ایک روز ایک پرائمری سکول کا استاد رحمت الٰہی آیا۔ وہ چند ماہ کے بعد ملازمت سے ریٹائر ہونے والا تھا۔ اس کی تین جوان بیٹیاں تھیں۔ رہنے کے لیے اپنا گھر بھی نہیں تھا۔ پنشن نہایت معمولی ہو گی۔ اسے یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ ریٹائر ہونے کے بعد وہ کہاں رہے گا؟ لڑکیوں کی شادیاں کس طرح ہو سکیں گی؟ کھانے پینے کا خرچ کیسے چلے گا؟ اس نے مجھے سرگوشی میں بتایا کہ پریشانی کے عالم میں وہ کئی ماہ سے تہجد کے بعد رو رو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں فریادیں کرتا رہا ہے۔ چند روز قبل اسے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ جس میں حضورؐ نے فرمایا کہ تم جھنگ جا کر ڈپٹی کمشنر کو اپنی مشکل بتاؤ۔ اللہ تمھاری مدد کرے گا۔
پہلے تو مجھے شک ہوا کہ یہ شخص ایک جھوٹا خواب سنا کر مجھے جذباتی طور پر بلیک میل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میرے چہرے پر شک اور تذبذب کے آثار دیکھ کر رحمت الٰہی آبدیدہ ہو گیا اور بولا: ‘‘جناب میں جھوٹ نہیں بول رہا ۔ اگر جھوٹ بولتا تو اللہ کے نام پر بولتا۔حضورؐ رسولِ پاک ؐکے نام پر کیسے جھوٹ بول سکتا ہوں؟’’
اس کی اس منطق پر میں نے حیرانی کا اظہار کیا، تو اس نے فوراً کہا، ‘‘آپ نے سنا نہیں کہ با خدا دیوانہ وبا مصطفےٰ ہشیار باش۔’’
یہ سن کر میرا شک پوری طرح رفع تو نہ ہوا لیکن سوچا کہ اگر یہ شخص غلط بیانی سے بھی کام لے رہا ہے تو ایسی عظیم ہستی کے اسم مبارک کا سہارا لے رہا ہے جس کی لاج رکھنا ہم سب کا فرض ہے۔ چنانچہ میں نے رحمت الٰہی کو تین ہفتہ کے بعد دوبارہ آنے کے لیے کہا۔ اس دوران میں نے خفیہ طور پر اس کے ذاتی حالات کا کھوج لگایا اور یہ تصدیق ہو گئی کہ وہ اپنے علاقے میں نہایت سچا، پاکیزہ اور پابند صوم و صلوٰۃ آدمی مشہور ہے اور اس کے گھریلو حالات بھی وہی تھے جو اس نے بیان کیے تھے۔
اس زمانے میں کچھ عرصہ کے لیے صوبائی حکومت نے ڈپٹی کمشنروں کو یہ اختیار دے رکھا تھا کہ سرکاری بنجر زمین کے آٹھ مربعے تک ایسے خواہشمندوں کو طویل میعاد پر دیے جا سکتے ہیں جو انھیں آباد کرنے کے لیے آمادہ ہوں ۔ میں نے اپنے مال افسر کو بلا کر کہا کہ وہ کسی مناسب جگہ کراؤن لینڈ کے ایسے آٹھ مربعے تلاش کرے جنھیں جلد از جلد زیر کاشت لانے میں کوئی خاص دشواری پیش نہ آئے۔ غلام عباس مال افسر نے غالباً یہ سمجھا کہ شاید یہ اراضی میں اپنے کسی عزیز کو دینا چاہتاہوں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پکی سڑک کے قریب نیم آباد سی زمین ڈھونڈ نکالی اور رحمت الٰہی کے نام الاٹمنٹ کی ضروری کارروائی کرکے سارے کاغذات میرے حوالے کر دیے۔
دوسری پیشی پر جب رحمت الٰہی حاضر ہوا تو میں نے یہ نذرانہ اس کی خدمت میں پیش کرکے اسے مال افسر کے حوالے کر دیا کہ قبضہ وغیرہ دلوانے اور باقی ضروریات پوری کرنے میں وہ اس کی پوری پوری مدد کرے۔
تقریباً نو برس بعد میں صدر ایوب کے ساتھ کراچی میں کام کر رہا تھا کہ ایوانِ صدر میں میرے نام ایک رجسٹرڈ خط موصول ہوا۔ یہ ماسٹر رحمت الٰہی کی جانب سے تھالکھاتھا کہ اس زمین پر محنت کرکے اس نے تینوں بیٹیوں کی شادی کر دی ہے اور وہ اپنے اپنے گھر میں خوش و خرم آباد ہیں۔ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ حج کا فریضہ بھی ادا کر لیا ہے اور اپنے گزارے اور رہائش کے لیے تھوڑی سی ذاتی زمین خریدنے کے علاوہ ایک کچا سا کوٹھا بھی تعمیر کر لیا ہے۔ ایسی خوشحالی میں اب اسے آٹھ مربعوں کی ضرورت نہیں رہی۔ چنانچہ اس الاٹمنٹ کے مکمل کاغذات اس خط کے ساتھ واپس ارسال ہیں تاکہ کسی اور حاجت مند کی ضرورت پوری کی جا سکے۔
میں یہ خط پڑھ کر کچھ دیر تک سکتے میں آگیا۔ میں اسی طرح گم سم بیٹھا کہ صدر ایوب کوئی بات کرنے کے لیے میرے کمرے میں آگئے۔
‘‘کس سوچ میں گم ہو؟’’ انھوں نے میری حالت بھانپ کر پوچھا۔
میں نے انھیں رحمت الٰہی کا سارا واقعہ سنایا تو وہ بھی حیران ہوئے۔ کچھ دیر خاموشی طاری رہی پھر وہ اچانک بولے: ‘‘تم نے بڑا نیک کام سر انجام دیا ہے۔ میں نواب صاحب کو لاہور ٹیلی فون کر دیتا ہوں کہ وہ یہ اراضی اب تمھارے نام کر دیں۔’’
میں نے نہایت لجاجت سے گزارش کی کہ میں اس انعام کا مستحق نہیں ہوں۔
یہ سن کر صدر ایوب حیرانی سے بولے، ‘‘تمھیں زرعی اراضی حاصل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں؟’’
‘‘جی نہیں سر۔’’ میں نے التجا کی۔ ‘‘اخیر میں فقط دو گز زمین ہی کام آتی ہے۔ وہ کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی طرح مل ہی جانی ہے۔’’
(شہاب نامہ)