مرا نصیب ہوئیں تلخیاں زمانے کی
کسی نے خوب سزا دی ہے مسکرانے کی
مرے خدا مجھے طارق کا حوصلہ ہو عطا
ضرورت آن پڑی کشتیاں جلانے کی
میں دیکھتا ہوں ہراک سمت پنچھیوں کے ہجوم
الہٰی خیر ہو صیّاد کے گھرانے کی
قدم قدم پہ صلیبوں کے جال پھیلا دو
کہ سرکشوں کو تو عادت ہے سر اٹھانے کی
شریک ِ جرم نہ ہوتے تو مخُبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
ہزار ہاتھ گریباں تک آ گئے ازہر
ابھی تو بات چلی بھی نہ تھی زمانے کی
٭٭٭
دیکھنا رُخ سے ہٹا کر چشمۂ سودوزیاں
ذات کے زندان سے باہر نکل کر سوچنا
تیرے چہرے سے عیاں ہے کسقدر مہنگا پڑا
میری یادوں سے ترا پہلو بدل کر سوچنا
محفلوں میں اپنے ہونٹوں پر سجانا قہقہے
تخلئیے میں بیٹھ کر اپنا مقّدر سوچنا
پھول خوشبو سے جدا ہو اور زندہ بھی رہے
گو نہیں ہے تیرے بس میں پھر بھی ازہر سوچنا
٭٭٭
کسے خبر تھی کہ آنے والی رتوں کا ہر پل اداس ہو گا
دلوں میں شعلے مگر بدن پر منافقت کا لباس ہو گا
ہوس شرارے خلوص محلوں کو راکھ کرنے پہ تل گئے ہیں
نہ بچ سکے گا کوئی سلامت مگر جو آدم شناس ہو گا
وہ ابرو باراں کی وحشتیں ہوں کہ جان لیوا تمازتیں ہوں
زمیں میں جس کی جڑیں نہ ہوں گی وہی شجر بدحواس ہو گا
رقم کروں گا میں جس میں تیری سکون افزا رفاقتوں کو
مری کتاب ِ حیات کا وہ حسیں ترین اقتباس ہو گا
اگر تیرا دل گئی رتوں کی حسین یادوں کا آئینہ ہے
تو اب بھی دل کش حکائتوں کا کرن کرن انعکاس ہو گا
بھگا کے دم لے گا جگنوؤں کا جلوس اندھیروں کو اس نگر سے
چمن حصاروں ، بدن فصیلوں میں اب نہ خوف و ہراس ہو گا
خزاں رتوں کے عذاب لمحے گلاب چہروں کو ڈس رہے ہیں
بہار موسم پلٹ کے آیا بھی اب تو ازہر اُداس ہو گا
٭٭٭