ج: آخرت میں سزا سے بچنے کے لیے توبہ و استغفار اور تلافی ضروری ہے۔ دنیا کی سزا اس کے لیے کافی نہیں ہے کہ وہ بچ جائے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک چور کو ہم سزا دے رہے ہوں اور وہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ اور اس کے قانون دونوں کو گالیاں دے رہا ہو۔ آخرت کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
جواب: ہر آدمی جانتا ہوتا ہے اپنے بارے میں ۔یعنی اپنی زندگی پر نگاہ ڈال کر دیکھتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ میں تو ایمان ہی ایمان ہوں ۔میں تو کبھی گناہ کے قریب بھی نہیں پھٹکا۔میں نے تو ہمیشہ اللہ کی آواز پر لبیک کہی ہے ۔ایسے خوش قسمت ہو تے ہونگے دنیامیں ۔تو اگر آدمی ایسا سمجھتا اپنے آپ کو پھر بھی اللہ کا شکر کرے ۔اللہ کے پیغمبرایسے ہی کرتے تھے ۔ جب لوگوں نے کہا کہ آپ تو بہت خدا کی بندگی میں وقت لگاتے ہیں تو فرمایاافلااکون عبداً شکورا؟میں خدا کا شکر گزار بندہ کیوں نہ بنوں ؟نچنت اور بے خوف تو اس میں بھی نہیں ہونا چاہئے۔
دوسرا یہ کہ آدمی جانتا ہی ہوتا ہے کہ اس سے لغزشیں ہوئی ہیں کوتاہیاں ہوئی ہیں ۔بہت سی جگہوں پر پاؤں پھسلا ہے۔
انبیا اور صالحین کی زندگی کے بارے میں خدا نے شہادت دے دی ہے ۔حضور ؐ کی زندگی ہے ۔ سیدنا مسیح ؑ کی زندگی ہے ۔سیدنا موسیٰ کی زندگی ہے ۔اسی طرح ابوبکروعمر کی زندگی ہے ۔صحابہ کرام میں سے بعض نمایاں شخصیتوں کی زندگی ہے۔اگر ایسی زند گی ہے تو پھر مطمئن ہو جائیے کہ ان شاء اللہ آپ کامیاب ہیں۔
البتہ اپنے آپ کو کبھی یقین مت دلائیے ۔یقین تو مرتے وقت ہی ہوگا جب فرشتے کہیں گے یا ایتھا النفس المطمئنہاس آواز کے آنے کے بعد کہنا چاہئے فضت برب الکعبہیعنی یہ کیا پتہ ہے کہ زندگی کے آخری دن انسان کیا کر بیٹھے؟تو اس لئے اس میں تو کبھی اپنے آپ کو مبتلا نہیں کرنا چاہئے۔یہ جدو جہد ہے مرتے دم تک جاری رہنی ہے ۔سیدنا علیؓ کی طرف نسبت دی جاتی ہے اس جملے کو۔ کیابات ہے اس کی ؟ جب ان کے اوپر حملہ ہواہے ۔تو اپنی زندگی پر ایک نگاہ ڈالی ۔انہوں نے کہا کہ فضت برب الکعبہرب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا ۔تو یہ وقت ہوتاہے اصل میں کامیابی اورناکامی کے احساس کا ۔باقی دنیا کی زندگی میں کیا پتہ؟کل کیا ہونا ہے ؟
(جاوید احمد غامدی)