جواب: حرام وحلال اور جائز وناجائز کے سلسلے میں اسلامی شریعت کی دو اُصولی باتیں ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہییں:
(1) پہلی بات یہ کہ اصولی طور پر دنیا کی ہر چیز حلال ہے سوائے اس کے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیاہو۔کسی حلال چیزکو حلال ثابت کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔اس لیے کہ اُصولی طور پر تمام چیزیں حلال ہیں۔البتہ کسی چیز کو حرام ثابت کرنے کے لیے قرآن وحدیث کی واضح اور صریح دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔
(2) دوسری بات یہ ہے کہ قرآن وحدیث کی واضح اور صریح دلیل کے بغیر کسی بھی چیز کو حرام قرار نہیں دیا جاسکتا۔حرام وہی چیز ہے جسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ہو اور اس کی صراحت قرآن وحدیث میں موجود ہو۔کسی بندے کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنی سمجھ اور دانش کے مطابق کسی چیز کوحرام قراردے۔
اسلامی شریعت کے ان اصولوں کی روشنی میں آپ کے سوال کے سلسلے میں ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا قرآن وحدیث میں کوئی ایسی واضح اور صریح دلیل موجود ہے،جو عورتوں کو سیاسی حقوق اور سرگرمیوں سے محروم کردے۔آپ پورے قرآن کو خوب سمجھ سمجھ کرپڑھ جائیے اور تمام صحیح حدیثوں کا تفصیلی مطالعہ کرجائیے مجھےیقین کامل ہے کہ قرآن وحدیث میں آپ کو ایک بھی ایسی دلیل نہیں ملےگی جس کی بنیاد پر عورتوں کو ان کے سیاسی حقوق سے محروم کیا جاسکے۔بلکہ اس کے برعکس آپ اگر قرآن وحدیث کی عمومی تعلیمات پر غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ عورتوں کو ان کے سیاسی حقوق سے محروم کردینا نہ صرف یہ کہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے بلکہ مسلم معاشرے پر اس کے برے نتائج مرتب ہوسکتے ہیں۔
اگر آپ قرآن وحدیث کی تعلیمات پر غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں کو فرائض وواجبات ادا کرنے کامکلف بنایا ہے،اسی طرح عورتوں کوبھی فرائض وواجبات ادا کرنے کی مکلف بنایا ہے۔اس معاملے میں دونوں برابر ہیں۔چنانچہ مردوں کی طرح عورتوں پر بھی فرض ہے کہ پانچ وقت کی نماز ادا کریں ،روزہ رکھیں ،اقامت ِدین کے لیے جدوجہد کریں،حرام چیزوں سے اجتناب کریں،حلال رزق کھائیں، بھلائیوں کا حکم دیں اور برائیوں سے روکیں وغیرہ وغیرہ۔ان فرائض وواجبات میں مرد اور عورت برابر کے شریک ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نےقرآن میں متعدد مقامات پر ارشاد فرمایا ہے بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ (تم دونوں ایک دوسرے کا حصہ اور شریک ہو) اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: إِنَّمَا النِّسَاءُ شَقَائِقُ الرِّجَالِ (عورتیں مردوں کی شریک ہیں) اور قرآن نے جہاں جہاں يَا أَيُّهَا النَّاسُ اور يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا (اے لوگو! یا اے ایمان والو) کہہ کر مخاطب کیاہے ،وہاں مردوں کی طرح عورتیں بھی مخاطب ہیں ۔ اس بات پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے۔قرآن نے مردوں اور عورتوں کو بیک وقت یہ حکم دیا ہے کہ دونوں مل جل کر معاشرے کی اصلاح کریں۔برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں اورنیکیوں کو عام کریں۔اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَيُطِيْعُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَيَرْحَمُہُمُ اللہُ ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ (التوبہ: 71) ”مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجالاتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا بیشک اللہ غلبے والا حکمت والا ہے“
اس آیت سے پہلے اللہ تعالیٰ نے منافق مرداور منافق عورتوں کی صفت بیان کی ہے کہ منافق مرد کی طرح منافق عورتیں بھی مل جل کرمعاشرے میں فساد اوربرائیاں پھیلانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اس لیے مومن عورتوں کو بھی چاہیے کہ مومن عورتوں کے ساتھ مل کر معاشرے میں اصلاح اور بھلائی کے کام میں لگ جائیں ۔ تاریخی حقائق سےپتا چلتا ہے کہ اللہ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عہد کی عورتوں نے بھی اپنی ان ذمے داریوں کو بخوبی انجام دیا ہے۔چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت اور موافقت میں سب سے پہلی آواز جو بلند ہوئی تھی وہ ان کی بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آواز تھی۔ اسلام کی سربلندی کی راہ میں سب سے پہلی شہید ہونے والی خاتون حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔متعدد صحابیات نے جنگوں اور غزوات میں شرکت کی اور وقت پڑنے پر تلوار بھی اٹھائی اورجنگ میں مشرکین وکفار کو قتل کیا۔اسلام کی نشرو اشاعت کے سلسلے میں جو ہجرت ہوتی تھی اس میں مردوں کےساتھ عورتیں بھی شریک تھیں۔آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ بعض ایسے فرائض ہیں جو صرف عورتوں کےلیے خاص ہیں اور بعض ایسے ہیں جو صرف مردوں کےلیے خاص ہیں۔لیکن عورتوں کے ساتھ صرف وہی فرائض خاص ہیں جنھیں اپنی جسمانی ساخت کی وجہ سے صرف عورتوں ہی انجام دے سکتی ہیں مثلاً حیض ونفاس یا حمل اور ولادت سے متعلق فرائض واحکام اور مردوں کے ساتھ صرف وہی فرائض خاص ہیں،جنھیں اپنی جسمانی ساخت کی وجہ سے صرف مرد ہی انجام دے سکتے ہیں،مثلاً نان ونفقہ کی ذمہ داری وغیرہ۔جو فرائض عورتوں کے ساتھ خاص ہیں اور وہ فرائض جو مردوں کے ساتھ خاص ہیں ان سب کی تفصیل قرآن وحدیث میں موجود ہے۔اب کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنی طرف سے اوراپنی سمجھ کے مطابق عورتوں یا مردوں کے لیے،کسی فرض کو خاص کردے۔چونکہ سیاسی حقوق سے متعلق فرائض واحکام قرآن وحدیث میں صرف مردوں کے ساتھ خاص نہیں کیے گئے ہیں،اس لیے ہمارے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ ہم ان سیاسی حقوق کو مردوں کےساتھ خاص کرکے عورتوں کو ان سے محروم کردیں۔اور ہم پہلے ہی عرض کرچکے ہیں کہ کسی چیز کو حرام قراردینے کےلیے قرآن وحدیث کی واضح اورصریح دلیل ضروری ہے۔عورتوں پر سیاسی حقوق کو حرام قراردینے کے لیے قرآن وحدیث میں کوئی بھی صریح اور واضح دلیل نہیں ہے۔ البتہ چند ضعیف احادیث ہیں لیکن اُن کی بنیاد پر ایک حلال چیز کو حرام نہیں کیا جا سکتا۔ خاص کر ایسے معاملے میں جس کا تعلق پورے معاشرے کے نفع ونقصان سے ہو ۔ یہ بڑے ستم کی بات ہوگی کہ ایک ضعیف حدیث پر عمل کرکے پورے مسلم معاشرہ کو نقصان پہنچایا جائے۔ضعیف حدیث کے علاوہ چند قرآنی آیات اورصحیح حدیثیں ہیں لیکن ان کی تفسیر اور تشریح میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے ۔اس لیے مختلف فیہ تفسیر کے ذریعہ کسی شے کو حرام قراردینا کسی صورت مناسب بات نہیں ہے۔کسی چیز کوحرام وحلال قراردینے کے لیے قرآن وحدیث کی واضح اور صریح دلیل کے علاوہ ایک اور چیز کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ہے زمانے کے حالات اور ماحول کی رعایت۔چنانچہ فقہاء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ زمانے کے بدلنے،حالات کے مختلف ہونے اور ماحول کے بدلنے سے فتوے بھی بدل جاتے ہیں۔ظاہر ہے کہ آج سے چودہ سو سال پہلے کا زمانہ آج کی اکیسویں صدی سے بالکل مختلف تھا۔دونوں زمانوںکے حالات مختلف ہیں۔ اسی طرح مسلم ملک کا جو ماحول ہوتا ہے کسی کافر ملک کے ماحول سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ حالات کی ان تبدیلیوں سے فتوے بھی تبدیل ہوجاتے ہیں۔اس بات پر خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بھی عمل رہا ہے۔چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کے آغاز میں ماحول اور ضروریات کے لحاظ سے ایک حکم دیا اور جب ہجرت کے بعداسلام طاقت ورہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حکم سے بالکل مختلف حکم صادر فرمایا۔یہی رویہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بھی تھا۔حقیقت یہ ہے کہ اسلامی شریعت اسی وجہ سے سب سے عمدہ اور بہترین شریعت ہے کہ اس میں اس بات کی گنجائش ہے کہ زمانہ اور ماحول کے لحاظ سے احکام تبدیل ہوسکیں۔
ایک اور بات ذہن میں رکھنی چاہیے۔وہ یہ کہ دورحاضر کے سیکولر حضرات عورتوں کے مسائل میں خصوصی دلچسپی اور جوش وولولہ دکھانے گئے ہیں۔انھیں ذرا بھی عورتوں کی حق تلفی کا علم ہوتا ہے تو اپنے سارے ہتھیار لے کر میدان میں کود پڑتے ہیں اور حق تلفی کرنے والوں کے خلاف برسرپیکار ہو جاتےہیں۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلم امت نے اپنی عورتوں کے ساتھ بڑی زیادتیاں اور حق تلفیاں کی ہیں۔انھیں فتنوں کے ڈرسے تعلیم میں پیچھے رکھا۔ انھیں گھر کے اندر قید کردیا اور ان پر بے جا پابندیاں عائد کردیں۔جب یہ سیکولر حضرات مسلم عورتوں کی یہ زبوں حالی اور پسماندگی دیکھتے ہیں توا نھیں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زہراگلنے کا بڑا اچھا موقع ہاتھ آجاتا ہے۔اور یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اسلام عورتوں کا دشمن ہے،اور جو رویہ ہم اپنی عورتوں کےساتھ اختیار کرتے ہیں اسے دیکھ کر دنیا والے بھی فوراً یقین کرلیتے ہیں کہ واقعی اسلام عورتوں کا دشمن ہے۔
اس لیے میں اپنی اُمت کے عالموں اور دانشوروں سے گزارش کروں گا کہ وہ اس معاملہ کو سنجیدگی سے لیں۔جو غلطیاں پہلے ہوچکی ہیں ان کی تلافی کریں۔بہت سارے ایسے میدان ہیں جن کے بارے میں قرآن وحدیث کا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے ہم اپنی عورتوں کو ان سے دوررکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان میں ایک سیاست کا میدان ہے۔ہمیں چاہیے کہ اس سلسلے میں قرآن وسنت کا صحیح حکم معلوم کریں تاکہ دوبارہ ایسی غلطی نہ ہو،جس سے ہماری امت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے اور ہم سوائے پچھتانے کے اور کچھ نہ کرسکیں۔
آپ یقین کریں کہ قرآن اور صحیح حدیثوں میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جوعورتوں کو سیاسی حقوق استعمال کرنے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے سے روکتی ہو۔آج کا جو سیاسی سسٹم ہے اس میں عورتیں ووٹ دینے کا حق استعمال کرسکتی ہیں، پارلیمنٹ،اسمبلی اور شوریٰ کی ممبر بن سکتی ہیں اور حکومت کو سیاسی مشورے دے سکتی ہیں۔میں جانتا ہوں کہ عام طور پر مسلمانوں کا ذہن میری اس رائے کو قبول نہیں کرے گا کیونکہ عورت کا سیاست میں حصہ لینا ان کے نزدیک گناہ عظیم ہے۔ لیکن جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ کسی بھی معاملے کو حرام اور گناہ قراردینے کے لیے قرآن وحدیث کی واضح اور صریح دلیل ضروری ہے۔محض اس وجہ سے کوئی چیز حرام نہیں ہوسکتی کہ ہمارا ذہن اسے قبول نہیں کررہا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ ہمارے علماء عورتوں کو سیاسی حقوق سے محروم کرنے کے لیے کون سے دلائل پیش کرتے ہیں اور کیا واقعی یہ دلائل قابل قبول ہیں؟
(1) ان کی پہلی دلیل قرآن کا یہ حکم ہے: وَقَرْنَ فى بُيُوتِكُنَّ (اور اپنے گھروں ہی میں رہا کرو) اس آیت کی روشنی میں عورتوں کا بلاوجہ گھر سے باہرنکلنا جائز نہیں ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ عورتوں کو سیاسی حقوق سے محروم کرنے کے لیے یہ دلیل ناقابلِ قبول ہے اس لیے کہ:
(الف) سیاق وسباق سے واضح ہے کہ اس حکم کی مخاطب عام عورتیں نہیں بلکہ صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں۔ اسی سیاق وسباق کی ابتدا میں اللہ ان سے فرماتا ہے کہ: يـٰنِسآءَ النَّبِىِّ لَستُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّسآءِ(اے نبی کی بیویو!تم کسی عام عورت کی طرح نہیں ہو) اور ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو جو رتبہ ومنزلت حاصل ہے اس کالازمی تقاضا ہے کہ ان کا رہن سہن عام عورتوں کی طرح نہ ہو۔اسی بنا پر انھیں حکم دیا گیا کہ ان کا زیادہ وقت گھروں میں گزرے۔
(ب) اس حکم کے باوجود حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنگ جمل کے موقع پر گھر سے باہر بلکہ مدینہ منورہ سے باہر تشریف لے گئیں اور انھوں نے پوری فوج کی قیادت کی۔معلوم ہوا کہ دینی واجبات کی ادائی کی خاطر گھر سے باہرنکلنا بھی ایک دینی فریضہ ہے۔
(ج) اس حکم کے باوجود ایسا نہیں ہے کہ عورتیں گھرکے اندر مقید رہتی ہیں۔علماء نے انھیں مختلف ضروریات کی تکمیل کے لیے گھرسے باہرنکلنے کی اجازت دی ہے ۔ اور عورتیں ان ضروریات کی تکمیل کے لیے نکلتی ہیں۔پھر آخر سیاسی واجبات کی ادائیگی کے لیے انھیں گھر سے نکلنے سے کیوں محروم کیا جارہا ہے۔
(د) گھر کے اندر ہی رہنا اور گھر سے باہر قدم نہ نکالنا تو ایک سزاہے جسے اللہ تعالیٰ نے زنا کارعورت کے لیے تجویز کیا تھا ۔ جیسا کہ ہم اس سے پہلے سورہ نساء کے حوالے سے عرض کرچکے ہیں۔اگر ہم نے تمام عورتوں کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت سے محروم کردیا توگویا ہم انہیں زنا کار عورت کی سزا دےرہے ہیں۔
(ہ) صورت حال یہ ہے کہ سیاسی میدان سے دین دار قسم کی عورتیں غائب ہوچکی ہیں اور ان کی جگہ وہ عورتیں اس میدان میں ہیں جنھیں اسلام اور مسلمانوں کی ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ظاہر ہے اس قسم کی دنیادار عورتیں پارلیمنٹ میں جاکر اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے لیے کوئی کام نہیں کرسکتیں بلکہ اس کے برعکس وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں۔کیا اب ہمیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ پارلیمنٹ میں ہماری دین دار اور پرہیزگار قسم کی عورتیں بھی ہونی چاہییں تاکہ وہ ایک طرف مسلم عورتوں کے مسائل کو اسلام کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کرسکیں اور دوسری طرف پوری مسلم امت کے مفاد میں کام کرسکیں۔ذرا غور کیجئے کہ ایک مسلم عورت اپنی ذاتی ضروریات کی تکمیل کے لیے گھر سے باہر نکل سکتی ہے،بازار جاسکتی ہے اور سفر کرسکتی ہے تو پوری مسلم قوم کے مفاد کے لیے گھر سے باہر کیوں نہیں نکل سکتی؟
(2) بعض لوگ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ سیاسی سرگرمیوں میں مسلم عورتوں کی شرکت کی وجہ سے مختلف فتنے جنم لے سکتے ہیں۔مثلاً بے پردگی،مردوں سے اختلاط اور کبھی مردوں کے ساتھ تنہائی میں بیٹھنا وغیرہ۔چونکہ یہ چیزیں حرام ہیں اس لیے سیاسی سرگرمیاں بھی حرام ہیں۔
یہ دلیل بھی کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔یہ تو محض اندیشے اور حددرجہ احتیاط والی بات ہوئی اور تجربات نے ثابت کردیا ہے کہ اندیشوں اور حددرجہ احتیاط کے چکر میں پڑ کرمسلم امت نے اپنا بڑا نقصان کیا ہے ۔ اس طرح کےاندیشے فتنوں کو دبانے کے بجائے انھیں اُبھارتے ہیں۔اگر ہم اپنی عورتوں کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کردیں گے تو مسلمانوں کا بہت سارا قیمتی ووٹ ضائع ہوجائےگا۔جواگراستعمال ہوتا تو شاید پارلیمنٹ میں کوئی اچھا مسلمان منتخب ہوکرجاتا اور مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرتا۔اسی طرح اگر ہم اپنی عورتوں کو الیکشن لڑنے اور پارلیمنٹ کی ممبر بننے سے روک دیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں وہ عورتیں جائیں گی جنھیں دین اور مذہب سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور وہ عورتوں کے لیے ایسے قوانین نافذ کرنے کی کوشش کریں گی،جو اسلام کے خلاف ہیں۔کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ پارلیمنٹ میں ہمارے مرد اورہماری عورتیں جائیں تاکہ وہ ہمارے مفاد کے لیے کام کرسکیں۔
جہاں تک فتنوں،بے پردگی اورمردوں کے ساتھ اختلاط کی بات ہے تو میں بھی ان کے حق میں نہیں ہوں لیکن ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ پردے میں رہ کراوردوسرے اسلامی آداب کا خیال رکھتے ہوئے ہماری عورتیں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیں ۔ خصوصاً وہ عورتیں جو پختہ عمر کو پہنچ چکی ہیں اور بچوں کی تعلیم وتربیت سے فارغ ہوچکی ہیں اور پڑھی لکھی ہونے کے باوجود گھروں میں خالی بیٹھ کر اپناقیمتی وقت برباد کررہی ہیں۔یہ عورتیں اگر مسلمانوں کےمفاد کے لیے سیاست کے میدان میں آتی ہیں تو اس سے ایک طرف یہ فائدہ ہوگا کہ ہماری عورتوں کے مسائل اسلامی قوانین کی روشنی میں حل کیے جاسکیں گے اور دوسری طرف یہ فائدہ ہوگا کہ اس طرح ہماری عورتوں کا امیج(Image) بہتر ہوگا جو کہ فی الحال کافی خراب ہے۔
(3) ان کی تیسری دلیل بخاری شریف کی یہ حدیث ہے: لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً (وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس نے عورت کو اپنا حکمران بنایا۔)
اس حدیث میں یہ خبر دی گئ ہے کہ عورت کو حکمران بنانے والی قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتی۔اس لیے عورتوں کو کسی قسم کا سیاسی منصب عطا کرناجائزنہیں ہے۔دوسری بات یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر"قوامیت" عطا کی ہے نہ کہ عورتوں کو مردوں پر۔جیسا کہ اللہ فرماتا ہے:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ ۭ (النساء: 34)
”مرد نگہبان ہیں عورتوں پر اس لیے اللہ نے بعض کوبعض پر فضیلت بخشی ہے اور اس لیے کہ یہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں(یعنی نان ونفقہ کی ذمے داری مردوں پر ہے)“
عورتوں کو کسی قسم کا سیاسی منصب عطا کرنے کا مطلب ہے کہ انھیں مردوں پر قوامیت عطا ہوگئی اور یہ بات اللہ کےمنشا کے خلاف ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ عورتوں کو سیاسی حقوق سےمحروم کرنے کے لیے مذکورہ حدیث اور مذکورہ آیت کو بطور دلیل پیش کرنا سراسرغلط ہے۔کیونکہ ان دونوں میں عورتوں کو سیاسی حقوق سے محروم کرنے کی کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کی جس قوامیت کا تذکرہ کیا ہے وہ محض خانگی زندگی تک محدود ہے۔مرد صرف اپنی فیملی اورگھر کی حدود میں نگہبان کی حیثیت رکھتا ہے۔ایک عورت گھر کی نگہبان نہیں ہوسکتی اور اس کیوجہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتائی کہ مرد ہی پر نان ونفقہ کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ نان ونفقہ کی ذمے داری والی بات صرف گھر ہی تک محدود ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مردوں کی جس قوامیت کا اللہ نے ذکر کیا ہے ،وہ صرف گھر تک محدود ہے۔مرد اپنے گھر کے حدود میں قوام ہوتا ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مرداپنی قوامیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی من مانی کرتا پھرے ۔ کیونکہ قرآن کی دوسری آیتوں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے ثابت ہے کہ اس قوامیت کےباجود شوہر کوگھریلو معاملات میں اپنی بیوی سے مشورے کی
تا کیدکی گئی ہے۔اس لیے اس آیت سے یہ ثابت کرنابالکل غلط ہے کہ عورتوں کو سیاسی منصب عطا کرنا جائز نہیں ہے۔رہی وہ حدیث جس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ عورتوں کو حکمران بنانے والی قوم کامیاب نہیں ہوسکتی تو اس میں جس چیز سے خبردار کیا گیا ہے۔وہ ہے عورتوں کی ”ولایت“ ایسی حکمرانی جس میں حکمران تمام سیاہ وسپید کا مالک ہوتا ہے اور جسے ہم مطلق العنان حکمران کہتے ہیں۔حدیث کا سیاق وسباق یہ ہے کہ کسریٰ کی موت کے بعد اہل فارس نے اس کی بیٹی کو اپنا حکمران بنا لیا تھا۔اہل فارس کے کسریٰ کس قسم کے مطلق العنان حکمران ہوا کرتے تھے،سبھی جانتے ہیں۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جوقوم اس طرح کی مطلق العنانی عورتوں کو سونپے گی وہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ دورحاضر میں جب کہ جمہوریت کا دوردورہ ہے کوئی صدر یا وزیر اعظم یاکسی قسم کاسیاسی اہلکار نہ مطلق العنان ہوتا ہے اور نہ ہی ملک کا سیاہ وسپید اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔صدر ہویا وزیر اعظم حکومت چلانے کے لیے یہ سب اپنے وزراء اور عوام سے باہمی مشورے کرتے ہیں۔حکومت پر فائز لوگوں کو ہرآن مخالف سیاسی پارٹی کی مخالفت کا سامنا ہوتا ہے ۔ یعنی دور حاضر میں بڑے سے بڑا سیاسی منصب مطلق العنانیت نہیں عطا کرتا ہے ۔ اس لیے اس حدیث کی بنیاد پر عورتوں کو سیاسی حقوق سے محروم کردینا صحیح نہیں ہے۔
علاوہ ازیں بعض علمائےکرام اس حدیث کو صرف کسریٰ کی بیٹی کے ساتھ خاص مانتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات صرف اہل فارس اور کسریٰ کی بیٹی کے سلسلے میں فرمائی ہے۔یہ کوئی عمومی بات نہیں ہے کہ جب جب عورتیں حکمراں بنیں گی تب تب قوم تباہ وبرباد ہوگی۔اور حقیقت یہ ہے کہ تاریخ میں بے شمار ایسی حکمران عورتوں کے واقعات درج ہیںجنھوں نے مردوں سے زیادہ حسن وخوبی سے حکومت کی اور اپنی قوم کو فلاح وبہبود سےہمکنار کیا۔اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری حکمران عورتوں کے لیے یہ بات کہی ہوتی تو تاریخ میں اس طرح کی کامیاب حکمران عورتوں کے واقعات درج نہ ہوتے۔قرآن نے بھی ایک ایسی حکمران عورت یعنی ملکہ سبابلقیس کا واقعہ تعریف و توصیف میں بیان کیا ہے۔ملکہ سبا بلقیس نے کمال حکمت ودانائی کے ساتھ حکومت کی اور سلیمان علیہ السلام کےساتھ دانشورانہ معاملہ کیا حتی کہ اس نے اسلام قبول کرلیا اور اپنی قوم کو تباہی وبربادی سے بچالیا۔یہ حکمران عورت اپنی قوم کے لیے باعث تباہی نہیں بلکہ باعث فلاح ثابت ہوئی۔
ان دلیلوں کے علاوہ کچھ عقلی دلیلیں بھی پیش کی جاتی ہیں مثلاً یہ کہ عورتوں کے اندر جذباتیت زیادہ ہوتی ہے اس لیے وہ کسی اہم سیاسی منصب کے لیے موزوں نہیں ہوسکتیں۔عورتیں صرف انھی کاموں کے لیے موزوں ہیں جو عورتوں سے متعلق ہیں مثلاً بچے پیدا کرنا ،ان کی پرورش کرنا اور امورخانہ داری سنبھالنا وغیرہ۔اس طرح کی دلیل پیش کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ ایسی جذباتیت صرف عورتوں میں نہیں بلکہ بہت سارے مردوں میں بھی ہوتی ہے۔ مرد بھی جذباتی ہوتے ہیں اور جذباتی انداز میں فیصلے کرتے ہیں اور اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔
آپ نے دیکھ لیا کہ عورتوں کو سیاسی سرگرمیوں سے روکنے کے لیے ایک بھی ایسی دلیل نہیں ہے جسے واضح اور دوٹوک کہا جاسکے۔بلکہ یہ بات اسلام کی عمومی تعلیمات کے خلاف ہے کہ عورتوں کو سیاسی سرگرمیوں سے کلیتہً روک دیا جائے۔بلکہ میں تو کہوں گا کہ عورتوں کی سیاسی سرگرمیوں کو ناجائز قراردینے کے لیے قرآن وحدیث میں کسی دلیل کا نہ ہونا بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے لیے سیاسی سرگرمیاں جائز ہیں۔کیونکہ اگر یہ بات ناجائز ہوتی تو قرآن وحدیث میں اس کاذکر لازماً ہوتا۔
آج کے جمہوری دور میں کسی وزیراعظم ،وزیر،پارلیمانی ممبر یاکسی بھی منصب پر فائز شخص کی ذمے داریوں کا ایک بڑا حصہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت کے کاموں کی نگرانی کی جائے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کیا جائے۔معاشرے میں جرائم اور فسادات کی روک تھام کی جائے اور اربابِ حکومت کو حکومت چلانے کےلیے مفید مشورے دیے جائیں۔اور یہ سارے کام اور ذمہ داریاں وہی ہیں جنھیں قرآن اپنی زبان میں ”امر بالمعروف ونہی عن المنکر“ کہتا ہے۔اور حدیث میں ان کے لیے اس طرح کے الفاظ ہیں ”الدين النصيحة“ (دین نام ہے لوگوں کے لیے خیرخواہی کا) ان ذمے داریوں کو انجام دینے کے لیے اللہ تعالیٰ نے یکساں طور پر مردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب کیا ہے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (التوبہ: 71)
”مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار اور رفیق ہیں۔یہ سب مل کر بھلائی کا حکم دیتے ہیں اوربُرائی سے روکتے ہیں۔“
اور تاریخ گواہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کے عہد میں مردوں اور عورتوں دونوں نے مل کر یہ ذمے داریاں نبھائی ہیں۔صلح حدیبیہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سیاسی مشورے کیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشوروں پر عمل کیا اور اس کے اچھے نتائج سامنے آئے۔یہ واقعہ بھی سب جانتے ہیں کہ مسجد میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خطبہ دے رہے تھے۔کسی غلطی پر ایک عورت نے بھرے مجمع میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ٹوکا۔عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اورفرمایا ”أصابت إمرأة وأخطأ عمر (رضی الله عنہ) “(عورت نے صحیح کہا اورعمر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے غلطی ہوگئی) اس طرح کی بےشمار مثالیں تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہیں۔
جب انفرادی طور پر عورت کو سیاسی مشورے دینے اور سیاسی محاسبہ کا حق حاصل ہے تو اجتماعی حالات میں اسے حق سے محروم کردینے کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ عورت اگر باصلاحیت اور اس قابل ہے کہ معاشرہ میں لوگوں کی خیرخواہی کے لیے بہتر طریقہ سے اپنی ذمے داریاں نبھاسکتی ہے تو اسے اس کا موقع ملنا چاہیے کہ وہ اپنی صلاحیتوں سے لوگوں کو فائدہ پہنچاسکے۔اوروہ اس بات کی حقدار ہے کہ اسے کوئی سیاسی یا غیر سیاسی منصب عطا کیا جائے۔چنانچہ ان ہی صلاحیتوں کودیکھتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک خاتون حضرت الشفاء بنت عبداللہ العدویہ کو بازار کانگران اور محاسب مقرر کیا تھا۔دور حاضر کے لحاظ سے اس منصب کو ایک اعلیٰ عوامی منصب کے طور پر تصور کیا جاسکتا ہے ۔بلاشبہ اگر ہم نے کسی عورت کی صلاحیتوں کو لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال نہیں کیا اور یہ عورت یوں ہی گھر میں بیٹھ کر اپناقیمتی وقت برباد کرتی تو اس کا مطلب یہ ہواکہ ہم نے اس عورت کو خدا داد صلاحیتوں کو ضائع کردیا اور یہ بات کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہوسکتی ہے۔
سب سے زیادہ خطرناک اور افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ دین دار اور باصلاحیت خواتین کو ہم ہرقسم کے سیاسی اور غیر سیاسی منصب کو حاصل کرنے سے روک دیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہےکہ ان مناصب پر غیر دین دار اور مغرب پرست عورتیں فائز ہوجاتی ہیں جن کے کام کرنے کاڈھنگ بالکل غیر اسلامی ہوتا ہے اور پالیسیوں کےنفاذ میں انھیں اسلامی احکام کا ذرہ برابرخیال نہیں ہوتا ہے ۔کیا اچھاہوتا کہ ان مناصب پر ہماری دین داری اور با صلاحیت عورتیں فائز ہوتیں تاکہ اسلام اور مسلمانوں کے مفاد میں کام کرتیں اورایسے قوانین بتاتیں جن سے اسلام کی اشاعت میں مدد ملتی۔
(1) اس سلسلے میں ایران کی پارلیمنٹ ایک روشن خیال ہے ،جہاں عورتیں پردے میں رہتے ہوئے اور مکمل اسلامی آداب کا لحاظ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی ممبر بنی ہوئی ہیں۔ اور ملک کی تعمیر وترقی میں اپنے حصہ کا کردار ادا کررہی ہیں۔
جواب: بلاشبہ والدین اور خاص کر ماں کی نافرمانی شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔یہ بات کسی مزید وضاحت کی محتاج نہیں ہے۔کیونکہ والدین کے بے پناہ حقوق سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔بچے کی نافرمانی اور گمراہی جب حد سے تجاوز کرجائے تو اللہ تعالیٰ نے والدین کو یہ حق عطا کیا ہے کہ وہ اپنے بچے کو عاق کردیںلیکن اس کے باوجود والدین میں سے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے کسی بچے کو اپنی جائیداداور وراثت سے محروم کردے۔وارثوں کی نامزدگی اور وراثت کی تقسیم تو اللہ کی جانب سے ہے ۔ یہ اللہ کا فیصلہ اورحکم ہے اور کسی بندے کے لیے جائزنہیں ہے کہ اس فیصلہ کو بدل سکے اور اس حکم کی نافرمانی کرے۔اللہ اس سلسلے میں حکم دیتے ہوئے فرماتا ہے:
يُوْصِيْكُمُ اللہُ فِيْٓ اَوْلَادِكُمْ ۤ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ ۚ (النساء: 11)
”اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے سلسلے میں وصیت کرتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں
کے برابر ہونا چاہیے۔“
اسلامی شریعت نے صرف ایک صورت میں وارث کو اس کی وراثت سے محروم کیا ہے اور وہ یہ کہ وراثت جلد از جلد پانے کی غرض سے وارث اپنے مورث کو قتل کر ڈالے۔آپ نے اپنے سوال میں جس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے کہ اس میں بچہ اپنی ماں کو قتل نہیں کرتا ہے صرف اس کی نافرمانی کرتا ہے اس لیے ماں یا کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ بچے کو وراثت سے محروم کردے۔
وصیت کے سلسلے میں چند باتوں کا دھیان ضروری ہے:
(1) ایک تہائی سے زیادہ وصیت کرنا جائز نہیں ہے ۔کیونکہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:الثُّلُثُ والثُّلُثُ كَثيرٌ ۔ (بخاری ومسلم)”ایک تہائی وصیت کرو اور ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہے۔“
(2) کسی وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں ہے۔وصیت اس شخص کے لیے کرنی چاہیے جسے وراثت میں سے کچھ نہ مل رہا ہو۔کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے:
لاوصية لوارث۔ (دارقطنی)
”کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے“
مذکورہ واقعہ میں اس عورت نے دونوں غلطیاں کرڈالیں۔پہلی غلطی اس نے یہ کی کہ جائیداد کا ایک تہائی نہیں بلکہ پوری جائیداد کی وصیت کرڈالیاوردوسری غلطی اس نے یہ کی کہ وارثین یعنی اپنی بیٹیوں کے حق میں وصیت کرڈالی۔چونکہ یہ وصیت شریعت کے مطابق نہیں ہے اس لیے اس وصیت کانفاذ نہیں ہوگا۔
(3) کوئی وارث اگراپنی مرضی سے اپنے حق وراثت سے دست بردار ہونا چاہیے اور اپنا حق کسی اور کودینا چاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایک وارث دوسرے وارث کے حق میں بھی دست بردار ہوسکتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں بیٹا اگر اپنی مرضی سے اپنے حق سے دست بردار ہوجاتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن اگر وہ اپنا حق لینے کے لیے مصر ہے تو بیٹیوں پر فرض ہے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کو اس کاحق ادا کردیں۔
اس کے باوجود کہ ماں نے غیر شرعی وصیت کرکے ا پنے بیٹے پر ظلم کیا ہے،لیکن یہ بات پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ مرنے کے بعد آخرت میں ماں کو اس کی سزا بھگتنی ہوگی کیونکہ سزا دینا یا نہ دینا مکمل طور پر اللہ کی مرضی پر منحصر ہے۔اور اس لیے بھی کہ نیکیاں برائیوں کودھو ڈالتی ہیں جیسا کہ اللہ کافرمان ہے:
اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہِبْنَ السَّـيِّاٰتِ ۭ (ہود: 114)”بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو مٹاتی ہیں۔“
ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی دوسری نیکیوں کے عوض اسکے گناہوں کو معاف کردے۔ہم کسی بھی شخص کے سلسلے میں پورے وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخص قیامت میں عذاب میں ڈالا جائےگا۔لیکن کسی کی حق تلفی اتنابڑا گناہ ہے کہ اس کی سزا سے بچنابہت مشکل ہے۔
بہرحال ان بیٹیوں کو چاہیے کہ اس جائیداد میں سے اپنے بھائی کا حق ادا کردیں اور اپنی مرحومہ ماں کے حق میں دعا استغفار کرتی رہاکریں۔