چیونٹیوں کی ایک وادی کا ذکر حضرت سلیمان علیہ السلام کے حالات کے ضمن میں اکثر آتا ہے۔ قرآن مجید میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے۔ اپنے مضمون میں ہم اس وادی کے محل وقوع کا کھوج لگانا چاہتے ہیں اور اس کے ساتھ خود چیونٹی کے بارہ میں بھی کچھ بنیادی اور اہم معلومات اپنے قارئین کے استفادہ کے لیے جمع کرنا چاہتے ہیں۔ اس ننھی مخلوق کے بارہ میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ایک چیونٹی اپنی قامت کے سوا
بوجھ لے جا رہی تھی غار میں
دیکھنے والوں نے حیرت سے کہا
کتنا کَس ہے مورِ بے مقدار میں
چوگنا ہے وزن اس کے جسم سے
گام زن ہے منزلِ دشوار میں
مُسکرائی سن کے چیونٹی اور کہا
ہیچ ہے قوت مِری پندار میں
نَرم ہمت سے ہوا کرتے ہیں کام
کامیابی ہے اسی قوت کا نام
چیونٹیوں کی ذہانت:
عام طور پر چیونٹی کو ایک حقیر اور غیر اہم شے تصور کیا جاتا ہے اور بظاہر اس چھوٹے ننھے منے کیڑے سے کسی عقل و دانش کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ عام بولی میں اسے ایک ‘‘کیڑے’’ کے بجائے ‘‘کِیڑی’’ کے اسم مصغر سے یاد کیا جاتا ہے لیکن حقائق کی دنیا میں معاملہ بالکل اس کے برعکس ہے۔ چیونٹی اپنی سعی پیہم، مسلسل جدوجہد، حسن عمل اور مرتب آدابِ زندگی کے اعتبار سے مجسمہ عقل و دانش ہے۔ کئی گوشوں میں وہ حضرت انسان کا مقابلہ کرتی ہے۔ اس کا نظامِ حیات اور نظامِ زندگی کسی طرح انسان سے کمتر نہیں، عزیمت و ہمت اس کی سیرت کا جزوِ اعظم اور دور اندیشی اس کی فطرت کا جوہر ہے۔
ہمارے قارئین غالباً یہ جان کر حیران ہوں گے کہ چیونٹی اپنے لیے جانور پالتی ہے۔ان سے دودھ، شہد اور اپنی دوسری خوراکیں حاصل کرتی ہے۔ چیونٹی اپنی فوج رکھتی ہے، اس کی تنظیم کرتی ہے اور اس کی مدد سے اپنے دشمنوں پر حملہ کرتی ہے۔ چیونٹی کھیتی باڑی کرتی ہے، ہل چلاتی ہے، بیج بوتی ہے، غلہ چھانٹتی ہے اور پھر حفاظت کے ساتھ اس غلہ کو تہہ خانوں میں محفوظ کر لیتی ہے۔چیونٹی کی دنیا میں جاگیر دار اور حاکم ہوتے ہیں، وہ دوسروں سے خدمت اور بیگار لیتے ہیں۔ خود آرام اور حکمرانی کے سوا کچھ نہیں کرتے۔
چیونٹیوں کے پالتو جانور:
چیونٹیوں کے پالتو جانور ایک قسم کے کیڑے ہوتے ہیں۔ انہیں ‘‘افائڈس’’ Afhieds کہا جاتا ہے۔ ان کے پیٹ میں شہد بھرا ہوتا ہے۔ چیونٹیاں اپنے باریک باریک اور چھوٹے چھوٹے ڈنگوں کی مدد سے ان افائڈس کیڑوں سے شہد حاصل کرتی ہیں۔ جب ان کے اندر شہد بہت بھر جاتا ہے تو ان کے لیے چلنا پھرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ اب یہ دودھ اور شہد والی چیونٹیاں اپنے خاص خانوں سے چمٹ جاتی ہیں اور انگور کے گچھوں کی طرح لٹکی رہتی ہیں۔ دوسری کارکن اور رضا کار چیونٹیوں کو بھوک لگتی ہے تو وہ آکر ان سے غذا حاصل کر لیتی ہیں اور پھر اپنے کام کاج میں لگ جاتی ہیں۔ ان افائڈس چیونٹیوں کو بہتر سے بہتر غذا مہیا کی جاتی ہے۔
جاگیردار چیونٹیاں:
چیونٹیوں کے اندر ایک ایسا طبقہ ہے جو کوئی کام کاج نہیں کرتا۔ اس گروہ کو اگر نواب یا جاگیر دار کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ گروہ کا رکن اور رضا کار چیونٹیوں پر حملہ کر کے ان کے انڈے اٹھا لیتا ہے۔ جب ان انڈوں سے بچے نکلتے ہیں تو ان سے اپنی خدمت لیتا ہے۔ گھر کی صفائی ، حفاظت اور غذا جمع کرنا ان خادموں کے فرائض میں شامل ہوتا ہے۔
تین گروہ:
شہد کی مکھیوں کی طرح چیونٹیوں کے اندر بھی تین گروہ ہوتے ہیں۱۔نرچیونٹیاں،۲۔مادہ چیونٹیاں،۳۔ کارکن اور رضا کار چیونٹیاں۔ انہیں غیر نمو یافتہ مادہ بھی کہا جاسکتا ہے۔
یہ بات قدیم ایام سے انسان کے علم میں ہے کہ چیونٹیاں حد درجہ کفایت شعار اور دور اندیش واقع ہوئی ہیں۔ حال ہی میں تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ وہ کھیتی باڑی اور کاشت کاری بھی جانتی ہیں۔ بھورے رنگ کی چیونٹیاں جسم اور قد میں دوسروں سے بڑی ہوتی ہیں۔ یہ کاشت کاری کرتی ہیں۔ کھیتی باڑی کے لیے زمین کا انتخاب کرکے مناسب موسم میں بالکل صاف کرلیتی ہیں۔ بعض اوقات ان کا یہ کھیت تین چار مربع فٹ تک پھیلا ہوتا ہے۔ چیونٹیاں اپنا کھیت بالکل صاف اورہموار رکھتی ہیں۔ ایک خاص قسم کی بیج دار گھاس کے سوا وہاں کچھ نہیں اگنے دیتیں۔ اگر اور کوئی گھاس وغیرہ اگنے لگے تو اسے فوراً صاف کر دیتی ہیں۔ جب گھاس کا بیج پک جاتا ہے تو اسے گوداموں کے اندر لے جاتی ہیں جہاں اسے چھانٹتی ہیں اور بھوسہ علیحدہ کر کے چھانٹ دیتی ہیں۔ گوداموں کے سوراخ میں اگر نمی کی وجہ سے غلہ خراب ہونے لگے تو اسے باہر نکال کر دھوپ میں سکھا لیتی ہیں۔ یہ تحقیقات متعدد ماہرین طبقات الارض نے مختلف اوقات میں کی ہیں۔ ان میں سر فہرست فرانسیسی سائنسدان ہیوبر، ڈاکٹر لنکم اور میک کک ہیں۔ چیونٹیوں کی بے شمار اقسام ہیں۔ چنانچہ اس وقت تک تین ہزار سے زائد قسمیں مشاہدہ میں آچکی ہیں۔ جو دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ ان کے رنگ ، قد، وزن اور رہن سہن کے طور طریقے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔
چیونٹیوں کا رہن سہن:
عام طور پر چیونٹیاں زیرِ زمین رہتی ہیں۔ وہ کوئی نرم اور مرطوب جگہ منتخب کر کے اپنے بِل تیار کرتی ہیں۔ عام طور پر یہ بل زمین میں بہت گہرے ہوتے ہیں۔ اکثر کسی بڑے پتھر یا درخت کے تنے کے نیچے وہ اپنابل تیار کرتی ہیں تاکہ کسی بھاری وزن سے زمین بیٹھ نہ جائے۔اور ان کے گھر کو نقصان نہ پہنچے۔
پہلے ایک چیونٹی منہ سے مٹی کھودتی ہے اور دور پھینک آتی ہے پھر دوسری چیونٹی یہ ہی طریقہ اختیار کرتی ہے۔ یہاں تک سینکڑوں چیونٹیاں مٹی کھودنا شروع کر دیتی ہیں۔ اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے زیرِ زمین ان کا تہ خانہ تیار ہوجاتاہے۔ وہ دور اندیشی کے خیال سے اس کے متعدد راستے بناتی ہیں۔بعض چیونٹیاں اپنا گھر سطح زمین کے اوپر بناتی ہیں۔ کبھی وہ گھر کا کچھ حصہ زمین پر اور کچھ زمین کے نیچے رکھتی ہیں۔ وہ اس طرح کہ زمین کھود کھود کر مٹی کا ایک ڈھیر لگا لیتی ہیں۔اس میں مٹی کے علاوہ خشک گھاس، تنکے اور دانے وغیرہ ملے ہوتے ہیں۔ اسے ہم ‘‘کوہِ مور’’ کہتے ہیں۔ امریکہ میں بعض چیونٹیاں درختوں میں اپنا گھر بناتی ہیں ۔چھوٹی چیونٹیاں ایک قسم کا ریشہ تیار کرتی ہیں اور بڑی چیونٹیاں اس ریشہ سے پتے جوڑتی ہیں ۔ وہ اس طرح کہ چھوٹی چیونٹیوں کو منہ میں دبا کر ادھر ادھر گھماتی ہیں۔ ان سے ریشہ خارج ہوتا ہے تو اس ریشہ سے پتوں کو جوڑتی ہیں۔ اس طرح ان کے رہنے کی جگہ تیار ہوجاتی ہے۔ انہیں‘‘مورِ درخت’’ کہا جاتا ہے۔
ان کی ایک قسم‘‘پات چاٹ چیونٹیاں’’ کہلاتی ہیں۔ یہ چیونٹیاں درختوں پر چڑھ کر ان کے پتے کاٹتی ہیں۔ پھر یہاں سے پتے اٹھا کر اپنے گھروں کے اندر لے جاتی ہیں۔ وہ ان ٹکڑوں سے غذا حاصل کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس قدرتی کھاد سے زمین زرخیز ہوجاتی ہے۔
چیونٹیوں کی غذا:
چیونٹیوں کی عام غذا مختلف اقسام کے دانے ہیں۔ دانوں کے علاوہ بھوسی، خشک گھاس اور پتوں کے ٹکڑے بھی ان کی محبوب غذا ہیں۔ یہ اشیا وہ آسانی سے حاصل کر لیتی ہیں۔ سالم روٹی کو کتر کتر کر چھوٹے چھوٹے ذرے بنا لیتی ہیں۔ پھر ان ذروں کو بطورِ غذا استعمال کرتی ہیں۔ چیونٹیوں کی سب سے مرغوب غذا شیرینی ہے۔ مکھی کی طرح چیونٹی بھی مٹھاس پر جان دیتی ہے۔ شہد تو وہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑتی۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ مٹھاس کی خاطر شہد کے ڈبہ اور بوتل سے چمٹ کر جان دے دیتی ہیں۔
ہر کجا بود چشمہ شیریں
مگس و مرغ و مور گرد آیند
گوشت بھی ان کی بہت پسندیدہ غذا ہے۔ آپ لاکھ ان سے گوشت بچائیں،مگر وہ کسی نہ کسی طرح اپنا راستہ ضرور بنا لیں گی۔حشرات الارض بھی ان کی غذا کا کام دیتے ہیں۔ کیڑے مکوڑے خواہ وہ کس قدر وزنی ہوں وہ گرتی پڑتی ، کھینچ تان کر ، کسی نہ کسی طرح انہیں اپنے گھر لے ہی جاتی ہیں۔ یہ تماشا دیکھنے والاانسان ان کے عزم و استقلال کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
چیونٹیاں اور حضرت سلیمانؑ:
حضرت سلیمان علیہ السلام ایک جلیل القدر نبی تھے۔ وہ حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے اور جانشین تھے۔ انہوں نے اپنے بزرگ باپ سے ورثہ میں بہت کچھ پایا ، علم و حکمت، نبوت و رسالت، دولت وثروت، حکومت و ریاست، غرض اللہ کا دیا سب کچھ انہیں ملا۔ ہر قسم کے مادی اور روحانی مدارج بدرجہ کمال حاصل ہوئے۔
قرآن مجید کے اوراق میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا تذکرہ کئی جگہ ہوا ہے۔ خصوصاً سورہ النمل کی آیات خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔مثلاً‘‘اور سلیمانؑ کے لیے جن و انس کا لشکر جمع کیا گیا اور پرندوں کا بھی ۔ اور انہیں(صف بندی کے لیے) روکا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ ایک مرتبہ وادی نمل (یعنی چیونٹیوں کی وادی) میں پہنچے۔’’
‘‘ایک چیونٹی نے کہا‘‘اے چیونٹیو! اپنے اپنے سوراخوں میں جا گھسو، کہیں سلیمانؑ اور ان کا لشکر تمہیں روند نہ ڈالے اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔’’
‘‘سلیمانؑ اس کی بات پر مسکر ا کر ہنس پڑے اور کہنے لگے اے پروردگار! مجھے اس پر استقامت دے کہ میں تیری نعمتوں کا شکر ادا کیا کروں، جو تو نے مجھے اور میرے باپ کو عطا کی ہیں۔اور اس پر بھی کہ میں نیک کام کیا کروں۔ جن سے توراضی ہو۔ اور اپنی رحمت سے تو مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل کر۔’’
چیونٹیوں کی بولی:
چیونٹیوں کی ذہانت کے پیش نظر یہ بات بہ آسانی سمجھ میں آجاتی ہے کہ انہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی آمد اور لشکر کے ہجوم کو محسوس کر لیا ہوگا۔ اور اپنے تحفظ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کر لی ہوں گی۔
غور طلب سوال یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے چیونٹی کی بولی کیسے سمجھی؟ کہ آپ اس کی باتیں سن کر بے اختیار ہنس پڑے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو بہت سی حیران کن قوتیں عطا کی تھیں۔ یہاں تک کہ وہ پرندوں کی بولی جانتے تھے اور ان پر حکومت کرتے تھے۔ ایک پرندوں پر کیا موقوف ہے ہوائیں تک ان کے مسخر تھیں اور وہ ہواؤں کے دوش پر پرواز کرتے تھے۔اس بارہ میں قرآن مجید کی شہادت موجود ہے:‘‘ ہم نے زوردار ہواؤں کو سلیمانؑ کے تابع بنا دیا تھا۔ وہ اس سرزمین کی طرف ان کے حکم سے چلتی تھیں۔ جسے ہم نے برکت دی، اور ہم ہر شے کا علم رکھتے ہیں۔(سورۃ الانبیا، ۲۷:۸۱)
وادی نملہ:
اس وادی کے محل وقوع کے بارہ میں علما اور مورخین کے بیانات مختلف ہیں۔ مشہور سیاح ابن بطوطہ کا بیان ہے کہ چیونٹیوں کی وادی فلسطین میں جرون اورعقلان کے درمیان واقع ہے۔یاقوت حموی کا خیا ل بھی یہی ہے۔تاج العروسی کے مرتب نے بھی اسی خیال کی تائید کی ہے۔ قرآن مجید کے اکثر مفسرین اس بات پر کلی طور پر متفق ہیں کہ جرون اور عقلان کے درمیان ہو یا نہ ہو یہ وادی سرزمینِ شام میں بہرحال ہے۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ وادی نملہ یمن کے اطراف میں ہے۔اس سے بھی سرزمینِ شام کے اندر واقع ہونا ثابت ہوتا ہے۔قدیم عربی ادب اور ایام جاہلیت کے شعرا کے کلام میں بھی وادی نملہ کا ذکر موجود ہے۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ عرب اس سرزمین سے بخوبی واقف تھے کیونکہ ملک شام تک ان کے عام قافلے اور تجارتی کارواں اکثر آتے جاتے تھے۔
کعب احبار کی روایت ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام یمن کے ارادہ سے بیت المقدس سے روانہ ہوئے۔ مکہ و مدینہ سے گزرے اور چلتے گئے۔ یہاں تک وادی نملہ میں پہنچے۔
مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے اپنی کتاب ارض القرآن میں بھی اسی خیال کا اظہار کیا ہے کہ فلسطین میں چیونٹیاں بکثرت پیدا ہوتی ہیں۔ لہٰذا یہ واقعہ اگر اس علاقہ سے تعلق رکھتا ہو تو تعجب کی بات نہیں ہے۔علامہ حافظ احمد نسفی نے اپنی تفسیر معالم التنزیل میں بھی یہ ہی لکھا ہے کہ یہ وادی ملک شام میں ہے۔ان متعدد اور مختلف اقوال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ چیونٹیوں کی یہ وادی فلسطین کے قریب ملکِ شام میں تھی۔ اور اغلباً اس کا محل وقوع جرون اور عسقلان کے درمیان کوئی مقام تھا۔
(بحوالہ کتاب، دیواریں اورغاریں از حافظ نذراحمد )