ج: نیت دل کے ارادے کا نام ہے۔ یعنی آدمی نیکی کا جو بھی کام کرنا چاہے ، اس کے دل میں یہ ارادہ ہو کہ میں اللہ کی خوشنودی کے لیے یہ کام کر رہا ہوں ۔ نیت زبان سے کچھ کہنے کا نام نہیں ہے۔ ہمارے ہاں یہ جورواج ہو گیا ہے کہ نماز پڑھتے وقت یہ ضرورکہنا چاہیے کہ دو رکعت نماز فرض واسطے اللہ تعالی کے منہ طرف قبلہ شریف وغیرہ، یہ کوئی چیز نہیں ۔ دل میں ارادہ کیجیے اور بس اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کر دیجیے۔ زبان سے اس طرح کے کلمات کہنا نہ نماز میں کوئی چیز ہے نہ روزے میں ۔ رمضان میں روزہ رکھنے کی جو نیت بتائی جاتی ہے، وہ بھی لوگوں کے بنائے ہوئے الفاظ ہیں ۔ہرعبادت اور ہر نیکی کے کام میں آپ دل کا ارادہ کریں ، یہی کافی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: معرفت عبادت کی بنیاد ہے ۔ آپ جس کی عبادت کرر ہے ہیں، اس کو اگرپہچانا ہی نہیں تو عبادت کیا کریں گے ۔ کسی چیز کی معرفت حاصل ہو گی تو آپ اس کا حق ادا کریں گے ۔ قرآن مجید سے بھی یہی بات سمجھ آتی ہے۔کہا گیا کہ تم اپنے پروردگار کی بندگی کرو۔اب پہلے معرفت کروائی گئی کہ کون پروردگار۔بتایا گیا کہ جس نے تمہیں پیدا کیا ، تم سے پہلوں کو پیدا کیا ، جس نے زمین کو بچھونا بنایا ، جس نے آسمان کو چھت بنایا ، جس نے آسمان سے پانی برسایا اور تمہارے لیے روزی کا سامان بنایا۔ اس لیے یہ کہنا ٹھیک ہے کہ معرفت بنیاد ہے ، اس کا نتیجہ عباد ت ہے ۔یہی ترتیب ہونی چاہیے کہ پہلے پہچان ہو پھر عبادت ہو۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ہمارا دین کوئی نیا دین نہیں ہے بلکہ یہ وہی دین ہے جو سب انبیا نے پیش کیا۔اور نماز سب انبیا کے دین میں ویسے ہی موجود تھی جیسے ہمارے ہا ں ہے ،انہی اوقات کے ساتھ اور اسی اہتمام کے ساتھ ۔اسی طرح زکوۃ بھی تھی۔ حج اور عمرے کے بارے میں تو ہر شخص جانتا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے ایسے ہی تھا ۔ قربانی کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ان تمام عبادات اورمعاملات میں جہاں کوئی بدعت داخل ہو چکی تھی ، قرآن مجید نے اس کی اصلاح کر دی ، کوئی انحراف ہو گیا تھا تواس کو درست کر دیا ، کوئی چیز ضائع کر دی گئی تھی تو اس کو جاری کر دیا گیا ۔اسلام ہمیشہ سے موجودتھا۔ سیدنا ابو ذر غفاریؓ کے اسلام لانے کی جو روایت بیان ہوئی ہے اس میں انہوں نے خود بیان کیا ہے کہ میں نے ابھی نبیﷺ کی بعثت کے بار ے میں سنا بھی نہیں تھا کہ میں عشا اور فجر کی نماز کا پابند ہو گیا تھا ۔ عرب بھی نماز پڑھتے تھے ، یہود بھی نماز پڑھتے تھے۔ یہود کے ہاں بالکل ایسے ہی پانچ نمازیں تھیں جیسے ہمارے ہیں البتہ انہوں نے دونمازوں کو جمع کر کے تین بنا رکھا تھا۔اصل میں پانچ ہی نمازیں تھیں ، اسی لیے قرآن نے نماز کی کوئی تفصیل بیان نہیں کی صرف یہ کہا کہ نماز پڑھو ،کیونکہ نماز سے لوگ پہلے سے واقف تھے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: فجر یا عصر کے بعد کوئی نفل نہیں پڑھے جا سکتے ،یہ اصل میں سد ذریعہ کا حکم ہے کیونکہ اس میں وہ وقت آرہا ہوتا ہے جس میں سورج نکلنے یا غروب ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ اس وجہ سے حضورﷺ نے کہا کہ احتیاط کرو کیونکہ سورج طلوع اور غروب ہوتے وقت نماز پڑھنا ممنوع ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک لمبے عرصے تک سورج دیوتا کی پرستش انہی اوقات میں ہوتی رہی ہے۔ آپ کو اگر پورا اطمینان ہو کہ سورج غروب نہیں ہو رہا یا طلوع نہیں ہو رہا اور آپ کوئی نفل پڑھنا چاہیں تو اس کی ممانعت نہیں ۔ خود رسول اللہﷺ کے بارے میں معلوم ہے کہ کچھ نفل ظہر کے رہ گئے تھے تو آپﷺ نے عصر کے بعد پڑھے اور ایک موقع پرجب ام المومنین غالباً ام سلمہؓ نے پوچھا تو آپ نے اس کی وضاحت کی یہ کچھ نوافل تھے جو میں پڑھ رہا تھا ۔آج کل ہمارے ہاتھ میں گھڑی ہوتی ہے اور ہم کافی اطمینان سے فیصلہ کر سکتے ہیں کہ سورج غروب ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا ، اس زمانے میں یہ صورت نہیں تھی اور اس کا اندیشہ ہوتا تھا کہ عبادت کرنے والے لوگ ان اوقات میں عبادت نہ کرنے لگ جائیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج : نماز میں دوطرح کے اذکار ہیں بعض متعین اوربعض غیر متعین مثلاًعربی زبان میں جو اذکار متعین اورضروری ہیں وہ اللہ اکبر ، سمع اللہ لمن حمدہ ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ ، سورہ فاتحہ ا ور قرآن کا کچھ حصہ ملانا ہے، باقی تمام اذکار میں آزادی ہے۔ البتہ یہ یاد رکھیں کہ یہ اذکار تسبیح یا تحمید کی قسم کے ہونے چاہیں۔( تسبیح سے مراد سبحان اللہ یا اس طرح کے کلمات ہیں اسی طرح تحمید سے مراد اللہ کا شکر اللہ کی حمد الحمد للہ جیسے کلمات ہیں)اسی طرح دعاؤں میں بھی آزادی ہے جو دعائیں بھی آپ چاہیں کر سکتے ہیں ۔ برصغیر میں علما نے عوام کی سہولت کے لیے رب اجعلنی کی دعا سکھا دی ہے لیکن یہ کوئی متعین نہیں ہے اس کے علاوہ بھی بہت سی دعائیں کی جا سکتی ہیں۔ رکوع میں رسول اللہﷺ صرف سبحان ربی العظیم ہی نہیں پڑھتے تھے بلکہ بہت سی اور تسبیحات بھی کرتے تھے۔یہی صورت سجدے کی تھی۔ لیکن بہر حال وہ تسبیح ، تحمید یا دعا و مناجات ہوتی تھی۔ بعض چیزوں کے بارے میں حضور نے متنبہ بھی فرمایا ہے کہ یہ نہیں پڑھنی چاہییں۔مثلاً کہ رکوع اور سجدہ میں قرآن نہیں پڑھناچاہیے البتہ دعا کی جا سکتی ہے اور قرآن کی جو دعائیں ہیں وہ بھی ان مواقع پرکی جاسکتی ہیں۔ سبحان ربی ا لاعلی کے بجائے آپ کوئی اور ذکر کر لیجیے کوئی فرق نہیں پڑتا اسی طرح آپ سبحان ربی العظیم کی جگہ کوئی اور چیز پڑھ لیجیے کوئی فرق نہیں پڑتا بشرطیکہ وہ تسبیح یا تحمید کی نوعیت کی چیز ہو۔خود رسول اللہﷺ کے زمانے میں ایک صاحب نماز میں آکر ملے اور انہوں نے ربنا لک الحمد کے بعد کہا حمداً کثیراً طیباً مبارکاً فیہ کے کلمات کہے۔ حضورﷺ نے نماز پڑھانے کے بعد پوچھا یہ کون تھے تو وہ گھبرائے کہ شاید کوئی غلطی ہو گئی ہو لیکن جب آپ ﷺنے بار بار پوچھا تو انہوں نے کہا میں نے یہ جسارت کی تھی ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے تیس فرشتوں کو دیکھا کہ وہ ان کلمات کو پانے کے لیے آگے بڑھ رہے تھے ۔ اس طرح گویا آپﷺ نے بتایا کہ نماز اور کس چیز کا نام ہے ، آپ اس میں دعائیں کیجیے ، حمد کیجیے تسبیح کیجیے ۔ حضور ﷺنماز میں جودعائیں مانگتے تھے وہ حدیث کی کتب میں محفوظ ہیں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ایک موقع کے لیے وہ بہت سی دعائیں اور اذکار ہیں ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج : کئی وجوہ ہو سکتی ہیں ، خاص طور پر خواتین چونکہ اپنی طبیعت کے لحاظ سے کمزور ہوتی ہیں تو بعض اوقات اس طرح ڈر سا محسوس ہوتا ہے ۔بعض مردوں کے ساتھ بھی یہی صورت ہو جاتی ہے۔ اس کا سبب عام طور پر نفسیاتی ہوتا ہے ایمان کی کمزوری کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ایسی صورت میں بالکل گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ کچھ دیر تک جب آپ اٹھتی رہیں گی تو خودبخود ہی مانوس ہو جائیں گی ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: نماز کے دو حصے ہیں ۔ ایک حصہ وہ ہے جس کو امت کے لیے جاری کر دیا گیا ہے،یعنی لازمی ہے۔ اس میں نہ کوئی اختلاف ہے اور نہ کیاجاسکتا ہے۔ اس حصہ میں کچھ اعمال ہیں اورکچھ اذکار ہیں ۔ اعمال یہ ہیں کہ آپ رفع یدین کر کے نماز شروع کریں گے ، قیام کریں گے، رکوع میں جائیں گے ، قومے کے لیے اٹھیں گے ، دو سجدے کریں گے ، دو رکعتوں کے بعد اور آخری رکعت میں قعدے میں بیٹھیں گے ، منہ پھیر کر نماز ختم کر دیں گے ۔ یہ اعمال ہیں جو جاری کیے گئے ہیں۔ اورلازمی اذکار یہ ہیں۔ خفض و رفع پہ اللہ اکبر کہیں گے ، رکوع سے اٹھتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ کہیں گے اور نماز ختم کرتے ہوئے السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہیں گے ، سورہ فاتحہ پڑھیں گے اس کے بعد قر آن ملائیں گے ۔ یہ اذکار ہیں جو جاری کر دیے گئے ہیں ۔ یہ نماز وہ نماز ہے جس میں پوری امت میں نہ کبھی اختلاف ہوا ہے اور نہ اب ہے۔ اس نماز کو جو آدمی پڑھتا ہے وہ نماز کا حق ادا کر دیتا ہے ۔ اس کے بعد نماز کا اختیاری حصہ ہے جس میں بہت سی دعائیں ، تسبیح و تحمید کی جا سکتی ہے۔ ان میں کوئی پابندی نہیں حضور نے ان مواقع پر ایک سے زیادہ دعائیں اور اذکار کیے ہیں۔ تسبیح اور تحمید جہاں چاہے کر سکتے ہیں ، اسی طرح قیام میں سورہ فاتحہ اور قرآن ملانے کے بعد دعا کر سکتے ہیں ، آپ قومے میں دعا کر سکتے ہیں ، آپ دو سجدوں کے درمیان دعا کر سکتے ہیں ، یہ اختیاری حصہ ہے ، اس اختیاری حصہ میں رسول اللہﷺ سے جو چیزیں ثابت ہیں وہ سب احادیث کی کتب میں محفو ظ ہیں۔نماز کے لازمی اعمال و اذکار ہر حال میں ادا کرنے ہیں۔ ہمارے ہاں نماز کے بارے میں جو سر پھٹول ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نماز کے لازمی اور اختیاری حصہ میں فرق نہیں سمجھا گیا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اللہ تعالی کی ذات کا کوئی تصور کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ انسانی علم کا اگر تجزیہ کیا جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ ہم صرف وہی باتیں جان سکتے ہیں جو ہمارے حواس کی گرفت میں آ جائیں ۔اللہ کی ذات کا توکوئی تصور قائم کرنا ہمارے لیے ممکن ہی نہیں ہے البتہ اللہ کی صفات کا ایک تصور ہم قائم کرسکتے ہیں۔ لیکن اس طرح بھی جو تصور قائم کرنے کی کوشش کریں گے وہ ہمارا اپنا تخیلاتی ہیولا ہو گا ، اس سے زیادہ کوئی چیز نہیں ہو گی ۔ گویا کہ ہر آدمی کا پروردگار اس کی ذہنی ساخت کے مطابق بن جائے گا ۔ اس لیے یہ کہنا زیادہ بہتر ہے کہ اس طرح کے کسی تصور کو خدا نہیں سمجھ لینا چاہیے ۔ہمارے سامنے اللہ کی صفات کا ایک بڑا ہی تفصیلی بیان قرآن میں ہے ، بس ان صفات سے جو ہیولہ ہمارے ذہن میں بنتا ہے وہ صفاتی ہو گا ، اسی کو سامنے رکھ کر آپ یہ خیال کریں کہ آپ اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہیں ۔ حضورﷺ نے اس مشکل کو حل کیا ہے ، جہاں یہ بات کہی ہے وہاں یہ بھی کہا ہے کہ تم اللہ کی بندگی کرو جیسے تم اس کو دیکھ رہے ہو ، نہیں دیکھ رہے، تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ تم اسے نہیں دیکھ سکتے ، وہ تو تمہیں دیکھ رہا ہے ۔ پروردگار ہمیں دیکھ رہا ہے اس کا تصور قائم کرلینا چاہیے ، یہ کافی ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ہمارے ہاں قضائے عمری کا جوتصور رائج ہے وہ کوئی چیز نہیں ہے۔ البتہ یہ بات ٹھیک ہے کہ اگر کسی آدمی کی بہت سی نمازیں قضا ہو گئی ہیں اور اب اللہ نے اس کو شعور دیا ہے تو وہ نماز کیسے پڑھے ۔ اس میں اہل علم کے تین موقف ہیں ، تین موقف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں اللہ ا ور اس کے پیغمبر نے کوئی بات نہیں کہی ، جس کی بنا پر اجتہاد کیا گیا ہے اور اجتہاد کرنے والوں کی تین آرا ہو گئی ہیں ۔ ایک یہ ہے کہ آپ باقاعدہ ترتیب کے ساتھ وہ نمازیں پڑھیں گے یعنی آپ یہ نیت کر کے پڑھیں گے کہ میں آج فلاں دن کی نماز پڑھ رہا ہوں ۔ دوسرا نقطہ نظر جو امام ابن تیمیہؒ کاہے وہ یہ ہے کہ آپ جو نوافل پڑھتے ہیں ان کی جگہ آپ فرض نماز کی نیت کر لیں ، اللہ وہ بھی قبول کرے گا اور نوافل کا اجر بھی دے دے گا ، وہ اجر دینے میں بہت فراخ واقع ہوا ہے ۔ تیسرا نقطہ نظر امام ابن حزمؒ کا ہے ، وہ یہ کہتے ہیں کہ کیونکہ اس میں اللہ تعالی اور اس کے پیغمبر نے کوئی قانون سازی نہیں کی تو ہمارے لیے یہی راستہ ہے کہ اللہ سے معافی مانگیں اور تلافی کی کوئی صورت نہیں ہے ، آپ کو جو بات معقول لگے اس کو اختیار کر لیجیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ایسا ہو جاتا ہے ، بعض اوقات انسان بہت کوشش کرتا ہے مگر پھر بھی دل نہیں لگتا۔اس کے کئی اسباب ہوتے ہیں ، گناہ ہو جائے ، نظر کاغلط استعمال ہو جائے یا معاملات میں کوئی اونچ نیچ ہو جائے تو عام طور پر عبادت میں حلاوت نہیں رہتی۔ بحیثیت مجموعی اپنے ماحول کو بہتر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔پھر بھی یہ کیفیت طاری رہے تو یہ شیطان کا دھوکہ ہوتا ہے کہ بند ہ نماز چھوڑ بیٹھے۔بس محتاط رہیے کہ کہیں نماز نہ چھوڑ بیٹھیں ۔ اڑے ہوئے دل کے ساتھ بھی نماز پڑھے ، اللہ یہ کیفیت آہستہ آہستہ دور کر دیتے ہیں۔ ایسا ہوتا رہتا ہے جیسے ہم باقی معاملات میں یکساں نہیں ہوتے کسی دن بہت اطمینان سے کام پر جاتے ہیں ، کسی دن تھکے ہوتے ہیں ایسی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں تو یہ چیزیں عبادات میں بھی ہو جاتی ہیں
(جاوید احمد غامدی)
ج: بالکل، پڑھی جا سکتی ہے ۔ نماز کے لیے تو وقت شرط ہے ، اذان تو مسجد کے لحاظ سے ہو گی ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: نماز میں قیام کرنا سنت ہے ، ہاتھ باندھے جائیں یا نہیں ، اس کا تعلق روایات سے ہے اور حضورﷺ کے بارے میں یہ روایت معلوم ہے کہ آپﷺ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے تھے ۔ اگر کسی آدمی کے نزدیک وہ روایت ثابت نہیں ہے تو وہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھ سکتا ہے ۔ نماز کا لازمی جزو بس قیام ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: چاروں آئمہ میں سے کسی کی یہ رائے نہیں ہے کہ اگر فجر کی دو رکعات نہیں پڑھیں جن کو سنت کہا جاتا ہے تو نماز نہیں ہو گی ۔ یہ کسی عامی نے آپ کوبتاد یا ہو گا،کوئی عالم یہ نہیں کہہ سکتا۔ میرے نزدیک فجر کی لازمی نماز دو رکعت ہے ، اس سے پہلے جو دورکعت آپ پڑھتے ہیں وہ نفل ہیں ۔ پڑھیں گے تو بڑا اجر ملے گا ۔ اگر نہیں پڑھیں گے تو ایسا نہیں کہ نماز ہی نہیں ہو گی ۔نماز تو ہو جائے گی البتہ ایک بڑے اجر سے محرومی ہو گی۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اس بارے میں کوئی بات بھی مسلمانوں پر لازم نہیں کی گئی ۔آپ نماز جنازہ میں جو دعا چاہیں کر لیں ۔سورہ فاتحہ بھی ایک دعا ہے ،پڑھنا چاہتے ہیں تو پڑھ لیں ، اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ یہ جوعام طور پر نماز جنازہ کے طریقے میں فرق موجود ہے یہ فقہا کی تحقیق کے نتائج میں فرق کی بنا پر ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: نماز کامقصد خود قرآن نے بیان کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ نماز اس لیے لازم کی گئی ہے تاکہ خدا یاد رہے ۔ اقم الصلوۃ لذکریخدا کی یاد کو قائم رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ نمازہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: بالکل ادا کی جا سکتی ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے تو عشا کے بعد پڑھنے کی اجازت دے دی ہے ، اگر کوئی آدمی نہیں اٹھ سکتا تو عشا کے بعد پڑھ لے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: بالکل ادا کی جا سکتی ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ نے تو عشا کے بعد پڑھنے کی اجازت دے دی ہے ، اگر کوئی آدمی نہیں اٹھ سکتا تو عشا کے بعد پڑھ لے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: امام کی پیروی کریں ، اس نے اللہ اکبر کہا ہے تو رکوع میں چلے جائیں ۔ جتنی اللہ نے آپ کو توفیق دی آپ نے اتنی پڑھ لی ، باقی چھوڑ دیں۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: سلام نماز کے ختم کرنے کا سنت طریقہ ہے ۔ نماز شروع کرنے کی علامت رفع یدین ہے اور ختم کرنے کی علامت سلام پھیرنا ہے ۔ شہادت کی انگلی توحید کی گواہی دینے کے لیے اٹھاتے ہیں۔ حضورﷺ نے اسی طریقے سے اٹھائی ہے ۔ یہ سنت اجماع کے ساتھ منتقل ہوئی ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: نماز اصل میں رکوع ، سجود ، قعدے ، قیام کا نام ہے ۔اس وقت ان قوموں کے ہاں اللہ کی جو کتاب تھی وہ پڑھی جاتی تھی ۔ جب قرآن نازل ہوا توسورہ فاتحہ آگئی ۔ باقی نمازکے اعمال ویسے کے ویسے ہی رہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: یہ بات یوں نہیں ہے کہ حرمین میں زوال کا وقت نہیں ہوتابلکہ بات یوں ہے کہ چونکہ زوال کے وقت یا طلوع آفتاب کے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت اس لیے کی گئی تھی کہ اس موقع پر آفتاب کو پوجنے والے اس کی عبادت کیاکرتے تھے۔ حرمین چونکہ توحید کا مرکز ہیں اور ان مراکز میں اس بات کا خدشہ نہیں تھا کہ لوگ اس بات کو گڈ مڈ کر دیں گے اس لیے بعض علماکے نزدیک اس بات کی اجازت ہے ۔ خیال رہے کہ سارے علما کا یہ موقف نہیں ہے ، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ وہاں بھی ان اوقات کالحاظ کرنا چاہیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: دروداللہ کے حضور میں ایک دعا ہے جو ہم حضورﷺ کے لیے کرتے ہیں ۔ کیونکہ نماز میں اللہ تعالی نے ہمیں بہت سی دعائیں کرنے کی اجازت دی ہے ، اس لیے ہم حضور ﷺ کے لیے بھی کرتے ہیں۔صحابہ کرامؓ نے حضورﷺ سے پوچھا کہ ہم آپ کے لیے بھی دعا کرنا چاہتے ہیں تو کیا طریقہ اختیار کریں ۔ روایتوں میں آتا ہے کہ آپ خاموش رہے ، بار بار پوچھنے پر آپﷺ نے کہا کہ میرے لیے اس طرح دعا کیا کرو ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ایک رفع یدین تو وہ ہے جس سے نماز شروع ہوتی ہے ، وہ لازمی ہے ۔ اس کے بعد باقی مواقع پر آپ چاہیں تو کر لیں چاہیں تو نہ کریں ، نبی ﷺ نے کبھی کبھی کیاہے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: کسی واقعی مجبوری کی وجہ سے کسی موقع پر اگر پانچوں نمازیں رہ گئی ہیں تو آپ پانچوں نمازیں اکٹھی قضا پڑ ھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اسے معمول بنا لیں اور یہ طے کر لیں کہ میں پانچوں نمازیں اکٹھی ہی ادا کرلیا کروں گا تو اس کی اجازت نہیں ہے اورنہ کوئی گنجائش ہے بلکہ گنجائش تو تین کی بھی نہیں ہے ۔پانچ نمازیں پانچوں اوقات ہی میں پڑھی جائیں گی ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ہمارے ہاں جیسے لوگ نماز کے بعد دعا کرتے ہیں ،یہ طریقہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں نہیں تھا ۔ لوگ انفرادی دعا کر لیتے تھے ۔ جس نے جاناہوتا تھا چلاجاتاتھا۔ اصل میں نماز کے اندر دعا کو باقاعدہ رکھا گیا ہے ۔یعنی قعدہ اصل میں دعا کی جگہ ہے ۔ نماز کے بعد جیسے ہمارے ہاں لوگ ایک معمول کے طور پردعا کرتے ہیں یا دعا کراتے ہیں یہ طریقہ حضور ﷺکے زمانے میں نہیں تھا۔ البتہ اگر متقدیوں میں سے کسی نے کہہ دیا تو آپﷺ دعا کر دیتے تھے ۔اور ایسے ہی اگر کوئی غیرمعمولی صورتحال ہوتی جس میں حضورﷺ پسند فرماتے کہ سب کو شریک کیا جائے تو سب کو شریک کر لیتے تھے لیکن عام طریقہ یہی تھا کہ نماز پڑھیے ، اپنی دعا کیجیے اور گھر جائیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: یہ ایک بڑا پاکیزہ ذکر ہے ، حضورﷺ نے بھی اس کی بڑی تحسین فرمائی ہے ، اگر آپ کریں گے تو امید ہے کہ اللہ کے ہاں آپ کو بڑی نعمت حاصل ہو گی ۔اس کو سمجھ کر کیجیے یہ بہت پاکیزہ ذکر ہے یعنی اس میں اللہ کی توحید کی گواہی دی جاتی ہے ،اس کا شکر ادا کیا جاتا ہے اوراس کی کبریائی کا اعتراف کیا جاتا ہے اگر یہ صحیح شعور کے ساتھ ہو تو یہ ہمارے ایمان کا بہترین اظہار ہے اور اللہ سے تعلق کی بھی بہترین علامت ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: نماز والی جگہ کوئی ایسی چیز نہ ہونی چاہیے کہ جوآپ کی توجہ کواپنی جانب مبذول کرلے اگر تصویر سے توجہ بٹتی ہے تو اسے ہٹا دیں اگر توجہ مرکوز رہتی ہے تو تصویر سے کچھ نہیں ہوتا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اقامت صلوۃ کا مطلب ہے نماز کا اہتمام کرنا یعنی نماز کو اللہ کے دین کا ایک بڑا حکم سمجھ کر بڑے اہتمام سے ادا کرنا ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: جمعہ کی نماز دو رکعت فرض ہے ،یہ اگر پڑھ لی تو آپ مواخذہ سے بچ گئے۔ جمعہ سے پہلے کوئی نفل نماز حضورﷺ نے نہیں پڑھی سوائے تحیۃ المسجد کی دو رکعتوں کے ۔ جمعہ کے بعد آپﷺ کبھی دو رکعت پڑھتے تھے اور کبھی چار ۔ دو اور چار یا چار اور دو نہیں پڑھیں ۔کبھی دو اور کبھی چار ۔ یہ بات روایات میں بیان ہو گئی ہے ، بعد کے لوگوں نے کہا کہ کیونکہ کبھی چار اور کبھی دو پڑھتے تھے تو ہم دو بھی پڑھ لیتے ہیں اور چار بھی پڑھ لیتے ہیں تو انہوں نے چھ بنا دیں ۔نفل نماز ہے کوئی پڑھنا چاہے تو اچھی بات ہے لیکن حضورﷺ سے ثابت اتنا ہی ہے ۔ یہ بات کہ حکومت کے بغیر جمعہ نہیں ہوتا ،اصولاً ٹھیک ہے۔ لیکن مسلمان اب صدیوں سے حکومت کے بغیر ہی جمعہ پڑھ رہے ہیں تو اسے جاری رہنا چاہیے ۔کیونکہ جب کوئی عمل خواہ تیمم کے طریقے پر ہی کیاجاتا ہے توپھر اس میں احتیاطاً کوئی کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یعنی آپ نے تیمم کیا اور آپ کو اطمینان تھا کہ اس وقت پانی نہیں ہے تو تیمم کر کے آپ نے نماز پڑھ لی ، اب پانی موجود ہو گیا تو احتیاطاً نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس وجہ سے احتیاطی ظہرکوئی چیز نہیں ہے ۔ آپ جمعہ پڑھ لیجیے بس آپ ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے ۔ یہ کام حکمرانوں کا ہے جب اللہ ان کو توفیق دے گا وہ مسجد میں آ جائیں گے ، آئیں گے تو جمعہ پڑھا دیں گے ۔
(جاوید احمد غامدی)س: اگر عشا کی نماز پڑھے بغیر ہی سو جائیں اور آدھی رات کو اٹھ کر پڑھ لیں تو کیا یہ نماز مکروہ ہو گی ؟
ج: نمازمکروہ نہیں قضا ہو جائے گی کیونکہ آدھی رات تک ہی عشا کاوقت ہوتا ہے۔ البتہ اگر آپ اس وجہ سے سو گئے کہ بہت تھکے ہوئے تھے، تھوڑے آرام کے لیے لیٹے لیکن لیٹتے ہی اچانک آنکھ لگ گئی تو اس میں البتہ جب آپ کی آنکھ کھلے فوراًنماز پڑھ لیجیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: ایسا شخص ایک کام اچھا کر رہا ہے اور ایک بہت برا ۔ جس طرح بندوں کے بارے میں جو جرائم ہیں ان سے بچنا ضروری ہے اسی طرح اللہ کے مقابلے میں بھی انسان کو سرکش نہیں ہونا چاہیے ۔نماز اللہ کے حضور حاضری ہے ، اس کا بندوں سے اچھا یا برا ہونے سے کیا تعلق ہے ؟ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک آدمی کہے کہ میں لوگوں کے ساتھ بہت اچھا معاملہ کرتا ہوں ان کی ہر ضرورت پوری کرتا ہوں لیکن ماں باپ کو گالیاں دیتا ہوں اورکہے کہ ان گالیوں سے کیا ہوتا ہے ، میں ان لوگوں سے تو اچھا ہی ہوں جو ماں باپ کو گالیاں نہیں دیتے اوران کی خدمت کرتے ہیں لیکن باقی بندوں کا حق ادا نہیں کرتے …… خدا کا ایک حق ہے وہ بھی ہمارے ذمہ ہے اور بندوں کے حقوق ہیں وہ بھی ہمارے ذمہ ہیں۔ اس میں تفریق کر کے ایک دوسرے پر برتری جتانے کی کیا وجہ ہے ،دونوں ہی اپنی اپنی جگہ ضروری ہیں۔ آدمی کو عاجزبن کر ہی رہنا چاہیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: وتر میں دعائے قنوت پڑھنا لازم نہیں ہے ، اگر آتی ہے تو پڑھ لیجیے اچھی بات ہے ، نہیں آتی تو نہ پڑھیے ،کوئی اور دعا پڑھ لیجے ۔ اس سے نماز میں کوئی کمی نہیں واقع ہوتی ، ایک دعا ہے کریں گے تو بہت اچھی دعا ہے ، نہ کریں تو نمازالبتہ ہو جاتی ہے۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: قرآن میں جس کا ذکر ہے وہ تو عصر کی نماز ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس زمانے میں عصر کی نماز بالخصوص جنگ کے موقع پرایسی صورت پیدا کر دیتی تھی کہ اس کے ضائع ہونے کا بڑاامکان ہوتا تھا۔ اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ ہر وہ نماز جوتمدن کی تبدیلی کے ساتھ ایسے موقع پر آجائے کہ جس میں آدمی بہت مشغول ہو اور نماز کے لیے اٹھنا مشکل ہو جائے تو خاص طور پر تاکید فرمائی ہے کہ اس نماز کو ضائع ہونے سے بچایاجائے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: اگر کوئی ایسا معاملہ ہو رہا ہے جس میں فوراً روکنا ضروری ہے تو آپ سبحان اللہ کہہ سکتے ہیں ۔ ہاتھ سے اشارہ کر سکتے ہیں اور اگر کوئی خطرناک صورتحال ہے تو آپ نماز توڑ دیجیے اور بچے کو متنبہ کر کے نماز پوری کر لیجیے ۔
(جاوید احمد غامدی)