ویسے تو سچی بات ہے کہ پاکستان میں چیئرٹی اب ایک دھندہ ہے، چیئرٹی ایک منظم انڈسٹری بن چکی ہے، اور مزید بدقسمتی ہے کہ یہاں بظاہر کئی سمجھدار اور انٹلکچوئل سمجھے جانے والے بھی اس کی ایسے ترغیبات دیتے ہیں، کہ بنا جانے مذہب یا معاشرت میں چیئرٹی کی حقیقی علت و معلول کیا ہے؟
مزید برآں ہم تو ملک کا سربراہ بھی ایسا لے آئے جس کی تان ہمیشہ کشکول سے ہی شروع ہوتی ہے،اور کشکول پہ ختم ہوتی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک فرشتہ صفت عبدالستار ایدھی کی ناگزیر حالت میں کی جانے والی ایک کاوش کو ہم نے نصب العین سمجھ لیا، بلکہ ہر دوسرے شعبہ فکر کا بندہ اپنی ذمہ داری اور اپنی صلاحیتوں کے بجائے صرف پیسے مانگنے یا مانگے جانے کا حصہ بن کر حقیقتاً اس ملک کے لئے ذلت کا سامان بنتا ہے، حتی کہ ہر دوسرا برانڈڈ مولوی بھی اپنی ایک فلاحی تنظیم بنائے بیٹھا ہے۔ حالانکہ حقیقی چیئرٹی یہی ہے کہ آپ اپنے اپنے فیلڈ میں ایمانداری اور محنت کے ساتھ لوگوں کی ضرورتوں کا خیال رکھیں۔
میں خود پردیس میں رہتا ہوں، اور یہ بات بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ پاکستان سے باہر رہنے والے بھی بظاہر مجبوری یا حقیقتاً درد دل رکھتے ہوئے اس طرح کے فلاحی کاموں میں بہت زیادہ حصہ لیتے ہیں، کیونکہ جب بھی پاکستان میں ایسی کوئی ضرورت پڑتی ہے، غیر ممالک کے پاکستانیوں نے ہمیشہ حکومتوں سے زیادہ حصہ ڈالا ہے۔ لیکن ہم پردیسی اکثر پردیس میں بھی ایسے کئی فلاحی کام کرتے ہیں، جن کا عموماً پتہ نہیں چلتا، مجھے بہت خوشی ہوئی جب امریکا کے ایک مقامی روزنامہ جریدے نیوزویک News week نے ایک پاکستانی ڈاکٹر عمر عتیق کے ہسپتال اور ان کے کرسمس کے موقع پر مریضوں کو بل معاف کرنے پر ایک تعریفی رپورٹ لکھی۔
ڈاکٹر عمر عتیق کا تعلق پاکستان سے ہے اور وہ یونیورسٹی آف آرکنساس میں میڈیسن کے پروفیسر ہونے کے علاوہ امریکی کالج آف فزیشن کے بورڈ آف گورنرز کی سربراہی بھی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عمر عتیق کے کلینک نے کسی بھی مریض کا رقم یا انشورنس نہ ہونے کے باعث کبھی علاج کرنے سے انکار نہیں کیا۔
پاکستانی ڈاکٹر عمر عتیق امریکی ریاست آرکنساس میں کینسر سنٹر چلا رہے ہیں، انہوں نے اپنے تمام مریضوں کو کرسمس کا تحفہ دیتے ہوئے ان کے چھ لاکھ ڈالر سے زائد کے بل معاف کر دیے۔ ڈاکٹر عمر عتیق نے 200 کینسر مریضوں کے 6 لاکھ 50 ہزار ڈالر کے بل معاف کر دیے ہیں۔ جہاں یہ تمام مریض زیر علاج رہے ہیں۔
ڈاکٹر عمر عتیق نے کرسمس کے موقع پر اپنے کینسر کے مریضوں کو مبارکباد کا پیغام بھیجتے ہوئے لکھا کہ ‘آرکنساس کینسر کلینک کو آپ کی خدمت کرنے پر فخر ہے۔ کلینک نے مریضوں کے بقایات جات معاف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔’
اگرچہ امریکا جیسے ممالک میں ہیلتھ انشورنس کے تحت مریضوں کے بیشتر اخراجات پورے کیے جاتے ہیں، تاہم پھر بھی ایک مخصوص رقم مریضوں کو ادا کرنا ہوتی ہے، کینسر سنٹر میں کیمو تھراپی، ریڈی ایشن تھراپی اور دیگر طریقوں کے ذریعے کینسر کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ لیکن ایسے حالات میں مریضوں کی واجب الادا رقم معاف کرنے سے زیادہ بہتر وقت اور کوئی نہیں ہو سکتا جب کورونا کی وبا نے گھر، زندگیاں اور کاروبار تباہ کر دیے ہیں۔