ج: حق و باطل کی جو کشمکش رسول اللہ ﷺ کے ذریعے سے عرب میں برپا ہوئی اس میں ایک موقع ایسا بھی آیا تھا کہ جس میں اولاد کا رویہ بالکل اور تھا اور بیویوں کا بالکل اور ۔ وہ نہ صرف دشمنی پر ادھار کھائے بیٹھی تھیں بلکہ اپنے شرک پر اصرار بھی کر رہی تھیں۔ اس پس منظر میں اللہ تعالی نے کچھ ہدایات دی ہیں ۔یہ جوفرمایا کہ مال اور اولاد فتنہ اور آزمائش ہیں تو یہ بطور مقدمہ ہے اور بڑی بے نظیر بات ہے۔ضروری ہے کہ انسان ہمیشہ اس بات کو ملحوظ رکھے کہ اللہ نے یہ دنیافرحت اور آسائش کے اصول پر نہیں بنائی بلکہ آزمائش کے اصول پر بنائی ہے ۔اصولی بات یہ ہے کہ انسان اپنی اولاداور اپنی بیویوں کو آزمائش سمجھے۔جب انسان آزمائش سمجھے گا تو اس کا رویہ بالکل دوسرا ہو جائے گا ۔پھروہ ہٹ دھرمی نہیں کرے گا ،ضد نہیں کرے گا۔ بلکہ خدا کا امتحان سمجھ کر اس کے سامنے سر جھکانے کی پوری کوشش کرے گا۔رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں حق و باطل کی جو کشمکش برپا ہو گئی تھی اس کشمکش میں ان عورتوں کا مشرکین سے رشتہ داری کا تعلق تھا یعنی وہ ان کی بیٹیاں اور بہنیں تھیں ۔اس پس منظر میں مسلمانوں سے یہ کہا گیا کہ کیونکہ یہ دشمنوں کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہیں اور بیوی بچے ہونے کی وجہ سے تمہارے ساتھ بھی تو تم اپنے ایمان کے معاملے میں محتاط رہنا۔ یعنی ایمان کے معاملے میں احتیاط سے کام لیناہے البتہ ان سے دشمنی نہیں بلکہ عفوو درگزر سے کام لینا ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: سیدّنا ابراہیمؑ کا یہ استفسار قرآن میں نقل ہوا ہے کہ کسی موقع پر انہوں نے پروردگار کی خدمت میں عرض کیا کہ بعث بعد الموت کے بارے میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیسے ہو گا۔ اللہ نے ان سے پوچھاکہ آپ ایمان نہیں رکھتے ۔علم و عقل کی بنیاد پر تو ان کا ایمان تھاہی ، انہوں نے کہا کہ ایمان میں تو کوئی ترددنہیں ہے بس مشاہدے سے جو قلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے اس کی خواہش ہے ۔ یہ سار ا واقعہ جس سیاق و سباق میں آیا ہے وہاں یہ زیر بحث ہے کہ اللہ حق کے سچے طالبوں کے لیے کیسے راہیں کھولتا ہے۔ یعنی آدمی اگر حق کا سچا طالب ہو تو اللہ اس کی مدد کیسے کرتے ہیں اور اگر اس کے سوالات کے پیچھے سرکشی ہو تو پھر اللہ اس کوکس مقام پر پہنچاتے ہیں ۔ سورہ بقرہ شروع سے لے کر اس مقام تک بنیادی طور پر یہ بتا رہی ہے کہ گمراہی اور ہدایت ان دونوں کوپانے کے لیے انسان کو کیا کرنا ہے۔یعنی اس بات کا قانون بیان کر رہی ہے۔اس موضوع کے خاتمے پر یہ بات آئی ہے کہ سیدنا ابراہیم ؑ نے جب اطمینان قلب کے لیے سوال کیا تو اس میں تردد ، سرکشی ، گریزکچھ بھی نہیں تھا۔ اس صورت حال میں اللہ نے انہیں کیسے مطمئن کیا اور جب یہی معاملہ سرکش لوگوں کے ساتھ پیش آیا جیسے نمرود تو اللہ نے وہاں کیا معاملہ کیا ۔ حق کے سچے طالب کو اللہ کیسے مطمئن کرتے ہیں اور جو آدمی حق کا سچا طالب نہ ہو بلکہ ہٹ دھرمی،ضد اور سرکشی پر کھڑا ہو تو اس کے ساتھ اللہ کیا معاملہ کرتے ہیں۔ اس سارے پس منظرمیں یہ بیان ہوا ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی واضح کر دی کہ قیامت میں لوگ پورے شعور کے ساتھ آئیں گے جس طرح کہ پرندے کہ وہ پہلے سے مانوس تھے تو دوبارہ زندگی پانے پر وہ اپنے پہلے شعور کے ساتھ آئے ۔اسی طرح انسان بھی پورے شعور کے ساتھ زندہ ہونگے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: شادی بیاہ کے بار ے میں اسلامی قانون یہ ہے کہ شادی اصل میں لڑکے اور لڑکی کا فیصلہ ہوتا ہے ۔ ایک مرد و عورت جب ہوش و حوا س میں یہ فیصلہ کر لیتے ہیں تو ماں باپ اس فیصلے کو باطل نہیں کر سکتے ۔اسلام نے اس کے لیے کوئی خاص رسوم بھی مقرر نہیں کیں۔ ایک لڑکا اور لڑکی اگر کھڑے ہو کر اعلانیہ یہ کہہ دیں کہ آج سے ہم میاں بیوی ہیں تو اس فیصلے کو کالعدم نہیں کیا جا سکتا۔ شادی کے موقعے پر قبول کون کرتا ہے والد صاحب یا لڑکا؟یہ ڈرامہ نہیں ہوتا بلکہ اس قانونی فیصلے کا اظہار ہوتا ہے کہ قبولیت کا اختیار خدا نے کس کو دیا ہے ۔ اصلاً تو یہ اختیار لڑکے اور لڑکی کا ہے ،اصولی اور قانونی بات یہی ہے ۔اس میں کسی کو رکا وٹ ڈالنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔البتہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہماری ایک معاشر ت اور ایک تہذیب ہے۔ اس میں ہماری یہ خواہش ہوتی ہے کہ چونکہ ایک نیا خاندان بننا ہے لہذااس میں ماں باپ، بہن بھائی اور دوسرے قریبی اعزاواقربا بھی شریک ہوں۔ان کی شرکت ہی سے اصل میں حسن پیدا ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آخر آپ لڑکی کو بیاہ کر لائیں گے تو کہاں لے جائیں گے ۔ مریخ پر تو نہیں رکھیں گے ۔ اس نے ایک خاندان کا حصہ بننا ہے ، جب خاندان کا حصہ بننا ہے تو کوشش ہونی چاہیے کہ خاندان راضی ہو کم از کم والدین ۔ خوشی کے ساتھ یہ تقریب منعقد ہو ۔اس کے بغیر معاشرت کا حسن ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ ایک قانونی اختیار ہے ایک دینی اختیار ہے اور ایک چیز ہماری معاشرت کی خوبی ہے ۔اس خوبی کو بھی برقرا ر رہنا چاہیے۔ اس کے لیے آپ احسن طریقے سے پورے گھر کو قائل کریں۔والدین بھی اپنی ذمہ داری نبھانے کی کوشش کریں اور احسن طریقے سے رشتے کی خامی خوبی بچوں پرواضح کریں اس کے بعد فیصلہ ان کی مرضی پر چھوڑ دیں۔دوسری طرف اولاد کو بھی چاہیے کہ قرآن وسنت میں والدین کی رضا اوراطاعت کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے اسے مدنظر رکھے اگر طرفین یہ چیزیں مد نظر رکھیں گے تو میرے خیال میں توازن خود بخود قائم ہو جائے گا کسی کو بھی انا کامسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: نماز کے دو حصے ہیں ، ایک حصہ وہ ہے جس کو امت کے لیے جاری کر دیا گیا ہے جس میں نہ کوئی اختلاف کیا جاسکتا ہے اور نہ ہے ۔ اس میں کچھ اعمال ہیں اور کچھ اذکار ہیں ۔اعمال یہ ہیں کہ آپ رفع یدین کے ساتھ نماز شروع کریں گے۔ قیام کریں گے ، رکوع میں جائیں گے ، قومے کے لیے اٹھیں گے ، دو سجدے کریں گے ، دو رکعتوں کے بعد اور آخری رکعت میں قعدے میں بیٹھیں گے ۔سلام پھیر کر نماز ختم کر دیں گے ۔یہ اعمال ہیں جو جاری کیے گئے ہیں ۔اور اذکار جوجاری کیے گئے ہیں و ہ یہ ہیں کہ خفض و رفع پر اللہ اکبر کہیں گے ۔ رکوع سے اٹھتے ہوئے سمع اللہ کہیں گے اوراٹھنے پر سمع اللہ ہ لمن حمدہ کہیں گے اور نماز ختم کرتے ہوئے السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہیں گے ۔ سورہ فاتحہ پڑھیں گے اس کے بعد قرآن ملائیں گے یہ اذکار ہیں جو جاری کر دیے گئے ہیں ۔ یہ نماز وہ نماز ہے جس میں کبھی پوری امت میں اختلاف نہ ہوا ہے ، نہ ہے ۔اور اس نماز کو جو آدمی پڑھتا ہے وہ نماز کا حق ادا کر دیتا ہے ۔ اس کے بعد نماز کا اختیاری حصہ ہے جس میں حضور نے ہم کو یہ تعلیم دی ہے کہ اس عبادت کو بہتر سے بہتر کرنے کے لیے بہت سے کا م کیے جا سکتے ہیں ۔آپ دعائیں کر سکتے ہیں ۔ جو دعائیں بھی اللہ آپ کو توفیق دے ۔ آپ رکوع اور سجدے میں تسبیحات کر سکتے ہیں اوردعائیں بھی کر سکتے ہیں۔ آپ انہیں دونوں مقامات پر اللہ کے سامنے گڑ گڑا کر جو کہنا چاہتے ہیں کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح آپ قعدے میں دعائیں کر سکتے ہیں ۔جو جی چاہے آپ دعا کر سکتے ہیں ، اس میں کوئی پابندی نہیں ہے ۔تسبیح اور تحمید جس موقع پر چاہیں کر سکتے ہیں۔ اسی طرح قیام میں سورہ فاتحہ اور قرآن ملانے کے بعد دعا کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں ۔ آپ قومے میں دعا کر سکتے ہیں ، دو سجدوں کے درمیان دعا کر سکتے ہیں ۔یہ اختیاری حصہ ہے ۔لیکن جو نماز آپ کے لیے لازم ہے اس کے جو اعمال و اذکار ہر حال میں ادا کرنے ہیں وہ میں نے آپ کو بتا دیے ہیں ۔ ہمارے ہاں نماز کے بارے میں جو بحثیں ہوتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اختیاری اور لازمی حصے میں فرق نہیں سمجھا گیا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: پہلے تو چیلنج کی نوعیت سمجھ لیجیے کہ کیا ہے ۔ مسئلہ اصل میں یہاں سے پید ا ہوا کہ قریش میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ یہ تو ہماری ہی طرح کا ایک شخص ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ خود ہی گھڑ کر یہ کلام پیش کر دیتے ہیں۔ تو قرآن مجید نے کہا کہ نہ ہی یہ شاعر ہے اور نہ ہی ادیب ۔ کہیں مشق سخن نہیں کی ، ایک عام انسان کی مانند زندگی بسرکی۔ اگر یہ بغیر کسی تیاری اور بغیر کسی پس منظر اوربغیر کسی استاد کی اصلاح کے ایسا اعلی کلام پیش کرسکتے ہیں توتم بھی اٹھو ،پیش کر دو۔ اگر اتنا ہی آسان کا م ہے توکرو لیکن تم نہیں کر سکو گے۔جس چیز کو قرآن نے اپنے لیے بڑی عظمت کی چیز قرار دیا ہے وہ قرآن مجید کی شان کلام ہے ۔ قرآن اپنے اسلوب ،اپنے ادب اور اپنی بات کے لحاظ سے ایک شاہانہ کلام ہے ۔اس لحاظ سے یہ بے مثل اور بے نظیر ہے۔ قرآن صدیوں سے دنیا میں موجود ہے اور جرمن، فرنچ، انگریزی اور عربی لکھنے والے بھی موجود ہیں۔ لیکن کوئی کلام پیش نہیں کیا جا سکا اگر کسی میں ہمت ہے تو کر دے ۔ جولوگ عام طور پر اس طرح کا دعوی کرتے ہیں وہ قرآن کی نقل کی کوشش کرتے ھیں نہ کہ قرآن کی مثل لانے کی۔اور جب نقل کی توگویا مان لیا کہ قرآن اصل ہے ۔نقل تیار کرنا اس کا مثل پیش کرنا نہیں ہوتا ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ نے سرنڈر کر دیا اس کے سامنے یعنی آپ کے نزدیک بھی برتر اور اعلی ترین چیز یہی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: مومن کا مطلب یہ ہے کہ جو ہدایت پانے اورماننے کے لیے تیار ہو۔سر کش، ہٹ دھر م نہ ہو۔ حق کا سچا طالب ہو علم و عقل سے بات سمجھ میں آجائے تو اس کے سامنے سرنگوں ہو جاتا ہو۔ یہ بندہ مومن ہے ایسا آدمی کو اللہ ہدایت دے گا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: مفسر بننا یا دین کا عالم بننا باعث اجر نہیں بلکہ باعث اجر یہ ہے کہ جس میدان کا آپ نے انتخاب کیا ہے اس میں آپ کارویہ کیا ہے؟ آپ نے کس حد تک اس کا حق ادا کیا ہے اور اس میدان میں کس حد تک اللہ کے احکام کے آگے سر نگوں کیا ہے اور اس کو کس حد تک مخلوق خداکی خدمت کے لیے استعمال کیا ہے اور کس حدتک اس کے غلط استعمال سے پرہیز کیا ہے۔ قیامت کا فیصلہ اس پر ہو گا۔ کسی انسان کوخدا نے سائنس دان بننے کی صلاحیت دی کسی کو شاعر اور ادیب بننے کی ۔تو اسی کے لحاظ سے معاملہ ہو گا۔ عالم بننا تو بہت بڑی ذمہ داری ہے ۔اسی نسبت سے اتناہی بڑا امتحان ہو گا۔ ایسا نہیں ہے کہ قیامت میں ایک ریڑھی لگانے والا یا ایک پھل بیچنے والا پیچھے رہ جائے گا اورمفسر محدث یاعالم آگے نکل جائے گا۔ ہو سکتاہے کہ یہ لوگ قیامت میں بڑے بڑے مفسرین سے آگے کھڑے ہوں۔ جتنا زیادہ علم ہو گا اسی لحاظ سے پرسش بھی زیادہ ہو گی
(جاوید احمد غامدی)
ج: ایمان کی کمزوری سے زیاد ہ یہ نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے ۔تہجد میں اٹھ جانا اس بات کی علامت ہے کہ انسان کاایمان کمزور نہیں ھے ۔ خواتین چونکہ اپنی طبیعت کے لحاظ سے کمزور ہوتی ہیں تو بعض اوقات اکیلے میں خوف آ سکتا ہے ۔اس کا ایمان کی کمزوری سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔انسان ایک کمزور مخلوق ہے اور ایک کمزور مخلوق کی حیثیت سے ایسی بہت سی صورتیں اس کو پیش آجاتی ہیں ۔اس میں گھبرانا نہیں چاہیے ۔ کچھ دیر تک جب آپ اٹھتی رہیں گی تو مانوس ہو جائیں گی ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: نبی ﷺ نے اس کو پسند نہیں کیا کہ لوگ قبریں پکی بنائیں۔نبی ﷺکی وفات حضرت عائشہ کے حجرہ میں ہوئی اور وہیں آپ کو دفن کر دیا گیا۔ عمارت وہاں پہلے سے بنی ہوئی تھی ۔ایسا نہیں ہواکہ بعد میں عمارت بنائی گئی البتہ وہ عمارت انقلابِ زمانہ کے ساتھ کمزور ہونا شروع ہوئی تو پھر دوبارہ کھڑی کر دی گئی۔ موجودہ گنبد والی عمارت ترکوں کے زمانے میں تعمیر ہوئی ۔یوں نہیں ہوا کہ باقاعدہ سے کوئی مزار بنایا گیا ہو۔ بلکہ ایک عمارت جو پہلے سے موجود تھی اس کو برقرار رکھا گیاہے ۔تو اس وجہ سے اس سے کوئی دلیل نہیں لائی جا سکتی۔، عمومی حکم وہی ہے کہ قبروں کو کچا رکھا جائے ۔
(جاوید احمد غامدی)