۱۹۸۷ میں پہلی بیٹی کی شادی پر میں اتنا ہی بد حواس تھا جتنا ہر باپ کو ہونا چاہیے۔ بارات کے سات سو مہمانوں کے کھانے کا انتظام کرنا تھا۔ جون ایلیا نے مشورہ دیا،
”جانی رئیس بھائی سے پوچھ، ان کے قبضے میں جنات ہیں“ رئیس امروہوی فکر سخن میں محو تھے۔ سر اٹھا کر بولے ”پگڑی والا سب کر دے گا ۔ لالو کھیت سپر مارکیٹ کے پیچھے ملے گا“ پھر بحر خیال میں غوطہ زن ۔۔ بڑی حیرانی ہوئی جب پوچھنے پر راہ چلتے پہلے ہی شخص نے ان تک پہنچا دیا۔ بان کی چارپائی گلی میں ڈالے آتے جاتے نئے باورچیوں کو ڈانٹ رہے تھے۔ اوپر لٹھے کی واسکٹ نیچے چار خانے کی لنگی۔ ستر کے پیٹے میں تھے بھاری بدن سر سید خان والی داڑھی اور گونجتی بھاری آواز۔ وہیں پٹی پر ٹک کے میں نے عرض مدعا کی۔ رئیس صاحب کے حوالے پر مسکرائے اور جنگ میں تازہ قطعہ دیکھ کےبولے -”گرم مسالہ زیادہ ہے آج ۔۔ کہہ دینا ۔۔ خیر میاں ۔۔ کیا کھلاؤ گے باراتیوں کو؟“ میٹھے کا سن کر نفی میں سر ہلانے لگے ”گاجر کا حلوا نہیں بن سکتا“۔ میں نے حیرانی سے کہا کہ ”سب بنارہے ہیں“ خفگی سے بولے”میاں سب میں ہم نہیں ہیں ۔۔ نئی گاجر ہے پانی والی ۔۔ کھوئے کی مار دو پھر ذائقہ نہیں آتا۔ مہمان کے سامنے تو جو رکھو گے کھا لیں گے۔ پگڑی والا کی عزت خاک میں جائے ، یہ ہمیں منظور نہیں“ میں نے اصرار نہیں کیا۔ دیگر امور طے ہوگئے تو چلتے چلتے میں کہہ بیٹھا ”میں رئیس صاحب کے کہنے پر آگیا۔ پتا نہیں آپ کیسا پکاتے ہیں“۔ ناگواری کے آثار سے اندازہ ہوا کہ میری بات انہیں بری لگی ۔۔ اور کیوں نہ لگتی ۔۔ کوئی مہدی حسن سے کہتا کہ معاوضہ تو مل جائے گا مگر پتا نہیں آپ گاتے کیسا ہیں ۔ تو کیا وہ انکار نہ کر دیتے۔ پگڑی والا نے رئیس صاحب کے حوالے کا لحاظ کیا۔
تقریب سے ایک دن قبل رات بارہ بجے کال بیل پر نکل کے دیکھا تو پگڑی والا خوان پوش سے ڈھکا تھال لیئے موجود ۔ کسی تقریب سے لوٹے تھے ۔ بولے ” لو میاں دیکھو ہم کیسا پکاتے ہیں“ اور سوزوکی میں بیٹھ یہ جا وہ جا ۔ یہ کہنا عبث ہے کہ کھانا ان کی فنکاری کی سند تھا۔
بارات سے ایک دن قبل طلب کیا اور بولے ”میاں بنڑے کی دیگ کا کیا ہو گا؟“۔ میں سٹپٹایا اور پوچھا ”وہ کیا ہوتی ہے؟“۔ وہ ہنسے اور بولے”میاں دلہن کے ساتھ بھی تو کھانا جائے گا ۔ خیر کر لیں گے ہم“
تقریب میں اپنے ساتھ خوبصورت گوٹے کے کام والے خوان پوشوں سے ڈھکی دو چھوٹی دیگیں الگ لائے ۔ خود سنہرے طرے والی پگڑی اور شیروانی میں عصا تھامے کرسی پر بیٹھے شاگردوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہے مگر انہوں نے میرے بیٹوں کو بھی نہیں بخشا۔جہاں کسی کو فارغ دیکھتے ڈانٹ لگاتے ”میاں مہمان ہو؟ آپ کی بہن کی بارات ہے۔ میزبان ہو تم ۔ خیال رکھو مہمانوں کا۔ کسی میز پر کچھ کم تو نہیں“۔رخصتی کے بعد دیکھا تو وہ غائب ۔ معلوم ہوا چلے گئے ۔ کیسے چلےگئے پیسے لیے بغیر؟ مگر وہ واقعی اسباب سمیت جا چکے تھے۔ اگلے دن ولیمہ تھا۔ پھر چوتھی کی رسم ۔ پانچویں دن فرصت ملی تو میں ان کے گھر گیا۔ اسی طرح گلی میں چار پائی ڈالے بیٹھے ملے۔ میں نے گلہ کیا کہ سارا کام آپ نے بہت اچھا کیا۔ خرابی آخر میں کی کہ پیسے لئے بغیر چلے آئے۔ وہ مسکرائے اور بولے
”میاں لڑکی والوں سے پیسے آج تک نہیں مانگے ہم نے۔ اللہ جانے ان پر کیسا وقت ہو، بیٹی کی شادی آسان نہیں ہوتی۔ نصیب کا ہو گا تو وہ خود ہی دےجائیں گے۔ جیسے تم خود آگئے ہو ورنہ میں مرتے دم تک نہ آتا“۔میں دم بخود پگڑی والا کو ، اس باورچی کو دیکھتا رہا جس کا طرہ دستار اس کی ناقابل یقین وضعداری فراخدلی اور توکل نے میری نظر میں ماؤنٹ ایورسٹ سے بھی اونچا کر دیا تھا ۔ یہ بیس ہزار روپے کی رقم تھی۔ آج سے ستائیس سال پہلے کے بیس ہزار آج کے کم سے کم بھی دو لاکھ تو تھے شاید۔ جو انہوں نے دو روپے کی طرح چھوڑ دیئے تھے کہ نصیب میں ہوں گے تو مل جائیں گے۔ان کے مرنے تک ایسا رہا کہ ہم فون کرتے تھے اور وہ تقریب کا انتظام ایسے سنبھال لیتے تھے جیسے میزبان ہم نہیں وہ ہیں۔ ڈھونڈو گے گر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں، نایاب ہیں ہم