ج: ایسا شخص ایک کام اچھا کر رہا ہے اور ایک بہت برا ۔ جس طرح بندوں کے بارے میں جو جرائم ہیں ان سے بچنا ضروری ہے اسی طرح اللہ کے مقابلے میں بھی انسان کو سرکش نہیں ہونا چاہیے ۔نماز اللہ کے حضور حاضری ہے ، اس کا بندوں سے اچھا یا برا ہونے سے کیا تعلق ہے ؟ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک آدمی کہے کہ میں لوگوں کے ساتھ بہت اچھا معاملہ کرتا ہوں ان کی ہر ضرورت پوری کرتا ہوں لیکن ماں باپ کو گالیاں دیتا ہوں اورکہے کہ ان گالیوں سے کیا ہوتا ہے ، میں ان لوگوں سے تو اچھا ہی ہوں جو ماں باپ کو گالیاں نہیں دیتے اوران کی خدمت کرتے ہیں لیکن باقی بندوں کا حق ادا نہیں کرتے …… خدا کا ایک حق ہے وہ بھی ہمارے ذمہ ہے اور بندوں کے حقوق ہیں وہ بھی ہمارے ذمہ ہیں۔ اس میں تفریق کر کے ایک دوسرے پر برتری جتانے کی کیا وجہ ہے ،دونوں ہی اپنی اپنی جگہ ضروری ہیں۔ آدمی کو عاجزبن کر ہی رہنا چاہیے ۔
(جاوید احمد غامدی)
ج: انسان کے اندر اگر مذہب نے اخلاقی تبدیلی پیدا نہیں کی تو کچھ نہیں کیا۔اخلاقی اصلاح کے بغیر نمازیں ، روزے ، حج ، زکوۃ یہ سب کچھ ضائع ہو جائے گا۔اصل امتحان یہی ہے جس میں آپ کو ڈالا گیا ہے اور اس امتحان کا سب سے بڑا میدان آپ کا گھر ہے ۔اس لیے کہ وہاں توانسان بالکل ‘‘برہنہ ’’ ہوتا ہے۔ آپ دوسروں کے سامنے تو اپنے اوپر خول چڑھا سکتے ہیں ، ان کوفریب دے سکتے ہیں مگر گھر میں یہ نہیں کر سکتے ۔بیوی بچوں کے ساتھ انسان اخلاقیات کے کس مقام پر کھڑا ہے اسی سے اس کے اخلاق کا تعین ہو گا۔اچھوں کے ساتھ اچھا ہونا کون سا اخلاق ہے اور اس میں آپ کاکیا کمال ہے۔کمال تو یہی ہے کہ بروں کے ساتھ اچھے بن کر دکھائیے ۔ قرآن نے کہاہے کہ ادفع بالتی ھی احسن یعنی آپ برائی کا جواب بھی بھلائی سے دیں ۔ آپ کو اللہ نے اگر باپ کے مقام پر رکھا ہے تو اپنے مرتبے کو پہچانیے ۔ قرآن ایسے موقعوں پر کہتاہے کہ لا تنسو الفضل بینکم یعنی اپنی اس فضیلت کو مت بھولو جو اللہ نے تم کو دی ہے ۔باپ کی جگہ پر رکھاہے تو باپ تو سراپا شفقت ہستی ہوتی ہے ۔سراپا محبت ہستی ہوتی ہے ۔ آپ کو ایک دن اپنے مالک کے حضور پیش ہونا ہے اور وہاں جو سب سے بڑا امتحان ہے جس کا نتیجہ نکلنا ہے وہ آپ کے اخلاقی وجود کا امتحان ہے ۔ اس میں کامیابی کو اصل ہدف بنائیے باقی چیزوں میں کوئی کمزوری بھی رہ گئی تو امیدہے اللہ معاف کر دیں گے لیکن یہ معاملات انسانی حقوق کے ہیں اور انسانی حقوق کے معاملات کے بارے میں ایک دوسرا آدمی بھی اللہ کے سوا آپ کا گریبان پکڑنے والا موجود ہو گا ۔ کیا کریں گے وہاں جب وہ گریبان پکڑے گا اور یہ کہے گا کہ میرا حق ادا نہیں ہوا ۔ وہاں پھرآپ کو کوئی بچانے والا نہیں ہو گا ۔ ہر آدمی اپنے اعمال کردار کا جائزہ لے اور کبھی اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو کہ میں جو اخلاقی بدتمیزیاں کرتا ہوں اس کا ازالہ یہ ہے کہ دو نفل اور پڑھ لوں گا یا دوروپے خیرات اور کر دوں گا ۔ ایسے نوافل اور ایسی خیرات اللہ منہ پر ماردیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کا فیصلہ کر دیا تھا جب اس بی بی کے بارے میں پوچھا گیا کہ ہمسائے اس کے اخلاق سے تنگ ہیں لیکن نمازیں بہت پڑھتی ہے ، بڑی تہجد گزار ہے ، تو آپ نے فرمایا کہ جہنم میں جائے گی ۔تو اس وجہ سے یہ سمجھ لیجیے کہ اصل امتحان کیا ہے ، اصل امتحان یہ ہے کہ آپ نے اپنی اخلاقی پاکیزگی کا کتنا اہتمام کیاہے اور اخلاقی پاکیزگی کے لیے باہر مت جائیے اس لیے کہ باہر تو آدمی بڑا مودب، بہت شائستہ، بڑی عمدہ باتیں کرتا ہے ۔لیکن جیسے ہی گھر کے دروازے میں داخل ہو گا تو سارا لبادہ اتر جائے گا۔ اس سے بڑی کوئی منافقت نہیں ہے اس لیے سب سے پہلے اپنے گھر میں اعلی انسان بننے کی کوشش کی جائے ، آپ وہاں کامیاب ہو گئے تو سمجھیے کہ سارے میدانوں میں کامیاب ہو گئے ۔
(جاوید احمد غامدی)