سير ت النبي ﷺ
نبی کریم ﷺ کی زندگی سے حاصل کردہ بنیادی اصول
جاويد چودھری
اس ماہِ ربیع الاول سے ان پر عمل کا آغاز کر دیں تو دیکھیں آپ کی زندگی کیسے خوشگوار اور کامیاب ہوتی ہے۔۔۔ ان شاءاللہ تبارک و تعالیٰ۔۔۔
1۔ نماز میں اوپر دیکھنا۔۔۔
ہمارے پیارے رسول کریم ﷺ نے فرمایا نمازادا کرنے کے دوران آسمان یا اوپر کی طرف نہ دیکھو۔ کیونکہ آسمان میں ایک وسعت ہے، یہ وسعت ہمیشہ ہماری توجہ کھینچ لیتی ہے، ہم جب بھی آسمان کی طرف دیکھتے ہیں ہماری توجہ بٹ جاتی ہے، ہمیں توجہ واپس لانے میں ٹھیک ٹھاک وقت لگتا ہے، نماز کے لیے یکسوئی درکار ہوتی ہے، ہم جب نماز کے دوران آسمان کی طرف دیکھتے ہیں تو ہم سجدے اور رکوع بھول جاتے ہیں، چنانچہ حکم دیا گیا نماز کے دوران آسمان کی طرف نہ دیکھو، یہ فارمولہ تخلیقی کاموں کے لیے بھی اہم ہے۔اگر لکھاری لکھتے، مصور تصویر بناتے اور موسیقار دھن بناتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ لے تو اس کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے، یہ اپنا کام مکمل نہیں کر پاتا شاید یہی وجہ ہے دنیا کا زیادہ تر تخلیقی کام بند کمروں میں مکمل ہوا، یہ کھلی فضا میں پروان نہیں چڑھا۔
بیتھون کی سمفنیاں ہوں‘ ڈاونچی کا لاسٹ سپر ہو یا پھر ٹالسٹائی کا وار اینڈ پیس۔۔۔ دنیا کا ہر ماسٹر پیس بند کمرے میں تخلیق ہوا۔ آپ تخلیق کا آئیڈیا لینا چاہتے ہیں تو آپ کھلے آسمان کے نیچے کھلی فضا میں واک کریں، آپ آئیڈیاز سے مالا مال ہو جائیں گے لیکن آپ اگر ان آئیڈیاز پر کام کرنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کمرے میں بند ہو جائیں‘ آپ کمال کر دیں گے۔آپ کو انبیاء‘ اولیاء اور بزرگان دین بھی بند غاروں میں مراقبے کرتے ملیں گے۔ یہاں تک کہ مہاتما بودھ کو نروان بھی ایک ایسے درخت کے نیچے ملا تھا جس سے آسمان دکھائی نہیں دیتا تھا۔ وہ درخت اتنا گھنا تھا کہ وہ بارش تک روک لیتا تھا۔
2۔ آپ ﷺ نے فرمایا فجر اور اشراق‘ عصر اور مغرب اور مغرب اور عشاء کے دوران سونے سے باز رہا کرو۔ اس فرمان میں بے شمار طبی حکمتیں پوشدہ ہیں‘ مثلاً آج میڈیکل سائنس نے بتایا ہے کہ کرہ ارض پر فجر اور اشراق کے دوران آکسیجن کی مقدار سب سے زیادہ ہوتی ہے‘ ہم اگر اس وقت سو جائیں تو ہم اس آکسیجن سے محروم ہو جاتے ہیں اور یوں ہماری طبیعت میں بوجھل پن آ جاتا ہے‘ ہم آہستہ آہستہ چڑچڑے اور بیزار ہو جاتے ہیں‘ عصر سے مغرب اور مغرب سے عشاء کے درمیان بھی آکسیجن کم سے کم تر ہوتی چلی جاتی ہے‘ ہم اگراس وقت بھی سو جائیں تو ہمارا جسم آکسیجن کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے اور ہم دس مہلک بیمایوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں‘ دمہ بھی ان دس بیماریوں میں شامل ہے چنانچہ آپ یہ اوقات جاگ کر گزاریں‘ آپ پوری زندگی صحت مند رہیں گے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ہم اگر ان تین اوقات میں واک کریں تو ہماری طبیعت میں بشاشیت آ جاتی ہے۔
3- آپ ﷺ نے فرمایا‘ بدبودار اور گندے لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھا کرو۔یہ حکم بھی حکمت سے لبالب ہے‘ بدبو انسان کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کرتی ہے جبکہ خوشبو ہماری توانائی میں اضافے کا باعث بنتی ہے‘ انسان اگر روزانہ دس منٹ بدبو دار اور گندے لوگوں میں بیٹھنا شروع کر دے تو یہ بیس دنوں میں ذہنی تناؤ اور دماغی کھنچاؤ کا شکار ہو جائے گا۔ ہمارے رسول ﷺ نے ہمیں شاید اسی لیے بدبودار لوگوں سے پرہیز کا حکم دیا۔ آپ بھی یہ کر کے دیکھیں آپ کا مزاج بدل جائے گا۔
4۔ آپ ﷺ نے فرمایا ان لوگوں کے درمیان نہ سوئیں جو سونے سے قبل بری باتیں کرتے ہیں۔
یہ فرمان بھی حکمت کے عین مطابق ہے‘ آج سائنس نے دریافت کیا ہے کہ نیند سے قبل ہماری آخری گفتگو ہمارے خوابوں کا موضوع ہوتی ہے اور یہ خواب ہمارے اگلے دن کا موڈ اور رویہ طے کرتے ہیں‘ ہم اگر برا سن کر سوئیں گے تو ہم برے خواب دیکھیں گے اور ہمارے برے خواب ہمارے آنے والے دن کا موڈ بن جائیں گے‘ ہم خوابوں کے طے کردہ موڈ کے مطابق دن گزارتے ہیں چنانچہ نیند سے قبل ہماری آخری محفل اچھی ہونی چاہیے‘ ہمارا اگلا دن اچھا گزرے گا۔
5۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم بائیں ہاتھ سے نہ کھاؤ۔
یہ فرمان بھی عین سائنسی ہے‘ ہمارے دماغ کے دو حصے ہیں‘ دایاں اور بایاں‘ دایاں حصہ مثبت اور بایاں منفی ہوتا ہے‘ ہم جب اپنے جسم کو دائیں ہاتھ سے ”فیڈ“ کرتے ہیں تو ہماری مثبت سوچ مضبوط ہوتی ہے اور ہم جب اپنے بدن کو بائیں ہاتھ سے کھلاتے ہیں تو ہماری منفی سوچ طاقتور ہوتی چلی جاتی ہے‘ آپ مشاہدہ کر لیں آپ کو بائیں ہاتھ سے کھانے والے اکثر لوگ منفی ملیں گے‘ یہ آپ کو ہمیشہ شکوہ شکایت‘ غیبت اور دوسروں کو نقصان پہنچاتے نظر آئیں گے۔
6۔ آپ ﷺ نے فرمایا منہ سے کھانا نکال کر نہ کھاؤ۔
یہ فرمان بھی سائنس سے درست ثابت ہوتا ہے‘ ہمارے منہ میں دس کروڑ سے ایک ارب تک بیکٹیریا ہوتے ہیں‘ یہ بیکٹیریا مہلک جراثیم بن جاتے ہیں‘ یہ جراثیم ہمارے کھانے میں مل جاتے ہیں‘ یہ کھانا معدے میں جاتا ہے تو معدے کے غدود ان جراثیم کو مار دیتے ہیں یوں یہ ختم ہو جاتے ہیں لیکن جب ہم جراثیم ملے کھانے کو منہ سے نکال لیتے ہیں تو ان جراثیم کو آکسیجن مل جاتی ہے‘ یہ آکسیجن سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ان جراثیم کی تعداد کھربوں تک پہنچا دیتی ہے‘یہ جراثیم معدے کے غدودوں سے بھی طاقتور ہوتے ہیں‘ ہم جب منہ سے نکلے لقمے کو دوبارہ منہ میں رکھتے ہیں تو یہ لقمہ معدے میں پہنچ کر زہر بن جاتا ہے اور یہ زہر ہمارے پورے نظام ہضم کو تباہ کر دیتا ہے‘ آپ کو زندگی میں کبھی کوئی ایسا شخص صحت مند نہیں ملے گا جسے منہ سے لقمہ نکال کر کھانے کی عادت ہو جبکہ آپ کو ہونٹ بھینچ کر اور آواز پیدا کیے بغیر کھانے والے لوگ ہمیشہ صحت مند ملیں گے۔
7۔ ہمارے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا ہاتھ کے کڑاکے نہ نکالا کرو۔
سائنس کا کہنا ہے ہم میں سے جو لوگ انگلیوں کے کڑاکے نکالتے رہتے ہیں ان کے جوڑ کھلنا شروع ہو جاتے ہیں اور یہ جلد آرتھریٹس (جوڑوں کے درد) کا شکار ہو جاتے ہیں‘ یہ جوڑوں کے درد کی شکایت بھی کرتے ہیں۔
8۔ آپ ﷺ نے فرمایا جوتا پہننے سے قبل اسے جھاڑ لیا کرو۔
ہماری زندگی کے عام واقعات میں کیڑے مکوڑے‘ بچھو‘ چھپکلیاں‘ چھوٹے سانپ اور بھڑیں ہمارے جوتوں میں پناہ لے لیتی ہیں‘ ہمارے بچے بھی جوتوں میں کیل‘ کانٹے اور بلیڈ پھینک دیتے ہیں چنانچہ ہم جب جوتا پہنتے ہیں تو ہمارے پاؤں زخمی ہو جاتے ہیں یا پھر ہمیں کیڑے مکوڑے کاٹ لیتے ہیں لہٰذا جوتا پہننے سے قبل اسے جھاڑ لینا ہمیشہ فائدہ مند رہتا ہے۔
9- آپﷺ نے فرمایا رفع حاجت کی جگہ (ٹوائلٹ میں) مت تھوکو۔
یہ حکم اپنے اندر دو حکمتیں رکھتا ہے‘ ٹوائلٹ میں تھوکنے سے بعد میں آنے والوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور دوسرا ٹوائلٹس میں لاکھوں قسم کے جراثیم بھی ہوتے ہیں‘ ہم جب تھوکنے کے لیے منہ کھولتے ہیں تو یہ جراثیم ہمارے منہ میں پہنچ جاتے ہیں‘ یہ ہمارے لعاب دہن میں پرورش پاتے ہیں‘ یہ معدے اور پھیپھڑوں میں پہنچتے ہیں اور پھر یہ ہمیں بیمار کر دیتے ہیں‘ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی ہماری ناک جراثیم کو پھیپھڑوں تک نہیں جانے دیتی‘ ہماری ناک سے صرف کیمیکلز جسم میں داخل ہوتے ہیں‘ جراثیم زیادہ تر منہ سے بدن میں اترتے ہیں اور ان کا بڑا سورس ٹوائلٹس (بیت الخلاء) ہوتے ہیں چنانچہ آپ ٹوائلٹ میں لمبی لمبی سانس لینے‘ تھوکنے‘ گانا گانے‘ آوازیں دینے اور موبائل فون پر بات کرنے سے پرہیز کریں‘ آپ کی صحت اچھی رہے گی۔
10۔ آپﷺ نے فرمایا لکڑی کے کوئلے سے دانت صاف نہ کرو۔
ہم میں سے بے شمار لوگ کوئلے سے دانت صاف کرتے ہیں‘ کوئلے سے ہمارے دانت وقتی طور پر چمک جاتے ہیں لیکن یہ بعد ازاں مسوڑے بھی زخمی کر دیتا ہے‘ دانتوں کی جڑیں بھی ہلا دیتا ہے اور یہ منہ میں بدبو بھی پیدا کرتا ہے‘ لکڑی کا کوئلہ سیدھا سیدھا کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوتا ہے‘ یہ ”ہائی جینک“ بھی نہیں ہوتا چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے پرہیز کا حکم دیا۔
11۔ آپﷺ نے فرمایا ہمیشہ بیٹھ کر کپڑے تبدیل کیا کرو۔
ہم میں سے اکثر لوگ شلوار‘ پتلون یا پائجامہ پہنتے وقت اپنی ٹانگ پھنسا بیٹھتے ہیں اور گر پڑتے ہیں‘ ہم میں سے ہر شخص زندگی میں کبھی نہ کبھی اس صورتحال کا شکار ضرور ہوتا ہے، بالخصوص ہم بڑھاپے میں شلوار یا پتلون بدلتے وقت ضرور گرتے ہیں‘ آپ ﷺ نے شاید اس قسم کے حادثوں سے بچنے کے لیے یہ حکم جاری فرمایاتھا۔
12۔ آپﷺ نے فرمایا اپنے دانتوں سے سخت چیز مت توڑا کرو۔
ہم لوگ اکثر بادام‘ اخروٹ یا نیم پکا گوشت توڑنے کی کوشش میں اپنے دانت تڑوا بیٹھتے ہیں‘ دانت ایکٹو زندگی کا قیمتی ترین اثاثہ ہوتے ہیں‘ آپ ﷺنے شاید اسی لئے دانتوں کو سخت چیزوں سے بچانے کا حکم دیا۔
13۔ آپﷺ نے فرمایا گرم کھانے کو پھونک سے ٹھنڈا نہ کرو‘ پنکھا استعمال کر لیا کرو۔
یہ فرمان کی بنیاد بھی حفظان صحت کے اصولوں پر ہے‘ ہم جب گرم کھانے کو پھونک مارتے ہیں تو ہمارے منہ کے بیکٹیریا کھانے کو زہریلا بنا دیتے ہیں‘ یہ حرکت تہذیب اور شائستگی کے منافی بھی ہے۔
14۔ آپ ﷺ نے فرمایا کھاتے ہوئے کھانے کو سونگھا نہ کرو۔
کھانے کو سونگھنا بدتہذیبی بھی ہوتی ہے اور کھانے کی خوشبو ہماری ناک کے اندر موجود سونگھنے کے خلیوں اور پھیپھڑوں کی دیواروں کو بھی زخمی کر دیتی ہے‘ ہمیں چھینک بھی آ سکتی ہے اور یہ چھینک سارے کھانے کو برباد کرسکتی ہے۔
15۔ آپ ﷺ نے فرمایا اپنے کھانے پر اداس نہ ہوا کرو۔
ہم عموماً کھانے کی مقدار اور کوالٹی پر اداس ہو جاتے ہیں‘ ہم ہمیشہ کھانا کھاتے وقت دوسروں کی پلیٹ کی طرف دیکھتے ہیں‘ یہ عادت ہمارے اندر ناشکری پیدا کرتی ہے‘ ہم اگر اپنے کھانے کو اللہ کا رزق سمجھیں‘ اس پر شکر کریں تو ہمارے اندر برداشت بھی بڑھے گی اور صبر اور شکر کی عادت بھی زیادہ ہو گی‘ یہ عادت ہماری زندگی کو بہتر بنا دے گی۔
16۔ آپ ﷺ نے فرمایا منہ بھر کر نہ کھاؤ۔
ہمارا منہ خوراک کے ہاضمے کا آدھا کام کرتا ہے باقی آدھا کام معدہ سرانجام دیتا ہے‘ ہم جب منہ بھر لیتے ہیں تو زبان اور دانتوں کو اپنا کام کرنے کے لیے جگہ نہیں ملتی‘ ہم جلدی جلدی نگلنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور یوں ہمارے معدے کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے‘ معدہ یہ ذمہ داری پوری نہیں کر پاتا‘ ہم بدہضمی کا شکار ہو جاتے ہیں‘ ہمارے رسول ﷺ ہمیشہ چھوٹا لقمہ لیتے تھے‘ دیر تک چباتے تھے اور آدھا معدہ بھرنے کے بعد ہاتھ کھینچ لیتے تھے‘ آپﷺ پوری زندگی صحت مند رہے‘ آپﷺ کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بھی یہ عادت اپنا لی چنانچہ مدینہ کے طبیب بے روزگار ہو گئے اور وہ کھجوروں کی تجارت کرنے لگے۔
17۔ آپ ﷺ نے فرمایا اندھیرے میں مت کھاؤ۔
اس فرمان کی دو وجوہات ہیں‘ اندھیرے میں کھانے سے کھانے میں کیڑے مکوڑے ملنے کا خدشہ ہوتا ہے اور دوسرا روشنی کا کھانے کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے‘ ہمیں روشنی میں کھایا ہوا کھانا زیادہ توانائی دیتا ہے‘ یہ وہ واحد وجہ ہے جس کی بنا پر دنیا بھر میں ڈنر کے وقت ہال اور کمرے کی تمام لائیٹس آن کر دی جاتی ہیں‘یہ ممکن نہ ہو تو میز پر موم بتیاں جلا دی جاتی ہیں‘ انگریز اس انتظام کو کینڈل لائیٹ ڈنر کہتے ہیں‘ یہ روایت ہزاروں سال سے چلی آ رہی ہے اور یہ انتہائی مفید ہے‘ آپﷺ نے روشنی میں کھانے کا جو حکم دیا وہ آج سے صدیوں پہلے حکمت سے بھرپور ہے۔
18۔ آپﷺ نے فرمایا دوسروں کے عیب تلاش نہ کرو۔
ہم جب دوسروں میں عیب ڈھونڈتے ہیں تو ہم چغلی‘ غیبت اور منافقت جیسی روحانی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں‘ یہ بیماریاں ہمیں حسد جیسے مہلک مرض میں مبتلا کر دیتی ہیں اور یوں ہم ذہنی‘ جسمانی اور روحانی تینوں سطحوں پر علیل ہو جاتے ہیں، چنانچہ ہم اگر صرف دوسروں میں عیب تلاش کرنا بند کر دیں تو ہم حسد‘ منافقت‘ غیبت اور چغل خوری جیسے امراض سے بچ جائیں گے‘ ہم صحت مند زندگی گزاریں گے۔
19۔ فرمایا اقامت اور اذان کے درمیان گفتگو نہ کیا کرو۔
اللہ کائنات کا سب سے بڑا بادشاہ ہے‘ اذان اس بادشاہ کی طرف سے بلاوا ہوتا ہے اور اقامت شرف بازیابی کی اجازت چنانچہ یہ دونوں اوقات پروٹوکول ہیں‘ اللہ تعالیٰ کو پروٹوکول کی خلاف ورزی اچھی نہیں لگتی‘ ہم اگر دنیاوی بادشاہوں کے پروٹوکول کا خیال رکھتے ہیں تو پھر ہمیں دنیا کے سب سے بڑے بادشاہ کے پروٹوکول کا سب سے زیادہ احترام کرنا چاہیے۔
20۔ فرمایا بیت الخلاء میں باتیں نہ کیا کرو۔
اس کی وجہ جراثیم ہیں۔ باتیں کرنے، گانا گانے اور منہ کھولنے سے جراثیم ہمارے معدے میں چلے جاتے ہیں اور ہمیں بیمار کر دیتے ہیں۔
21۔ ہمارے رسولﷺ دوستوں کو بہت اہمیت دیا کرتے تھے لہٰذا آپﷺ نے فرمایا دوستوں کے بارے میں جھوٹے قصے بیان نہ کیا کرو۔دوستوں کے بارے میں جھوٹے قصوں سے دوستوں کی دل آزاری بھی ہوتی ہے اور دوست بدنام بھی ہوتے ہیں چنانچہ اس عادت بد سے پرہیز دوستی کے لیے بہت اہم ہے۔
22۔۔ آپ ﷺ نے فرمایا دوست کو دشمن نہ بناؤ۔
یہ فرمان نفسیات اور معاشرت دونوں کے لیے انتہائی اہم ہے‘ ہمارے دوست ہماری تمام کمزوریوں سے واقف ہوتے ہیں‘ یہ جب دشمن بنتے ہیں تو یہ دنیا کے خوفناک ترین دشمن ثابت ہوتے ہیں چنانچہ ہمیں زندگی میں کبھی کسی دوست کو دشمن بنانا چاہیے اور نہ کبھی کسی دوست کا دشمن بننا چاہیے۔
23۔ آپ ﷺ نے فرمایا دوستوں کے بارے میں شکوک نہ پالو۔
شک دوستی کے لیے زہر ہوتا ہے‘ ہم جب دوستوں کے بارے میں مشکوک ہو تے ہیں تو دوستی کا دھاگہ کمزور ہو جاتا ہے چنانچہ شک سے بچنا ضروری ہوتا ہے۔
24۔ آپ ﷺ نے فرمایا چلتے ہوئے بار بار پیچھے مڑ کر نہ دیکھو۔
چلتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھنا ایک نفسیاتی بیماری ہے‘ یہ بیماری خوفزدہ‘ ڈرے اور سہمے ہوئے لوگوں میں عام ہوتی ہے‘ ہم جب چلتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ہم اس بیماری کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں‘ پیچھے مڑ کر دیکھنے سے ہماری توجہ بھی بٹ جاتی ہے‘ ایکسیڈنٹ کا خطرہ بھی پیدا ہو جاتا ہے‘ ہماری رفتار بھی آدھی رہ جاتی ہے اور ہم بلاوجہ دوسرے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ بھی کر لیتے ہیں۔
25۔ آپ ﷺ نے فرمایا ایڑھیاں مار کر نہ چلو۔
ایڑياں مار کر گھسیٹ کر چلنا یا چلنے کے دوران دھمک یا آواز پیدا کرنا تکبر کی نشانی ہے اور تکبر مسلمانوں کو سوٹ نہیں کرتا‘ ہمارے پاؤں کا ہمارے دماغ کے ساتھ بھی گہرا تعلق ہوتا ہے‘ ایڑھیاں مارنے سے ہمارے دماغ کی چولیں ہل جاتی ہیں‘ ہم دماغی لحاظ سے کمزور ہو جاتے ہیں‘ آپ کو ایڑھیاں مار کر چلنے والے جلد یا بدیر دماغی امراض کی ادویات کھاتے ملیں گے۔
26۔ آپ ﷺ نے فرمایا کسی کے بارے میں جھوٹ نہ بولو۔
جھوٹ دنیا کی سب سے بڑی معاشرتی برائی اور گناہوں کی ماں ہے‘ ہم اگر صرف جھوٹ بند کر دیں تو معاشرہ ہزاروں برائیوں سے پاک ہو جاتا ہے۔
27۔ آپ ﷺ نے فرمایا ٹھہر کر صاف بولا کرو تا کہ دوسرے پوری طرح سمجھ جائیں۔
جھوٹ کے بعد غلط فہمی معاشرے کی سب سے بڑی برائی ہے‘ ہم جب گفتگو میں واضح نہیں ہوتے تو غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ غلط فہمیاں معاشرتی بگاڑ کا باعث بنتی ہیں چنانچہ ہم جب بھی بولیں تھوڑا بلند‘ واضح اور صاف بولیں۔
28۔ آپ ﷺ نے فرمایا اکیلے سفر نہ کیا کرو۔
یہ فرمان بھی حکمت سے بھرپور ہے‘ اکیلا آدمی خوفزدہ بھی رہتا ہے‘ پریشان بھی اور یہ عموماً حادثوں کا شکار بھی ہو جاتا ہے‘ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ سفر کے دوران اکیلے آدمی زیادہ لٹتے ہیں‘ زیادہ جلدی بیمار ہوتے ہیں اور یہ زیادہ غلط فیصلے کرتے ہیں چنانچہ جب بھی سفر کریں ایک یا دو لوگوں کو ساتھ شامل رکھیں- بالخصوص عورت کو کبھی اکیلے سفر نہ کرنے دیں۔
29۔ آپ ﷺ نے فرمایا فیصلے سے قبل مشورہ ضرور کیا کرو۔
انسان 16 کیمیکلز کا مجموعہ ہے‘ یہ کیمیکلز ہمارے موڈز طے کرتے ہیں اور یہ موڈز ہماری زندگی کے چھوٹے بڑے فیصلے کرتے ہیں‘ ہم جب بھی تنہا فیصلے کرتے ہیں ہم موڈز کے تابع فیصلے کرتے ہیں اور یہ عموماً غلط ہوتے ہیں چنانچہ فیصلے سے قبل مشورہ ضروری ہے اور مشورہ ہمیشہ سمجھ دار کی بجائے تجربہ کار شخص سے کرنا چاہیے‘ آپ کو کبھی نقصان نہیں ہوگا۔
30۔ آپ ﷺ نے فرمایا کبھی غرور نہ کرو۔
غرور ایک ایسی بری عادت ہے جس کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلتا، آپ نے پوری زندگی کسی مغرور شخص کو طبعی موت مرتے نہیں دیکھا ہوگا‘ یہ غیر طبعی موت مرتے ہیں اور ہمیشہ بے عزتی اور ذلت وراثت میں چھوڑتے ہیں۔
31۔ آپ ﷺ نے فرمایا شیخی نہ بگھارو۔
یہ بھی کمال اصول ہے‘ آپ نے آج تک کسی شیخی خور کو باعزت نہیں دیکھا ہوگا‘ ہم عزت بڑھانے کے لیے شیخیاں اور شوخیاں مارتے ہیں اور ہمیشہ پرانی اور رہی سہی عزت بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔
32۔ آپ ﷺ نے فرمایا گدا گروں کا پیچھا نہ کیا کرو۔
ہم میں سے بے شمار لوگ فقیر کو دس بیس روپے دے کر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں یہ واقعی حق دار تھا یا نہیں‘ یہ عادت ہمیں شکی بھی بنا دیتی ہے اور یہ صدقے اور خیرات سے بھی دور کر دیتی ہے۔
33۔ آپ ﷺ نے فرمایا مہمان کی کھلے دل سے خدمت کرو۔
یہ عادت ہماری شخصیت میں کشش پیدا کر دیتی ہے‘ آپ کو مہمان نوازوں میں ہمیشہ مقناطیسی کشش ملے گی‘ آزما کر دیکھ لیں۔
34۔ آپ ﷺ نے فرمایا غربت میں صبر کیا کرو۔
یہ فرمان بھی کیا شاندار فرمان ہے‘ صبر بہت بڑی دولت ہے‘ یہ دولت کبھی کسی انسان کو غریب نہیں رہنے دیتی‘ آپ صابر ہو جائیں آپ کے حالات دنوں میں بدل جائیں گے۔
35۔ آپ ﷺ نے فرمایا اچھے کاموں میں دوسروں کی مدد کیا کرو۔
اچھائی نیکی ہوتی ہے اور نیکی میں دوسروں کا ساتھ دینے والے بھی جلد نیک ہو جاتے ہیں‘ آپ صرف نیک لوگوں کے معاون بن جائیں آپ نیکوں سے بھی آگے نکل جائیں گے۔
36۔ آپ ﷺ نے فرمایا اپنی خامیوں پر غور کیا کرو اور توبہ کیا کرو۔
تحقیق بتاتی ہے ہم اگر اپنی کسی ایک خامی پر قابو پا لیں تو ہم میں دس خوبیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
37۔ آپ ﷺ نے فرمایا برا کرنے والوں کے ساتھ ہمیشہ نیکی کرو۔
یہ بھی آزما کر دیکھیں یہ عادت آپ کے دشمنوں کی تعداد کم کر دے گی۔
38۔ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ نے جو دیا ہے اس پر خوش رہو۔
تجربہ بتاتا ہے کہ ہم دوسرے پرندے کی کوشش میں ہاتھ کا پرندہ بھی اڑا بیٹھتے ہیں‘ ہمیں جو مل جائے ہم اگر اسے انجوائے کرنا سیکھ لیں تو یہ دنیا جنت ہو جاتی ہے۔
39۔ آپ ﷺ نے فرمایا زیادہ نہ سویا کرو۔
زیادہ نیند یادداشت کو کمزور کر دیتی ہے‘ یہ بھی طبی لحاظ سے درست ہے‘ نیند موت کی پچھلی سٹیج ہے‘ یہ بڑھ جائے تو ہمارے برین سیل مرنے لگتے ہیں چنانچہ سات گھنٹے سے کم اور آٹھ گھنٹے سے زیادہ نیند نہیں لینی چاہیے۔
40۔ آپ ﷺ نے فرمایا روزانہ کم از کم سو بار استغفار کیا کرو۔
یہ عادت بھی عبادت ہے، آپ کر کے دیکھیں آپ کو نتائج حیران کن ملیں گے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان اصولوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین۔