اسلاف کا تقوی

مصنف : شیخ الحدیث مولانا محمد زکریاؒ

سلسلہ : چھوٹے نام بڑے لوگ

شمارہ : اگست 2006

ان بزرگوں کے نام پر پلنے والے اہل مدرسہ کے لیے بطور خاص۔موجودہ اہل مدرسہ کی زندگی اوران کے اخلاف کے زندگی کا تقابل کرتے ہوئے اگر کوئی یہ کہے کہ زاغوں کے تصرف میں ہیں عقابوں کے نشیمن، تو بے جا نہ ہو گا۔

 

            حضرت مولانا مظفر حسین صاحب کے متعلق مشہور یہ ہے کہ جب وہ کسی سواری کا کرایہ کرتے تو مالک کو چیزیں دکھلا دیا کرتے تھے اگر بعد میں کوئی خط بھی لاتا تو فرماتے کہ بھائی میں نے سارا اسباب مالک کودکھا دیاہے اور یہ اس میں سے نہیں لہذا تم مالک سے اجازت لے لو۔

            حضرت مولانا الحاج احمد علی صاحب محدث سہارنپوری (محشی بخاری شریف) کاواقعہ آپ بیتی میں کسی جگہ لکھوا چکا ہوں کہ حضرت کا قیام چونکہ ہمیشہ کلکتہ رہا۔کلکتہ اور اس کے نواح کے لوگ حضرت سے واقف تھے اس لیے مدرسہ مظاہرالعلوم کے چندہ کے لیے حضرت نے کلکتہ کا سفرفرمایا۔اور سفر سے واپسی پر سفر خرچ کے ایک ایک پیسے کا حساب درج تھا۔ اس حساب کو میں نے خود بھی پڑھا ہے ۔ جن کے اکابر کی یہ احتیاط ہو ان کے اصاغر کی بے التفاتیاں انتہائی موجب قلق ہیں۔اس حساب کے اخیر میں ایک نوٹ یہ بھی تھا کہ کلکتہ سے فلاں جگہ میں اپنے ایک دوست سے ملنے کی غرض سے گیا تھا۔اگرچہ وہاں چندہ اندازہ سے زیادہ ہوا لیکن میرے سفر کی غرض چندہ کی نیت سے جانے کی نہیں تھی اس لیے اتنی مقدار سفر کلکتہ سے وضع کر لیا جائے۔

             حضرت مولانا محمد مظہر صاحب نور اللہ مرقدہ جن کے نام نامی پر مدرسہ کا نام مظاہرالعلوم ہے ۔ مدرسہ کے اوقات میں جب کوئی مولانا قدس سرہ کا عزیز ذاتی ملاقات کے لیے آتا تو اس سے باتیں شروع کرتے وقت گھڑی دیکھ لیتے اور واپسی پر گھڑی دیکھ کروقت نوٹ فرما لیتے۔ حضرت کی کتاب میں ایک پرچہ رکھا رہتا تھا۔اس پر تاریخوں اور منٹوں کا اندراج فرمالیتے اورماہ کے ختم پر ان کو جمع فرما کر اگر نصف یوم سے کم ہوتاتو آدھ روز کی رخصت اور اگر نصف یوم سے زائد ہو تو ایک روز کی رخصت مدرسہ میں لکھوا دیتے۔البتہ اگر کوئی فتویٰ وغیرہ پوچھنے آتاتھا تو اس کا اندارج نہیں فرماتے تھے۔

             حضرت سہارنپوری نو ر اللہ مرقدہ ۳۴ھ میں یک سالہ قیام حجاز کے بعد جب سہارنپور تشریف لائے تو یہ کہہ کر مدرسہ کی تنخواہ بند کر دی تھی کہ میں اپنے ضعف و پیری کی وجہ سے مدرسہ کا پورا کام انجام نہیں دے سکتا۔ اب تک تو چونکہ مولانا محمد یحییٰ صاحب میری جگہ اسباق پڑھاتے تھے اور تنخواہ نہیں لیتے تھے وہ میرا ہی کام سمجھ کر کرتے تھے اور میں اور وہ دونوں مل کر ایک مدرس سے زیادہ کام کرتے تھے ۔ اب چونکہ ان کا انتقال ہوچکا ہے اور میں مدرسہ کی تعلیم کا پوراکام نہیں کرسکتا۔ اس لیے قبول تنخواہ سے معذور ہوں۔ حضرت سہارنپوری نور اللہ مرقدہ جب تک سبق پڑھاتے رہتے تب تک تو مدرسہ کے قالین پر تشریف فرما رہتے تھے لیکن جب سبق کے بعد اپنے اعزہ میں سے کسی شخص سے بات شروع کرتے تو قالین سے نیچے اترآتے اور فرماتے کہ مدرسہ نے یہ قالین ہمیں سبق پڑھانے کے لیے دیا ہے ذاتی استعمال کے لیے نہیں۔ مدرسہ میں حضرت کی چارپائیاں مستقل علیحدہ رہتی تھیں۔مدرسہ کی چارپائی یا بستر پر میں نے آرام فرماتے یا بیٹھتے نہیں دیکھا ۔ مدرسہ کے سالانہ جلسوں میں مدرسہ کے جملہ اکابر حتی کہ جو صاحب مطبخ میں مہانوں کی دیگیں پکواتے تھے وہ بھی دیگ کا نمک خود نہیں چکھتے تھے، بلکہ کسی مہمان یا طالب علم سے چکھواتے تھے جملہ اکابر مدرسین منتظمین جو شب ورروز مدرسہ کے کام میں ہمہ وقت مشغول رہتے۔لیکن مدرسہ کا کھانا تو در کنار مدرسہ کی چائے یا پان بھی یہ حضرات استعمال نہیں کرتے تھے۔

            ہمارے مدرسہ کے مہتمم مولانا عنایت الہٰی صاحب کے پاس دفتر میں دو قلم دان تھے ایک مدرسہ کا ، دوسرا اپنا ذاتی۔ ذاتی قلم دان میں چھوٹے چھوٹے پرچے بھی پڑے رہتے تھے اپنے گھر یا ذاتی کام کے لیے پرچہ لکھنا ہوتا تو مدرسہ کے قلم دان یا مدرسہ کے کاغذ پر نہیں لکھتے تھے۔

             میرے والد صاحب نور اللہ مرقدہ کا کھانا اس زمانہ میں بازار سے آیا کرتا تھا کہ میری والدہ یہاں مستقل مقیم نہیں تھیں اور مدرسہ کا مطبخ اس وقت تک جاری نہیں ہوا تھا۔قرب وجوار میں کوئی طباغ کی دوکان بھی نہیں تھی ۔ جامع مسجد کے بازار میں مسجد فرخ کے سامنے اسماعیل نامی طباغ کے یہاں سے کھانا آتا تھا جوشام کو مدرسہ آتے آتے بالکل جم جاتا تھا۔میرے والد صاحب سالن کے برتن کو مدرسہ کے حمام کے قریب حمام سے باہر رکھ دیتے تھے اورجب وہ نیم گرم ہو جاتا تو نوش فرما لیا کرتے تھے اس پر بھی دو ، تین روپے ہر ماہ چندہ کے نام سے اس دُور کی آگ کے انتفاع کی وجہ سے دیا کرتے تھے۔

            حضرت مولانا محمد منیر صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند ، ایک مرتبہ مدرسہ کے ڈھائی سو روپے لے کر مدرسہ کی سالانہ روداد طبع کرانے کے لیے دہلی تشریف لے گئے ۔ اتفاق سے روپے چوری ہوگئے ۔ مولوی صاحب نے اس چوری کی کسی کو اطلاع نہیں کی اور مکان آکر اپنی کوئی زمین وغیرہ بیع کی اور ڈھائی سو روپے لے کر دہلی پہنچے اور کیفیت چھپواکر لے آئے۔ کچھ دنوں کے بعد اس کی اطلاع اہل مدرسہ کو ہوئی۔ انہوں نے مولانا گنگوہی کو واقعہ لکھا اور حکم شرعی دریافت کیا ۔وہاں سے جواب آیا کہ مولوی صاحب امین تھے اور روپیہ بلا تعدی کے ضائع ہوا ہے اس لیے ان پر ضمان نہیں۔ اہل مدرسہ نے مولانا محمد منیر صاحب سے درخواست کی کہ آپ روپیہ لے لیجیے ۔ اور مولانا کا فتویٰ دکھلا دیا۔ مولوی صاحب نے فتویٰ دیکھ کر فرمایا کہ کیا میاں رشید احمد نے فقہ میرے ہی لیے پڑھا تھا ۔ اور کیا یہ مسائل میرے ہی لیے ہیں ذرا اپنی چھاتی پر ہاتھ رکھ کر تو دیکھیں۔ اگر ان کو ایسا واقعہ پیش آتا تو کیا وہ بھی روپیہ لے لیتے ۔ جاؤ لے جاؤ اس فتویٰ کو ۔ میں ہرگز دو پیسے بھی نہ لوں گا۔ (بحوالہ ‘آپ بیتی’ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا)