جس طرح وہ اپنی گھنی ریش ، گوری رنگت، ستواں ناک ،اونچی پیشانی اور دراز قامتی کی وجہ سے سب میں ممتاز نظر آتا ہے اسی طر ح اپنے کام کے اعتبار سے بھی وہ سب سے منفرداور جدا ہے ۔اس کا کام بچوں کو ریاضی پڑھانا ہے اور اس کے لیے وہ کلاس روم کا محتاج نہیں ۔ کھیل کا میدان ہو یا سائنس لیب ، سکول کی مسجد ہو یا آڈیٹوریم ، جمنیزیم ہو یا کوریڈورز ،سب ہی اس کے لیے کلاس روم کا درجہ رکھتے ہیں ۔ مکان کی طرح زمان بھی اس کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ اپنے اس عشق کے لیے وہ صبح ہو یا شام ، دن ہو یا رات ، دھوپ ہو یا چھاؤں ، سردی ہو یا گرمی ہمہ وقت خود کو تیار پاتا ہے ۔اس کو دیکھنے سے پہلے ہم نے محض سن ہی رکھا تھا کہ دنیا میں ایسے استاد بھی پائے جاتے ہیں جن کو اپنے مضمون اور طالب علموں سے عشق کی حد تک لگاؤ ہوتا ہے ، اسے دیکھنے کے بعد یقین آ گیا کہ واقعتا ایسا ہوتاہے ۔
لوگ کہتے ہیں کہ اسے بس ایک ہی چیز آتی ہے اور وہ ہے میتھ۔ جب کہ میں کہتا ہوں کہ اسے میتھ کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں آتی ہیں جن میں سے سب سے اہم حسن اخلاق ہے۔اور میتھ کے ساتھ اچھے اخلاق کا جمع ہونا یقیناایک نادر واقعہ ہے اور ہم وہ خوش قسمت ہیں جنہوں نے یہ نادر واقعہ بنفس نفیس دیکھا ہے ۔ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کی زندگی تو بس دو چیزوں کے گرد گھومتی ہے ایک ریاضی اور دوسرے اس کے بچے ۔ہاں البتہ یہ فیصلہ کرنا مشکل امرہے کہ اسے ریاضی سے زیادہ عشق ہے یا اپنے بچوں سے ۔جس زمانے میں وہ بیچلرز ہاسٹل میں میرا روم میٹ تھا تومیں دیکھتاتھا کہ وہ راتوں کواٹھ کے بیٹھ جاتا اور بچوں کو آوازیں دینے لگتا۔ بچوں سے بات کرتا تو اس کے چہرے کا رنگ بدل جاتا اور یوں خوش ہوتا کہ جیسے خود بھی ننھا سا بچہ ہو۔آج بھی جب اسے بچوں کے آگے پیچھے پھرتے اوران کی ہر فرمایش پوری کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کیا کل کلاں یہ بچے بھی بوڑھے باپ کی ہر بات کے لیے ایسے ہی سرگرم ہوا کریں گے۔اے کاش ایسا ہو جائے لیکن عام طور پر ایسا ہوتا نہیں کیونکہ بچے، وہ محبت جو انہوں نے اپنے والدین سے پائی ہوتی ہے، اسے والدین کو واپس نہیں کرتے بلکہ اپنے بچوں پہ نچھاور کردیتے ہیں۔
خیر یہ تو لوگوں کی باتیں تھیں کہ وہ اُسے ایک یا دو خوبیوں کے تناظر میں دیکھتے ہیں جبکہ اس کے برعکس میرا تو یہ حال ہے کہ اسے دیکھتے ہی بہت سی حسرتیں سر اٹھا کر کھڑی ہو جاتی ہیں اور دل کہتا ہے کہ اے کاش اس طرح کے استادہمیں بھی نصیب ہو جاتے ۔ اے کاش اس طرح کا اچھا اخلاق ہمیں بھی ودیعت ہوجاتا ۔ اے کاش دوسروں کے کام آنے اور دوست احباب کو کھانے پلانے کا جذبہ ہمیں بھی مل جاتا۔اے کاش بہنوں بھائیوں کی مدد کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حوصلہ ہمیں بھی نصیب ہو جاتا ۔ اسی طرح نہ جانے اورکتنے ‘‘کاش’’ ہیں جو اسے دیکھ کر یاد آجاتے ہیں اور پھر آتے رہتے ہیں۔
جس طرح ہمارے اس ‘‘ولی’’ کے نام کے دونوں لفظ ایک ہی معنی رکھتے ہیں یعنی وہ خالد بھی ہے اور جاوید بھی۔ اس طرح اس کا ظاہر اور باطن بھی ایک ہی رنگ رکھتا ہے ۔ او ر وہ رنگ ہے محنت ودیانت اوراخلاص وایثار کا ۔ اورہفت رنگ چہروں کے اس دور میں یک رنگاہونا واقعی کسی ولی کا کام ہے عام انسان کا نہیں۔ اور اسی لیے میں اسے کہتا ہوں کہ توُاللہ کا ولی ہے لیکن وہ مانتا ہی نہیں ۔ہے کوئی ہے جو اسے یہ راز بتلائے یا سمجھائے۔