سوال ، جواب (ترتیب و تہذیب ، محمد عبداللہ بخاری)

مصنف : جاوید احمد غامدی

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : جنوری 2005

جواب: اس کی کوئی limit مقرر نہیں کی جا سکتی۔اسلام کا عمومی مزاج مارکیٹ اکانومی کا ہے ۔یعنی یہ اصل میں طلب اور رسد کاعمومی قانون طے کرے گا کہ کیا قیمتیں ہوں گی۔ انسان کوالبتہ اپنے ضمیرپر نگاہ رکھنا ہو گی۔اور دوسر ا یہ ہے کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں آ پ کچھ نہیں کر سکتے۔مارکیٹ کو خراب کرنے کاحق کسی کو بھی نہیں ہے۔ سیدناعمرؓ کے زمانے میں بڑا دلچسپ واقعہ پیش آیا تھا ان کو کسی نے مسجد میں بیٹھے ہوئے بتایا کہ مدینے کے بازار میں ایک صاحب نے ٹوکرا کھجوروں کا رکھا ہوا ہے اوردو دو آنے بیچ رہا ہے آپ وہاں گئے اور اس سے پوچھا یہ کیا مسئلہ ہے ؟اس نے کہا کہ میرے ہاں اصل میں کھجوروں کا ایک تحفہ آیا تھا ۔ میں نے کہا کہ چلو بازار میں جاکر بیچ آتاہوں ۔حضرت عمرؓ نے کہا کہ وہ جو دکان دار خرید کر لائے ہیں چھ آنے سیر وہ شام کو گھرکیا لے کرجائیں گے؟ تم یہاں سے چلے جاؤ۔جب مارکیٹ گرے گی تو پھر بیچنا ۔تو یہ مسئلے اتنے سادہ نہیں ہوتے۔ البتہ آپ اپنے گھرکی کوئی چیز بیچ رہے ہیں ۔کار بیچ رہے ہیں اس میں آپ کہتے ہیں کہ مجھے اتنا ہی منافع کافی ہے تویہ اچھی بات ہے۔ یہ common sense کی چیز ہے دین اگر منافع کا کوئی ریٹ مقرر کر دیتا توتمدن نہیں چل سکتا تھا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب ۔وہ جہاں سے دو ہزار کی ملتی ہے آپ وہاں کیوں نہیں جاتے؟

آپ اصل میں لبرٹی میں خریداری کو اپنے لئے باعثِ عزت سمجھتے ہیں ۔آپ کے لیے یہ سٹیٹس سمبل ہے اور اس نے آپ کے اس سٹیٹس کوقائم رکھنے کے لئے اپنی دکا ن پر بہت خرچ کیا ہے ۔اس کی دکان کی good will بہت زیادہ ہے۔ اس کی دکان کا بل بہت زیادہ ہے ۔اس نے آپ کے لئے اہتمام بہت زیادہ کیا ہوا ہے۔اس کے اخراجات نکال لیں آپ کواندازہ ہو جائے گا۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: میری گزارش سنیں ۔اگر تو کسی معاملے میں آ پ کو اختیار ہے ۔تو پھر ٹھیک ہے میں آ پ کو یہ نصیحت کروں گا کہ میرے بھائی آپ کے لیے اتنا منافع مناسب ہے ۔ لیکن بعض معاملات ایسے ہیں جن میں آپ اختیار نہیں ہوتا۔مارکیٹ طے کر رہی ہوتی ہے کہ کیا ہوگا کیا نہیں ہوگا؟جہاں مارکیٹ طے کر رہی ہو وہاں آپ جب دو آنے گز کپڑابیچیں گے تو اگلے دن دکاندار گردن سے پکڑ کر کہیں گے بھاگ جاؤ یہاں سے۔ معیشت پوری ایک سائنس ہے۔ یہ میری یا آپ کی خواہشوں پر نہیں چلتی کسی جگہ پر تھوڑی بہت خواہش ممکن ہوتی ہے اور کہیں بالکل نہیں۔ اب تو معیشت کا یہ معاملہ ہو گیا ہے کہ آ پ کی گلی کا جو کھوکھا ہے وہ بھی عالمی بنک کے فیصلوں کے ساتھ وابستہ ہے قیمتوں کا تعین مارکیٹ اکانومی اپنے طریقے پر ہی کرے گی۔اسلام آپ کو اصولی نصیحت کرے گا کہ بھئی جہاں آپ کے ہاتھ میں کوئی اختیار ہے وہاں ظلم نہ کرو۔استحصال نہ کرو۔اس سے زیادہ نہیں کیا جاسکتا۔کیسے مقرر کر سکتے ہیں۔جیسے ہی مقرر کر نے کا کام کریں گے تو اصل میں یہ مداخلت ہوجائے گی۔حضور ؐ کے زمانے میں ایک مرتبہ آپ کو یہ اطلاع دی گئی کہ قیمتیں بہت بڑھ گئیں ہیں۔مارکیٹ کی ۔۔تو آپ ؐ سے کہا گیا کہ چیزوں کے ریٹ مقرر کر دیں ۔جیسے ہمارے ہاں کر تے ہیں ۔تو حضور ؐ نے فرمایاکہ خداکے چلتے ہوئے cycleمیں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔البتہ میں ایک کام کرتا ہوں ۔ آپ ؐ گئے اور ہر جگہ پر جہاں مارکیٹ کے بڑے بیٹھے ہوئے تھے ۔ان کو نصیحت کی تو شام تک قیمتیں اعتدال پہ آگئیں۔دین اصل میں دعوت کا کام کرتا ہے انسان کے اخلاقی وجود کو درست کرتا ہے اور جب اخلاقی وجود درست ہوتا ہے تو انسان خود ہی یہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ وہ استحصال کر رہا ہے یا نہیں۔

 قیمتوں میں مداخلت بعض اوقات پورے نظام کو درہم برہم کر دیتی ہے ۔یہ جو آپ کی حکومتیں بھی بعض اوقات کرتی ہیں نا ؟ گندم میں اور فلا ں اور فلاں میں ۔ اس کے بھی نتائج نکلتے ہیں ۔ کچھ دیر کے بعد اور پوری اکانومی پر نکلتے ہیں ۔تو اس وجہ سے میری گزارش یہ ہے کہ یہ سادہ مسئلہ نہیں ہے ۔ میں ماہرِ معیشت نہیں ہوں ۔سادہ طالب علم ہوں ۔ان لوگوں سے ضرور سمجھئے اس کو کہ یہ قیمتیں کیسے چلتی ہیں ۔کیسے مقرر ہوتی ہیں ۔مداخلت کے کیا اثرات ہوتے ہیں ۔اس کو سمجھ کر کرنا چاہئے۔دین نے اسی وجہ سے اس طرح کے معاملات کو ہماری عقل پر چھوڑ دیا ہے ۔کہ اس پر کوئی فیصلہ کرلیا جائے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ایک زاویہ نظر سے بالکل درست ہوتی ہیں اور ایک سے نہیں۔بہت سے ایسے میدان ہیں جن میں ہماری ضرورت معلومات ہوتی ہیں ۔ کچھ ایسے میدان ہیں جن میں ہماری ضرورت غورو فکر ہوتا ہے ۔کچھ ایسے میدان ہیں جس کے اندر قوتِ متخیلہ بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے ۔تو اس وجہ سے یہ کوئی عالمی اصول نہیں ہے ۔ہر جگہ کی اپنی اہمیت ہے ۔اپنے تقاضے ہیں ۔ایک تانگے والے کو بھی کچھ نہ کچھ علم ہوتا ہے ۔اس کے ہاں کچھ اور چیزوں کی اہمیت ہوتی ہے ۔اسے پتا ہونا چاہئے کہ گھوڑا کیسے چلایا جاتا ہے آئن سٹائن کا جو میدان ہے اس میں قوتِ متخیلہ کی بڑی اہمیت ہے ۔ theoratical physicsمیں تو اصل میں ہے ہی متخیلہ۔ تو اس لئے ہر میدان کے اپنے تقاضے ہیں ۔اس میں کوئی اصول بنا کر ازراہِ کرم applyنہ کیجئے۔دنیا بڑے تنوع پر خدا نے بنائی ہے ۔تو اس نے اپنے میدان کے لحاظ سے بالکل ٹھیک بات کی تھی۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: کوئی رسوم نہیں تھیں ۔ حضور ﷺ نے بس چند اچھی باتیں کہیں ۔کہ اس موقع کے اوپر تم بھی اللہ کو یاد کرو۔ جانے والے کو کسی چیز پر آمادہ کرنے کے بجائے اس کے سامنے اللہ کا ذکر کرتے رہو یا کوئی اچھی بات کرتے رہو۔ جس سے اللہ اس کو بھی ذکر کی توفیق دے دے۔ یہ نہیں کہا کہ ا سکے سر کے اوپر کھڑے ہو جاؤ۔میں نے دیکھا ’اللہ معاف کرے ’ایک موت کے موقع پرایک بزرگ آئے انہوں نے چھڑی پکڑی اور کہا کہ لا الہ الا للہ پڑھ لو مرنے سے پہلے، اس بیچارے کوتوہوش نہیں ہے اسوقت ۔ جان نزع میں آئی ہوئی ہے ۔تو ایسی حرکتیں نہیں کرنی چاہئیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ لفظِ ‘مخالفت’ کو اپنی لغت سے نکال دیجئے۔شائستگی کے ساتھ اپنا اختلاف بیان کر دینا چاہئے۔یعنی اسلام میں جو سب سے بڑی تربیت ہم کو دی گئی ہے ۔وہ یہ ہے کہ آپ صحیح بات دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں تو اس کو نہایت دانائی’ نہایت دانش مندی کے ساتھ پہنچایئے۔اس کو جھگڑے کا موضوع نہ بنایئے۔یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہابلکہ اللہ تعالیٰ نے خود یہ فرمایا قرآن پاک میں ہے کہ ادعو ا الیٰ سبیل ِ ربک بالحکمۃ والموعظۃالحسنۃو جادلہم با التی ہی احسن یعنی اگر خدا کی راہ کی طرف بھی بلانا ہو تو پہلی بات یہ فرمائی کہ حکمت کے ساتھ بلاؤ۔یعنی اس کو مخالفت اورضدم ضدا کا مسئلہ نہ بناؤ۔ایسے نہ کرو کہ دوسرے کو چڑادو۔ وقت بے وقت بات کہتے رہو۔ حکمت کے ساتھ بات کرو۔دوسری بات یہ کہی کہ نصیحت کو بھی اچھے اسلوب کے ساتھ کرووموعظت الحسنۃپھر یہ کہ نصیحت کرنے کی جگہ بھی ہوتی ہے ایک نصیحت استا دکرتا ہے ۔ایک نصیحت باپ کرتا ہے ۔ ایک بڑا بھائی کرتا ہے ۔ ایک بزرگ کرتا ہے ۔تو اس کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا کہ بس نصیحت کرلو ۔نہیں۔موعظت الحسنہ یعنی پہلے کہا کہ دعوت دو حکمت کے ساتھ پھر کہا کہ نصیحت کرو تو اچھے طریقے سے ۔

 اب یہ ہے کہ بعض اوقات اختلاف ذرا بحث مباحثے میں بھی ڈھل جاتا ہے ۔یہ بھی انسانی فطرت ہے ۔تو دیکھئے اس موقع کے لیے قرآ ن کیا کہتا ہے وجادلہم یعنی اگر بحث مباحثے کی نوبت آ ہی جائے تو کر لو لیکن بالتی ہی احسن وہ بھی احسن طریقے سے ہونا چاہئے۔

اس وجہ سے مخالفت کبھی نہ کریں ۔یہ تو لفظ ہی نکال دیں ۔ بس شائستگی کے ساتھ اپنی بات کہیں اور بس۔قرآن مجید توپیغمبروں سے یہ کہتا ہے کہ اگر صورتحا ل یہ ہو کہ آگے سے دوسرا جہالت پر اتر آئے تو یہ۔ فرمایا قالو سلاماتو کہو جی صاحب سلام !ہم کسی اور وقت میں بات کر لیں گے ۔ یہ ہم کوآداب سکھائے گئے ہیں ۔ یہ تہذیب سکھائی گئی ہے ۔ مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ ہماری ساری مذہبی تربیت اس کے بالکل بر عکس کھڑی ہے ۔اس میں جب تک خاص قسم کی گالیاں نہ دے دی جائیں۔خاص طرح کی طنزو تعریض نہ کر لی جائے ۔خاص طریقے سے آستین چڑھا کے دوسرے کا گلا نہ دبا دیا جائے۔اسوقت تک لوگ مطمئن نہیں ہوتے ۔یہ صورتِ حال غلط ہے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے نہ کہ مخالفت کی ۔ آپ اگر دلائل کی بنیاد پر قائل ہیں کہ یہ قل وغیرہ غلط ہو رہے ہیں انہیں نہیں ہونا چاہیے تو بس حکمت’ بصیرت اور احسن طریقے سے بات پہنچاکر مطمئن ہو جائیے ۔ مخالفت کی مت ٹھانئے۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: عبادت کا لفظ بڑے جامع مفہوم میں استعمال ہوا ہے ۔یعنی خدا کے بندے بن کر رہو۔اس احساس کے ساتھ زندگی بسر کرو کہ تم خدا کے بندے ہو۔زمیں کے حکمراں نہیں ہو ۔تمہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے تم اس کی مخلوق ہو اور تمہیں اس کی اطاعت ’ بندگی اوراس کے قانون کی پیروی کرتے ہوئے زندگی گزارنی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: قرآن مجید نے مرنے کے بعدکا جو قانون بیان کیا ہے ۔اس کو سمجھ لینا چاہئے۔اس سے یہ بات بھی سمجھ میں آ جائے گی ۔قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ انسانوں کی تین قسمیں ہو جائیں گی ۔یا مرتے وقت ہو جاتی ہیں ۔ایک وہ لوگ ہیں کہ جن کے سامنے حق آیا اور ہمیشہ اس کی قدر کی ۔نیکی ہی اختیار کی ۔سبقت لے گئے ۔غلطی بھی ہو گئی تو اس پر مصر نہیں ہوئے۔اوراسطرح دنیا سے رخصت ہوئے جیسے انبیا ،صالحین رخصت ہوتے ہیں ۔یعنی جن کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہوتا ۔جیسے ابو بکر و عمر کی زندگی ہے ۔یا اللہ کی راہ میں کوئی آدمی مارا گیا ہے ۔اس نے آگے بڑھ کر اللہ کے لئے جان دے دی ہے ۔تو اس طرح کے جو لو گ ہیں ان کے بارے میں قرآن مجیدیہ کہتا ہے کہ ان کی روحانی زندگی مرنے کے فوراً بعد شروع ہو جاتی ہے قرآن یہ کہتا ہے کہ عند ربہم یرزقونیعنی اللہ کی نعمتیں ان پر ہوتی ہیں ۔اور یہ سلسلہ جاری کر دیا جاتا ہے ۔جسمانی حیات البتہ ان کو قیامت ہی میں ملے گی۔جب اٹھایا جائے گا ۔ یہ ایک روحانی زندگی ہے جو شروع ہوجاتی ہے ۔دوسرا extremeہے ۔ابو جہل ، فرعون۔یعنی جن کا اعمال نامہ واضح ہے ۔سرکشی ،عناد کے ساتھ کھڑے ہوگئے ۔پیغمبروں کے اورحق کے مقابلے میں کھڑے ہو گئے ۔صاف صاف اعلان کر دیا ۔کوئی شبہ اورابہام نہیں رہا ۔ان کے بارے میں قرآن مجید کہتا ہے کہ ان کے لئے ایک روحانی تعذیب شروع ہوجاتی ہے مرنے کے فوراً بعد اور جاری رہتی ہے جیسے فرعون کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ فرعون او ر اسکے اہلِ خاندان جنہوں نے سیدنا موسیٰ ؑ کے مقابلے میں سرکشی دکھائی۔ صبح شام آگ انکے سامنے پیش کی جاتی ہے ۔اور قیامت میں یردون الی اشد العذابیہ ان کے ساتھ معاملہ رہتا ہے ۔اب دونوں انتہاؤں کے درمیان ہیں۔ہم لوگ ہیں ۔جن سے غلطیاں بھی ہو گئی ہیں ۔اچھائیاں بھی ہو گئیں ہیں ۔ایمان بھی ہے اس کے ساتھ پھسل بھی جاتے ہیں ۔تو اس طرح کے لوگوں کا معاملہ بین بین ہوتا ہے ۔یعنی یہ ضروری ہے کہ پہچان پھٹک کر بتایاجائے ۔کہ خیر غالب ہے یا شر ۔تو ایسے لوگوں کو سلا دیا جاتا ہے ۔اور قیامت میں اٹھنے کے بعد میزان لگے گی ۔اتمام حجت ہوگا پھر فیصلہ ہوگا کہ کیا معاملہ ہے ؟ پھر اگر خیر کا غلبہ ہوگا تو جنت میں چلے جائیں گے ۔شر کا ہوگا تو جہنم میں چلے جائیں گے ۔تو وہ جو دوسری extreme ہے ان کے لئے عذاب ہے ۔اور جو پہلی ہے ان کے لئے ثواب ہے ۔ یہ بات ہے جو قرآن نے بیان کر دی ۔یعنی جن کا مقدمہ پیش کرنی کی ضرورت نہیں ہے ۔ ان کے ساتھ معاملہ مرنے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: ہر آدمی جانتا ہوتا ہے اپنے بارے میں ۔یعنی اپنی زندگی پر نگاہ ڈال کر دیکھتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ میں تو ایمان ہی ایمان ہوں ۔میں تو کبھی گناہ کے قریب بھی نہیں پھٹکا۔میں نے تو ہمیشہ اللہ کی آواز پر لبیک کہی ہے ۔ایسے خوش قسمت ہو تے ہونگے دنیامیں ۔تو اگر آدمی ایسا سمجھتا اپنے آپ کو پھر بھی اللہ کا شکر کرے ۔اللہ کے پیغمبرایسے ہی کرتے تھے ۔ جب لوگوں نے کہا کہ آپ تو بہت خدا کی بندگی میں وقت لگاتے ہیں تو فرمایاافلااکون عبداً شکورا؟میں خدا کا شکر گزار بندہ کیوں نہ بنوں ؟نچنت اور بے خوف تو اس میں بھی نہیں ہونا چاہئے۔

 

دوسرا یہ کہ آدمی جانتا ہی ہوتا ہے کہ اس سے لغزشیں ہوئی ہیں کوتاہیاں ہوئی ہیں ۔بہت سی جگہوں پر پاؤں پھسلا ہے۔

انبیا اور صالحین کی زندگی کے بارے میں خدا نے شہادت دے دی ہے ۔حضور ؐ کی زندگی ہے ۔ سیدنا مسیح ؑ کی زندگی ہے ۔سیدنا موسیٰ کی زندگی ہے ۔اسی طرح ابوبکروعمر کی زندگی ہے ۔صحابہ کرام میں سے بعض نمایاں شخصیتوں کی زندگی ہے۔اگر ایسی زند گی ہے تو پھر مطمئن ہو جائیے کہ ان شاء اللہ آپ کامیاب ہیں۔

البتہ اپنے آپ کو کبھی یقین مت دلائیے ۔یقین تو مرتے وقت ہی ہوگا جب فرشتے کہیں گے یا ایتھا النفس المطمئنہاس آواز کے آنے کے بعد کہنا چاہئے فضت برب الکعبہیعنی یہ کیا پتہ ہے کہ زندگی کے آخری دن انسان کیا کر بیٹھے؟تو اس لئے اس میں تو کبھی اپنے آپ کو مبتلا نہیں کرنا چاہئے۔یہ جدو جہد ہے مرتے دم تک جاری رہنی ہے ۔سیدنا علیؓ کی طرف نسبت دی جاتی ہے اس جملے کو۔ کیابات ہے اس کی ؟ جب ان کے اوپر حملہ ہواہے ۔تو اپنی زندگی پر ایک نگاہ ڈالی ۔انہوں نے کہا کہ فضت برب الکعبہرب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا ۔تو یہ وقت ہوتاہے اصل میں کامیابی اورناکامی کے احساس کا ۔باقی دنیا کی زندگی میں کیا پتہ؟کل کیا ہونا ہے ؟

(جاوید احمد غامدی)