حضرت ہلال بن اسافؒ نے اپنے مہمان منذر بن یعلی ثوریؒ سے کہا : کیا میں آپ کو ربیع بن خثیم کی زیارت کے لیے نہ لے چلوں ؟ تاکہ چند گھڑی ا ن سے ایمان ویقین کی باتیں ہوں ۔ منذرؒ نے کہا کیوں نہیں ضرور چلیں ، میں تو کوفہ آیا ہی اس لیے ہوں تاکہ آپ کے محترم شیخ ربیع بن خثیمؒ کی زیارت کر سکوں اور کچھ عرصہ ایمان ویقین کے دلآویز ماحول میں گزارنے کی سعادت حاصل ہو سکے لیکن کیا ہمیں زیارت کی اجازت بھی مل سکے گی ؟ کیونکہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ جب سے ان پر فالج کا حملہ ہوا ہے وہ اپنے گھر ہی کے ہو کر رہ گئے ہیں ۔ ہمیشہ وہیں یاد الہی میں مصروف رہتے ہیں اور لوگوں سے قدرے ملاقات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ہلال بن اساف نے کہا :بات تو آپ کی درست ہے جب سے وہ کوفہ میں فروکش ہوئے ہیں ان کا طرز عمل ایسا ہی دیکھنے میں آیا ہے لیکن بیماری نے چنداں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کی ہے ۔حضرت منذرؒ نے کہا تو پھر ان کے پاس جانے میں کوئی حرج نہیں لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان مشائخ کے مزاج بڑے ہی نرم ونازک ہوا کرتے ہیں، آپ کی کیا رائے ہے کہ دوران ملاقات ہم شیخ سے سوالات کریں یا خاموشی سے بیٹھیں اور وہ جو اپنی مرضی سے بات کریں وہی سنیں ۔ حضرت ہلال بن اساف نے کہا : اگر آپ ربیع بن خثیمؒ کے پاس مکمل ایک سال تک بھی بیٹھے رہیں تو وہ نہیں بولیں گے جب تک تم خود ان سے بات نہیں کرو گے ، وہ قطعاً گفتگو میں پہل نہیں کریں گے کیونکہ ان کا کلام ذکر الہی پر مشتمل ہوتا ہے اور خاموشی غور و فکر پر مبنی ہوتی ہے ۔ حضرت منذر ؒ نے کہا پھر آئیے اللہ کا نام لیکر ان کے پاس چلتے ہیں ۔ دونوں شیخ کے پاس گئے ، سلام عرض کیا اور پوچھا جناب شیخ کیا حال ہے ؟ فرمایا : حال کیا پوچھتے ہو ، ایسا ناتواں ، کمزور اور گناہگار ہوں جو اپنے اللہ کا رزق کھاتا ہوں اور اپنی موت کا منتظر ہوں ۔ حضرت ہلال بولے کوفہ میں ایک ماہر طبیب آیا ہے اجازت ہو تو علاج کے لیے بلا لیں ؟ فرمایا : ہلالؒ میں جانتا ہوں کہ دوا برحق ہے ، علاج کرانا سنت ہے ، لیکن میں نے عاد ، ثمود ، اصحاب رس اور ان کے درمیان آنے والی قوموں کے حالات کا بغور جائزہ لیا ہے۔ میں نے دنیا میں ان اقوام کے لالچ اور دنیاوی سازوسامان میں ان کی حریصانہ دلچسپی کو دیکھا ہے وہ ہم سے زیادہ طاقت ور اور صاحب حیثیت تھے ان میں ماہر اطبا بھی موجود تھے ۔ وہ لوگ بیمار بھی ہوتے تھے ۔ اب دیکھیے نہ کوئی معالج رہا نہ کوئی مریض ، سب فنا ہو گئے ، ان کا نام ونشان نہ رہا ۔ پھر گہری اور لمبی سوچ کے بعد فرمایا : ہاں ایک بیماری ایسی ضرور ہے جس کا علاج ضرور کرانا چاہیے ۔ حضرت منذرؒ نے مودبانہ انداز میں پوچھا وہ کونسی بیماری ہے ؟ فرمایا : اس روحانی بیماری کا نام ہے ‘‘گناہ’’ پوچھا : اس کا علاج کس دوا سے کیا جائے ؟ فرمایا : استغفار سے ۔ حضرت منذرؒ نے پوچھا شفا کیسے ہو گی ؟ فرمایا : ایسی سچی توبہ کی جائے کہ پھر وہ گناہ دوبارہ نہ ہو۔ پھر ہماری طرف غور سے دیکھا اور بڑے زور دار انداز میں فرمایا : پوشیدہ انداز میں کیے ہوئے گناہ لوگوں کی نظر سے تو مخفی رہتے ہیں لیکن اللہ تعالی کے سامنے تو وہ ظاہر ہوتے ہیں کیونکہ اس کے سامنے تو کوئی چیز مخفی نہیں ، وہ علام الغیوب ہے ، وہ سینوں کے بھید خوب اچھی طرح جانتا ہے۔ چھپ کر گناہ کرنا ایک خطرناک روحانی بیماری ہے ۔ اس کی دوا تلاش کرو ۔ حضرت منذر ؒ نے کہا : آپ خود ہی بتا دیجیے اس کی دوا کیا ہے ؟ فرمایا : خالص اور سچی توبہ ہے جسے توبتہ النصوح کہتے ہیں ، پھر زاروقطار رونے لگے یہاں تک کہ ان کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے بھیگ گئی ۔
حضرت منذرؒ نے یہ عجیب منظر دیکھ کر کہا : محترم بڑا تعجب ہے آپ رو رہے ہیں ، حالانکہ آپ کی عبادت ، تقوی ، خشیت اور اخلاص کا ہر طرف چرچا ہے ۔ فرمایا : صد افسوس ہائے غم ، بھلا میں کیوں نہ روؤں ۔ میں نے بچشم خود ایسی عظیم قوم کو دیکھا ہے کہ ہم ان کے مقابلے میں بونے نظر آتے ہیں یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی مقدس جماعت ۔ حضرت ہلالؒ بیان کرتے ہیں کہ ہم شیخ محترم سے باتیں کرر ہے تھے کہ اتنے میں ان کا بیٹا اندر آیا ، پہلے اس نے ادب سے سلام کیا پھر کہا ۔ ابا جان امی نے آپ کے لیے بہت عمدہ میٹھا اور لذیذ پکوان تیار کیا ہے ، ان کی دلی خواہش ہے کہ آپ اس میں سے کچھ ضرور تناول کریں ۔ اجازت ہو تو میں لے آؤں ۔ فرمایا لے آؤ ۔ جب بیٹا وہ عمدہ پکوان لانے کے لیے کمرے سے باہر نکلا تو ایک سوالی نے درواز ہ کھٹکھٹایا ، آپ نے کہا اسے اندر بلا لو ، میں نے دیکھا کہ ایک پراگندہ حال بوڑھا آدمی پھٹے پرانے کپڑے پہنے جھومتا ہوا اندر آرہا ہے اور اس کے منہ سے رالیں ٹپک رہی ہیں ، چہرے سے وہ مجذوب نظر آرہا تھا ۔ وہ صحن میں کھڑا ہو گیا ۔ میں ابھی حیرت واستعجاب میں ڈوبا اس بیچارے کو دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں شیخ کا بیٹا ایک بڑے تھال میں میٹھا پکوان لے آیا ۔ شیخ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ یہ تھا ل اس کے سامنے رکھ دو ۔ اس نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے تھال اس کے سامنے رکھ دیا تو وہ شخص اس پر ٹوٹ پڑا ، حالت یہ تھی کہ اس رالیں کھانے پر گر رہی تھیں اور وہ بدستور کھانے میں جتا ہوا تھا یہاں تک کہ وہ تھال کو چٹ کر گیا ۔ بیٹے نے بڑی افسردگی سے کہا : ابا جان اللہ کی بے پناہ رحمتیں آپ پر نازل ہوں ، امی نے تو بڑے جتن سے یہ پکوان آپ کے لیے تیار کیا تھا ، ہماری دلی خواہش تھی کہ آپ تناول کرتے لیکن آپ نے ایک ایسے شخص کو یہ کھلا دیا جسے اتنا بھی معلوم نہیں کہ اس نے کیا کھایا اور اس کا مزا کیا تھا ۔ شیخ نے فرمایا : بیٹا اگر یہ شخص نہیں جانتا تو کیا ہوا ، ہمارا پروردگار تو جانتا ہے ۔ پھر قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت کی ۔
لن تنا لوا البر حتی تنفقوا مما تحبون آل عمران ۔ 92 )
یہ باتیں ہور ہی تھیں کہ شیخ کا ایک قریبی رشتہ دار آیا اور اس نے یہ اندوہناک خبر دی کہ حضرت حسینؓ کو میدان کربلا میں شہید کر دیا گیا ہے ۔ شیخ نے یہ المناک خبر سن کر کہا : انا للہ وانا الیہ راجعون اور ساتھ ہی قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی:
قل اللھم فاطر السموت والارض عالم الغیب والشھادۃ انت تحکم بین عبادک فیما کانوا فیہ یختلفون (الزمر47)
شیخ کی زبان مبارک سے صرف اتنی سی بات سن کر تسلی نہ ہوئی تو اس نے دریافت کیا : حضر ت حسینؓ کی شہادت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ فرمایا: ان سب کو اللہ ہی طرف لوٹنا ہے اور وہی ان کا حساب لے گا ۔ حضرت ہلال فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ ظہر کا وقت قریب آرہا ہے سلسلہ کلام منقطع ہو جائے گا چنانچہ میں نے عرض کیا:جناب مجھے کوئی نصیحت کیجیے۔ آپ نے فرمایا : اے ہلال! لوگوں کے منہ سے اپنی تعریف سن کر کہیں دھوکہ نہ کھا جانا ، لوگ تو صرف تیرے ظاہر کو دیکھتے ہیں تیرے باطن کا ان کو کیا علم ۔ دیکھو میری یہ بات پلے باندھ لو تم اپنے عمل کی جانب رواں دواں رہو، اور ہر وہ عمل جو اللہ کی رضا کے لیے نہ کیا جائے وہ بے کار ہے ، وہ اکارت جائے گا ، اس کی کوئی قدر وقیمت نہیں۔ حضرت منذرؒ نے کہا : مجھے بھی کوئی نصیحت کیجیے ، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا کرے ۔ فرمایا : اپنے علم کے مطابق اللہ سے ڈرو جس چیز کا تجھے علم نہ ہو اسے کسی عالم کے سپرد کرو او رخود بھی اسی کی طرف رجوع کرو ۔ اے منذر! کبھی ایسا نہ کہنا کہ میں اللہ کی طرف رجو ع کرتا ہوں ۔ اگر رجوع نہ کیا تو یہ جھوٹ لکھا جائے گا بلکہ ہمیشہ یہ دعا کرو ‘‘ اے اللہ میری طرف رجوع فرما میں درماندہ وبے کس ہوں مجھے معاف کر دے اور اس طرح کبھی تو جھوٹا نہ ہو گا۔’’ اے منذر ! خوب اچھی طرح جان لو کہ انسانی گفتگو میں لا الہ اللہ ، الحمد للہ ، اللہ اکبر ، سبحان اللہ ، خیر کی طلب ، شر سے پناہ ، نیکی کے حکم ، برائی سے روکنے اور قرآن مجید کی تلاوت کے علاوہ کسی اور بات میں خیرو برکت نہیں ہے ۔ دین کی بات کرو ورنہ خاموش رہو ۔
حضرت منذر ؒ بولے : جناب ہم اتنی دیر آپ کے پاس بیٹھے آپ کی قیمتی باتوں اور دل پذیر نصیحتوں سے فیضیاب ہوئے لیکن آپ نے اپنی گفتگو کے دوران کوئی شعر نہیں پڑھا حالانکہ آپ کے ہم عصر بطور استدلال گفتگو کے دوران شعر پڑھتے ہیں ، اس کی کیا وجہ ہے ؟ شیخ نے فرمایا : جو بھی اس دنیا میں کہا جاتا ہے اسے فوراً لکھ لیا جاتا ہے اور وہ قیامت کے دن پڑھ کر سنایا جائے گا ، میں نہیں چاہتا کہ میرے نامہ اعمال میں کوئی شعر لکھا جائے اور قیامت کے دن وہ مجھے پڑھ کر سنایا جائے ۔ پھر فرمایا : سنو ! اپنی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو ۔ وہ پردہ غیب میں ہر دم تمہاری منتظر ہے ، جب نگاہوں سے اوجھل کسی پیارے کی غیر حاضری طویل ہو جاتی ہے تو اس کا واپس لوٹنا قریب ہو جاتا ہے اور گھر والے ہر دم اس کی راہیں تکتے رہتے ہیں ، یہ کہہ کر وہ اتنا روئے کہ آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی ۔ پھر فرمایا : کل جب شدید زلزلے میں زمین کو ریزہ ریزہ کر دیا جائے گا پروردگار غیض وغضب میں ہو گا فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہونگے اور جہنم کو لا حاضر کیا جائے گا بتاؤ پھر ہم کیا کر سکیں گے ۔ حضرت ہلال بیان کرتے ہیں کہ جب شیخ ربیعؒ نے بات ختم کی ادھر ظہر کی اذان ہونے لگی ، بیٹے سے کہا آؤ چلیں ، اللہ کا بلاوا آگیا ہے ۔ بیٹے نے ہم سے کہا ابا جی کو سہارا دینے میں میرا ساتھ دیجیے ، دائیں طرف سے بیٹے نے سہارا دیا اور بائیں طرف سے میں نے اور ہم انہیں لے کر مسجد کی طرف چلے ،حالت یہ تھی کہ شیخ کے دونوں پاؤں زمین پر گھسٹتے جا رہے تھے ۔ حضرت منذرؒ نے کہا : جناب ابو یزیدؒ آپ معذور ہیں اللہ کی طرف سے آپ کو رخصت ہے ، آپ نماز گھر میں ہی پڑھ لیتے ، فرمایا : آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن میں نے موذن کو یہ کہتے سنا ، آؤ کامیابی کی طرف ، دوڑو کامرانی کی طرف جو شخص کامیابی وکامرانی کی طرف بلائے اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے جانا چاہیے خواہ گھٹنوں کے بل چل کر کیوں نہ جانا پڑے ۔
٭٭٭
کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ ربیع بن خثیمؒ ہیں کون ؟ یہ کبار تابعین میں سے تھے اور اپنے دور میں ان آٹھ افراد میں سے تھے جن میں زہد وتقوی انتہا درجے کا پایا جاتا تھا۔ یہ خالص عربی تھے اور خاندانی اعتبار سے مضر پہ جا کر ان کا سلسلہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ مل جاتا تھا ، بچپن سے ان کی تربیت اللہ کی اطاعت کے ماحول میں ہوئی ، لڑکپن تقوی کے ماحول میں گزرا ۔ رات کے وقت ان کی والدہ سو جاتی صبح اٹھتی تو کیا دیکھتی کہ ان کا بیٹا گھر کے ایک کونے میں ہاتھ باندھے کھڑا اللہ سے سرگوشیاں کرنے میں محو دنیا ومافیھا سے بے نیاز نماز میں مستغرق ہے ۔ محبت وشفقت سے بھرپور لہجے میں آواز دیتی بیٹے ربیع تجھے کیا ہوا ، کیا نیند نہیں آتی ، میرے پیارے بیٹے اب تم سو جاؤ ۔ وہ جوا ب دیتے اماں جان ! بھلا وہ شخص کیسے سو سکتا ہے جس پہ رات کی تاریکی چھا گئی ہو اور اسے دشمن کے حملے کا اندیشہ ہو یہ سن کر بوڑھی ماں کے آنسو بہنے لگتے اور وہ بیٹے کو دعائیں دیتیں ۔ جب حضرت ربیع بن خثیمؒ جوان ہوئے تو ان کے ساتھ تقوی بھی توانا و جوان ہوا اور خشیت الہی کا جذبہ بھی اسی طرح پروان چڑھا ۔ رات کی تاریکی میں جب لوگ گہری نیند سوئے ہوتے تھے ، آپ اس قدر گڑگڑاتے اور گریہ زاری کرتے کہ ان کی گھگھی بندھ جاتی ۔ بوڑھی ماں کو اپنے لاڈلے بیٹے کی حالت پر ترس آنے لگتا اور اندیشہ ہائے دروں میں مبتلا ہو کر آواز دیتی : میرے پیارے بیٹے ماں صدقے تجھے کیا ہوا ہے ، کیا کوئی جرم کر بیٹھے ہو ، کیا کسی کو قتل کیا ہے ۔ ماں نے گھبراہٹ میں پوچھا بیٹا مجھے بتاؤ مقتول کون ہے ، بتاؤ کسے قتل کر بیٹھے ہو تاکہ ہم اس کے ورثا کی منت سماجت کریں ، ہوسکتا ہے وہ تجھے معاف کر دیں۔ بخدا اگر مقتول کے وارث تیری آہوں سسکیوں اور گریہ زاری کو دیکھ لیں تو مجھے امید ہے کہ وہ تجھے معاف کر دیں گے ۔ انہوں نے کہا ، اماں جان!آپ ان سے بات نہ کریں میں نے اپنے آپ کو قتل کیا ہے ۔ ماں نے پوچھا کیسے ؟ فرمایا گناہوں سے اپنے آپ کو قتل کیا ہے ۔
٭٭٭
حضرت ربیع بن خثیمؒ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے شاگرد رشید تھے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ خوب صورت اور شکل وصورت میں تمام صحابہ سے بڑھ کر رسول اللہﷺ سے مشابہت رکھتے تھے ۔ حضرت ربیعؒ کے اپنے استاذ عبداللہ بن مسعودؓ کے ساتھ تعلقات وروابط ایسے ہی تھے جیسے ایک فرمانبردار بیٹے کے اپنے والد سے ہوتے ہیں ۔ استاذ بھی اپنے شاگرد سے ایسے ہی پیار کرتے جیسے باپ اپنے اکلوتے بیٹے سے پیار کرتا ہے لہذا حضرت ربیعؒ اپنے استاذ کے ہاں بلا اجازت آیاجایا کرتے تھے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ جب ربیع بن خثیم کے دل کی صفائی ، اخلاص اور حسن عبادت کو دیکھتے تو دل میں حسرت پیدا ہوتی ، کاش میرا یہ شاگرد نبی اکرمﷺ کی زندگی میں ہوتا ، انہیں اس تاخیر زمانہ کا افسوس ہوتا ، یہ فرمایا کرتے تھے : اے ابو یزید! اگر تجھے رسول اللہﷺ بچشم خود دیکھ لیتے تو یقینا تجھ سے محبت کرتے اور یہ بھی فرمایا کرتے : اے ربیع! جب بھی میں تجھے دیکھتا ہوں مجھے اللہ کی بارگاہ میں خشوع وخضوع کرنے والے لوگ یاد آجاتے ہیں۔
٭٭٭
اس سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کوئی مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیتے تھے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت ربیع بن خثیمؒ خشیت الہی ، تقوی وپاکیزگی کے اس اعلی وارفع مقام پر فائز تھے کہ اس طبقے میں کوئی بھی ان کا ثانی نہ تھا ۔ ان سے اس سلسلے میں ایسے واقعات منقول ہیں جو ہمیشہ اسلامی تاریخ کے صفحات میں مثل آفتاب ومہتاب چمکتے دمکتے رہیں گے ۔ ان کا ایک مخلص قریبی ساتھی بیان کرتا ہے میں حضرت ربیع بن خثیمؒ کے ساتھ بیس سال رہا میں نے ہمیشہ انہیں وہی بات کرتے سنا جسے فرشتے احترام سے لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں پھر یہ آیت تلاوت کی:
الیہ یصعدالکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ
عبدالرحمان بن عجلان بیان کرتے ہیں میں ایک رات حضرت ربیع کے پاس سویا ، جب انہیں یقین ہو گیا کہ میں گہری نیند سو گیا ہوں انہوں نے نماز پڑھنا شروع کر دی اور نماز میں یہ آیت اونچی آواز سے پڑھنے لگے:
ام حسب الذین اجترحوا السیئات ان نجعلھم کالذین آمنوا وعملوا الصالحات سوا محیاھم ومماتھم ساء ما یحکمون
ترجمہ : وہ لوگ گمان کرتے ہیں جنہوں نے گناہ کیے کہ ہم ان کو بنادیں گے ان لوگوں جیسا جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے ۔ برابر ہے ان کا جینا اور مرنا بہت برا ہے جو وہ کہتے ہیں ۔
وہ رات بھر نماز میں بار بار یہی آیت پڑھتے رہے اور زاروقطار روتے رہے ۔
حضرت ربیع بن خثیمؒ کے خوف خدا اور خشیت الہی کے متعلق بھی بہت سے واقعات مشہور ہیں ان میں سے ایک دردانگیز واقعہ ان کے قریبی ساتھیوں نے بیا ن کیا ، فرماتے ہیں کہ ہم دریائے فرات کے کنارے پر پہنچے وہاں ایک جلتی ہوئی لوہے کی بھٹی کو دیکھا جس سے آگ کے شرارے اوپر اٹھ رہے تھے ، آگ میں تیزی پیدا کرنے کے لیے پتھر کا کوئلہ استعمال کیا جا رہا تھا ۔ جب حضرت ربیع نے آگ کا یہ منظر دیکھا تو وہیں ٹھہر گئے ، جسم میں لرزہ طاری ہو گیا ، اس طرح کپکپائے کہ ہم گھبرا گئے ۔
اس منظر سے متاثر ہو کر وہ قرآن کی یہ آیت پڑھنے لگے:
اذا راتھم من مکان بعید سمعوا لھا تغیظا و زفیرا واذا لقوا فیھا مکانا ضیقا مقرنین دعوا ھنالک ثبورا
پڑھتے پڑھتے غشی کھا کر گر پڑے ، ہوش آنے تک ہم وہیں بیٹھے رہے ، پھر ہم نے انہیں گھرپہنچایا ۔
٭٭٭
حضرت ربیع بن خثیمؒ نے اپنی پوری زندگی موت کے انتظار میں گزار دی اور اللہ تعالی سے ملاقات کے لیے ہمہ دم تیار رہے ۔ جب موت کا وقت قریب آیا تو انکی بیٹی آہ و زاری کرنے لگی ، اسے روتا دیکھ کر فرمایا : چپ کرو بیٹا کیوں ر وتی ہو ، تیرے باپ کو تو بہت بہتر چیز مل رہی ہے ، پھر انکی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔
٭٭٭