تو اس سے اس قدر قبیح نتائج برآمد ہوں گے کہ ان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور پھر خاندانی نظام جو کہ معاشرے کی مضبوطی اور پاکیزگی کا ضامن ہوتا ہے درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ اور ایک موہومہ مشکل کو حل کرتے کرتے بے شمار حقیقی مشکلات کے دروازے کھل جائیں گے۔
آپ کا یہ خیال کہ باپردہ لڑکی وسعت نظر اور فراست سے بے بہرہ ہوتی ہے درست نہیں ہے۔ اور اگر اسے بالفرض درست بھی تسلیم کر لیا جائے تو اس میں پردے کا کوئی قصور نہیں ہے۔ ایک لڑکی باپردہ رہ کر بھی علم و فن میں کمال پیدا کرسکتی ہے اور اس کے مقابلے میں پردے سے باہر ہو کر بھی ایک لڑکی علم و عقل اور فراست و بصیرت سے کوری رہ سکتی ہے۔ البتہ بے پردہ لڑکی کو یہ فوقیت ضرور ہوگی کہ وہ معلومات کے لحاظ سے چاہے وسیع النظر نہ ہو لیکن تعلقات کے لحاظ سے اس کی نگاہیں ضرور پھیل جائیں گی۔ ایسی حالت میں اگر موزوں ترین رفیقِ حیات کی تلاش میں کامیابی ہو بھی جائے تب بھی جو نگاہیں وسعت کی عادی ہو چکی ہوں انہیں سمیٹ کر ایک مرکز تک محدود رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔
سوال: (۲) آپ کا جواب ملا۔ مگر مجھے اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ آپ نے اسے بالکل معمولی مسئلہ قرار دیا۔ کامیاب شادی کی تمنا تو ایک جائز خواہش ہے اور ایسے حالات پیدا کرنا، جن کی وجہ سے ایک شخص کے لیے اپنی پسند کی لڑکی چننے کا راستہ بند ہو جائے میں انسانی مسرت اور شخصیت کے ارتقاء کے لیے مضر سمجھتا ہوں اور دینِ فطرت کے منافی۔ جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ہمارے مروجہ طریقے کے مطابق عورت زیادہ سے زیادہ گھر کی منتظم ہوتی ہے اور خاوند کی اور اپنی جنسی تسکین کا ایک ذریعہ، لیکن دو افراد کے اپنے آپ کو پوری طرح ایک دوسرے کے حوالے کرنے اور زندگی کے فرائض ایک بار کی بجائے خوشی خوشی پورا کرنے کے جو امکانات اپنی پسند اور ذوق کی شادی کر لینے میں ہوتے ہیں وہ اس صورت میں قطعاً ممکن نہیں کہ اپنی پسند اور بصیرت استعمال کیے بغیر کسی دوسرے کے انتخاب پر شادی کر لی جائے۔
میرا خیال ہے کہ ایک نوجوان محض جنسی تسکین کا خواہش مند نہیں ہوتا، وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ کسی کے لیے کچھ قربانی کرے، کسی سے محبت کرے، کسی کی خوشی کا خیال رکھے اور کوئی اس کی خوشی پر خوش ہو۔ اس جذبے کے فطری نکاس کا راستہ تو یہ ہے کہ وہ کسی ایسی لڑکی سے شادی کرے جسے اس نے تعلیم، اطوار، کردار اور دوسری خوبیوں کی بناء پر اپنی طبیعت کے مطابق حاصل کیا جائے (حقیقی محبت کسی کی باطنی خوبیوں کے دیکھنے سے ہی پیدا ہوتی ہے نہ کہ شکل دیکھ لینے سے) اور یہ بات ناممکنات میں ہے کہ پہلے تو کسی کی شادی کرا دی جائے اور پھر اس سے مطالبہ کیا جائے کہ اب اسے ہی چاہو اور یوں جیسے تم نے اس کو خود پسند کیا ہے۔ اس فطری محبت کا راستہ بند کر لینے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ جذبہ اپنے لیے دوسرے راستے نکال لیتا ہے۔
پردے کی وجہ سے جو حالات پیدا ہیں ان میں حقیقتاً کردار دیکھ کر تلاش کرنا ممکن نہیں۔ لڑکے کے باپ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ لڑکی کا پتہ چلاسکے، لڑکی کی والدہ کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ لڑکے کے متعلق براہ راست کچھ اندازہ لگا سکے۔ کیونکہ پردے کی وجہ سے ان افراد میں بھی تعلق اور آزادانہ گفتگو ناممکن ہے۔ (خود لڑکے اور لڑکی کا ملنا تو ایک طرف رہا) بڑی سے بڑی آزادی جو اسلام نے دی ہے وہ یہ ہے کہ لڑکا لڑکی کی شکل دیکھ لے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی کی شکل چند سیکنڈ دیکھ لینے سے کیا ہو جاتا ہے۔
اس مسئلے کا ایک اور پہلو بھی ہے، اب تو تمام علماء نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ موجودہ تمدنی ضروریات پوری کرنے کے لیے علم کا حاصل کرنا عورتوں کے لیے ضروری ہے۔ لیکن مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ہی کام کر سکتی ہیں۔ یا تو اسلامی احکام کی پابندی کریں یا علم حاصل کریں۔ پردے کی پابند ہوتے ہوئے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ طبقات الارض، آثار قدیمہ، انجینئرنگ اور تمام ایسے علوم جن میں سروے اور دور دراز سفر کی ضرورت ہوتی ہے، ان علوم کے لیے خواتین کس طرح کام کر سکتی ہیں جب کہ محرم کے بغیر عورت کا تین دن سے زائد کی مسافت پر نکلنا بھی منع ہے۔ اب کیا ہر جگہ وہ اپنے ساتھ محرم کو لیے لیے پھرے گی؟
یہ علوم تو ایک طرف رہے، میں تو ڈاکٹری اور پردے کو بھی ایک دوسرے کی ضد سمجھتا ہوں۔ اول تو ڈاکٹری کی تعلیم ہی جو جسمانیات کی نگاہیں پھیلا دینے والی معلومات سے پُر ہوتی ہے، حیا کے اس احساس کو ختم کر دینے کے لیے کافی ہے جس کی مشرقی عورتوں سے توقع کی جاتی ہے، خواہ وہ ڈاکٹری پردے ہی میں سیکھی جائے اور پڑھانے والی تمام خواتین ہی کیوں نہ ہوں۔ دوم ڈاکٹر بننے پر ایک خاتون کو مریضوں کے لواحقین سے روابط کی اس قدر ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے لیے غیر مردوں سے بات چیت پر قدغن لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب اس کے پیش نظر اگر ہم خواتین کو ڈاکٹر بننے سے روکتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے گھروں کی مریض خواتین کے ہر مرض کے علاج کے لیے مرد ڈاکٹروں کی خدمات کی ضرورت پڑے گی اور رائج الوقت نظریہ حیا کے مطابق یہ تو اس سے بھی زیادہ معیوب سمجھا جائے گا۔
جناب عالی آپ مجھے یہ بتائیں کہ ان معاشرتی اور تمدنی الجھنوں کا اسلامی احکامات کی پابندی کرتے ہوئے کیا حل ہے؟

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)


جواب: آپ کا دوسرا خط ملا۔ شادی کے معاملے میں آپ نے جو الجھن بیان کی ہے وہ اپنی جگہ درست ہی سہی، اس کا حل کورٹ شپ کے سوا اور کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ جس تفصیل کے ساتھ رفیقِ زندگی بنانے سے پہلے لڑکی اور لڑکے کو ایک دوسرے کے اوصاف، مزاج، عادات، خصائل اور ذوق و ذہن سے واقف ہونے کی ضرورت آپ محسوس کرتے ہیں ایسی تفصیلی واقفیت دوچار ملاقاتوں میں، اور وہ بھی رشتہ داروں کی موجودگی میں حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس کے لیے مہینوں ایک دوسرے کے ساتھ ملنا، تنہائی میں بات چیت کرنا، سیر تفریح، سفر میں ایک دوسرے کے ساتھ رہنا اور بے تکلف دوستی کی حد تک تعلقات پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ کیا واقعی آپ یہی چاہتے ہیں کہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان اس اختلاط کے مواقع بہم پہنچنے چاہئیں۔ آپ کے خیال میں ان جوان لڑکوں اور لڑکیوں کے اندر ان معصوم فلسفیوں کا فی صدی تناسب کیا ہوگا جو بڑی سنجیدگی کے ساتھ صرف رفیق زندگی کی تلاش میں مخلصانہ تحقیقاتی روابط قائم کریں گے۔ اور اس دوران میں شادی ہونے تک اس طبعی جذب و اجذاب کو قابو میں رکھیں گے جو خصوصیت کے ساتھ نوجوانی کی حالت میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے لیے اپنے اندر رکھتے ہیں؟ بحث برائے بحث اگر آپ نہ کرنا چاہتے ہوں تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ شاید دو تین فی صدی سے زیادہ ایسے لوگوں کا اوسط ہماری آبادی میں نہ نکلے گا۔ باقی اس امتحانی دور ہی میں فطرت کے تقاضے پورے کر چکے ہوں گے اور وہ دو تین فیصدی جو اس سے بچ نکلیں گے وہ بھی اس شبہ سے نہ بچ سکیں گے کہ شاید وہ باہم ملوث ہو چکے ہوں۔
پھر کیا یہ ضروری ہے کہ ہر لڑکا اور لڑکی جو اس تلاش و تحقیق کے لیے باہم خلا ملا کریں گے وہ لازماً ایک دوسرے کو رفاقت کے لیے منتخب ہی کر لیں گے؟ ہو سکتا ہے کہ ۲۰ فیصدی دوستیوں کا نتیجہ نکاح کی صورت میں برآمد ہو۔ ۸۰ فیصدی یا کم ازکم ۵۰ فیصدی کو دوسرے یا تیسرے تجربے کی ضرورت لاحق ہوگی۔ اس صورت میں ان ’’تعلقات‘‘ کی کیا پوزیشن ہوگی جو دوران تجربہ میں آئندہ نکاح کی امید پر پیدا ہو گئے تھے اور ان شبہات کے کیا اثرات ہوں گے جو تعلقات نہ ہونے کے باوجود ان کے متعلق معاشرے میں پیدا ہو جائیں گے؟
پھر آپ یہ بھی مانیں گے کہ لڑکے اور لڑکیوں کے لیے ان مواقع کے دروازے کھولنے کے بعد انتخاب کا میدان لامحالہ بہت وسیع ہو جائے گا ایک ایک لڑکے کے لیے صرف ایک ہی ایک لڑکی مطمع نظر نہ ہو گی جس پر وہ اپنی نگاہ انتخاب مرکوز کر کے تحقیق و امتحان کے مراحل طے کرے گا اور علی ہذا القیاس لڑکیوں میں سے بھی ہر ایک کے لیے ایک ہی ایک لڑکا امکانی شوہر کی حیثیت سے زیر امتحان نہ ہوگا۔ بلکہ شادی کی منڈی میں ہر
 طرف ایک سے ایک جاذب نظر مال موجود ہوگا جو امتحانی مراحل سے گزرتے ہوئے ہر لڑکے اور ہر لڑکی کے سامنے بہتر انتخاب کے امکانات پیش کرتا رہے گا۔ اس وجہ سے اس امر کے امکانات روز بروز کم ہوتے جائیں گے کہ ابتداً جو دو فرد ایک دوسرے سے آزمائشی ملاقاتیں شروع کریں وہ آخر وقت تک اپنی اس آزمائش کو نباہیں اور بالآخر ان کی آزمائش شادی پر منتج ہو۔اس کے علاوہ یہ ایک فطری امر ہے کہ شادی سے پہلے لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے کے ساتھ جو رومانی طرز کا کورٹ شپ کرتے ہیں ان میں دونوں ایک دوسرے کو اپنی زندگی کے روشن پہلو ہی دکھاتے ہیں۔ مہینوں کی ملاقاتوں اور گہری دوستی کے باوجود ان کے کمزور پہلو ایک دوسرے کے سامنے پوری طرح نہیں آتے  اس دوران میں شہوانی کشش اتنی بڑھ چکی ہوتی ہے کہ وہ جلدی سے شادی کر لینا چاہتے ہیں اور اس غرض کے لیے دونوں ایک دوسرے سے ایسے ایسے پیمان وفا باندھتے ہیں، اتنی محبت اور گرویدگی کا اظہار کرتے ہیں کہ شادی کے بعد معاملات کی زندگی میں وہ عاشق و معشوق کے اس پارٹ کو زیادہ دیر تک کسی طرح نہیں نباہ سکتے، یہاں تک کہ جلدی ہی ایک دوسرے سے مایوس ہو کر طلاق کی نوبت آجاتی ہے۔ کیونکہ دونوں ان توقعات کو پورا نہیں کرسکتے جو عشق و محبت کے دور میں انہوں نے باہم قائم کی تھیں اور دونوں کے سامنے ایک دوسرے کے وہ کمزور پہلو آجاتے ہیں جو معاملات کی زندگی ہی میں ظاہر ہوا کرتے ہیں۔ عشق و محبت کے دور میں کبھی نہیں کھلتے۔
اب آپ ان پہلوؤں پر بھی غور کر کے دیکھ لیں۔ پھر آپ مسلمانوں کے موجودہ طریقے کی مزعومہ قباحتوں اور اس کورٹ شپ کے طریقے کی قباحتوں کے درمیان موازنہ کر کے خود فیصلہ کریں کہ آپ کو ان دونوں میں سے کون سی قباحتیں زیادہ قابل قبول نظر آتی ہیں۔ اگر اس کے بعد بھی آپ کورٹ شپ ہی کو زیادہ قابل قبول سمجھتے ہیں تو مجھ سے بحث کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کو خود یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ اس اسلام کے ساتھ آپ اپنا تعلق رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں جو اس راستے پر جانے کی اجازت دینے کے لیے قطعاً تیار نہیں ہے۔ یہ کام آپ کو کرنا ہو تو کوئی دوسرا معاشرہ تلاش
 کریں۔ اسلام سے سرسری واقفیت بھی آپ کو یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اس دین کی حدود میں ’’کامیاب شادی‘‘ کا وہ نسخہ استعمال کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے جسے آپ مباح کرنا چاہتے ہیں۔
عورتوں کی تعلیم کے متعلق آ پ نے جن مشکلات کا ذکر کیا ہے ان کے بارے میں بھی کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے آپ اس بات کو سمجھ لیں کہ فطرت نے عورت اور مرد کے دائرہ کار الگ رکھے ہیں۔ اپنے دائرہ کار کے فرائض انجام دینے کے لیے عورت کو جس بہتر سے بہتر تعلیم کی ضرورت ہے وہ اسے ضرور ملنی چاہیے اور اسلامی حدود میں وہ پوری طرح دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح عورت کے لیے ایسی علمی و ذہنی ترقی بھی ان حدود کے اندر رہتے ہوئے ممکن ہے جو عورت کو اپنے دائرہ کار کے فرائض انجام دیتے ہوئے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس معاملہ میں کوئی انتظامات نہ کرنا مسلمانوں کی کوتاہی ہے نہ کہ اسلام کی۔ لیکن وہ تعلیم جو مرد کے دائرہ کار کے لیے عورت کو تیار کرے عورت ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے تباہ کن ہے اور اس کی کوئی گنجائش اسلام میں نہیں ہے۔ اس مسئلے پر تفصیلی بحث کے لیے آپ میری کتاب ’’پردہ‘‘ کو بغور ملاحظہ فرمائیں۔
(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۵، عدد۴۔ جنوری ۱۹۶۱ء)

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

جواب: اس سوال کے ساتھ سائل نے پوری تفصیل کے ساتھ فریقین کے دلائل جمع کردیے ہیں، لہٰذا پہلے ہم ان دلائل کو یہاں نقل کردیتے ہیں:
(۱) حنفیہ کا استدلال حسب ذیل آیات اور احادیث سے ہے:
’’تم میں سے جو لوگ مرجائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں تو وہ اپنے آپ کو چار مہینے دس دن روکے رکھیں، پھر جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو جو کچھ وہ اپنی ذات کے معاملے میں معروف طریقے سے کریں، اس کی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں۔‘‘
 (البقرہ۔ 234)
’’پھر اگر (تیسری بار شوہر نے بیوی کو) طلاق دے دی، تو وہ عورت اس کے لیے حلال نہ ہوگی، الا یہ کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے‘‘۔
(البقرہ۔ 230)
’’پھر تم ان عورتوں کو اس سے مت روکو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کرلیں جب کہ وہ بھلے طریقے سے باہم رضامند ہوجائیں‘‘۔
(البقرہ۔ 232)
’’نافع ابن جبیر نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بیوہ عورت اپنے ولی سے زیادہ خود اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کی حقدار ہے، اور کنواری کا مشورہ لیا جانا چاہیے اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ شوہر دیدہ عورت اپنے ولی سے زیادہ اپنے نکاح کے معاملے میں حقدار ہے‘‘۔ (نصب الروایہ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۲)
ابی سلمہ بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ میرے باپ نے میرا نکاح ایک مرد سے کردیا ہے اور میں اسے ناپسند کرتی ہوں۔ آپ نے باپ سے فرمایا کہ نکاح کا اختیار تمہیں نہیں ہے اور لڑکی سے فرمایا کہ جاؤ جس سے تمہارا جی چاہے نکاح کرلو۔(نصب الروایہ، جلد ۳، صفحہ ۱۸۲)
مالک نے عبدالرحمٰن سے، انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حفصہ بنت عبدالرحمٰن کا منذر ابن زبیر سے نکاح کردیا۔ اس وقت عبدالرحمٰن شام میں تھے۔ جب وہ واپس آئے تو کہنے لگے کہ کیا میری رائے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ تب حضرت عائشہؓ نے منذر ابن زبیر سے بات کی۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ عبدالرحمٰن کے ہاتھ میں ہے۔ اس پر عبدالرحمٰن نے حضرت عائشہؓ سے کہا کہ جس معاملے کو آپ نے طے کردیا ہے، میں اس کی تردید نہیں کرنا چاہتا۔ چنانچہ حفصہ منذر کے پاس ہی رہیں اور یہ طلاق نہ تھی۔
ابوداؤد اور نسائی نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا شوہر دیدہ عورت پر ولی کو کچھ اختیار حاصل نہیں ہے۔
نسائی اور احمد نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ ایک لڑکی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے رسول! میرے باپ نے اپنے بھتیجے کے ساتھ میرا بیاہ صرف اس لیے کردیا ہے کہ میرے ذریعے سے اسے ذلت سے نکالے۔ آپ ﷺ نے نکاح کی تنسیخ و استقرار کا حق لڑکی کو دے دیا۔ لڑکی نے کہا، میرے والد نے جو کچھ کیا ہے، میں اسے جائز قرار دیتی ہوں، میری خواہش صرف یہ ہے کہ عورتیں جان لیں کہ باپوں کو کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔
(۲) اہل حدیث حضرات اپنی تائید میں مندرجہ ذیل احادیث پیش کرتے ہیں:
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا، جو عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے، اس کا نکاح باطل ہے … پس اگر جھگڑا ہو تو جس عورت کا ولی نہ ہو تو سلطان اس کا ولی ہے۔
’’ ابو موسیٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ولی کے بغیر کوئی نکاح جائز نہیں ہے‘‘۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک عورت دوسری عورت کا (ولی بن کر) نکاح نہ کرے، اور نہ کوئی عورت خود اپنا نکاح کرے۔
حضرت عمرؓ نے فرمایا جس عورت کا نکاح ولی یا حکام نہ کریں، اس کا نکاح باطل ہے۔
عکرمہ ابن خالد سے روایت ہے کہ ایک شوہر دیدہ عورت نے اپنا معاملہ ایک ایسے شخص کے سپرد کردیا جو اس کا ولی نہ تھا اور اس شخص نے عورت کا نکاح کردیا۔ حضرت عمرؓ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے نکاح کرنے اور کرانے والوں کو کوڑوں کی سزا دی اور نکاح منسوخ کردیا۔
’’حضرت علیؓ نے فرمایا جس عورت نے بھی اپنے ولی کے اذن کے بغیر نکاح کیا، اس کا نکاح باطل ہے۔ بلا اجازت ولی کوئی نکاح نہیں‘‘۔
امام شعبی سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ ، حضرت عمرؓ ، شریح اور مسروق نے فرمایا کہ ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں ہے۔
ان دلائل پر ایک نگاہ ڈالنے سے ہی یہ محسوس ہوجاتا ہے کہ دونوں طرف کافی وزن ہے اور یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ فریقین میں سے کسی کا مسلک بالکل غلط ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شارع نے فی الواقع دو متضاد حکم دیئے ہیں؟ یا ایک حکم دوسرے حکم کو منسوخ کرتا ہے؟ یا دونوں حکموں کو ملا کر شارع کا منشا ٹھیک طور پر متحقق ہوسکتا ہے؟ پہلی شق تو صریحاً باطل ہے۔ کیوں کہ شریعت کا پورا نظام شارع کی حکمت کا ملہ پر دلالت کر رہا ہے اور حکیم سے متضاد احکام کا صدور ممکن نہیں ہے۔ دوسری شق بھی باطل ہے کیوں کہ نسخ کا کوئی مثبت یا منفی موجود نہیں ہے۔ اب صرف تیسری ہی صورت باقی رہ جاتی ہے اور ہمیں اس کی تحقیق کرنی چاہیے۔ میں دونوں طرف کے دلائل جمع کرکے شارع کا جو منشا سمجھ رہا ہوں وہ یہ ہے۔
۱۔ نکاح کے معاملے میں اصل فریقین مرد اور عورت ہیں نہ کہ مرد اور اولیائے عورت۔ اسی بنا پر ایجاب وقبول ناکح اور منکوحہ کے درمیان ہوتا ہے۔
۲۔ بالغہ عورت (باکرہ ہو یا ثیبہ) کا نکاح اس کی رضا مندی کے بغیر یا اس کی مرضی کے خلاف منعقد نہیں ہوسکتا، خواہ نکاح کرنے والا باپ ہی کیوں نہ ہو۔ جس نکاح میں عورت کی طرف سے رضامندی نہ ہو، اس میں سرے سے ایجاب ہی موجود نہیں ہوتا کہ ایسا نکاح منعقد ہوسکے۔
۳۔ مگر شارع اس کو بھی جائز نہیں رکھتا کہ عورتیں اپنے نکاح کے معاملے میں بالکل ہی خود مختار ہوجائیں اور جس قسم کے مرد کو چاہیں، اپنے اولیا کی مرضی کے خلاف اپنے خاندان میں داماد کی حیثیت سے گھسا لائیں  اس لیے جہاں تک عورت کا تعلق ہے، شارع نے اس کے نکاح کے لیے اس کی اپنی مرضی کے ساتھ اس کے ولی کی مرضی کو بھی ضروری قرار دیا ہے۔ نہ عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے ولی کی اجازت کے بغیر جہاں چاہے اپنا نکاح خود کرلے، اور نہ ولی کے لیے جائز ہے کہ عورت کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح جہاں چاہے کردے۔
۴۔ اگر کوئی ولی کسی عورت کا نکاح بطور خود کرے تو وہ عورت کی مرضی پر معلق ہوگا، وہ منظور کرے تو نکاح قائم رہے گا، نامنظور کرے تو معاملہ عدالت میں جانا چاہیے۔ عدالت تحقیق کرے گی کہ نکاح عورت کو منظور ہے یا نہیں۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ عورت کو نکاح نا منظور ہے تو عدالت اسے باطل قرار دے گی۔
۵۔ اگر کوئی عورت اپنے ولی کے بغیر اپنا نکاح خود کرلے تو اسکا نکاح ولی کی اجازت پر معلق ہوگا۔ ولی منظور کر لے تو نکاح برقرار رہے گا، نا منظور کرے تو یہ معاملہ بھی عدالت میں جانا چاہیے۔ عدالت تحقیق کرے گی کہ ولی کے اعتراض و انکار کی بنیاد کیا ہے۔ اگر وہ فی الواقع معقول وجوہ کی بنا پر اس مرد کے ساتھ اپنے گھر کی لڑکی کا جوڑ پسند نہ کرتا ہو تو یہ نکاح فسخ کردیا جائے گا اور اگر یہ ثابت ہوجائے کہ اس عورت کا نکاح کرنے میں اس کا ولی دانستہ تساہل کرتا رہا ، یا کسی ناجائز غرض سے اس کو ٹالتا رہا اور عورت نے تنگ آکر اپنا نکاح خود کرلیا تو پھر ایسے ولی کو سئی الاختیار ٹھہرادیا جائے گا اور نکاح کو عدالت کی طرف سے سند جواز دے دی جائے گی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)

جواب: عام طور پر ادلے بدلے کے نکاح کا جو طریقہ ہمارے ملک میں رائج ہے، وہ دراصل اسی شغار کی تعریف میں آتا ہے جس سے نبیﷺ نے منع فرمایا ہے۔ شغار کی تین صورتیں ہیں اور وہ سب ناجائز ہیں۔
ایک یہ کہ ایک آدمی دوسرے کو اس شرط پر اپنی لڑکی دے کہ وہ اس کے بدلے میں اپنی لڑکی دے گا اور ان میں سے ہر ایک لڑکی دوسری لڑکی کا مہر قرار پائے۔
دوسرے یہ کہ شرط تو وہی ادلے بدلے کی ہو مگر دونوں کے برابر برابر مہر (مثلاً ۵۰، ۵۰ ہزار روپیہ) مقرر کئے جائیں اور محض فرضی طور پر فریقین میں ان مساوی رقموں کا تبادلہ کرلیا جائے۔ دونوں لڑکیوں کو عملاً ایک پیسہ بھی نہ ملے۔
تیسرے یہ کہ ادلے بدلے کا معاملہ فریقین میں صرف زبانی طور پر ہی طے نہ ہو بلکہ ایک لڑکی کے نکاح میں دوسری لڑکی کا نکاح شرط کے طور پر شامل ہو۔
ان تینوں صورتوں میں سے جو صورت بھی اختیار کی جائے گی، شریعت کے خلاف ہوگی۔ پہلی صورت کے ناجائز ہونے پر تو تمام فقہا کا اتفاق ہے۔ البتہ باقی دو صورتوں کے معاملہ میں اختلاف واقع ہوا ہے۔ لیکن مجھے دلائل شرعیہ کی بنا پر یہ اطمینان حاصل ہے کہ یہ تینوں صورتیں شغار ممنوع کی تعریف میں آتی ہیں اور تینوں صورتوں میں اس معاشرتی فساد کے اسباب یکساں طور پر موجود ہیں جن کی وجہ سے شغار کو منع کیا گیا ہے۔

 

(حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ)