انگریز سے پہلے ہندستان میں اگر حکمران کو گالی دینا مقصود ہوتی تو اس کے لئے اشارے کنایے میں ہجو کہی جاتی تھی۔کبھی کبھی حکمران بھی یہ اشارے کنایے سمجھ جاتا تھا لیکن جواب میں گالی نہیں دیتا تھا بلکہ نمک حرام ہجو گو کو اسکے کلام سمیت کولہو میں پلوا دیتا تھا۔ پھر انگریز کا دور آیا تواس نے اپنے شدید دیسی مخالفوں کو بدمعاش اور باغی کے القابات اور وفا داروں کو خان بہادر، رائے بہادر اور سر کے خطابات سے نوازا۔جبکہ انگریز مخالف سیاسی کارکن اس وفادار دیسی اشرافیہ کو ٹوڈی بچہ، انگریزی پٹھو اور کالا انگریز کہہ کر اپنے جی کا بوجھ ہلکا کرلیتے تھے ۔ اس دور کے کانگریسی اور مسلم لیگی مخالفین ایک دوسرے کو زیادہ تر نام لئے بغیر لتاڑتے تھے۔جذباتی مخا لفین زیادہ سے زیادہ ہائے ہائے کے نعرے لگا لیتے تھے۔اور علما نظریاتی حریفوں کو دائرہ اسلام سے خارج کرکے اپنا غصہ نکال لیتے تھے۔لیکن آزادی کیا ملی کہ زبان بھی آزاد ہوگئی۔سن ساٹھ کے عشرے تک سیاسی دلال، سامراجی ایجنٹ، عوام دشمن، شرپسند، تخریب کار اور ملک دشمن جیسے القابات سیاسی روزمرہ زبان و بیان کا اس کثرت سے حصہ بن گئے کہ اپنے معنی کھو بیٹھے۔پھر ایوب خان کے خلاف تحریک میں چرند و پرند کے نام متعارف ہوئے۔سب سے پہلے کتا ہائے ہائے آیا،پھر چوہا، پھر لومڑی اور گیدڑ حتیٰ کہ خنزیر تک گھس آیا۔شیر واحد درندہ تھا جسے کسی سیاستدان کی عزت افزائی کے قابل نہ سمجھا گیا۔چنانچہ اس دور کے بعد سے شیر کشمیر، شیر سرحد اور شیر پنجاب بھی نظر آنے لگے۔ایوبی آمریت کے خاتمے کے بعد والے دور میں فراخ دلی بڑھنے کے بجائے تنگ ہوتی چلی گئی۔بینگن اور آلو جیسی سبزیاں بھی سیاسی طعنوں کی فہرست میں شامل ہوگئیں۔سیاسی ادب میں صنعت غدار سازی نے فروغ پایا۔ایک دوسرے کے شجرے جلسوں میں کھولے جانے لگے۔علما نے سیاسی مخالفین کے نکاح تڑوانے کا ٹھیکہ اٹھا لیا۔رقاصاؤں کی تصویری گردنیں اڑا کر ان کی جگہ مخالفین کے چہرے چسپاں ہونے لگے۔بھٹو صاحب خود اپنے جلسوں اور بیانات میں مخالفین کے نام لے لے کر رسیلی گفتگو کے عادی تھے۔چنانچہ انیس سو ستتر میں جب بات بھٹو مخالف تحریک میں ‘گنجے کے سر پر ہل چلے گا’ سے شروع ہوئی تو فیملی ممبروں کی نجی تصاویر کی اشاعت تک جا پہنچی۔اسی دور میں جلسوں اور جلوسوں میں فحش نعرے بازی اور نظم بازی کی بھی داغ بیل پڑی۔ضیا ء الحق ذاتی طور پر گالی گفتار سے دور تھے۔لیکن اپنے طرز حکومت کے سبب جتنی سیاسی نفرت انہوں نے کمائی غالباً کسی اور حکمران کے حصے میں نہیں آئی۔اسکا اندازہ انہی کے دور میں لگنے والے اس نعرے سے ہوسکتا ہے کہ ‘ضیا الحق کو کتا کہنا کتے کی توہین ہے’۔جس کا جواب انکے حامی مردِ حق ضیا الحق کا نعرہ لگا کر دیتے تھے۔ضیا دور میں جس کلاشنکوف کلچر نے جڑ پکڑی اسکے نتیجے میں گالی کا جواب گولی سے دینے کی روایت پڑی ۔گویا نہ رہے گا بانس، نہ بجے کی بانسری۔
اور آج ساٹھ برس بعد جمہوریت کے لئے ترسے پاکستانی سماج میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا لیول یہاں تک آ چکا ہے کہ سربراہ ریاست کی گفتگو میں پاگل، بے وقوف اور بکواس جیسے لفظ شامل ہیں ۔جبکہ گالی اور گولی میں تمیز مٹ جانے کے بعد دیواریں سیاسی مخالفین کے لیے زانی، کتا، حرامزادہ، یہودی ایجنٹ، پاگل کا بچہ، سٹے باز، جواری، نائٹ کلب کا نچنیا اور قاضی کا لونڈا جیسے القابات سے رنگی ہوئی ہیں۔
لگے منہ بھی چڑانے، دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی سو بگڑی تھی، خبر لیجیے دہن بگڑا۔
پاکستان ، رات کی رات پڑی ہے
پاکستان کے ابتدائی دن تھے۔ جہاں تہاں سے قافلے بے سروسامانی کی داد دیتے چلے آ رہے تھے۔ کوئی انبالہ کے لٹے ہوئے قریے کی نشانی تھا تو کوئی دہلی کا متروکہ۔ کچھ جن کے ہاتھ پاؤں میں دم تھا وہ متروکہ جائیدادوں کی بہتی گنگا دیکھ کر گھر بیٹھے مہاجر ہو گئے تھے۔اردو دان مہاجروں میں سے بہت سوں کو شعر کی چٹک بھی تھی، کرنے کو کچھ تھا نہیں سو لاہور میں مشاعروں کا بازار گرم ہو گیا۔ لارنس باغ کے ایسے ہی ایک مشاعرے میں امرتسر کے نووارد شاعر نفیس خلیلی سے ایک شعر سرزد ہوا جو گلشن میں طرزِ بیان کا درجہ اختیار کر گیا۔
دیکھتا کیا ہے میرے منہ کی طرف
قائد اعظم کا پاکستان دیکھ
روایت ہے کہ اس شعر پر ایسا غلغلہ ہوا کہ شاعر عدالت میں کھنچا کھنچا پھرا۔ خیر گزری کہ میرِ عدالت جسٹس رستم کیانی تھے جن کی آنکھ سرکاری بوالعجبیوں کی تحقیق میں تہہ در تہہ جاتی تھی۔ اْنہوں نے نفیس خلیلی کو یہ کہہ کے بری کر دیا کہ شاعر محب وطن ہے اور اس کی تجویز ہے کہ قائد اعظم نے جو ملک بنایا ہے، اسے گھوم پھر کر دیکھا جائے۔ آپ اگر چاہیں تو نعم البدل کے طور پر نفیس خلیلی کا منہ دیکھتے رہیں۔
ہم بیرونِ ملک تعلیم کی تہمت لے کر وطن لوٹے تو خیال آیا کہ کچھ تاخیر ہی سے سہی،مگر نفیس خلیلی کی تجویز پر عمل کرنا چاہیے۔ طے پایا کہ کراچی اور لاہور جیسے آبادی سے کْلبلاتے جنگلوں سے ہٹ کر چھوٹے شہروں اور قصبوں کا رْخ کیا جائے۔ چنانچہ ہم نے دیکھا تو معلوم ہوا کہ لاکھوں کی آبادی پر مشتمل پاکستانی قصبوں میں بنیادی شہری ضروریات سرے سے ہی غائب ہیں۔ سکھر ہو یا ساہی وال، گوجرانوالہ ہو یا گجرات، سڑکوں پر کہیں فٹ پاتھ نظر نہیں آتے۔ گردوغبار میں اٹی، کیچڑ میں ستی تارکول کی شکستہ سڑک کے دونوں کناروں پر یا تو تجاوزات ہیں یا مٹی اور کوڑا کرکٹ کے انبار۔ گویا شہری بندوبست کے ذمہ دار اداروں نے پیدل چلنے والی مخلوق کو ایسے ہی آبادی کا غیر فعال حصہ قرار دے دیا ہے جیسے پچیس اور پچاس پیسے بلکہ روپے کے سکے بھی اب نظر نہیں آتے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان شہروں کے ایک خاص حصے میں فٹ پاتھ ہی موجود نہیں البتہ فٹ پاتھ کے کناروں پر سفید اور سیاہ روغن کا التزام کہیں کہیں نظر آتا ہے۔
ملک بھر میں دو تین بڑے شہروں کے سوا تعلیم یا علاج معالجے کی اطمینان بخش سہولتیں تو خیر ناپید ہیں، سڑکوں کے کنارے درخت بھی نظر نہیں آتے۔ نیو یارک، لندن اور ٹوکیو جیسے بڑے شہروں کو طنزیہ طور پر کنکریٹ اور لوہے کے جنگل کہا جاتا ہے۔ لیکن پاکستانی قصبوں میں تو اونچی عمارتیں بھی نہیں۔نہ کتب خانے ہیں اور نہ فنون لطیفہ کی سرگرمیاں سو ذہنوں میں روشنی کی کِرن نہیں پھوٹتی۔ درخت بھی نہیں کہ ہریالی دیکھ کر آنکھوں ہی میں ٹھنڈک اترے۔
کوئی تیس برس پہلے شام کی اذان کے ساتھ ہی سینکڑوں پرندے قطار اندر قطار اپنے گھونسلوں کی طرف اْڑتے دکھائی دیتے تھے۔ اب سورج غروب ہونے پر اذان کی آواز مسجد کے میناروں ہی سے نہیں، ریڈیو اورٹیلی ویژن سے بھی بلند ہوتی ہے، مگر پرندے نظر نہیں آتے۔ پرندوں کی صرف تعداد ہی کم نہیں ہوئی، اْن کے تنوع میں بھی کمی آئی ہے۔ پاکستانی بچے پرندوں کے نام پر صرف چڑیا اور کوے سے آشنا ہیں۔ فاختہ، توتا، لالی، ہْد ہْد اور تیتر اْن کی کتابوں میں ہوں تو ہوں، اْن کے مشاہدے کا حصہ نہیں۔ فصلی بٹیرے بھی فضا میں نہیں، اقتدار کی غلام گردشوں میں ملتے ہیں۔ قصبہ میلسی کے شاعر عباس تابش نے کبھی لکھا تھا۔
شام ہوتی ہے تو یاد اس کو بھی گھر آتا ہے
اک پرندہ میرے کاندھے پہ اْتر آتا ہے
کچھ سال گزرنے پر اسی شاعر نے لکھا :
یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا
ایسا نہیں کہ دنیا بھر میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں مگر سادہ سی بات ہے کہ جہاں انسان بستے ہوں، وہاں بچوں کی ہنسی اور بڑوں کی آسودہ مسکراہٹ روزمرہ کا حصہ ہوتی ہے۔ نہایت تعجب ہے کہ پاکستان میں ایک چوک سے دوسرے چوک تک چلے جائیے، آپ کو کسی چہرے پر مسکراہٹ نظر آئے یا کانوں میں ہنسی کی آواز آئے تو آپ خوش نصیب ہوں گے۔ حد تو یہ ہے کہ مقبول عام لطائف میں بھی مزاح سے زیادہ مایوسی اور غصے کا اظہار ملتا ہے۔
(بشکریہ ، بی بی سی ڈاٹ کام)