بہت پہلے ایک مغربی مصنف کی کتاب میں یہ نکتہ پڑھا کہ ہر آدمی کی زندگی میں دو دائرے ہیں، ایک بڑا دائرہ جس کے بارے میں وہ زیادہ تر بات کرتا، سوچتا، پریشان ہوتا، جھنجھلاتا یا خوش ہوتا ہے۔ اسے سرکل آف کنسرن (Concern) کہتے ہیں۔ آپ نے غور کیا ہوگا کہ ہم لوگ زیادہ تر اسی سرکل آف کنسرن میں پھنسے رہتے ہیں ۔بیشتر بحثیں،مکالمے، فیس بک سٹیٹس، واٹس ایپ گروپس میں کمنٹس کی بھرمار، پرسنل چیٹ پر دھواں دھار مباحث یہ سب اسی دائرے سے متعلق ہوتے ہیں۔اس میں ملکی سیاست سرفہرست ہے۔حکومتوں کی کارکردگی، اپنے مخالف لیڈروں کی غلطیاں وغیرہ وغیرہ۔مزے کی بات ہے کہ بہت سے لوگ عالمی سیاست پر بھی گھنٹوں جتے رہتے ہیں، بھارت میں مودی کی سیاست، امریکہ میں ٹرمپ فیکٹر، افغانستان میں کیا ہو رہا ہے، یورپ کیا سوچ رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ پاکستانیوں کی بحث کا بڑا حصہ سپورٹس خاص کر کرکٹ ہڑپ کر جاتی ہے۔سرفراز کو کیوں نہیںکھلایاگیا، رضوان اور بابرمسلسل اوپنر کیوں آ رہے ہیں؟فخر زماں کو ون ڈاؤن نہیں کھلانا چاہیے ، شاہین شاہ آفریدی کو مسلسل کھلایا جا رہا ہے، شاہنواز ڈھانی کو کیوں موقع نہیں دیا،کامران اکمل کو پی ایس ایل میں سلور کیٹیگری کیوں ملی وغیرہ وغیرہ۔ سوشل میڈیا پر دیکھیں تو مذہبی، فقہی بحثیں اور اپنے سے مختلف رائے رکھنے والے گروہ کا رد کرنا بھی بہت اہم کام سمجھا جاتا ہے۔ بعض لوگ تو اپنی دماغی صلاحیتوں کا بہت بڑا حصہ بیرون ملک مقیم کسی متجدد سکالر کے رد میں صرف کر ڈالتے ہیں۔
سرکل آف کنسرن میں دلچسپی یا Concern رکھنے میں کوئی حرج نہیں، ظاہر ہے بطور شہری ہم اپنے ملک کی سیاست سے منسلک رہنا چاہتے ہیں، بہت سے لوگ اپنی ناپسندیدہ حکومت کو پرامن طریقے سے تبدیل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جمہوریت کا یہ حصہ ہے۔ اسی طرح بطور شائق ہمیں اپنی پسندیدہ ٹیموں سے دلچسپی ہوتی ہے۔ یورپ اور لاطینی امریکہ میں فٹ بال زیادہ مقبول کھیل ہے تو وہاں لوگ فٹ بال کلبوں اور فٹ بالرز سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ دنیا بھر میں ارجنٹائنی سٹرائیکر میسی اور پرتگالی سٹرائیکر رونالڈوکے مداحین کے مابین ایک جنگ سی چلتی رہتی ہے۔
دو سال پہلے استنبول تھا، وہاں ایک مقامی پاکستانی دوست نے بتایا کہ ترکوں میں بھی فٹ بال مقبول کھیل ہے۔ ان کے بقول استنبول کے دو بڑے فٹ بال کلب ہیں اور وہ اپنی مخصوص عصبیت اور مداحین کا حلقہ رکھتے ہیں۔ لوگ پہلی ملاقات میں باقاعدہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ آپ کا فیورٹ کلب کون سا ہے؟ ہمارے ہاں یہی معاملہ کرکٹ کا ہے۔ لوگ لاہور قلندر، کوئٹہ گلیڈایٹر، کراچی کنگ ، پشاور زلمی اور دیگر کے فین ہیں۔
مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس سرکل آف کنسرن میں انفرادی طور پر ہم زیادہ فرق ڈال نہیں سکتے۔ بہت بار تو ہمارے سوچنے، کڑھنے اور جھنجھلانے سے کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ ہماری پسندیدہ ٹیم ہارتی رہے گی، فیورٹ کھلاڑی اہم میچز میں پرفارم نہیں کر پائے گا ، مخالف سیاسی جماعتوں کا زور نہیں ٹوٹ سکے گا اور کئی بار ہماری فیورٹ پارٹی الیکشن میں ہزار پندرہ سو ووٹ لے کر شرمندہ کراتی رہے گی۔
ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ زندگی کے اس بڑے سرکل آف کنسرن کے اندر ایک چھوٹا دائرہ ہے ، جسے مغربی ٹرینرز ”سرکل آف انفلیونس (Influence) “کہتے ہیں۔ وہ دائرہ جس کے اندر ہم اثرانداز ہوسکتے ہیں۔ ہمار ا گھر، اہل خانہ ، دوست احباب، کاروبار یا ملازمت کی جگہ، اگر استاد ہیں تو شاگرد وغیرہ۔سب سے بڑھ کر ہماری اپنی شخصیت، زندگی اور نامہ اعمال ۔ یہ وہ دائرہ ہے جس پر ہم اگر فوکس کریں تو کہیں پر بہت زیادہ اور کہیں پر کچھ نہ کچھ فرق ضرور ڈال سکتے ہیں۔ گھر کا خوبصورت ،مہذب ، دینی ماحول بنا کر، بچوں کی اچھی تربیت کر کے ، پڑوسیوں کے حقوق ادا کر کے ، خاندان، دوست احباب ہر جگہ پر اپنے حسن اخلاق اور کسی حد تک ایثار سے ہم گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔ہم نے قبلہ سرفراز شاہ صاحب جیسے صوفی بزرگ سے یہی سیکھا کہ آدمی کو اپنے ذمے کے تمام فرائض ادا کرے اور حقوق میں ایثار سے کام لے تب زندگی میں برکت اور خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔
دراصل حقیقی مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ہم اپنی توانائی کا بیشتر حصہ سرکل آف کنسرن کی لاحاصل بحثوں میں صرف کر ڈالتے ہیںاور جو کام اپنی زندگی میں، اپنے آس پاس کے ماحول میں بہتری لانے کے لئے کئے جا سکتے ہیں، وہ بھی نہیں کر پاتے۔ اصل کرنے کا کام اپنے دائرہ اثر میں فوکس کر کے تبدیلی لانا اور پھر اس دائرے کو بتدریج پھیلانا اور وسیع کرنا ہے۔ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں، سماج کے مسیحا وہی ہیں اور حقیقی معنوں میں تبدیلی بھی وہی لاتے ہیں ایدھی، اخوت، الخدمت، غزالی سکولز، پی اوبی، کاروان ِعلم، کسٹم ویلفیئر آرگنائزیشن، کاوش ، کراچی میں کڈنی کے حوالے سے شاندار ہسپتال Suit، انڈس ہسپتال، چھیپا اور اس جیسے بہت سے اداروں کی ابتدا ایسے چند افراد نے ڈالی اور آج یہ ادارے لاکھوں، کروڑوں کی زندگیاں تبدیل کر چکے ہیں۔
اپنے سماج میں بڑی سطح کی تبدیلی کے لئے بھی ہم ضرور کوشش کریں، وہ بھی اہم ہے، مگر اصل توجہ اپنے دائرہ کار پر رکھنا چاہیے کہ وہاں ہم فرق ڈالنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ اگلے روز معروف بلاگر، مصنف اور کہانی کار خواجہ مظہر صدیقی صاحب کی ایک فیس بک پوسٹ پڑھی، جس میں انہوں نے ایسی کئی مثالیں پیش کیں ۔ پوسٹ پڑھنے سے خیال آیاکہ اگر ہم لوگ اس سے انسپائریشن لیں تو ایسی اور بہت سی مثالیں قائم ہوسکتی ہیں۔
خواجہ مظہر صدیقی نے مختلف کیسز کی مثالیں دیتے ہوئے لکھا : ”میں ایک کلرک ہوں۔ میری تنخواہ پچیس ہزار روپے ہے۔ میں ہر ماہ اپنی تنخواہ میں سے محلے کے قصاب سے چھ سو روپے کا آدھا کلو چھوٹا گوشت لے کر اپنے کسی عزیز رشتے دار کے گھر بھیج دیتا ہوں۔ یہ گوشت ہماری طرف سے صدقہ ہو جاتا ہے۔
”میرا ایک چھوٹا سا کریانہ سٹور ہے۔ میں روزانہ پچاس روپے کاروبار سے نکال کر گولک میں ڈال دیتا ہوں۔ میں ہر ماہ پندرہ سو روپے اپنے محلے کی ڈسپینسری میں دے آتا ہوں۔ وہاں معائنہ فیس پچاس روپے کے عوض مریضوں کو ادویات دی جاتی ہے۔ میری طرف سے ایک مہینے میں تیس مریضوں کا علاج ہو جاتا ہے۔
”میں اپنے کاروبار سے روزانہ سو روپے الگ کر کے اپنی بیوی کے پاس جمع کرواتا ہوں۔ مہینے کے بعد ہم تین ہزار روپے کا راشن بیگ ایک غریب گھرانے کو بھجوا دیتے ہیں۔
”میں محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوں۔ سینئر سبجیکٹ سپیشلسٹ ہوں۔ میں ہر ماہ باقاعدگی سے اپنی تنخواہ میں سے پانچ ہزار روپے الگ کرتا ہوں۔ ہم ہر سال ماہ رمضان میں اپنے شہر کے یتیم خانے میں قیام پذیر بچوں کو عید کے نئے کپڑے لے کر دیتے ہیں۔ ہمارے بجٹ سے ساٹھ پینسٹھ بچوں کے لیے تین دن کے دیدہ زیب کپڑوں کا انتظام آسانی سے ہو جاتا ہے۔
”میری کپڑے کی دکان ہے۔ میں ہر ماہ باقاعدگی سے اپنی آمدنی میں سے دس ہزار روپے الگ کرتا ہوں۔ یہ سال کے ایک لاکھ بیس ہزار روپے بنتے ہیں۔ میں ہر سال ایک یتیم بچی کی شادی و رخصتی کا بند و بست کرتا ہوں۔
”میں ڈاکٹر ہوں۔ میرا معمول ہے کہ میں اپنی آمدنی میں سے کینسر سوسائیٹی کے ذریعے روزانہ ایک غریب مریض کے لیے کیمو تھراپی کا انجیکشن ڈونیٹ کرتا ہوں۔
”ہم دونوں میاں بیوی سرکاری سکول میں پڑھاتے ہیں۔ ہم ہر ماہ اپنی تنخواہ میں سے ایک معقول حصہ الگ کرتے ہیں۔ اور ہر ماہ کے پہلے سنڈے کو اپنے محلے کے دینی مدرسے میں پڑھنے والے ہاسٹلائز بچوں کو مدرسے میں جا کر کھانا پیش کرتے ہیں۔
”میری پوش علاقے میں ایک بیکری ہے۔ میں نے اپنے علاقے کے دونوں گرلز اینڈ بوائز سکولوں کے ہیڈ ماسٹرز کو کہہ رکھا ہے کہ یتیم طلبا و طالبات کی یونیفارم اور جوتے میرے ذمہ ہیں۔ یہ کام کئی سال سے جاری ہے۔ الحمد للہ اس مقصد کے لیے دو سو روپے روزانہ الگ کر دیتا ہوں۔
”میرا میڈیکل سٹور ہے۔ میں روزانہ پانچ سو روپے اپنی کمائی سے الگ کرتا ہوں اور اس رقم سے ان لوگوں کی مدد کرتا ہوں جن کے پاس علاج معالجے کے لیے ایک کوڑی نہیں ہوتی۔
”میرا ریسٹورینٹ ہے۔ میں روزانہ پچاس لوگوں کو اپنے ریسٹورینٹ سے رات کا معیاری کھانا پارسل صورت میں دیتا ہوں۔ تاکہ وہ غریب لوگ گھر جا کر اپنی فیملی کے ساتھ سیر ہو کر کھائیں۔
”میں انجینئر ہوں۔ میں ایک نجی کمپنی میں جاب کرتا ہوں۔ میری بیوی بھی ایک
بڑے تعلیمی ادارے میں تدریس کے فرائض سر انجام دیتی ہے۔ ہم دونوں اپنی تنخواہ میں سے ہر ماہ باقاعدگی سے ایک مخصوص رقم الگ کرتے ہیں۔ ہم معذور افراد کے لیے قائم ایک ادارے کو ہر ماہ ایک وہیل چیئر عطیہ کرتے ہیں جو کسی مستحق معذور کو دے دی جاتی ہے۔ “