مولانا محمد علی جوہر

مصنف : حضرت مولانا ابولاعلیٰ مودودیؒ

سلسلہ : مشاہیر اسلام

شمارہ : جنوری 2026

مشاہير اسلام

مولانا محمد علی جوہر

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رح

۲۸ ستمبر ۱۹۷۸ء

کراچی کے ماہنامہ "العلم" کے ایڈیٹر نے مولانا مودودی  کو لکھا کہ معلوم ہوا ہے مولانا محمد علی جوہر مرحوم سے آپ کے مراسم تھے۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ قارئین "العلم" کے لیے مولانا محمد علی جوہر کے بارے میں کچھ تحریر فرمائیں۔ مولانا محترم نے درج ذیل مختصر مضمون لکھ کر بھجوایا جس میں بعض تاریخی اور تحریکی حقائق پر روشنی پڑتی ہے۔ یہ مضمون "العلم" کی اکتوبر تا دسمبر شمارہ کی یکجا اشاعت میں شائع ہوا تھا_ :

*مولانا محمد علی* سے میرے روابط کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ میرے سب سے بڑے بھائی ابو محمد صاحب مرحوم جو بھوپال میں مقیم تھے، مولانا مرحوم کے دوستوں میں سے تھے اور دوستی کے یہ روابط خاصے گہرے اور مضبوط تھے۔ ڈاکٹر انصاری مرحوم، ڈاکٹر عبدالرحمن، شعیب قریشی اور عبدالرحمن سندھی (صدیقی) صاحب سے بھی ان کے بڑے گہرے دوستانہ مراسم تھے۔ اور مؤخر الذکر دونوں حضرات تو بسا اوقات مہینوں ہمارے ہاں مہمان رہے ہیں۔ یہ مخلص لوگ تھے۔ علی گڑھ کی مخصوص تہذیب اور شائستگی کا نمونہ، قومی درد رکھتے تھے۔ ایثار کا جذبہ انہیں بے گھر کیے ہوئے تھا۔ یہ بیرسٹر تھے۔ انگریزی کے صاحب تدبر ادیب تھے۔ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں خطابت کے جوہر دکھاتے تھے۔ ان کی قابلیت اپنے لیے نہیں تھی قوم کے لیے تھی۔ خود میرے بھائی ابو محمد صاحب بھی اس "حلقہ اخوان الصفاء" کے ایک رکن تھے۔ ان لوگوں میں خوب بنتی تھی۔ اور اس "مجمع رنداں" کے "پیر مغاں" محمد علی کو سب چاہتے بھی تھے اور ان کی عظمت کے آگے سر بھی جھکاتے تھے۔

۱۹۲۴ء میں جب مولانا محمد علی دوبارہ "ہمدرد" جاری کرنے کے انتظامات کر رہے تھے، بھائی ابو محمد صاحب مرحوم نے مجھے رائے دی کہ میں اس کے ادارہ سے وابستہ ہو جاؤں۔ اس سے پہلے میں متعدد اخباروں میں کام کر چکا تھا۔ میں نے بھی اس کو غنیمت سمجھا کہ مجھے مولانا محمد علی جیسے شخص کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے، چنانچہ میں بھائی صاحب کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ یہ میری ان کی پہلی ملاقات تھی۔ ایک بزرگ اپنے چھوٹے کے ساتھ جس محبت و شفقت کے ساتھ پیش آسکتا ہے اس سے کچھ زیادہ ہی محبت و شفقت مجھے محمد علی کی طرف سے ملی، کیونکہ وہ ہر معاملہ میں بالخصوص دوستی و محبت کے معاملہ میں بہت زیادہ انتہا پسند تھے، چنانچہ اس کے بعد بارہا ان کی خدمت میں حاضری کا موقع ملتا رہا۔ اور ہمیشہ یہ محسوس ہوا کہ ایک بڑے لیڈر سے نہیں بلکہ اپنے بڑے بھائی سے مل رہا ہوں۔

ابھی "ہمدرد" کے اجراء کے انتظامات ہی ہو رہے تھے کہ میں نے اس سے وابستہ ہونے کا ارادہ ترک کر دیا۔ دراصل چند ہی روز بعد میں نے محسوس کر لیا تھا کہ فکری ہم آہنگی، جذباتی عقیدت اور سیاسی معاملات میں تمام تر اتفاق رائے کے باوجود میرا اور ان کا نباہ نہیں ہو سکتا۔ ان کی "مہر پدر" میں جو "پدر" بھی شامل تھا، اور وہ بھی پوری شدت اور انتہا پسندی کے ساتھ۔ میری پرورش جس ماحول میں ہوئی تھی اس نے خود میرے مزاج اور افتاد طبع کا بھی ایک نہ ٹوٹنے والا سانچہ بنا دیا تھا۔ اگر ساتھ رہتا تو اندیشہ تھا کہ یہ سانچہ ٹوٹ نہ جائے، لہذا میں نے فیصلہ کر لیا کہ "ہمدرد" کے عملہ ادارت سے وابستگی نہیں اختیار کروں گا، البتہ اس سے باہر رہ کر جو خدمت بھی اس بطل جلیل کی بن آئے گی کروں گا۔اتفاق کی بات اسی زمانہ میں جمعیتہ علمائے ہند کو اپنے آرگن روزنامہ "الجمعیّتہ" کے لیے ایک ایڈیٹر کی ضرورت پیش آئی۔ ہندستانی سیاست کا داخلی اور خارجی اعتبار سے یہ بڑا اہم اور نازک دور تھا۔ ارباب جمعیتہ کو ایسے ایڈیٹر کی تلاش تھی جو واقعات و مسائل اور حوادث افکار پر اپنے اداریوں میں جن خیالات کا اظہار کرے ایک طرف وہ جدی معیار صحافت پر اپنے عمق کے اعتبار سے پورے اترتے ہوں۔ دوسری طرف مذہبی نقطہ نظر بھی پورے توازن کے ساتھ ان میں سمویا ہوا ہو۔ اس مقصد کے لیے ارباب جمعیتہ کی نگاہ انتخاب مجھ پر پڑی کیونکہ وہ پہلے سے مجھ پر اعتماد رکھتے تھے۔ اور میں ۱۹۲۲ء-۱۹۲۳ء میں ان کے اخبار "مسلم" کا ایڈیٹر رہ چکا تھا۔ اور میں نے بھی "ہمدرد" کے بجائے "الجمعیّتہ" کی پیش کش قبول کرنے کو ترجیح دی، کیونکہ یہاں میں خود پرچہ کو چلانے کا ذمہ دار تھا، کسی دوسرے کی ماتحتی میں مجھے کام کرنا نہ تھا۔ ۱۹۲۷ء سے ۱۹۳۰ء تک یہ ذمہ داری انجام دیتا رہا۔ اس عرصہ میں برابر محمد علی سے استفادہ کا، ان سے فیض صحبت حاصل کرنے کا اور ان کی شخصیت کو بہت زیادہ قریب سے دیکھنے کا مجھے موقع ملا۔

لیڈروں سے یہ دنیا نہ کبھی خالی رہی ہے نہ رہے گی۔ لیکن اس درویش خدا مست کی قیادت کی شان ہی کچھ اور تھی۔ پھر اس کے بعد آج تک مسلمانوں میں کوئی لیڈر ایسا نہیں آیا جو سیاسی بصیرت کے ساتھ ایسا گہرا دینی جذبہ بھی رکھتا ہو اور اپنی دینداری سے اپنی تحریک کے کارکنوں میں بھی دینی روح پھونکنا  سکھا سکتا ہو۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ "الجمعیّتہ" نے میرے دور ادارت میں ہمیشہ پورے خلوص اور استقلال و استقامت کے ساتھ محمد علی کی ہمنوائی کی۔ مخالفوں کی یلغار میں اس کا ساتھ دیا۔ جب اس پر تیروں کی بارش ہوتی تھی تو اس کی ایک ڈھال "الجمعیّتہ" بھی ہوتا تھا۔

محمد علی کا سا عظیم غلام ہندوستان نے شاید کوئی نہیں پیدا کیا۔ وہ گدائے بے نوا تھا، لیکن آغا خاں اور مہاراجہ محمود آباد اس کے حضور میں جھک کر آتے تھے۔ وہ اقلیت کا ایک فرد تھا لیکن اکثریت کا سب سے بڑا لیڈر گاندھی اس کی جیب میں تھا۔ اور پٹیل، موتی لال، جواہر لال، راجندر پرشاد وغیرہ تو اس سے دوسرے ہی درجہ پر تھے۔ وہ ایک غلام ملک کا باشندہ تھا، لیکن دنیا کی سب سے بڑی سامراجی حکومت اس سے ڈرتی تھی۔ وہ بڑی آسانی سے انگریزی دور میں کم از کم وائسرائے کی ایگزیکٹو کونسل کا ممبر تو بن ہی سکتا تھا، لیکن ان مناصب عالیہ پر اس نے کبھی نگاہ غلط انداز ڈالنا بھی گوارا نہ کیا۔ اس کی زندگی کا مقصد منہاج خلافت راشدہ پر خلافت کا قیام تھا۔ وہ پابندی سے نماز پڑھتا تھا۔ پابندی سے روزے رکھتا تھا۔ ذات رسالت مآب سے اس کے عشق اور شیفتگی کی یہ کیفیت تھی کہ:

"جب نام تیرا لیجئے تب اشک بھر آئے"اس کی دوستی بھی اللہ کے لیے تھی۔ اور دشمنی بھی اللہ کے لیے۔ اسی لیے وہ دوستوں کو دشمن اور دشمنوں کو دوست بناتا رہتا تھا۔ وہ بغاوت کے جرم میں جیل بھی گیا اور اس جرم میں پھانسی کا مشتاق بھی رہا۔ خود ہی کہتا ہے:

"مستحق دار کو حکم نظر بندی ملا"--"کیا کہوں کیسی رہائی ہوتے ہوتے رہ گئی"

مولانا محمد علی کا ایک معمول یہ تھا کہ ہر جمعہ کو نماز کے بعد جامع مسجد میں اس چبوترے پر جو صحن میں تھا کھڑے ہو کر حالات حاضرہ پر تقریر کیا کرتے تھے۔ میں ان کی یہ ہفتہ وار تقریر پابندی سے سنتا تھا۔ اور مجھے اس حقیقت کے اظہار میں کوئی تامل نہیں کہ ان تقریروں سے میں نے فکری طور پر بہت فائدہ اٹھایا۔ اور یہی وجہ تھی کہ ایک سامع کی حیثیت سے شاید ہی اپنے دورانِ قیام دہلی میں کوئی تقریر میں نے ناغہ کی ہو۔

۱۹۲۶ء میں سوامی شردھانند کو ایک مسلمان نے قتل کر دیا۔ یہ بڑا المناک حادثہ تھا۔ ہندو مسلم اتحاد کی بنیادیں ویسے ہی ایک عرصہ سے ہل رہی تھیں۔ اب تقریباً منہدم ہو گئیں۔ ہر طرف سے مسلمانوں پر حملے ہونے لگے کہ یہ متعصب ہیں، وحشی ہیں، خون آشام ہیں۔ حتیٰ کہ گاندھی جی تک بے ساختہ کہہ اٹھے کہ مسلمانوں کی سرشت میں خونریزی شامل ہے۔مولانا محمد علی مسلسل اپنی تقریروں میں اسلام کا دفاع کرتے رہے۔ مستشرقین فرنگ اور متعصبین ہند کا جواب اپنے مبلغ علم کے مطابق دیتے رہے۔ ایک روز انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا:"کاش کوئی شخص اسلام کے خلاف افترا پردازیوں کا جواب دلائل و براہین کے ساتھ کتاب و سنت کی روشنی میں لکھ کر اسلام کے جہاد کی حقیقت دنیا کے سامنے آشکارا کر سکے"وہیں بیٹھے بیٹھے میرے دل میں خیال آیا:

"وہ شخص میں ہی کیوں نہ بن جاؤں"واپس آکر میں نے اس موضوع سے متعلق جتنی بھی معتبر اور مستند کتابیں فراہم ہو سکتی تھیں جمع کیں اور چند روز بعد "الجمعیّتہ" میں "الجہاد فی الاسلام" کے عنوان سے ایک سلسلہ مقالات شروع کر دیا۔ جب اس کے چوبیس نمبر شائع ہو چکے تو میں نے محسوس کیا کہ موضوع اتنا اہم ہے کہ مقالات کا متحمل نہیں ہو سکتا، یہ ایک مستقل تصنیف کا طالب ہے۔ چنانچہ میں نے دو تین سال کی تحقیق و مطالعہ کے بعد اس نام سے ایک کتاب مکمل کر لی۔ جس کا پہلا ایڈیشن دار المصنفین اعظم گڑھ سے مولانا سید سلیمان ندوی نے شائع کیا تھا۔ بعد میں مزید اضافوں اور نظر ثانی کے بعد میں نے خود اسے شائع کیا۔

۱۹۳۰ء میں حق اور سچائی پر ہونے کے باوجود محمد علی بالکل یکہ و تنہا رہ گئے۔ گاندھی جی اور جواہر لال کی قیادت میں کانگریس نے ان کے خلاف زبردست مورچہ قائم کر لیا تھا۔ زندگی بھر کے ساتھی جنہیں انہوں نے لیڈر بنایا تھا، ان کا ساتھ چھوڑ کر کانگریس سے جاملے تھے۔ اور مل ہی نہیں گئے تھے بلکہ محمد علی کی سیاست ہی نہیں بلکہ ان کے خلوص و دیانت پر بھی حملے کر رہے تھے۔ محمد علی ان سب سے لڑ رہے تھے۔ وہ بیمار تھے۔ دل کے بار بار حملے ہوتے تھے۔ ذیابیطس نے نڈھال کر دیا تھا۔ ساتھیوں کی بے وفائی نے زندگی سے بددل کر دیا تھا۔ اسی حالت میں وہ بھوپال آئے۔ وزیر ریاست شعیب قریشی کے ہاں جو ان کے داماد بھی تھے، ٹھہرے، لیکن نواب حمید اللہ خاں نے زبردستی اپنا مہمان بنایا۔ میں بھی اسی زمانہ میں بیمار ہو کر اپنے بڑے بھائی کے ہاں گیا ہوا تھا۔ محمد علی بستر علالت پر دراز تھے۔ اور یہی بستر علالت ان کے لیے بالآخر بستر مرگ ثابت ہوا۔ میں اکثر ان کی خدمت میں پہنچ جاتا اور وہ افسانہ غم دل لے کر بیٹھ جاتے۔ یہ افسانہ غم دل سن کر غیروں کا دل دو نیم ہو جاتا تھا تو خود ان پر کیا کچھ نہ گزر رہی ہوگی۔ انہیں اپنی بیماری کی فکر نہ تھی۔ اپنے چہیتے اور پرانے ساتھیوں کی بے وفائی کا اتنا غم نہ تھا، جتنی یہ فکر جتنا یہ دھڑکا کہ ملت اسلامیہ اس بھنور سے کس طرح صحیح سلامت نکلے گی؟یہی چیز تھی جس نے انہیں مجبور کر دیا کہ بستر مرگ پر لندن جائیں۔ گئے اور وہاں جا کر اعلان کیا کہ اگر آزادی نہ ملی تو غلام دیس میں زندہ واپس نہیں جائیں گے۔ آزادی نہیں ملی اور نہ غلام دیس کی خاک نے انہیں اپنی طرف کھینچا، لیکن:"خاک قدس اور بآغوش تمنا در گرفت"

"رفت در فردوس زاں رہا ہے کہ پیغمبر گذشت"

نہ جانے کہ اقبال کا یہ بہترین مرثیہ اُن کے مجموعہ کلام میں کیوں نہیں شامل کیا گیا؟

محمد علی کی موت پر سب روئے، دوست بھی اور دشمن بھی اور آنسو سب کی چشم دل سے ٹپکے تھے۔ جن لوگوں کو محمد علی سے، ان کی سیاست سے اور ان کی صحافت سے اختلاف تھا وہ بھی محسوس کرتے تھے کہ محمد علی متحدہ ہندوستان کا انمول ہیرا تھا جسے موت نے چھین لیا۔

میرا یہ حال تھا کہ یہ خبر سنی تو ضبط گریہ ناممکن ہو گیا۔ کئی دن تک یہ عالم رہا کہ محمد علی کی یاد آئی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے اور ایسا دن میں کئی کئی مرتبہ ہوتا تھا۔ بہت دنوں کے بعد طبیعت سنبھلی لیکن اب تک یہ کیفیت ہے کہ جب محمد علی کا ذکر چھڑتا ہے، اس کا نام سنتا ہوں، اس کی کوئی تحریر نظر سے گزرتی ہے، تو دل میں عقیدت کا ایک گہرا جذبہ بیدار ہو جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے حال پچھلے قدموں دوڑتا ہوا ماضی میں پہنچ گیا ہے اور وہ مجاہد صف شکن مصروف جہاد ہے۔ برطانوی استعمار سے بھی، ہندو سامراج سے بھی اور رفیقان گریز پا سے بھی۔ وہی فگار جسم لیکن وہی تیور، وہی دبدبہ۔ اللہ اس پر رحمت کرے۔ "اللہ ہم میں پھر کوئی محمد علی پیدا کر دے کہ جتنی محمد علی جیسے لیڈر کی آج ضرورت ہے پہلے نہ تھی"۔