ج: سیدّنا ابراہیمؑ کا یہ استفسار قرآن میں نقل ہوا ہے کہ کسی موقع پر انہوں نے پروردگار کی خدمت میں عرض کیا کہ بعث بعد الموت کے بارے میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیسے ہو گا۔ اللہ نے ان سے پوچھاکہ آپ ایمان نہیں رکھتے ۔علم و عقل کی بنیاد پر تو ان کا ایمان تھاہی ، انہوں نے کہا کہ ایمان میں تو کوئی ترددنہیں ہے بس مشاہدے سے جو قلبی اطمینان نصیب ہوتا ہے اس کی خواہش ہے ۔ یہ سار ا واقعہ جس سیاق و سباق میں آیا ہے وہاں یہ زیر بحث ہے کہ اللہ حق کے سچے طالبوں کے لیے کیسے راہیں کھولتا ہے۔ یعنی آدمی اگر حق کا سچا طالب ہو تو اللہ اس کی مدد کیسے کرتے ہیں اور اگر اس کے سوالات کے پیچھے سرکشی ہو تو پھر اللہ اس کوکس مقام پر پہنچاتے ہیں ۔ سورہ بقرہ شروع سے لے کر اس مقام تک بنیادی طور پر یہ بتا رہی ہے کہ گمراہی اور ہدایت ان دونوں کوپانے کے لیے انسان کو کیا کرنا ہے۔یعنی اس بات کا قانون بیان کر رہی ہے۔اس موضوع کے خاتمے پر یہ بات آئی ہے کہ سیدنا ابراہیم ؑ نے جب اطمینان قلب کے لیے سوال کیا تو اس میں تردد ، سرکشی ، گریزکچھ بھی نہیں تھا۔ اس صورت حال میں اللہ نے انہیں کیسے مطمئن کیا اور جب یہی معاملہ سرکش لوگوں کے ساتھ پیش آیا جیسے نمرود تو اللہ نے وہاں کیا معاملہ کیا ۔ حق کے سچے طالب کو اللہ کیسے مطمئن کرتے ہیں اور جو آدمی حق کا سچا طالب نہ ہو بلکہ ہٹ دھرمی،ضد اور سرکشی پر کھڑا ہو تو اس کے ساتھ اللہ کیا معاملہ کرتے ہیں۔ اس سارے پس منظرمیں یہ بیان ہوا ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی واضح کر دی کہ قیامت میں لوگ پورے شعور کے ساتھ آئیں گے جس طرح کہ پرندے کہ وہ پہلے سے مانوس تھے تو دوبارہ زندگی پانے پر وہ اپنے پہلے شعور کے ساتھ آئے ۔اسی طرح انسان بھی پورے شعور کے ساتھ زندہ ہونگے ۔
(جاوید احمد غامدی)