اس شخص کا راولپنڈی میں اچھا خاصا کاروبار ہے۔ مگر دیکھنے میں انتہائی سادہ۔ فیاض ایسا کہ پاکستان سے نیپال تک کے دینی اداروں کی مالی اعانت کرتا نظر آتا ہے اور ہمدرد ایسا کہ ضرورت مند کے گھر جاکر اس کی مدد کرنا اپنا فرض جانتا ہے اور ساتھ ہی لینے والے کی سفید پوشی کا بھرم یوں رکھتا ہے کہ ایک ہاتھ دے تو دوسرے کو علم نہ ہو۔
تین ماہ پہلے ایک حادثہ ہوا۔ ایک گھر میں ڈاکو گھس رہے تھے یہ درویش منش شخص نماز فجر کے لیے جاتے ہوئے گلی سے گزر رہا تھا۔ڈاکوؤں کو دیکھ کر للکارا۔ ڈاکوؤں نے فائر کیا اور گولی اس کی کنپٹی میں ایک طرف سے لگی اور دوسری طرف نکل گئی۔
جان تو بچ گئی مگر کافی عرصہ جان کے لالے پڑے رہے۔ ابھی تک یادداشت پر اثر باقی ہے۔ معدہ متاثر ہے،تکالیف کا ایک سلسلہ ہے جو جاری ہے۔ مگر حال پوچھیے تو سراپا شکر۔ فرماتے ہیں اللہ کا شکر ہے چل پھر سکتا ہوں نماز پڑھ لیتا ہوں اور کیا چاہیے؟ میں بہت خوش نصیب ہوں کہ اللہ نے مجھے اپنے ہاتھ سے کھا نا کھانے کے قابل کر دیا ہے۔کہنے لگے یہ تو آپ جیسے اللہ کے بندوں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے جو اللہ نے اتنا کرم فرما دیا ہے ورنہ میں تو بہت ہی گنہگارہوں۔
بہت خوش ہوکر بتایا کہ آج کل اور کام تو ہے نہیں۔ لہٰذا قرآن کریم اور دینی کتب کو پڑھتا ہوں۔ زیادہ مطالعہ نہیں کر سکتا کیونکہ تکلیف ہونے لگتی ہے مگر اللہ کا شکر ہے کہ تھوڑا تھوڑا پڑھتا رہتا ہوں۔
بڑا مطمئن، بڑا خوش، مسرور چہرہ، اتنا معصوم صورت کہ بے اختیارخدا یاد آجائے۔
کسی سے کوئی شکوہ نہیں۔ سب سے خوش، سب کے لیے دعا گو، سب کے لیے نیک خیالات، اپنے رب کے آگے شکر گزار،مطمئن اور مسرور، رب کی عنایتوں پر شاداں وفرحان، اتنی تکالیف اور اتنا شکر؟حیرت ہے۔
اس چھوٹے نام اور بڑے کام والے شخص کا نام اشفاق احمدہے جو راولپنڈی ’صدر میں رہتے ہیں ۔ اور میں جب بھی ان سے ملتا ہوں تو خود سے یہ سوال ضرور کرتاہوں کہ آیا یہ شخص بھی اسی زمانے کا فرد ہے جس میں ہم زندہ ہیں؟
ملک اللہ دتہ ۔ اسلام آباد