حکیم الاسلام قاری محمد طیب دیوبندی

مصنف : قاری محمد طيب

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : اگست 2025

مشاہير اسلام

حکیم الاسلام قاری محمد طیب دیوبندی

طفيل ہاشمی

حکیم الاسلام قاری محمد طیب کا آج(17 جولائی 1983)یوم وفات ہے. حضرت قاری صاحب کاروانِ دیوبند کے آخری قافلہ سالار تھے. دیوبندیت نے بر صغیر میں جس علم، تقوی، للہیت اور اعتدال و توازن کو پروان چڑھایا تھا اس کی بتمام و کمال نمائندگی حضرت قاری صاحب کی تالیفات اور خطبات میں ملتی ہے. قاری صاحب کی بے شمار تالیفات ہیں اور ان کے شاید سینکڑوں خطابات ہیں جن کو ملتان کے ایک عالم دین مفتی محمد ادریس ہوشیار پوری نے خطبات حکیم الاسلام کے نام سے شائع کیا ہے.

مجھے عنفوان شباب سے ہی حضرت قاری صاحب سے بہت محبت رہی اور میں نے یہ کوشش کی کہ ان کی ہر دستیاب تحریر پڑھ سکوں حضرت قاری صاحب کی خدمت میں کئی بار حاضری کی سعادت حاصل ہوئی. سب سے اہم موقع جو مجھے یاد ہے 1970 کا پرآشوب دور تھا جب پاکستان میں الیکشن کی گہما گہمی تھی اور جمعیت علمائے اسلام دو گروہوں میں تقسیم ہو گئی تھی: ہزاروی گروپ اور تھانوی گروپ. ہزاروی گروپ کا رجحان ترقی پسند جماعتوں کی طرف تھا جبکہ تھانوی گروپ ان کے مد مقابل تھا. جمیعت علماء اسلام تھانوی گروپ نے ان دنوں ایک فتوی بھی شائع کیا جس پر غالبا 113 یا 313 علماء کے دستخط تھے جس میں ہزاروی گروپ کو گمراہ قرار دیا گیا تھا اور دین سے وابستہ طبقے میں یہ اختلاف بہت زور پکڑ رہا تھا. اس دوران میں حضرت قاری صاحب پاکستان تشریف لائے اور لاہور میں ملتان روڈ پر اپنے برادر زاد کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے جو کاشانہ قاسمی کے نام سے موسوم ہے. میں بھی ان دنوں لاہور میں تھا. قریب ہی شام نگر میں رہتا تھا اور گاہے گاہے حضرت قاری صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا. ایک روز صبح صبح حاضر ہوا قاری صاحب تشریف فرما تھے اور ایک قاری صاحب جو کہ پرانی انارکلی کے مدرسہ تجوید القران کے غالباً مہتمم تھے، نابینا تھے اس وقت ان کا نام ذہن میں نہیں آ رہا، وہ وہاں موجود تھے. انہوں نے ہزاروی گروپ کے خلاف بہت بھرپور اور تفصیلی گفتگو کی، جو شاید گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی حضرت قاری صاحب نے جواب میں کچھ نہیں کہا میں بھی بیٹھا تھا اور اتفاق سے اور کوئی نہیں تھا. جب بات ختم ہوئی تو میں نے یہ عرض کی کہ حضرت پہلے علمائے دیوبند میں حیات و ممات کا اختلاف ہوا تھا اور آپ تشریف لائے تھے، آپ نے دونوں طرف کے علماء کو بٹھا کر ان میں مصالحت کروا دی تھی. آج بھی علماء دیوبند کے دو گروہ ہو گئے ہیں اورحسن اتفاق کہ آپ تشریف لائے ہوئے ہیں اگر آپ ان دونوں گروہوں کو بٹھا کر ان کی مصالحت کروا دیں تو یہ ایک بہت بڑا کار خیر ہوگا. قاری صاحب نے جواب میں فرمایا "وہ دینی مسئلہ تھا یہ سیاسی اختلاف ہے" میں نے عرض کی، بس مجھے اطمینان ہو گیا کیونکہ تھانوی گروپ نے اسے دینی مسئلہ بنایا ہوا تھا.

حضرت قاری صاحب کی یہ خوبی تھی کہ وہ بہت دقیق علمی مسائل ،جانےکس نوعیت کے علم کی روشنی میں، بیان کرتے تھے کہ اس کے لیے نہ تو کتابوں کے حوالے ہوتے اور نہ ہم ایسے ریسرچرز کی طرح لوگوں کے بیانات اور ان کی آراء. اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ قاری صاحب مولانا قاسم نانوتوی کے علم کے وارث تھے اور ان کا علم لدنی تھا.

حضرت قاری صاحب سے مجھے بہت مناسبت تھی. بعد میں ایک مرتبہ میں نے قاری صاحب کو خواب میں دیکھا اور انہوں نے مجھے ایک نادر تحفہ دیا میں نے ایک بزرگ سے اس کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے مجھے کہا کہ قاری صاحب نے تمہیں خلافت عطا کی ہے. مجھے نہیں معلوم کہ اس کی تعبیر کیا تھی لیکن واقعہ یہ ہے کہ مجھے خواب کے علاوہ کئ ایک زندہ بزرگوں نے بھی بالمشافہ خلافت سے نوازا لیکن میں شاید پیدائشی نااہل ہوں کہ نہ تو کوئی مدرسہ بنا سکا اور نہ خانقاہ. اب جب کہ دم واپسیں ہے تو میں اس پر غور کرتا ہوں تو اس کی وجہ مجھے یہ سمجھ آتی ہے کہ اگرچہ فقہی طور پر میں تیسیر، عدم حرج، رخصت بلکہ فقہی تلفیق کا بھی قائل ہوں لیکن حلال و حرام کے مسئلے میں شاید ہمیشہ سے اتنی حساسیت رہی ہے کہ میرے لیے کوئی مدرسہ یا خانقاہ بنانا ممکن ہی نہیں تھا. خیر یہ تو ایک ضمنی بات آگئی.میں اس پیغام کے حوالے سے اہل علم سے یہ درخواست کروں گا کہ قاری صاحب کی تالیفات سے استفادہ کریں اور اسلام کا وہ ورژن جو قاری صاحب نے دیا ہےپیش کریں ، کیونکہ ان کا ایکسپوژر اتنا زیادہ تھا کہ کسی بھی عالم دین کا اتنا ایکسپوژر آج کے دور میں  نہیں ہے، اس لیے وہ اسلام کا وہ ورژن پیش کرتے ہیں یا احادیث اور آیات کے ایسے مفاہیم بیان کرتے ہیں کہ آدمی کو حیرت ہوتی ہے مثلاً آپ نے وہ مشہور حدیث سنی ہوگی کہ عورتیں ناقصات عقل و دین ہوتی ہیں. قاری صاحب نے ایک موقع پر اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تو عورت کی اتنی بڑی تعریف ہے کہ اس سے بڑھ کر کچھ نہیں کہا جا سکتا. اس میں یہ کہا گیا ہے کہ عورت اس قدر ہوشیار، مستقبل بیں اور چالاک ہوتی ہے کہ اگر وہ دین اور عقل کے اعتبار سے کمتر بھی ہو تب بھی وہ بڑے سے بڑے دانشمند اور عقلمند مرد کوشیشے میں اتار لیتی ہے. اسی طرح داڑھی کے مسئلے پر یہاں ایک زمانے میں بہت جھگڑے رہے، اپنی ایک کتاب میں لکھا یا اپنے خطاب میں کہا کہ داڑھی رکھنا سنت ہے جتنی رکھو گے اتنی سنت ادا ہو جائے گی. اس طرح چھوٹے چھوٹے جملوں سے وہ بڑے بڑے اختلافات حل کر دیتے تھے. میں آپ سے یہ درخواست کروں گا کہ آپ قاری صاحب کے" خطبات حکیم الاسلام" ہی لے لیں، دوسری کتابیں تو پتہ نہیں اب ملیں یا نہ ملیں لیکن آپ اگر ایک کتاب سرہانے رکھ لیں اور روزانہ تھوڑی سی پڑھ لیا کریں تو آپ کے علم ودانش میں بے پناہ اضافہ ہوگا. آئیے آج کے دن ہم قاری صاحب کے ایصال ثواب کے لیے کچھ نہ کچھ اہتمام کریں.