خاکسار ابھی ہائی اسکول ہی میں تھا کہ جب سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانِ ذیشان سناکہ‘‘تم میں سے کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا ،جب تک کہ میں (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم)اُسے اُس کے والدین،آل اولاد اور دُنیا جہان سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔’’اُس کچی عمر میں ہی ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ محبت ِ رسول کیا ہے ؟اس کا طریقہ کیا ہے؟اس کے تقاضے کیا ہیں؟وہ دن اور آج کا دن،زندگی گزر چلی اور یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے۔یہ سوچ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ آیا ہم سے محبت ِ رسول کے تقاضے پورے ہو رہے ہیں یا نہیں۔کیا صرف آپ ﷺ کی نعتیں پڑھنا،تعریفیں کرنا اور آپ سے محض عشق کے دعوے کرنا،محبت ہے یا آپ ؐ کے احکامات و فرامین کو تسلیم کرنا اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کی محض پیروی کرناآپ سے محبت ہے ؟؟یہ اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک بھی موجود ہے کہ‘‘ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ میری لائی ہوئی ہدایت کا اتباع نہ کرے۔’’
ہم سمجھتے ہیں کہ محبت ،اطاعت سے علیحدہ ایک چیز ہے۔یہ ایک اندرونی جذبہ اوردِل کی خاص کیفیت کا نام ہے۔محبت کرنے والا ایک نہ ایک دن ضرور اطاعت ِ محبوب کا راستہ اختیار کرے گا لیکن اطاعت کرنے والے کے اندر،ضروری نہیں کہ مطاع کی محبت بھی موجودہو۔ لہٰذا ان دونوں کی الگ الگ حیثیت ہے۔اطاعت کسی حد تک یا بڑی حد تک محبت کا ایک مظہر ہے لیکن محبت کا یہ واحد مظہر قطعاً نہیں اطاعت ،بہر حال نظرآنے والی ایک ‘مادی’ چیز کا نام ہے جب کہ محبت ایک روحانی،قلبی اور اندرونی تعلق کا نام ہے۔محبت کے مظاہرگونا گوں ہو سکتے ہیں۔ان کو نہ تو ما پا جا سکتا ہے اور نہ ہی محبت کے کسی خاص مظہر کی نشان دہی کی جا سکتی ہے۔یہ ہر د ِل ِ زندہ کا اپنا اپنا معاملہ اورہر فرد کا اپنا اپنا پیمانہ ہے بشرطیکہ یہ پیمانے خود محبوب ہی کے کسی حکم کی خلاف ورزی کے مترادف نہ ہوں۔کسی کو کسی سے محبت کب ہوتی ہے ؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے بہت سے جوابات ہو سکتے ہیں مگر وہ جس پر اکثر اہل علم کا اتفاق ہے وہ یہ ہے کہ جب محب ،محبوب کے کسی کمال سے متاثر ہوتا ہے یا جب وہ اس کے کسی احسانِ عظیم کے نیچے دبا ہوتا ہے۔چیزوں کی افادیت اور ان کی جمالیاتی کشش بھی اُن کے لیے کسی دِل میں چاہت و محبت کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔اس اصول سے دیکھیں تو صرف اور صرف، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ان دونوں وجوہ کے باعث ہماری محبتوں اور چاہتوں کا مرکز و محور بننے کے لائق ہیں۔یعنی وہ حسن و جمال میں بھی یکتا اورصفات و کمالات میں بھی اکمل ہیں۔ اور ہم پر ہدایت کے دروازے کھولنے والے محسن ِ اعظم بھی ہیں۔اس لیے ہمارے تمام تر دِلی جذبات، ذہنی وابستگی اور روحانی تعلق کے مرجع ومحورکی حیثیت انھی کی ذات والا صفات کوحاصل ہے اور حاصل ہونا بھی چاہیے۔لیکن اس کا اظہار کیسے ہو؟؟یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔اس لیے، آیئے ! اس مشکل سوال کے جواب کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پاک محفل میں چلتے ہیں،جو سرکار رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کے اولین ماننے والے اور آپ سے اولین محبت کرنے والے تھے۔اور وہی اس پہلو سے امت کے لیے نمونہ ہدایت کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔
۱۔ ہجرت کے بعد ،رسول ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کو شرف ِ میزبانی عطا فرمایا۔سیدنا انصاری کا مکان دو منزلہ تھا۔ حضور ؐ نے نچلی منزل میں قیام کرنا پسند فرمایا۔حضرت ابو ایوب ؓ اوپر والی منزل پر منتقل ہو گئے۔وہ کہتے ہیں کہ پہلی ہی رات کو جب ہم میاں بیوی بستر پر لیٹے تو یکدم لیٹے لیٹے ہمیں خیال آیا کہ نیچے اللہ کے رسول محو ِ استراحت ہیں اور ہم اوپر!! یہ ہم سے کیا کوتاہی ہو گئی ہے۔ یہ خیال آتے ہی وہ اُٹھ کر بیٹھ گئے ا ور کمرے کے ایک کونے کی طرف سرک کر،ساری رات سوچتے اور جاگتے گزاردی ۔صبح ہوئی تو حضور ﷺ سے عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ ؐ، یہ ہم سے نہیں ہو سکتا،کہ جس کمرے میں آپ تشریف فرما ہوں اس کی اوپر والی منزل میں ہم سوئیں۔براہ کرم ،آپ اوپر والی منزل میں تشریف لے چلیں اور ہم نیچے قیام کریں گے۔آپ نے ارشاد فرمایا مجھے یہیں آرام ہے۔آپ لوگ اطمینان و سکون سے اُوپر رہیں۔لیکن وہ مسلسل اصرار کرتے رہے اور اپنی مجبوری بیان کرتے رہے۔حضور ﷺ کے بار بار سمجھانے اور تسلی دینے پر ہی وہ آ خر کار اوپر والے حصے میں رہنے پر آ مادہ ہوئے۔
یہ کیا تھا؟ محبت کا ایک لطیف مظہر ہی تو تھا۔
۲۔ سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُنھی دِنوں کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کی خدمت ِ عالیہ میں ہم کھانا بنا کر پیش کرتے تھے،آپ نے جتنا کچھ تناول فرما نا ہوتا کر لیتے،باقی کا برتن میں موجود رہتا۔آپ کا بچا ہوا کھانا ہم سب گھر والے بڑے شوق سے کھاتے اور برتن میں اُس جگہ سے لینے کی کوشش کرتے جہاں پر آپ کی انگلیوں کے نشانات ہوتے۔
محبوب نے برتن میں جس جگہ کھانے کے لیے انگلیاں لگائی ہوں وہاں سے کھانا کوئی اللہ کا حکم تو نہیں بلکہ محبوب سے صرف محبت کا اظہار ہے۔
۳۔ سیدنا عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ابھی دولت ِ ایمان سے سرفراز نہیں ہوئے تھے ۔ صلح حدیبیہ کے زمانے میں وہ قریش ِ مکہ کی طرف سے سفیر بن کربارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے تھے۔واپس جاکر قریش ِ مکہ کے سامنے،عاشقان ِ مصطفیٰ کے طرزِ محبت کا جو نقشہ انہوں نے کھینچا ہے وہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔عروہ بن مسعود ثقفی کہتے ہیں ، ‘‘میں بڑے بڑے بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں۔ایران اور روم کے دربار دیکھے ہیں۔ان کا کرو فر اور شان و عظمت ملاحظہ کی ہے۔لیکن جو عزت و احترام ،محبت و پیار اور عقیدت و وارفتگی محمد ( ﷺ) کے ساتھیوں میں ،ان کے لیے دیکھی ہے ،وہ کہیں نہیں ہے۔(سیدنا ) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)جب بولتے ہیں تو لوگوں پر سکوت طاری ہوجاتا ہے۔وہ حکم دیتے ہیں تو لوگ تعمیل کے لیے دوڑ دوڑ پڑتے ہیں۔ اور تھوکتے ہیں تو کوئی نہ کوئی آدمی اُس تھوک کو اپنے ہاتھ پر لیتا ہے۔اور اپنے جسم پر مَل لیتا ہے۔اُن کے وضو کے پا نی سے ( برکت لینے کے لیے )اسے نیچے نہیں گرنے دیتے۔’’
صحابہ کے اس انداز محبت کی حضور کی طرف سے نکیر نہ کرنا بھی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ عشق ِ رسول کے مظاہر گونا گوں ہو سکتے ہیں۔ان پر نہ تو پابندی لگائی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے کسی خاص طریقے تک محدود کیا جا سکتا ہے۔ہاں البتہ جو چیز دین کے اعتبار سے نقصان دہ ہو سکتی تھی، اُس کا سد ِ باب کرنے میں اور اُ س سے روک دینے میں آپ نے کبھی کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔مثلاً، جب ایک صاحب نے یہ اجازت چاہی کہ جس طرح ایران اور روم کے درباروں میں ،بادشاہ کو سجدہ کیا جاتا ہے ،ہمارا بھی جی چاہتا ہے کہ ہم بھی آپ کو تعظیماً سجدہ کریں ، تو آپ ﷺ نے سختی سے اس تجویز کو رد کر دیا ۔کیونکہ سجدہ تو صرف اللہ کو بجا ہے ۔یہ تو عبادت کا مظہر ِ اتم ہے۔اور عبادت تو صرف اللہ کی ہوتی ہے۔محبت اور عبادت میں فرق کرنا لازم ہے۔حضور ﷺ ،میں آپ پر قربان ،سے محبت مطلوب ہے نہ کہ آپ کی عبادت!
۴۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک بار( حضور کی وفات کے بعد)مدینہ میں آیا تو عبداللہ بن سلام مجھے ملے۔کہنے لگے کہ میرے ساتھ میرے گھر چلو،میں تم کو اُس پیالہ میں پلاؤں گا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا تھا۔اور میرے گھر میں تم اُس جگہ نماز پڑھنا جہاں حضور اکرم ﷺ نے نماز پڑھی تھی۔یہ سُن کر میں اُن کے ساتھ ہو لیا۔ (بخاری،کتاب الاعتصام)حضور کے پیالے میں پینا اور آپ کی جائے نماز پر نماز پڑھنا کوئی حکم ِ رسول نہیں کہ جس کی اطاعت کی جائے بلکہ یہ محبت ِ رسول ہے۔
۵۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو مدینہ کے عوام(برکت لینے کے لیے) پانی سے بھرے ہوئے اپنے اپنے برتن لے کر آ تے،آپ ہر برتن میں اپنا ہاتھ ڈبو دیتے۔بسا اوقات سرد صبح میں یہ واقعہ ہوتا اور آپ اپنا ہاتھ ان میں ڈبو دیتے۔( یعنی سردی کے باعث انکار نہ کرتے) ( مسلم،کتاب الفضائل)
۶۔ حضرت انس ہی کا بیان ہے کہ میں نے دیکھا کہ حجام آپ کا سر مونڈ رہا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ کے ارد گرد گھوم رہے تھے۔وہ چاہتے تھے کہ آپ کا کوئی بال بھی زمین پر گرنے کی بجائے ان کے ہاتھ میں گرے۔ ( مسلم،کتاب الفضائل)
۷۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ( ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے اور سو گئے۔آپ کو پسینہ آیا ،میری والدہ ایک شیشی لے کر آئیں اور حضور ﷺ کا پسینہ پونچھ پونچھ کر اس میں ڈالنے لگیں۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو آپؐ نے فرمایا ،اے امِ سُلیم!یہ کیا کر رہی ہو۔انھوں نے کہا یہ آپ کا پسینہ ہے،جس کو ہم اپنی خوش بو میں ڈالیں گے اور یہ سب سے اچھی خوش بو ہے۔ (مسلم ،کتاب الفضائل)
۸۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفید چمک دار رنگ تھا۔اور آپ کے پسینہ کے قطرے موتیوں کی طرح چمکتے تھے۔جب آپ چلتے تو آگے کو جھک کر چلتے تھے۔اور میں نے کسی دیباج اور حریر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے زیادہ ملائم نہیں پایا اور نہ میں نے کسی مشک یا عنبر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( کے جسم کی خوشبو) سے زیادہ خوشبو دار پایا۔ (مسلم ،کتاب الفضائل)
حضور ﷺ کا استعمال شدہ پانی، آپ کا پسینہ مبارک،آپ کا لعابِ دہن اور حضور ﷺ کے بال وغیرہ حاصل کرنے اور ان کو سنبھالنے اور ان سے تبرک لینے کے کئی اور واقعات بھی، صحابہ کرام سے ثابت ہیں۔
ہم کیا کریں؟ہم جو چودہ سو سال کی دُوری پر ہیں ،ہم حضورسے اظہار ِ محبت کیسے کریں؟؟بلاشبہ آپ کے فرامین اور آپ کی احادیث اور آپ کا لایا ہوا نظام ِ حیات موجود ہے۔آپ کی باتوں پر عمل تو کرنا ہی کرنا ہے ،آپ کی اتباع سے تو انکار ہے ہی نہیں لیکن آپ سے شخصی اور ذاتی محبت اور لگاؤ کا اظہار کیسے کریں؟؟تمام تر بحث سے ہٹ کر، میرا تواس دیہاتی کی ادا پر قربان ہونے کو جی چاہتا ہے جسے کل ہی میں نے حضور کے نام ِ نامی اسم گرامی کے آنے پر عقیدت و وارفتگی سے اپنے ہی ہاتھوں کے انگوٹھوں کو چومتے دیکھا تھا۔اور وہ کر ہی کیا سکتا تھا !!نہ تو وہ شاعر تھا کہ اپنی عقیدت کے پھول نچھاور کرتا۔نہ تو وہ خطیب تھا کہ اپنی زبان کی ساحری سے ذکر ِ حبیب کرتا اور نہ ہی وہ ادیب تھا کہ زبان و ادب کے موتی بارگاہ ِ مصطفیٰ میں لٹاتا۔وہ توجو کر گیا سو کر گیا ،میں کیا کروں کہ میں ان پڑھ دیہاتی بھی تو نہیں !!
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ ،
‘‘ایک دِن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں مسجد سے باہر نکل رہا تھا کہ ہم نے مسجد کی چوکھٹ پر ایک آدمی کو بیٹھے دیکھا۔(آپ ﷺ کو دیکھ کر وہ آگے بڑھا اور) حضور سے عرض کی،‘‘یا رسول اللہ ،قیامت کب آ ئے گی؟’’سید ی نے استفسار فرما یا ‘‘او میاں ! تو نے اُس کی کیا تیاری کی ہے ؟اس پر وہ آدمی کچھ خاموش سا ہو گیا۔پھر اُس نے عرض کی،‘‘یا رسول اللہ ﷺ ! اِس کی کیا تیاری ہو سکتی ہے،نہ تو زیادہ (نفل)نمازیں رکھتا ہوں ، نہ ہی زیادہ (نفل ) روزے پاس ہیں اور نہ ہی کوئی صدقات و خیرات کی بھر مار ہے۔’’ایسے میں قیامت کی کیا تیاری ہوسکتی ہے !!وہ پھر بولا ، ہاں حضور ! البتہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی محبت ضرور سرمایہ حیات ہے۔’’
رسول ِ رحمت نے ارشاد فرما یا کہ،‘‘ تم کو جس سے محبت ہوگی،تم اُس کے ساتھ رہو گے’’ یہ کہتے ہوئے آپ آگے بڑھ گئے۔سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اسلام قبول کرنے کے بعد ہم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے بڑھ کر اور کسی چیز سے خوشی نہیں ہوئی کہ تم اُس کے ساتھ ہوگے جس سے تم کو محبت ہوگی۔ ( مسلم،کتاب البر والصلۃ والادب)
لاکھوں سلام آپ پر ، کروڑوں درود آپ پر۔