آپ کے گھر میں برتن دھونے والی خاتون پریشان تھی۔ ایسی خواتین کو تعظیم کی خاطر ماسی کہا جاتا تھا اس لیے کہ اُس زمانے میں یہی کلچر تھا۔ نام نہیں لیا جاتا تھا۔ نہ کسی کو نوکر یا ملازم یا ملازمہ کہہ کر بلایا جاتا تھا۔ مردوں کو لالہ یا بھائی یا چاچا یا ماما کہا جاتا تھا اور خواتین کو ماسی یا پھوپھی کہہ کر پکارتے تھے۔ اب ماسی کا لفظ ملازمہ کے لیے مخصوص ہو کررہ گیا ہے۔ آج کے کسی بچے یا نوجوان سے پوچھ کر دیکھیے کہ ماسی کا کیا مطلب ہے جھٹ کہے گا: نوکرانی! اب ماسی کا لفظ کراچی کی لغت میں بھی ملازمہ کے طور پر شامل ہوچکا ہے۔ پنجاب میں تو ماشاء اللہ گھروں میں بچوں کیلئے پنجابی یوں بھی شجر ممنوعہ ہے مگر جہاں پنجابی بولی جاتی ہے وہاں بھی اصل ماسی کو ماسی نہیں خالہ کہا جا رہا ہے۔خیر یہ جملہ معترضہ تھا جو درمیان میں آگیا۔ آپ کی ملازمہ پریشان تھی۔ اُس کے بچے کا اگلی کلاس میں داخلہ تھا۔ فیس کے پیسے نہیں تھے۔ آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے مدد کی یوں داخلہ ہوگیا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ آپ نے اس پر احسان کیا ہے؟ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ دینے والا محسن ہے اور لینے والا زیر ِاحسان! مگر یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ بات اس وقت مذہب یا آخرت کے حوالے سے نہیں ہو رہی۔ صرف دنیا کے تناظر میں بھی دینے والا دوسرے پر نہیں بلکہ اپنے آپ پر احسان کرتا ہے۔ سائنس یہی کہہ رہی ہے۔
سائنس بتاتی ہے کہ جب آپ کسی کی مدد کرتے ہیں کسی کو کچھ دیتے ہیں تو آپ کے دماغ میں خاص قسم کے کیمیکل پیدا ہوتے ہیں جنہیں Neurochemicals کہتے ہیں۔ (کچھ سائنسدان انہیں ہارمون بھی کہتے ہیں۔ اب ہارمون اور کیمیکل میں کیا فرق ہے اس ٹیکنیکل بحث میں ہم نہیں پڑتے) ان میں سے تین کیمیکل جو دماغ میں پیدا ہوتے ہیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں ڈوپامائن، سروٹو نن اور آکسی ٹاسن (Dopamine, Serotonin Oxytocin)۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ یہ کیمیکل آپ کو مسرت اور ذہنی سکون دیتے ہیں یعنی کسی کی مدد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ کیمیائی ایجنٹ جسمانی طور پر تشکیل پاتے ہیں اور ان سے خوشی پھوٹتی ہے۔ خوشی کا لفظ یہاں رسمی طور پر نہیں برتا جارہا۔ سروٹونن کا تعلق نیند سے بھی ہے، یہ عمل انہضام کو بھی متاثر کرتا ہے، یادداشت کو بھی اور بھوک پر بھی مثبت اثر ڈالتا ہے۔ ڈوپامائن پسندیدہ اعمال کیلئے تحریک پیدا کرتا ہے۔ رہا آکسی ٹاسن والا کیمیکل تو یہ جسم اور دماغ دونوں پر مثبت اثرات ڈالتا ہے۔ ہائی بلڈ پریشر کو نیچے لاتا ہے، لوگوں سے ملنے جلنے کی صلاحیت کو ابھارتا ہے، شک کے عنصر کو کم کرتا ہے۔ آکسی ٹاسن جسمانی زخم بھرنے اور درد کی شدت کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔کسی کو کچھ دینے یا کسی کی مدد کرنے سے اگر یہ حد درجہ مفید کیمیکل پیدا ہوتے ہیں تو آپ ہی بتائیے فائدہ کس کو ہوا؟ لینے والے کو بھی ہوا مگر دینے والا زیادہ فائدے میں رہا۔ پھر یہ بھی یاد رکھیے کہ مدد کرنے سے مراد صرف مالی مدد نہیں بلکہ کسی کے لیے دروازہ کھولنا، کسی کی کار کا ٹائر بدل دینا، کسی کو اچھا مشورہ دینا، کسی کو آنے والے خطرے سے آگاہ کر دینا، راستہ بتانے کیلئے چند قدم ساتھ چل لینا یہاں تک کہ کسی کی بات کا جواب دیتے ہوئے مسکرانا یہ سب ‘‘مدد’’ ہی کی اور ‘‘دینے’’ ہی کی اقسام ہیں۔
سات فوائد سائنسدانوں نے اس ضمن میں تجربات اور مطالعہ کے بعد گنوائے ہیں۔ پہلا یہ کہ ان اعمال سے اسی نوع کا سرور اور لذت حاصل ہوتی ہے جو نشہ کے عادی لوگوں کو نشہ کرنے سے ملتی ہے۔ گویا کسی کی مدد کرنا عیاشی سے کم نہیں۔ دوسرا یہ کہ ایک جرمن سٹڈی کے مطابق دوسروں پر وقت یا وسائل خرچ کرنے سے زندگی میں اطمینان در آتا ہے۔ جو آبادیاں فیاض لوگوں پر مشتمل ہیں وہ زیادہ مطمئن رہتی ہیں۔ تیسرا یہ کہ اطمینان اور خوشی دو الگ الگ اکائیاں ہیں۔ یونیورسٹی آف میسوری اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ایسے افراد دوسروں کی نسبت زیادہ خوش رہتے ہیں۔ چوتھا یہ کہ رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے دماغی کاموں میں زیادہ تیز ہو جاتے ہیں۔ ان کا بلڈ پریشر کم رہتا ہے۔ جسمانی مشقت کا اسٹیمنا زیادہ ہو جاتا ہے۔ سیر کرتے ہوئے ان کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ ایسے معمر افراد سیڑھیاں چڑھنے کی ہمت زیادہ رکھتے ہیں اور بہتر صحت کے مالک ہوتے ہیں۔ پانچواں یہ کہ ایسے افراد کی زندگی میں تناؤ، ذہنی دباؤ اور ٹینشن کم ہو جاتی ہے۔ چھٹا یہ کہ عمومی مشاہدے نے ایک دلچسپ حقیقت دریافت کی ہے کہ جب کوئی شخص کسی مقصد کیلئے مالی وسائل فراہم کرتا ہے تو کچھ عرصہ کے بعد وہ وقت بھی دینے لگتا ہے۔ یوں فلاحی تنظیموں کو فائدہ ہوتا ہے اور معاشرہ مجموعی طور پر آگے بڑھتا ہے۔ ساتواں یہ کہ ڈپریشن سے بچے رہتے ہیں اور عام طور پر ایسے لوگ نسبتاً لمبی عمر پاتے ہیں۔ دلچسپ ترین مشاہدہ یہ ہے کہ جو لوگ مدد کرنے کے بارے میں سوچتے زیادہ ہیں وہ عملی طور پر کچھ نہیں کر پاتے۔ جنہوں نے دینا ہوتا ہے وہ فوراً دے دیتے ہیں۔ آپ نے ایسے کئی واقعات پڑھے ہوں گے کہ کسی مقدس ہستی کے پاس تحائف اور مال آیا اور اُس نے اُسی وقت مستحقین میں تقسیم کر دیا۔ کچھ لوگ اس شش و پنج میں رہتے ہیں کہ کیا دیں۔ فرض کیجیے آپ نے کسی ٹھٹھرتے ہوئے شخص کو کوٹ دینا ہے تو اپنا بہترین کوٹ دیجیے۔ اس سے سروٹونن اور دوسرے کیمیکل زیادہ مقدار میں پیدا ہوں گے اور جسمانی اوردماغی فوائد زیادہ حاصل ہوں گے۔ غریبوں کو کھانا کھلا رہے ہیں تو بہترین مینیو ترتیب دیجیے۔ بالکل اسی معیار کا جیسے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کیلئے ترتیب دیتے ہیں۔
اب ہم اس سلسلے میں مذہب سے رہنمائی لیتے ہیں۔ انگریزی زبان میں چیریٹی کا لفظ جس طرح وسیع مفہوم رکھتا ہے ہمارے مذہب میں اس سے قریب ترین لفظ صدقہ ہے۔ یہ اور بات کہ صدقہ چیریٹی کی نسبت وسیع تر دائرہ رکھتا ہے۔ راستے سے کانٹے یا کوئی رکاوٹ ہٹانا بھی صدقہ ہے۔ درخت لگانا بھی صدقہ ہے۔ اپنے متعلقین پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے۔ یہاں تک کہ ماں باپ کو محبت سے دیکھنے کا عمل بھی بہت پسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ والدین کی خدمت کرنے سے یا انہیں محبت سے دیکھنے سے آپ اُن پر کوئی احسان نہیں کر رہے۔ اس سے آپ کے دماغ میں وہی کیمیکل پیدا ہوتے ہیں جو آپ کو سکون، اچھی نیند، صحت مند جسم اور تندرست دماغ دیتے ہیں۔ صلہ رحمی پر جو زور دیا گیا ہے اسے بھی اسی سیاق
و سباق میں دیکھیے۔ یعنی صرف انفاق ہی صدقہ کے مفہوم میں نہیں آتا، خوش اخلاقی، مسکراہٹ اور حسنِ سلوک بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ ہمیں تو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ جو خود کھائیں وہی زیر دستوں کو کھلائیں اور جو خود پہنیں وہی انہیں پہننے کے لیے دیں۔ یہ جو کچھ لوگ شادی بیاہ وغیرہ کے موقع پر ڈرائیوروں اور ملازموں کیلئے اصل مینیو سے ہٹ کر کمتر معیار کا کھانا مہیا کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایسا ناشائستہ عمل آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی تو ہے ہی، میزبان کی وسعتِ قلب اور خاندانی نجابت کے بارے میں بھی بہت کچھ بتاتا ہے۔ ہمارے پختون بھائی اس حوالے سے لائقِ تحسین ہیں کہ ان کے ملازم اور ماتحت اُسی دسترخوان پر ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔