کہنے کو وہ ایک گمنام مزدور تھا مگر مسجد علی المرتضی کی تاریخ میں اس کا نام یوں لکھا جا چکا ہے کہ مٹائے بھی نہ مٹے کیونکہ اس کا نام اپنی بقا کیلئے نہ کسی قلم کا محتاج ہے اور نہ کاغذ کا ۔ اوراق و الواح پہ رقم نام مٹانا تو آسان ہے کہ وہ تو بس ایک روشنائی سے لکھے جاتے ہیں اور روشنائی کامحو ہونا کون سی بڑی بات ہے مگر وہ نام جو لوح ہستی پر عمل سے کندہ کئے جاتے ہیں وہ بھلا کب مٹا کرتے ہیں۔
اس کے نام کی طرح میں اسے پہچانتا بھی نہیں اور یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کدھر سے آیا اور کدھر چلا گیابس اتنا جانتا ہوں کہ اگست ۱۹۹۶ کی ایک حبس زدہ صبح وہ اسوقت کاندھے پر ہتھوڑی لٹکائے نمودار ہواجب میں کسی مزدور کے انتظار میں ہی مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑا تھا۔ چند ماہ قبل اس مسجد کی تعمیر کا آغاز ہوا تھااور اب ڈھانچے کی تکمیل کے بعد تعمیری مراحل میں فرشوں کے باری تھی اس کے لئے اوپر والے ہال میں اینٹوں کا بڑا ڈھیر لگایا جا چکا تھا او ر اب کسی ایسے ہی مزدور کی تلاش تھی جو انہیں کوٹ کر روڑی میں بدل دے تا کہ سیمنٹ اور بجری کے ساتھ مل کر اینٹیں بھی نمازیوں کے سجود سے مشرف ہو سکیں۔اس نے مجھے کہا روڑی کٹواؤ گے میں نے کہا ہاں اس نے کہا چلو دکھاؤ۔ میں اسے اوپر والی منزل پر لے گیا ۔ میں نے کہا خاں صاحب ریٹ طے کرلو اس نے کہا ایک دن کی دیہاڑی تو تم جانتے ہی ہو بس وہی میری مزدوری ہے۔ اس نے سر سے کپڑا کھول کر نیچے رکھا اور بسم اللہ پڑ ھ کر کام شروع کیا ٹھک ٹھک اور کٹ کٹ کی آواز سے اینٹیں روڑوں میں بدلنے لگیں میں گھر واپس چلا آیا۔ کوئی دو گھنٹے بعد میں اس کا کام دیکھنے گیا تو دیکھا کہ سخت گرمی اور حبس میں وہ پسینے سے شرابور تھا مگر پور ی تندہی سے کام میں مصروف۔میرے لئے تو وہاں تھوڑی دیر ٹھہرنا مشکل ہو رہا تھا۔ میں نے اسے کہا پانی پیو گے اس نے کہا میں خود ہی نلکے سے پی لوں گا۔ میں واپس چلا تو اس نے پوچھا مولوی صاحب یہ مسجد بن رہی ہے نا۔ میں نے کہاجی ہاں۔ ظہر کے بعد جب میں دوبارہ وہاں پہنچا تو وہ ایک کونے میں کپڑا بچھائے نماز ادا کر رہا تھا۔ اس نے میرے اندازے سے زیادہ کام کر لیا تھا۔ اور میں دل میں یہ سوچتے ہوئے واپس ہوا کہ کل بھی اسے ہی بلوا لوں گا۔ عصر کے بعد میں پھر گیا تو دیکھا کہ کام تو تقریبا مکمل ہو چکا تھا ۔ چند اینٹیں باقی تھیں میں نے کہا خاں صاحب سارا کام ہو گیا ۔ اس نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے مولوی صاحب۔
میں کا م جلد نبٹنے کی خوشی میں نیچے آیا تو وہ بھی چند ہی منٹ میں ہاتھ جھاڑتا اور چہرے کو اپنے صافے سے صاف کرتا ہوا نیچے آ گیا اس نے ہاتھ منہ دھویا اور میں نے جیب سے اس کی اجرت نکالی اور ساتھ ہی بیس روپے زیادہ کہ زیادہ کام کرنے کا اسے انعام دوں گا۔ میں نے رقم اس کی طرف بڑھائی اس نے مسکرا کر میری طرف دیکھا اور کہا مولوی صاحب اس کیلئے میں نے یہ کام نہیں کیا تھا۔ اس مسجد میں میرا یہ حصہ ڈال دینا۔ اور میرا جواب سنے بغیر ہی وہ کاندھے پر ہتھوڑی لٹکائے چل پڑاتھا۔ اور جب تک میں اپنی حیرانی کے بطن سے باہر آیا وہ آنکھوں سے اوجھل ہو چکا تھالیکن اس کے ساتھ ہی یہ گمنام مزدور ان لوگوں میں شامل ہو گیا کہ جو آنکھ اوجھل تو ہوتے ہیں مگر پہاڑ اوجھل نہیں ہوتے ۔
آج اس بات کو کتنے ہی برس بیت چکے۔ جب بھی مسجد کیلئے جمع شدہ عطیات کی رسیدیں میری نظر سے گزرتی ہیں تو یہ مزدور مجھے بہت یاد آتا ہے اور میں اس کھوج میں لگ جاتا ہوں کہ ان رسیدوں میں کسی رسید پہ اس کا نام بھی لکھا مل جائے لیکن یہ کیا! اس کا نام تو کہیں بھی لکھا نہیں ملتا مگر جب غور کرتا ہوں تو ہر ہر رسید پر لکھے ’ ہر ہر نام کا ہر ہر حرف اس کا نام بن جاتا ہے مگر ان حرفو ں کو پڑھنے سے میں کل بھی قاصر تھا اور آج بھی ہوں!