جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ لفظِ ‘مخالفت’ کو اپنی لغت سے نکال دیجئے۔شائستگی کے ساتھ اپنا اختلاف بیان کر دینا چاہئے۔یعنی اسلام میں جو سب سے بڑی تربیت ہم کو دی گئی ہے ۔وہ یہ ہے کہ آپ صحیح بات دوسروں تک پہنچانا چاہتے ہیں تو اس کو نہایت دانائی’ نہایت دانش مندی کے ساتھ پہنچایئے۔اس کو جھگڑے کا موضوع نہ بنایئے۔یہ بات میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہابلکہ اللہ تعالیٰ نے خود یہ فرمایا قرآن پاک میں ہے کہ ادعو ا الیٰ سبیل ِ ربک بالحکمۃ والموعظۃالحسنۃو جادلہم با التی ہی احسن یعنی اگر خدا کی راہ کی طرف بھی بلانا ہو تو پہلی بات یہ فرمائی کہ حکمت کے ساتھ بلاؤ۔یعنی اس کو مخالفت اورضدم ضدا کا مسئلہ نہ بناؤ۔ایسے نہ کرو کہ دوسرے کو چڑادو۔ وقت بے وقت بات کہتے رہو۔ حکمت کے ساتھ بات کرو۔دوسری بات یہ کہی کہ نصیحت کو بھی اچھے اسلوب کے ساتھ کرووموعظت الحسنۃپھر یہ کہ نصیحت کرنے کی جگہ بھی ہوتی ہے ایک نصیحت استا دکرتا ہے ۔ایک نصیحت باپ کرتا ہے ۔ ایک بڑا بھائی کرتا ہے ۔ ایک بزرگ کرتا ہے ۔تو اس کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا کہ بس نصیحت کرلو ۔نہیں۔موعظت الحسنہ یعنی پہلے کہا کہ دعوت دو حکمت کے ساتھ پھر کہا کہ نصیحت کرو تو اچھے طریقے سے ۔
اب یہ ہے کہ بعض اوقات اختلاف ذرا بحث مباحثے میں بھی ڈھل جاتا ہے ۔یہ بھی انسانی فطرت ہے ۔تو دیکھئے اس موقع کے لیے قرآ ن کیا کہتا ہے وجادلہم یعنی اگر بحث مباحثے کی نوبت آ ہی جائے تو کر لو لیکن بالتی ہی احسن وہ بھی احسن طریقے سے ہونا چاہئے۔
اس وجہ سے مخالفت کبھی نہ کریں ۔یہ تو لفظ ہی نکال دیں ۔ بس شائستگی کے ساتھ اپنی بات کہیں اور بس۔قرآن مجید توپیغمبروں سے یہ کہتا ہے کہ اگر صورتحا ل یہ ہو کہ آگے سے دوسرا جہالت پر اتر آئے تو یہ۔ فرمایا قالو سلاماتو کہو جی صاحب سلام !ہم کسی اور وقت میں بات کر لیں گے ۔ یہ ہم کوآداب سکھائے گئے ہیں ۔ یہ تہذیب سکھائی گئی ہے ۔ مسئلہ اصل میں یہ ہے کہ ہماری ساری مذہبی تربیت اس کے بالکل بر عکس کھڑی ہے ۔اس میں جب تک خاص قسم کی گالیاں نہ دے دی جائیں۔خاص طرح کی طنزو تعریض نہ کر لی جائے ۔خاص طریقے سے آستین چڑھا کے دوسرے کا گلا نہ دبا دیا جائے۔اسوقت تک لوگ مطمئن نہیں ہوتے ۔یہ صورتِ حال غلط ہے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے نہ کہ مخالفت کی ۔ آپ اگر دلائل کی بنیاد پر قائل ہیں کہ یہ قل وغیرہ غلط ہو رہے ہیں انہیں نہیں ہونا چاہیے تو بس حکمت’ بصیرت اور احسن طریقے سے بات پہنچاکر مطمئن ہو جائیے ۔ مخالفت کی مت ٹھانئے۔
(جاوید احمد غامدی)