پیغمبرِ امن

مصنف : مولانا وحید الدین خان

سلسلہ : سیرت النبیﷺ

شمارہ : فروری 2010

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب تھا۔ آپ عرب کے شہر مکہ میں 570 ء میں پیدا ہوئے۔ 610 ء میں آپ کو پیغمبری ملی۔ 622 ء میں آپ نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ 632 ء میں مدینہ میں آپ کی وفات ہوئی۔ پیغمبر کی حیثیت سے آپ نے 23 سال دنیا میں گزارے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پورے معنوں میں ایک تاریخی پیغمبر تھے۔ آپ کے بارے میں سب کچھ تاریخ میں مکمل طور پر اور مستند طور پر موجود ہے۔ آپ پر خدا کی جو کتاب اتری، وہ قرآن کی شکل میں اپنی اصل عربی زبان میں آج بھی پوری طرح محفوظ ہے۔ کوئی بھی شخص قرآن کو پڑھ کر سمجھ سکتا ہے کہ آپ کا پیغام اور آپ کا مشن کیا تھا۔ اسی طرح آپ کا کلام (حدیث) اصل عربی زبان میں آج بھی مختلف کتابوں میں محفوظ ہے۔ آپ کی سیرت بھی آپ کے قریبی زمانے میں لکھی گئی اور آج بھی اس کو پڑھا جا سکتا ہے۔ آپ کے اصحاب کی تعداد تقریباً ڈیڑھ لاکھ تھی۔ ان کے حالات بھی کتابوں کی صورت میں جاننا اتنا ہی آسان ہے،جتنا کہ آج پرنٹنگ پریس کے زمانے میں کسی شخصیت کو جاننا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے لیے مختصر نصاب یہ ہے: قرآن، مشکوٰۃ المصابیح، السیرۃ النبویہ، ابن کثیر، حیاۃ الصحابہ، از مولانا محمد یوسف کاندھلوی۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مختلف پہلو ہیں۔ اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ آپ امن کے پیغمبر تھے۔ آپ نے وہ بنیادی اصول بتائے جو کسی معاشرہ میں امن کے قیام کے لیے ضروری ہیں۔ اسی کے ساتھ آپ نے اپنی عملی زندگی مکمل طور پر ایک پر امن انسان کی حیثیت سے گزاری۔ اس طرح آپ نے بتایا کہ آپ کے دیے ہوئے امن کے اصول کس طرح ممکن اور قابل عمل ہیں۔ آپ نے امن کو نظری اعتبار سے بھی بتایا اور عملی اعتبار سے بھی آپ نے اس کا نمونہ پیش کیا ۔ یہاں اس سلسلے میں کچھ مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ جن سے اس معاملے کی وضاحت ہو گی۔

اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنی روز مرہ کی زندگی میں کس طرح امن کے ساتھ رہے۔ آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے آپ سے یہی سوال کیا۔ اس نے پوچھا کہ اے خدا کے رسول، مجھے کوئی ایسا مختصر فارمولا بتائیے جس کو میں اپنی پوری زندگی میں اپنا سکوں۔ آپ نے فرمایا: لا تغضب (تم غضب نہ کرو)۔ یہ روز مرہ کی زندگی کو پر امن بنانے کے لیے ایک ماسٹر فارمولا ہے۔ گھر کے اندر کی زندگی میں یا گھر کے باہر کی زندگی میں جو چیز امن کو ختم کرتی ہے، وہ غصہ ہے۔ آدمی اگر صرف یہ کرے کہ جب اس کو غصہ آئے تو وہ خاموش ہو جائے۔ وہ اپنے غصہ پر کنٹرول کر لے۔ اس کے بعدوہ اپنے آپ ایک پر امن انسان بن جائے گا۔ غصہ کو باہر نکالنے سے امن کا ماحول ختم ہوتا ہے اور غصہ پر کنٹرول کرنے سے امن کا ماحول قائم ہوتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘ان اللّٰہ یعطی علی الرفق ما لا یعطی علی العنف’ (خدا نرمی پر وہ چیز دیتا ہے جو سختی پر نہیں دیتا)۔ اس حدیث رسول میں فطرت کا ایک قانون بتایا گیا۔ خدا کی بنائی ہوئی اس دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ صرف ایک ہے، وہ یہ کہ آدمی ہمیشہ امن کے دائرے میں رہے۔ وہ اپنے عمل کی منصوبہ بندی پر امن انداز میں کرے۔ وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کبھی امن کے دائرے سے باہر نہ جائے۔ یہی اس دنیا میں کامیابی کا راز ہے۔ خدا کی اس دنیامیں کامیابی ہمیشہ امن کے ذریعے ملتی ہے، نہ کہ جنگ اور ٹکراؤ کے ذریعے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جنرل پالیسی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ‘ما خُیّر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بین امرین الا اختار ایسرہما’ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ دونوں میں سے آسان تر معاملے کا انتخاب کرتے)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نزاعی امور میں ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ دیتے جو کہ ہمیشہ نقصان میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔ ایسے موقع پر آپ ہمیشہ امن کا طریقہ اختیار فرماتے جو کہ ہمیشہ سدھار کی طرف لے جانے والا ثابت ہوتا ہے۔ نزاع کے حل کے لیے آپ ہمیشہ پر امن طریق کار کا انتخاب فرماتے اور ہر ممکن کوشش سے ٹکراؤ اور تشدد کے راستے کو ترک کر دیتے۔

یہی اصول آپ نے جنگ کے موقع پر بھی اختیار فرمایا۔ قدیم عرب کے لوگ آپ کے خلاف ہو گئے اور آپ کے مشن کو مٹانا چاہا۔ انھوں نے بار ہا جنگ چھیڑنے کی کوشش کی، مگر آپ ہمیشہ جنگ کو ٹالتے رہے۔ مختلف طریقوں سے آپ نے یہ کوشش کی کہ اپنے مخالفین سے آپ کی مڈ بھیڑ نہ ہونے پائے۔ مخالفین نے 80 سے زیادہ بار آپ کو جنگ میں الجھانے کی کوشش کی، لیکن آپ نے ہمیشہ جنگ سے اعراض کی تدبیر اختیار کی۔ صرف تین بار ایسا ہوا کہ آپ کومحدود طور پر اپنے مخالفین سے دفاعی جنگ لڑنا پڑی۔ بدر، احد، حنین۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی کہ تم اپنے دشمن کے ساتھ جوابی سلوک نہ کرو، بلکہ یک طرفہ طور پر ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تمھارا دشمن تمھارا دوست بن جائے گا۔ (حم السجدہ:34)۔ قرآن کی اس آیت کے ذریعہ آپ نے لوگوں کو یہ بتایا کہ ہر انسان خدا کاپیدا کیا ہوا ہے۔ کوئی انسان بظاہر دشمن نظر آئے تب بھی اس کو دشمن نہ سمجھو، بلکہ اس کو اپنا امکانی دوست (Potential Friend) سمجھو۔ لوگوں کے منفی رویہ کے مقابلے میں تم مثبت رویہ اختیار کرو۔ اس طرح انسان کے اندر کی فطرت جاگ اٹھے گی اورکل کا دشمن آج تمھارا دوست بن جائے گا۔ اس اصول کو اختیار کر کے آپ نے اپنے ہم عصر عربوں کو اپنا دوست بنا لیا۔ آپ نے بتایا کہ ہر مشکل کے ساتھ ہمیشہ آسانی موجود رہتی ہے (ان مع العسر یسرًا) یعنی خدا کی اس دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ مسائل کے ساتھ مواقع (Opportunities) موجود رہتے ہیں۔ تم مسائل کو نظر انداز کرو اور مواقع کو استعمال کرو۔ اس طرح تم کوئی نیا مسئلہ پیدا کیے بغیر کامیابی حاصل کر لو گے۔

آپ نے پر امن زندگی کا ایک کامیاب فارمولا ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ‘أدّوا الیہم حقہم وسئلوا اللّٰہ حقکم’ (لوگون کو ان کا حق دو اور اپنا حق خدا سے مانگو) یعنی لوگ تم سے جو کچھ چاہتے ہیں، اس کو انھیں ادا کرو، اور تم اپنے لیے جو کچھ چاہتے ہو، اس کو خدا کی دی ہوئی صلاحیت کے ذریعہ کوشش کر کے حاصل کرو۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ تم رائٹ کانشس (Right Conscious) نہ بنو، بلکہ تم ڈیوٹی کانشس (Duty Conscious) بن جاؤ۔ یہ امن کا بہترین فارمولا ہے۔ جس سماج کے افراد اس طرح رہیں، وہ دوسروں کے لیے بے مسئلہ (No Problem) انسان بن کر اپنا مقصد حاصل کریں گے۔ اور جو لوگ اس روش پر قائم ہو جائیں ،ان سے سماج کو صرف امن ہی امن ملے گا اور خیر ہی خیر کا تجربہ ہو گا۔

٭٭٭