حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لائے تو اہل ِ مدینہ کھجوروں میں قلم لگاتے تھے۔آپ ﷺ نے پوچھاتم ایسا کیوں کرتے ہو؟انھوں نے کہا کہ ہم ایسا (نسلاً در نسلاً)کرتے آتے ہیں۔آپ ؐ نے فرمایا کہ تم اگر ایسا نہ کرو تو شاید بہتر ہو۔لوگوں نے اِس عمل کو ترک کردیا۔اس سے کھجوریں جھڑ گئیں یا کم ہو گئیں(راوی کو شک ہے ،اغلباً پیداوار کم اور ناقص ہوئی ہوگی)لوگوں نے آپ ؐسے اس کا ذکر کیا۔آپ ﷺ نے فرمایا ‘‘میں بشر ہوں۔جب میں تمھیں تمھارے دین کے متعلق کسی چیزکاکوئی حکم دوں تو اس پر عمل کرو۔اور جب میں تم کو اپنی رائے سے کوئی حکم دوں،(تو سمجھ لو) میں صرف آدمی ہوں۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاکچھ لوگوں کے پاس سے گزر ہواجو کھجوروں میں پیوند لگا رہے تھے ۔آپؐ نے فرمایا اگرتم یہ نہ کرو تو اچھا ہوگا۔(انھوں نے یہ عمل ترک کردیا)پھر ردی کھجوریں پیدا ہوئیں۔دوبارہ ان کی طرف جانا ہوا تو آپؐ نے کھجوروں کا حال پوچھا تو ان لوگوں نے ( ساری کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا)کہ آپ نے اس اس طرح فرمایا تھا۔تو آپ نے ارشاد کیا کہ تم اپنے دنیا کے معاملات زیادہ( بہتر) جانتے ہو۔
یہ حدیث تین مختلف طریقوں سے بیان ہو ئی ہے جن میں سے دو یہاں بیان کر دیے گئے ہیں۔ جو واقعہ اس حدیث میں نقل کیا گیا ہے وہ مدینہ طیبہ کا ہے۔ مکے کے مقابلے میں مدینہ منورہ ایک سرسبز و شاداب علاقہ تھا اور یہا ں کے مکین یعنی انصار زراعت پیشہ تھے۔ کھجوروں کے با غات عام تھے جن کے انصار ہی مالک تھے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہجرت کے فوری بعد کا واقعہ ہے کیونکہ باغبانوں کے جس عمل پر آپؐ نے استفسار فرما یا تھا اس پر تعجب اور سوال کا موقع جبھی ہو سکتا ہے جب پہلی بار آپؐ نے ایسا کام ہوتے دیکھا ہو۔اپنے مواد کے اعتبار سے یہ حدیث نہایت اہم ہے۔اس میں ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے ،جس کی طرف توجہ دلانا اس وقت ہمارے پیش ِ نطر ہے۔
باٹنی کے موجودہ علم سے ہم اس حقیقت سے آگا ہ ہو چکے ہیں کہ جانوروں کی طرح پودوں میں بھی زندگی موجود ہے۔افزائشِ نسل کے لیے ان کو بھی نر اور مادہ میں کسی نہ کسی طور تقسیم کیا گیا ہے۔کھجور کا پودا بھی نر اور مادہ پودوں پر مشتمل ہوتا ہے۔پودوں میں بار آوری کے مختلف طریقے ہیں۔اُن میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ نر پودے کے شگوفے کو مادہ پودے کے افزائش ِ نسل والے حصے سے رگڑاجائے جس سے نر دانے اووری ovryمیں منتقل ہو جاتے ہیں۔مدینہ کے باغبان اغلباًیہی طریقہ استعمال کرتے ہونگے اور اس وقت یہی کام کر رہے ہونگے۔ایک ایسا فرد جو زرعی معاشرے سے تعلق نہ رکھتا ہو،اس کے لیے یقیناً یہ عمل عجیب و غریب ہے اور اس کی افادیت کا وہ قائل نہیں ہو سکتا۔یہی معاملہ حضور ﷺ کے ساتھ پیش آیا۔آپؐ کو بھی یہ کام عبث محسوس ہوا۔اس لیے آپؐ نے اسے دیکھتے ہی فرمایا کہ یہ کام کوئی زیادہ مفید نہیں ہے۔جس کام کو رسول اللہ ﷺغیر مفید قرار دیں تو ان کے جان نثار کس طرح اس کام کو کر سکتے تھے۔وہی ہوا، انصارنے یہ عمل ترک کر دیا۔اس کا نقصا ن یہ ہواکہ ایک تو پیداوار کم ہوگئی اور دوسرے یہ کہ جو پھل حاصل ہوا وہ بھی ناقص تھا۔اس کی سائنسی توجیہ وتشریح بڑ ی واضح ہے۔بارآوری کا مروج طریقہ زیادہ بہتر تھا،اس کے بجائے بار آوری کے لیے دیگر عوامل جیسے ہوااور پرندے وغیرہ پر انحصار رہ گیا۔اس سے تمام پودوں میں بار آوری مکمل نہ ہو سکی۔اور پھل پیدا نہ ہو سکا۔اور جو ہوا وہ بھی ناقص تھا۔ سائنسی قوانین اور اُن کے عوامل،سب اللہ کریم کے وضع کردہ ہیں۔سائنسدان تو ان کو محض دریافت کرنے والے ہوتے ہیں۔یا وہ ان قوانین کی تشریح کرتے ہیں اور ان کا انطباق کرکے نت نئی اور مفید ایجادات کرتے ہیں۔بعض اوقات انہی فطری قوانین کے بہتراستعمال سے بہترین نتائج حاصل کرتے ہیں۔انصار ِ مدینہ اگرچہ اس سائنسی اصو ل سے ناواقف ہونگے،لیکن اس کے استعمال سے وہ مفید نتائج ضرور حاصل کر رہے تھے۔او رصدیوں کے تجربے سے بار آوری کے اس عمل کے ذریعے بہتر پیداوار حاصل کر رہے تھے۔اللہ کے رسول ﷺ نے اس عمل سے باز آ جانے کا محض اشارہ دیا تھا اور یہ عاشقان ِ رسولؐ اس کام سے رک گئے۔اگلی فصل ناقص اور نہایت کم ہوئی،ظاہر ہے کہ فطری عمل میں رکاوٹ پیدا ہو گئی تھی۔قدر ت کے قانونِ بار آوری کو مکمل نہیں ہونے دیا گیا تو نتیجہ پیداوار کی کمی کی شکل میں ظاہر ہونا تھا۔اور وہ ہو کر رہا۔اب صحابہ کرام حضورؐ کے گوش گزار کرتے ہیں کہ ہم یہ طریقہ کئی نسلوں سے اختیار کیے ہوئے تھے اور تجربے سے اس کو نہایت مفید پایا تھا۔اس سال آپؐ کے روک دینے سے ہم رُک تو گئے لیکن نقصان میں پڑ گئے۔ظاہر ہے کہ اب وہ سابقہ طریقہ کار کی بحالی چاہتے ہونگے۔ لیکن ڈر یہ تھا کہ اللہ کے رسول ﷺ نے اس کام سے منع کیا تھا تو یقیناًیہ کوئی غیر دینی عمل ہوگا۔اس کی بحالی کی درخواست کیسے کی جاسکتی ہے۔لیکن اللہ کے رسول صحابہ کرام کے اس مخمصے کو جان گئے اور اس موقع پر جو کچھ ارشاد فرمایاوہ سونے کے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔
اس موقع پر اولا دِ آدم کے سردار،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ابدی اصول بیان فرمایا جس نے دین اور دنیا کے درمیان فرق کو واضح کیا۔جس نے کارِ رسالت اور دُنیاوی اُمور کے درمیان حد ِ فاصل قائم کر دی۔آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا یہ تمھاری دنیا ہے۔جس کو تم بہتر جانتے ہو۔میں رب کریم کے احکامات تم تک پہنچانے آیا ہوں۔جس بات کو میں اللہ کی طرف منسوب کروں اس کو بلا چو ن و چراں تسلیم کرو۔اور دنیا کے بارے میں جو بات کروں تو تم اس پر خود ہی فیصلہ کر سکتے ہو۔
نبی اللہ، لوگوں کو کیمسٹری ، باٹنی، فزکس، پولیٹیکل سائنس یاادب اور شعرو شاعری بتانے پر مامور نہیں ہوتے بلکہ وہ تولوگوں کو دین بتانے اوراللہ کا پیغام سنانے آتے ہیں۔اپنی دنیا تو لوگوں نے خود بنانی ہوتی ہے جس کے لیے اللہ نے ضروری ہدایت انسانی فطر ت میں رکھ دی ہے۔ اللہ کے رسول لوگوں کی آخرت بنانے آتے ہیں۔اپنے من کی مرضی تو آدمی خود جان لیتا ہے،اللہ کے نبی لوگوں کو ان کے رب کی مرضی بتانے آ تے ہیں۔اسی چیز کا نام دین ہے۔دین کی روشنی ،انسان نہ تو تجربے سے حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی سائنس کے اصولوں کو استعمال کرکے۔یہ روشنی تو نبی کی ذات سے ہی ملتی ہے۔
حقیقت میں نبی،جب کسی معاشرے میں تشریف لاتے ہیں،تو وہ اللہ کا پیغام بر ہونے کے علاوہ ،اُس معاشرے کا ایک فرد بھی ہوتے ہیں۔انسانی ضروریات و احتیاجات انھیں بھی اسی طرح لاحق ہوتی ہیں جس طرح کہ کسی اورآدمی کو لاحق ہوتی ہیں۔اور اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وہ وہی ذرائع استعمال کرتے ہیں جو دیگرلوگ استعمال کرتے ہیں۔ ان کے شب و روز کے معمولات میں، اُس معاشرے کا عکس ضرور پایا جاتاہے۔پیغمبراُس معاشرے کے طرزِ بودوباش،طریق ِخورونوش اور معاشرتی و سماجی رسوم و رواج کو اختیار کرتے بھی نظر آتے ہیں۔وہ اپنے زمانے کے لحاظ سے لباس اختیار کرتے ہیں۔رہائش بناتے ہیں،سواری کا اہتمام کرتے ہیں اور روزگار کے لیے کوئی نہ کوئی مروجہ طریقہ اختیار کرتے ہیں۔گویا یہ سب انسانی ضرورتیں ایک نبی کو لاحق ہوتی ہیں اور ان کو وہ اپنے زمانے کے اعتبار سے پورا کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے اور بہت بڑا فرق ہوتا ہے کہ نبی کی زندگی میں کس طرح کا کوئی عیب نہیں ہوتا ۔
رسولِ محترم سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے معاشرے اورسماج کے فعال کارکن تھے۔آپؐ نے تجارت بھی کی،نکاح بھی کیے اوربرادری اور شہر میں سماجی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔ آپ ﷺ کے دور میں معاشرہ اور سماج اپنی تمدنی ترقی اور سماجی شعورکے اعتبار سے جس درجے اور مقام پر تھا ،آج صدیوں بعد کہیں دور نکل گیاہے۔اُ س زمانے اور آج کے زمانے کے طرزِ بودوباش اورذرائع نقل و حمل اور کاروبارو تجارت وغیرہ کے معاملے میں زمین آسمان کا فرق واقع ہو چکا ہے۔ لہٰذااب ممکن نہیں رہا کہ آج کا مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان کی طرح اپنا مکان بنائے۔ (کوئی بنا لے تو اس کی مرضی بہر حال دین کا مطالبہ یہ نہیں) یا ہاتھوں سے بنے اورسوئی دھاگے سے سلے کپڑے پہنے یا خچر اور اونٹوں کو اپنی سواری کے لیے لازم جانے کہ یہی سنت ِ رسول ہے۔یا ایسا کرنا دین کا مطالبہ ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔آپ ﷺ کی مبارک زندگی میں بعض چیزیں روزمرہ کے استعمال میں تھیں،وہ آپ کا معمول تھیں لیکن اب شاید ہماری زندگیوں میں ان چیزوں کا وجود ہی نہ ہو۔ان کا استعمال تو کجا،ممکن ہے کہ آج کا کوئی مسلمان ان چیزوں کو ساری زندگی دیکھ ہی نہ سکے۔مثلاً،کتنے مسلمان ہونگے،جنھوں نے جانوروں کی کھال سے بنے پانی کے مشکیزے دیکھے ہوں گے جن میں حضورﷺ کے ہاں پانی رکھا جاتا تھا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ چونکہ مشکیزہ حضورؐ کے استعمال میں تھا اور ہمیشہ استعمال میں رہا ہے لہٰذا اس کا استعمال سنت ہے اور میں تو مشکیزہ ہی استعمال کروں گا،یا اسی طرح کی دیگر چیزوں کے استعمال پر اصرار کرنا ،کہ یہ چونکہ حضور ﷺ کے استعمال اور آپ کے عمل میں تھیں یا آپؐ کی پسندیدہ تھیں،لہٰذا سنت اور ہمارے لیے لازم ہیں،بدیہی طور پر دین میں اضافے والی بات ہوگی۔
درج بالا حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ہماری دنیا ہے جسے ہم نے خود بنانا اور برتنا ہے۔اس کے بنانے کے لیے رب ِ کریم نے ہمیں عقل سے نوازا ہے۔ایسا ممکن ہے کہ بعض اوقات اس دنیا کے معاملے ہی میں انسان کو کوئی اشتباہ لگ جائے اور وہ اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی کام کر بیٹھے ،اس لیے ایسے مواقع کے لیے اللہ کریم نے اپنی مرضی بتانے کے لیے سلسلہ نبوت و رسالت شروع کیا ۔اُخروی زندگی کے بارے میں ہمارے پاس جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔اس کے لیے بھی ہم انبیا علیہم السلام کی لائی ہوئی ہدایت کے محتاج ہیں۔اس سب کچھ کو دین کہتے ہیں۔گویا دین کا ماخذ رسول کی ذات ہوتی ہے،اس کے علاوہ دین کہیں سے نہیں مل سکتا۔یہ دین ہمیشہ ہی دو شکلوں میں ملتا رہا ہے،ایک کلام اللہ اور دوسری سنتِ رسول اللہ ۔اللہ کے آ خری رسول سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پراللہ کا کلام قرآن کی شکل میں نازل ہوا جو ہم تک امت کے قولی تواتر سے پہنچا ہے۔اسی طرح دین کا دوسرا ماخذ رسول اللہ کی سنت ہے جو دین ِ ابراہیمی کی اصلاح شدہ شکل ہے اور یہ بھی ہم تک امت کے عملی تواتر سے پہنچی ہے۔اُستاد جاوید احمد صاحب غامدی ،سنت کیا ہے اور کیا نہیں ہے،پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں’
‘‘ سنت صرف وہی چیز ہو سکتی ہے جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے دین ہو۔یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے دین قرار دیا ہو۔قرآن اس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی اس کا دین پہنچانے ہی کے لیے مبعوث ہوئے تھے۔ان کے علم و عمل کا دائرہ یہی تھا۔اس کے علاوہ اصلاً کسی چیز سے انھیں کوئی دلچسپی نہ تھی۔اس میں شبہ نہیں کہ اپنی اس حیثیت ِ نبوی کے ساتھ وہ ابراہیم بن آزر بھی تھے۔موسیٰ بن عمران اور عیسیٰ بن مریم بھی تھے، اور محمد بن عبداللہ بھی۔ (صلوات اللہ علیہم اجمعین)لیکن اپنی اس حیثیت میں انھوں نے لوگوں سے کبھی کوئی مطالبہ نہیں کیا۔ اُن کے تمام مطالبات صرف اس حیثیت سے تھے کہ وہ اللہ کے نبی ہیں اور نبی کی حیثیت سے جو چیز انھیں دی گئی ہے وہ دین اور صرف دین ہے، جسے لوگوں تک پہنچانا ہی اُن کی اصل ذمہ داری ہے۔سورہ شوریٰ (۴۲:۱۳) میں اللہ کریم نے ارشاد فرمایا، اُس نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا حکم اُس نے نوح کو دیا اور جس کی وحی ( اے پیغمبر)،اب ہم نے تمھاری طرف کی ہے۔اور جس کی ہدایت ہم نے ابراہیم،موسیٰ اور عیسیٰ کو فرمائی، اس تاکید کے ساتھ کہ ( اپنی زندگی میں ) اس دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ پیدا نہ کرو۔
چنانچہ یہ معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ میں تیر، تلوار اور اس طرح کے دوسرے اسلحہ استعمال کیے ہیں۔اونٹوں پرسفرکیا ہے۔ مسجد بنائی ہے تو اس کی چھت کھجور کے تنوں سے پاٹی ہے۔اپنے تمدن کے لحاظ سے بعض کھانے کھائے ہیں اور ان میں سے کسی کو پسند اور کسی کو نا پسند کیا ہے۔ایک خاص وضع قطع کا لباس پہنا ہے جو عرب میں اُس وقت پہنا جاتا تھا اور جس کے انتخاب میں آپ کے شخصی ذوق کو بھی دخل تھا۔لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی سنت نہیں ہے۔اور نہ کوئی صاحب ِ علم اسے سنت کہنے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔’’(میزان،ص:۶۳)
زیر ِبحث حدیث دراصل یہی بات بیان کر رہی ہے۔اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف ارشاد فرمایا کہ‘‘ دنیاوی معاملے میں میرے کسی مشورے یا رائے پر عمل کرنا واجب نہیں۔لیکن ،جب میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم بیان کروں تو اُس پر عمل کرو،کیونکہ میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والانہیں ہوں۔’’اور یہ کہ ‘‘میں صرف بشر ہوں۔جب میں تمھیں تمھارے دین کے متعلق کسی چیزکاکوئی حکم دوں تو اس پر عمل کرو۔اور جب میں تم کو اپنی رائے سے کوئی حکم دوں،(تو سمجھ لو) میں صرف آدمی ہوں۔(اس پر اپنا کوئی فیصلہ کر لو۔) ’’ اور یہ کہ ‘‘تم اپنے دنیا کے معاملات زیادہ( بہتر) جانتے ہو۔’’ وما علیناالّا البلاغ
اللہم صلی علیٰ محمدو علیٰ آلِ محمد کما صلیت علیٰ ابراہیم و علیٰ آل ِ ابراہیم انک حمید مجید۔ اللہم بارک علیٰ محمدو علیٰ آلِ محمد کما بارکت علیٰ ابراہیم و علیٰ آلِ ابراہیم انک حمید مجید۔