قبر

ج: ایسی قبریں جن کی پرستش کا امکان ہو ان کو تو نبیﷺ نے بالکل برابر کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں یہ بات پیدا ہوئی کہ قبروں کے معاملے میں بالعموم احتیاط کی جاتی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آج تو ہم بنا دیں گے لیکن کیا معلوم کہ کل کو وہ بزرگ بن جائے ۔اس لیے اس میں احتیاط کرنی چاہیے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: انسان کے جسم کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ اس کا کیا حال ہوتا ہے لیکن اس کی اصل شخصیت کہاں جاتی ہے ، ہم نہیں جانتے ۔ قرآن نے بتایا ہے کہ وہ عالم برزخ میں ہوتے ہیں وہاں لے جا کر ان کو سلادیا جاتاہے۔ قبرستان میں ہم سلام اس لیے کرتے ہیں کہ یہ ایک دعا ہے ۔سلام کا جواب دینے کے بارے میں ہمارے پا س کوئی دلیل نہیں۔

(جاوید احمد غامدی)

جواب۔ دین میں زیارتِ قبور کی اجازت ہے۔ اس کے لیے ہمیں کسی طریقے کا پابند نہیں کیا گیا۔ بس یہ ہے کہ آدمی کے ہاں شرک و بدعات سے شعوری گریز کا رویہ ہونا چاہیے۔آپ قبر پر جا کر ‘السلام علیکِ یا والدتی’ کہیے پھر ان کے لیے دعائے مغفرت کیجیے اور خوب کیجیے۔ماں کی قبر کو بوسہ دینا ناجائز نہیں ہے، لیکن شرک و بدعات سے بچنے کے لیے ایسی چیزوں سے گریز ہی بہتر ہے۔

والدین کی مغفرت کے لیے اولاد بار بار اور زیادہ سے زیادہ دعائے مغفرت کر سکتی ہے اور یہ کوئی چھوٹا عمل نہیں ہے یہ بہت بڑا عمل ہے۔مزید یہ ہے کہ آپ اپنی والدہ کے ان نیک ارادوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں ،جنھیں وہ اگر انھیں موقع ملتا تو ضرور پورا کرتیں۔ایصالِ ثواب نہ کوئی دینی عمل ہے اور نہ اس کا کوئی طریقہ ہے۔اگر یہ کوئی دینی عمل ہوتا تو ہم اس کا ذکر اور اس کا طریقہ قرآنِ مجید میں لکھا ہوا پاتے یا کم از کم احادیثِ شریفہ ہی میں یہ بیان ہوا ہوتا۔اور پھر یہ بھی تو ہے کہ یہ صحابہ کرام کا معروف و معلوم عمل ہوتا۔لیکن آپ دیکھیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے اور بالکل نہیں ہے۔

(محمد رفیع مفتی)

ج: سجاناہی ہے تو دنیاکو سجائیے تا کہ یہ لوگوں کے رہنے کے لیے ایک اچھی جگہ بنے۔لیکن بعض اوقات آدمی کے جذبات ہوتے ہیں ۔ان جذبات میں اگر کوئی اپنے ماں باپ ،یابھائی بہن،یا بچے کی قبر پر دو پھول رکھ دیتا ہے تواس میں کوئی حرج نہیں ۔لیکن قبروں کے ساتھ اس طرح کی وابستگی اختیار کر لینا جس طرح کی ہمارے ہاں بعض لوگ اختیار کر لیتے ہیں تو یہ اسلامی مزاج کے خلاف ہے ۔

(جاوید احمد غامدی)

ج: نبی ﷺ نے اس کو پسند نہیں کیا کہ لوگ قبریں پکی بنائیں۔نبی ﷺکی وفات حضرت عائشہ کے حجرہ میں ہوئی اور وہیں آپ کو دفن کر دیا گیا۔ عمارت وہاں پہلے سے بنی ہوئی تھی ۔ایسا نہیں ہواکہ بعد میں عمارت بنائی گئی البتہ وہ عمارت انقلابِ زمانہ کے ساتھ کمزور ہونا شروع ہوئی تو پھر دوبارہ کھڑی کر دی گئی۔ موجودہ گنبد والی عمارت ترکوں کے زمانے میں تعمیر ہوئی ۔یوں نہیں ہوا کہ باقاعدہ سے کوئی مزار بنایا گیا ہو۔ بلکہ ایک عمارت جو پہلے سے موجود تھی اس کو برقرار رکھا گیاہے ۔تو اس وجہ سے اس سے کوئی دلیل نہیں لائی جا سکتی۔، عمومی حکم وہی ہے کہ قبروں کو کچا رکھا جائے ۔

(جاوید احمد غامدی)