وہ رسول جسے پوری انسانیت کے لیے بشیر، نذیر اور داعی بنا کر بھیجا گیا اس کا بطور سربراہ ریاست تعارف کروانا ایسا ہی ہے جیسے آپ کی استعمال کردہ ادویہ کو طب نبوی کا نام دے کر رحمۃ للعالمین کو ایک طبیب کے معمولی درجے پر اتارنے کی جسارت کی جاتی ہے-
ریاست ایک ارتقا پذیر انسانی تخلیق ہے جس میں سماجی تغیرات کو جذب کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے جبکہ آپ کا کام تشکیل ریاست نہیں تشکیل انسانیت تھا- مدینہ ریاست نہیں تھی- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک سماج تشکیل دیا تھاجس میں کچھ غیر مبدل اساسیات تھیں اور باقی بڑے پیمانے پر متبادلات تھے جو سنت میں بھی موجود تھے اور اجتہادی تغیرات میں بھی- بعد والوں نے اسے بتدریج قرون وسطیٰ کی ایک ریاست کی شکل دے دی جو اموی دور سے ہی قیصریت کا اسلامی چربہ تھی- یاد رہے کہ اس دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مختلف جنگوں میں شرکت سے یہ استدلال کرنادرست نہیں کہ وہ ریاستیں عین اسلامی یا علی منہاج نبوت تھیں، اسی لیے مقدس ہستیاں ان میں شریک رہیں- امر واقعہ یہ ہے کہ وہ افراد رسول اکرم کے تربیت یافتہ تھے یا ایک دو واسطوں سے آقائے نام دار کے شاگرد تھے، اس لئے وہ ریاست اور حکومت کا فرق بخوبی جانتے تھے-مختلف امور میں ان کی شرکت حکومت کو سند جواز یا استحکام بخشنے کے لئے نہیں تھی بلکہ ریاست کی وسعت کے لئے تھی اور ریاست بہر طور اسلام کی نام لیوا تھی، اس کی وسعت سے اسلام کو وسعت ملتی تھی-
ماضی قریب میں جب کچھ محققین اور مفکرین نے اسلامی ریاست کو اسلام کا مقصد اولین اور حاصل دین کے طور پر پیش کیا تو کرید کرید کر معمولی اور عام سماجی امور کو ریاستی اداروں کے بھاری بھر کم نام دے دئیے جیسے صفہ کو First Islamic Residential University اور قبائل کے ساتھ کئے گئے معاہدات کو First written constitution of the world کہا گیا-
بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اقدامات دورس نتائج کے حامل تھے مثلاً بدر کی جنگ اپنی نتیجہ خیزی کے حوالے سے عالمی تبدیلی کا نقطہ آغاز تھی بلکہ پیام توحید کی بقا کی قیامت تک کی تمام تر ذمہ داری ان تین سو تیرہ افراد کے کندھوں پر آ گئی تھی لیکن بطور جنگ ایک چھوٹی سی جھڑپ تھی جومتمدن دنیا سے دور دراز کے ایک صحرا میں چند سو افراد کے درمیان ہوئی جسے اس عہد کا عرب ایک قبائلی جھڑپ سمجھ رہا تھا لیکن قرآن کی رو سے وہ الفرقان تھی- اس میں گنتی کے لوگ کام آئے جو دور حاضر کی جنگوں میں ہلاکتوں کی تعداد کے مقابلے میں کوئی خاص نسبت نہیں رکھتے-
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی ذہنی محدودیت اور اپنی فکری اپج کے کینوس پر اس عظیم ترین شخصیت کی تصویر کشی کرتے ہیں جس کی عظمتوں کے سامنے اس کائنات کی وسعتیں بھی تنگی داماں کا شکار ہیں- وہ سراج منیر ہیں جن سے وجود کائنات ہی نہیں کائنات وجود بھی لو حاصل کرتی ہے- کاش ہمیں آفاقی کینوس پر سیرت النبی کے مطالعے کی سعادت نصیب ہو-