ہمیں بچپن سے پرسنل سپیس نامی جانور کے بارے میں کبھی بتایا ہی نہیں جاتا۔ نہ ہمارے پاس اس قسم کا کھلونا رکھنے کی گنجائش ہوتی ہے لیکن، مہذب دنیا میں بہرحال پرسنل سپیس اور ڈسٹنس ایسی چیزیں ہیں جن کا علم ہونا اور جنہیں اپنا حق سمجھنا انسان کی بنیادی ضروریات میں شامل ہے۔ جب آپ تمام ایسی باتیں کہہ چکتے ہیں جو کہنے والی نہیں تھیں اور وہ بھی کہ جو کہنے میں ہرج نہیں تھا تو اس کے بعد جو نقصان سب سے پہلے ہوتا ہے وہ آپ کے ڈسٹنس کا ختم ہو جانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اگلا شکار آپ کا پرسنل سپیس ہوتا ہے۔
پروکسیمکس (proxemics) وہ علم ہے جس میں سائنسی طور پہ باقاعدہ پرسنل سپیس اور دوسرے انسانی رجحانات زیربحث لائے جاتے ہیں۔ یہ بتاتا ہے کہ پرسنل سپیس وہ ایریا ہوتا ہے جو کوئی بھی انسان ذہنی طور پہ اپنے آس پاس کی جگہ کو سمجھتا ہے۔ جیسے میں اگر گاڑی کی فرنٹ سیٹ پہ بیٹھا ہوں تو میں چاہوں گا کہ میری گود میں کوئی بچہ نہ ٹھونسا جائے، یا میرے ساتھ کوئی اور بندہ نہ چپک کے بیٹھے، تو وہ میرا پرسنل سپیس ہو گا۔ ایسے ہی دماغی طور پہ کچھ چیزیں ایسی ہوں گی جن کے بارے میں بات کرنا مجھے پسند نہیں ہو گا، وہ کچھ بھی ہو سکتی ہیں۔ عموماً کسی سے بہت ذاتی سوالات کرنا بھی پرسنل سپیس میں در اندازی والی بات ہوتی ہے۔ وہ جو ہمارے یہاں پوچھتے ہیں: ''آپ کی شادی ہو گئی؟ کتنے بچے ہیں؟ آپ کے شوہر کیا کرتے ہیں؟ ہائے بچہ کیوں نہیں ہوا؟’’ تو یہ، اور ایسے بہت سے سوال پرسنل سپیس توڑنے والے راکٹ کہلائے جا سکتے ہیں۔ پروکسیمکس ہمیں سمجھاتا ہے کہ اگر کسی انسان کی پرسنل سپیس ڈسٹرب کی جائے گی تو اسے بے آرامی، پریشانی، ناراضی، غصہ... کچھ بھی آ سکتا ہے، یا پھر یہ سب چیزیں اکٹھی بھی ہو سکتی ہیں اور ایسا مسلسل ہو تو اچھا بھلا آدمی نفسیاتی مریض بن سکتا ہے۔
عموماً رشتہ دار، دوست یار، یا میاں بیوی ایک دوسرے کی پرسنل سپیس کا تیا پانچہ یہ سوچتے ہوئے کرتے ہیں کہ میں چونکہ اس بندے کے سب راز جانتا ہوں/جانتی ہوں، اس لیے مجھے حق ہے کہ میں اس کے ہر مسئلے کا غبارہ اپنی ناک سے پھوڑوں۔ کیا کوئی انسان، کسی وقت بھی، کہیں بھی، بلاشرکت غیرے، کچھ سوچنے کا حق نہیں رکھ سکتا؟ کیا اس پہ فرض ہے کہ وہ اپنا دکھ، درد، خوشی، راز، تکلیف یا آئیڈیا کسی دوسرے کو ضرور بتائے؟ کیا اسے کچھ دیر کے لیے اکیلا نہیں چھوڑا جا سکتا؟ تو بس یہ تین سوال جس وقت جھلّا کے انسان اپنے آپ سے کرے گا، وہ انڈیکیٹر ہو گا کہ بابو، اب پرسنل سپیس برابر چاہیے۔ اب جھلّاہٹ بڑھ رہی ہے، سکون کی تلاش ہے اور وہ اکیلے بیٹھ کے ہی ملے گا۔
ٹرین، بس یا جہاز کے سفر میں بھی یہ حرکت بہت ہوتی ہے۔ ''جی آپ کہاں جا رہے ہیں؟’’ سے شروع ہونے والی گفتگو پڑوسیوں کے بچوں کی شکایتوں پہ ختم ہوتی ہے۔ کبھی ساتھ والا جواب نہ دے تو وہ اکھڑ، بدمزاج، مغرور اور نجانے کیا کیا کہلاتا ہے۔ بھائی، کیا ضروری ہے کہ وہ بھی اسی ریلیکس حالت میں ہو جس میں آپ سفر کر رہے ہیں؟ تو اس کی سپیس برقرار رکھنا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔ اوّل تو بات کرنے کی ضرورت نہیں، اگر کیجئے بھی تو مختصر جواب سننے پر منہ نہ بنائیں، بس کوئی بھی دوسرا کام پکڑ لیں اور سمجھ جائیں کہ سامنے والا اپنا فاصلہ برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
ہم پرسنل سپیس سے اس لیے بھی واقف نہیں ہوتے کہ ہم مشترکہ خاندانی نظام میں پیدا ہوتے ہیں۔ وہاں ایک بندے کا مسئلہ سارے خاندان کا مسئلہ ہوتا ہے اور اسے پورے خشوع و خضوع سے مزید بگاڑنا سب کا مشترکہ فرض سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ڈرامے، فلمیں، پاپولر ادب، سب کچھ ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ الگ تھلگ رہنے والے آدمی اچھے نہیں ہوتے، وہ گھٹن کا شکار ہوتے ہیں، جتنی جلدی ہو سکے انہیں گھریلو
دائرے میں لے کر آنا ہم سب کا فرض ہے۔
قبائلی سوچ ہمیں یہ سکھاتی تھی کہ اکیلا انسان غیر محفوظ ہے، حفاظت کے خیال سے اکٹھے رہنا شروع کیا گیا، سمجھ میں آتا ہے ۔ پھر محفوظ ہوتے ہوتے بات یہاں تک پہنچی کہ ایک گھر میں دس کمرے بنے، ان میں دس بھائیوں کی شادیاں ہوئیں، پھر سب کے بچے ہوئے اور ماں باپ کے دمِ رخصت چالیس افراد کا کنبہ ان کے سرہانے موجود ہوتا تھا۔ یہ ماں باپ یا ساس سسر کی ایک بہت بڑی کامیابی تصور ہوتی تھی کہ سب اکٹھے رہتے ہیں۔ دوسری طرف یہی اکٹھے رہنا پرسنل سپیس کے موجود نہ ہونے کی بنیادی وجہ تھی۔
یہی بحث ہمیں سکھاتی ہے کہ باپ بیٹی کے کمرے میں بھی جائے تو پہلے دروازہ کھٹکھٹائے، والدین کے کمرے میں بھی یہی تکلف ملحوظ رہے اور اجنبیوں سے بھی ایک ایسا فاصلہ رکھنا بچپن سے سکھایا جائے جو ادب آداب کے دائرے میں تو آتا ہو. اپنا پرسنل سپیس قائم رکھنا اور بچوں کو اس کی تربیت دینا اب نئے معاشرتی اقدار میں شامل ہے، جلد یا بدیر اسے قبول کرنا ہی پڑے گا۔