تركی اور خطاطی

مصنف : حذيفہ منير

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : اكتوبر 2025

مشاہير اسلام

تركی اور خطاطی

سيد حذيفہ منير

ترکی کی قدیم ثقافت کے بارے میں بہت کچھ پڑھا تھا، مگر اپنے سفرِ ترکی میں جب اسے قریب سے دیکھا تو بالیقین اندازہ ہوا کہ یہ لوگ فنِ خطاطی سے کتنی بے لوث محبت کرتے ہیں۔  حال ہی میں مطالعے کے دوران ایک نہایت دلچسپ واقعہ سامنے آیا، جو ترکی سے شائع ہونے والی ایک گراں قدر کتاب "جدّی الخطاط محمد شوقی" حفظہ اللہ میں مذکور ہے۔ چونکہ یہ کتاب عربی زبان میں ہے، اس لیے خیال آیا کہ قارئین کی آسانی کے لیے اس کے ان واقعات کو اردو قالب میں ڈھال کر پیش کیا جائے، تاکہ اہلِ ذوق بھی ان نایاب اور عظیم واقعات سے بہرہ اندوز ہو سکیں۔

یہ واقعہ میرے اور آپ کے بلکہ ہم سب کے روحانی استاذ، خطاط *محمد شوقی افندی* کی سوانح کا ایک حسین باب ہے۔محمد شوقی افندی رح فرماتے ہیں:

"ایک دن ایک عتّال (یعنی بوجھ اٹھانے والا مزدور) نے میری ایک خطاطی کی تخلیق کو شہر کے ایک قہوہ خانے میں لٹکا ہوا دیکھا۔ وہ شخص پڑھنا لکھنا نہیں جانتا تھا، لیکن اس تحریر کو دیکھنے کے بعد اس کے دل میں ایسی کشش پیدا ہوئی کہ وہ بار بار اس قہوہ خانے میں آنے لگا، اور جب کبھی بغیر بوجھ کے وہاں سے گزرتا تو رک کر کچھ دیر اس خط کو تکتا رہتا۔ایک دن اس نے قہوہ خانے کے مالک سے پوچھا: "اس تختی پر کیا لکھا ہے؟"لوگوں نے جواب دیا: "یہ الحلیۃ النبویۃ الشریفۃ ہے۔"اس نے پھر پوچھا: "یہ کس نے لکھی ہے؟"انہوں نے کہا: "یہ ایک شخص ہیں، جنہیں محمد شوقی افندی کہتے ہیں۔"اس نے کہا: "وہ کہاں رہتے ہیں؟"لوگوں نے جواب دیا: "ہم نہیں جانتے۔"وہ مزدور اپنے دل میں بولا: "میں خطاطوں سے پوچھوں گا۔" چنانچہ اس نے معلومات حاصل کیں اور میرا پتہ جان لیا کہ میں خاصکی کے علاقے میں رہتا ہوں۔ اس کے بعد اس نے اپنے دل میں عزم کر لیا کہ وہ اپنے روزانہ کی کمائی میں سے تھوڑا تھوڑا بچا کر جمع کرے گا تاکہ میرے پاس آکر اسی طرح کی ایک تختی لکھوائے۔کچھ عرصے تک وہ پیسے جمع کرتا رہا، یہاں تک کہ ایک جمعہ کے دن میرے گھر آیا۔ دروازہ کھٹکھٹایا۔ جب میں نے پوچھا کہ کون ہے؟ تو بتایا گیا کہ ایک مزدور ملاقات کے لیے آیا ہے۔ میں نے کہا: "اسے مہمان خانے میں بٹھاؤ۔"

وہ اندر آیا، اس کے کپڑے اگرچہ پرانے تھے لیکن صاف ستھرے تھے۔ وہ کونے میں بیٹھ گیا اور اس کے چہرے پر حیا اور جھجک نمایاں تھی۔ میں نے نرمی سے اس سے حال احوال پوچھا اور کہا: "بیٹا، اپنی حاجت بیان کرو، جھجکو نہیں۔"وہ آہ بھرتے ہوئے بولا: "حضرت! میں نے آپ کی ایک تختی قہوہ خانے میں دیکھی، بہت پسند آئی۔ میں بار بار اسے دیکھنے جاتا رہا اور پھر میں نے روزانہ کی کمائی میں سے پیسے جمع کیے تاکہ آپ سے ویسی ہی ایک تختی لکھوا سکوں، جسے میں اپنے گھر میں آویزاں کروں۔"یہ سن کر میں نے اپنی تحریروں میں سے ایک خوبصورت خط نکالا اور اسے دے دیا۔وہ بولا: "جزاک اللہ، حضور! لیکن آپ اس کی قیمت تو بتائیے، میں نے بڑی محنت سے اس کے لیے پیسے جمع کیے ہیں۔"میں نے کہا: "بیٹا! یہ میری طرف سے تمہیں ہدیہ ہے، اور جو رقم تم نے جمع کی ہے وہ اس کی تزئین اور آویزاں کرنے پر خرچ کرو۔"یہ سن کر اس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو بہہ نکلے اور وہ بار بار شکریہ ادا کرنے لگا اور دعائیں دیتا رہا۔

محمد شوقی افندی رح فرماتے ہیں:"شاید کوئی یہ سوال کرے کہ ایک اَن پڑھ مزدور کو خطاطی کے فن سے کیا سروکار؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں ایسے ذوق اور احساسات چھپے ہوتے ہیں جو بظاہر نظر نہیں آتے۔ اسی لیے انسانوں کے ساتھ ان کے احساسات اور جذبات کے مطابق معاملہ کرنا چاہیے، نہ کہ صرف ان کے طبقے یا حیثیت کو ديكھ كر -