عبادت

عید الفطر خوشیوں کا دن
عید الفطر دراصل بہت سی خوشیوں کا مجموعہ ہے۔ ایک رمضان المبارک کے روزوں کی خوشی، دوسری قیام شب ہائے رمضان کی خوشی، تیسری نزول قرآن، چوتھی لیلۃ القدر اور پانچویں اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کی خوشی۔ پھر ان تمام خوشیوں کا اظہار صدقہ و خیرات جسے صدقہ فطر کہا جاتا ہے، کے ذریعے کرنے کا حکم ہے تاکہ عبادت کے ساتھ انفاق و خیرات کا عمل بھی شریک ہو جائے۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر اسے مومنوں کے لئے ’’خوشی کا دن‘‘ قرار دیا گیا۔
عید کے دن مندرجہ ذیل امور بجا لانا مسنون و مستحب ہیں :
۱۔مسواک کرنا
۲۔غسل کرنا
۳۔کپڑے نئے ہوں تو بہتر ورنہ دھلے ہوئے پہننا
۴۔خوشبو لگانا
۵۔صبح سویرے اْٹھ کر عیدگاہ جانے کی تیاری کرنا
۶۔نماز عید الفطر سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا
پیدل عید گاہ جانا
۷۔ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا۔
۸۔نماز عید الفطر کو جانے سے پہلے طاق عدد کھجوروں یا چھواروں کا کھانا یا کوئی اور میٹھی چیز کھالینا۔
۹۔عید الاضحی کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا مستحب ہے۔ اگر قربانی کا گوشت میسر ہو تو نماز عید کے بعد اس کا کھانا مستحب ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے بندوں کی ضیافت ہے۔ لیکن اگر کچھ کھا لیا تب بھی کوئی حرج نہیں۔
عیدین کی نماز کسی بڑے میدان میں ادا کرنا سنت ہے۔ لیکن بڑے شہر یا اس جگہ جہاں زیادہ آبادی ہو ایک سے زائد مقامات پر عیدین کے اجتماعات بھی درست ہیں اور میدان کی بھی شرط نہیں۔ بڑی مساجد میں بھی یہ اجتماعات صحیح ہیں جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ اگر کسی ایک جگہ اجتماع ہوگا تو بہت سے لوگ نماز عید سے محروم رہ جائیں گے، کچھ تو حقیقی مشکلات کی وجہ سے اور کچھ اپنی سستی کے باعث۔
نمازِ عید کے لئے تکبیر تشریق کہتے ہوئے جانا۔ عید الاضحی میں با آواز بلند اور عید الفطر میں آہستہ کہنی چاہئے۔
عیدین کا خطبہ سنت ہے، یہ خطبہ نماز کے بعد ہوگا۔
اگر خطبہ نمازِ عید سے پہلے دیا تو کافی ہے اگرچہ مکروہ ہے بعد میں اعادہ نہیں کیا جائے گا۔
نماز عیدین کا حکم ہجرتِ مدینہ کے پہلے سال دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی خوشی اور فرحت کے لئے سال میں دو اہم دن مقرر کئے جن میں سے ایک عید الاضحی اور دوسرا عید الفطر کا دن ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو (دیکھا کہ) وہاں کے لوگ دو دن کھیل تماشے میں گزارتے تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ دن کیا ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہم ایام جاہلیت میں ان دو دنوں میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِنَّ اللہ قَدَابدَلَکْم بِھِمَا خَیرًا مِنھْمَا؛ یَومَ الَضحٰی وَ یَومَ الفِطرِ.
’’اللہ تعالیٰ نے ان ایام کے بدلے میں تمہیں ان سے بہتر دو ایام : یوم الاضحی اور یوم الفطر عطا فرمائے ہیں۔‘‘

جواب:1۔ صورت مسؤلہ میں دفتر میں اکیلے نماز پڑھے تواذان و اقامت مستحب ہے البتہ دونوں کے بغیر بھی نماز جائز ہوجائے گی۔
2۔ وقت داخل ہوتے ہی نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔ سوائے مغرب کے اور نمازوں میں کچھ تاخیرکرنامستحب ہے۔
3۔خواتین اذان ہوتے ہی نماز پڑھ لیا کریں، جماعت ہوجانے کا انتظارکرنا ضروری نہیں۔
4۔ فوت شدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہیں تو غالب گمان پر عمل کریں اگر کوئی غالب رائے نہ بنتی ہوتوپھر اتنی قضا نمازیں پڑھیں کہ یقین ہوجائے کہ اب کو ئی نماز ذمے باقی نہیں ہوگی۔
5۔عین طلوع،عین غروب اور دن کے بالکل بیچ کے وقت میں جس کو نصف النھار کہتے ہیں کوئی نماز،سجدہ تلاوت ،نماز جنازہ وغیرہ جائز نہیں سوائے اس دن کی عصرکی نمازکے،وہ غروب کے وقت بھی پڑھی جاسکتی ہے۔

 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب :مسجد میں نماز کے لیے بیٹھے ہوئے لوگوں پر جمعہ کی دوسری اذان کا جواب دینا ضروری نہیں ہے۔ اگر دینا چاہیں تو بغیر آواز کے جواب دے سکتے ہیں
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب :لفظ " ض" کو صحیح ادا کرنے کے لیے ماہرِ تجوید قاری کی ضرورت ہوتی ہے ،اس کا صحیح فرق براہِ راست مشق ہی سے سمجھا جا سکتا ہے ،البتہ عوام کو یہ معلوم ہونا کافی ہے کہ لفظ "ض" کی ادائیگی میں "ظ" کی آواز نکلے یا"د"کی دونوں صحیح ہیں اور دونوں طرح پڑھنے والوں کی نمازہو جاتی ہے یہ دونوں لفظ عربی کے ہیں ،نماز میں غیر عربی قرأت جائز نہیں ہے۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

جواب:حدیث شریف میں ان دعاؤں کا پڑھنا ثابت ہے لہٰذا صورت مسؤلہ میں نماز میں سمع اللہ لمن حمدہ کے بعد حمداً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ کے الفاظ پڑھ سکتے ہیں ،اسی طرح سجدے میں سبحان ربی الاعلیٰ کے بعد اور تشہد کے آخر میں کوئی بھی دعایا ایک سے زائد دعائیں عربی زبان میں مانگ سکتے ہیں،البتہ اگر امام ہوتو پھر مقتدیوں کی رعایت کرتے ہوئے مذکورہ دعائیں نہ مانگے تو کوئی حرج نہیں۔
 

(دارلاافتاء بنوری ٹاون)

ج: ہمارے پاس انبیا علیہم السلام کا دین ہے اور انبیا علیہم السلام کے دین میں ہم کو دنیا کے اندر رہ کر آخرت کی کھیتی کاٹنا ہے۔ اس لیے آپ دنیا کو چھوڑ نہیں سکتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہمارے دین میں کوئی رہبانیت نہیں ہے۔ ہم کو بیوی بچوں کے ساتھ رہنا ہے، زندگی کے معاملات انجام دینے ہیں اور اس میں رہتے ہوئے اللہ کی بندگی کا حق ادا کرنا ہے۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: انفرادی طور پر عبادت کرنا بہترہے ۔ اللہ کے پیغمبرﷺ نے اسی کو پسند فرمایا ہے اور زیادہ فضیلت اسی کی ہے کہ آپ اکیلے میں گھر کے کسی کونے میں عبادت کریں ۔ فرض نماز اہتمام سے مسجد میں پڑھنی چاہیے البتہ نوافل گھر ہی میں پڑھنے چاہیےں۔رسول اللہﷺ کا یہی طریقہ تھا کہ آپ عام نمازوں کے نوافل بھی ہمیشہ گھر ہی میں پڑھتے تھے ۔ حضورﷺ نے یہاں تک فرمایا اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: معرفت عبادت کی بنیاد ہے ۔ آپ جس کی عبادت کرر ہے ہیں، اس کو اگرپہچانا ہی نہیں تو عبادت کیا کریں گے ۔ کسی چیز کی معرفت حاصل ہو گی تو آپ اس کا حق ادا کریں گے ۔ قرآن مجید سے بھی یہی بات سمجھ آتی ہے۔کہا گیا کہ تم اپنے پروردگار کی بندگی کرو۔اب پہلے معرفت کروائی گئی کہ کون پروردگار۔بتایا گیا کہ جس نے تمہیں پیدا کیا ، تم سے پہلوں کو پیدا کیا ، جس نے زمین کو بچھونا بنایا ، جس نے آسمان کو چھت بنایا ، جس نے آسمان سے پانی برسایا اور تمہارے لیے روزی کا سامان بنایا۔ اس لیے یہ کہنا ٹھیک ہے کہ معرفت بنیاد ہے ، اس کا نتیجہ عباد ت ہے ۔یہی ترتیب ہونی چاہیے کہ پہلے پہچان ہو پھر عبادت ہو۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب: عبادت کا لفظ بڑے جامع مفہوم میں استعمال ہوا ہے ۔یعنی خدا کے بندے بن کر رہو۔اس احساس کے ساتھ زندگی بسر کرو کہ تم خدا کے بندے ہو۔زمیں کے حکمراں نہیں ہو ۔تمہیں اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے تم اس کی مخلوق ہو اور تمہیں اس کی اطاعت ’ بندگی اوراس کے قانون کی پیروی کرتے ہوئے زندگی گزارنی ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)