یوں تو زندگی گزرانے کے لیے ہر شخص کو دنیا سے کسی نہ کسی درجے کا تعلق رکھنا ضروری ہے، لیکن افسوس کہ فی زمانہ ‘‘دنیا اور متاع دنیا’’ ہر شخص کی امیدوں، کوشش، توجیہ، دلچسپی اور جدوجہد کا مرکز بن گئی ہے۔ ہر فرد ، چاہے مرد ہو یا عورت، جوان ہو کہ بوڑھا، عربی ہو کہ عجمی، کالا ہو کہ گورا حصول دنیا میں منہمک اور مکمل طور سے مصروف ہے۔ دنیا میں جتنی تیزی سے تبدیلیاں اور تغیرات رونما ہو رہے ہیں، اسی تیزی سے انسانوں کے اندر دنیا کے تئیں حرص و ہوس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انسانوں کی زندگی کا مقصد اور مطمح نظر زیادہ سے زیادہ دولت کا حصول اور پر تعیش زندگی بن گیا ہے۔ آدمی روز مرہ زندگی میں کئی ایک واقعات کا مشاہدہ کرتا ہے کہ لوگوں نے مال و دولت کے حصول کے لیے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اور اپنی تمام تر توانائی اور صلاحیت صرف کر دی، لیکن بدقسمتی سے وہ اپنی دولت سے مستفید ہونے سے قبل ہی دنیا سے چل بسے اور ان کی ساری دولت، بنک بیلینس، عالی شان عمارتیں، فارم ہاؤس، آرام دہ سواریاں اور تمام عیش و عشرت کے سامان ان کے نہیں بلکہ ورثا کے کام آئے۔ انھوں نے اپنی زندگی کو آرام دہ ، رنگین اور دلکش بنانے کے لیے کوئی دقیقہ نہیں چھوڑا، اپنے آرام و سکون کی پروا نہیں کی، کڑی محنت و مشقت سے کام لیا اور اپنی ذہانت، قابلیت اور صلاحیت کا بھرپور استعمال کیا لیکن ان کی حسین اور دلکش زندگی کی تمنا اور خواہش محض ایک خواب بن کر رہ گئی۔
دنیا کی رنگینی اور متاع دنیا کے حصول کی دوڑ میں محض دنیا دار ہوتے تو کوئی خاص بات نہیں ہوتی، وہ لوگ جو آخرت کو نہیں مانتے یا دنیاوی زندگی ہی جن کے لیے سب کچھ ہو، وہ اگر دنیا و متاع دنیا کی آرزو اور خوہش میں لیل و نہار مصروف ہوں توکوئی تعجب یا حیرت نہیں لیکن اگر اہل ایمان بھی دنیا اور متاع دنیا کی تمنا، حصول بلکہ حرص میں مگن ہو جائیں تو یقینا غور و فکر کا مقام ہے! یہ کتنی بدبختی کی بات ہے کہ اہل ایمان بھی دنیا کے پیچھے اتنا سرپٹ دوڑنے لگے ہیں کہ حلال و حرام کی تمیز گوارا نہیں، جائز و ناجائز کی قید پسند نہیں اور قناعت و توازن کی باتیں برداشت نہیں! مسلمانوں کی عمومی صورت حال اس حد تک افسوس ناک ہو چکی ہے کہ حصول مال میں وہ جائز و ناجائز کی تمیز کھو بیٹھے ہیں۔ ظلم و زیادتی سے وہ مال و متاع کے حصول کو قابل فخر سمجھنے لگے ہیں، مال و متاع کی مسابقت کو وہ عین مقصد زندگی بنا بیٹھے ہیں۔ اتنا ہی نہیں صورت حال کا عجیب و غریب پہلو یہ ہے کہ دین و مذہب کے بہت سے داعی، علما اورخطیب اصلاح معاشرہ میں سرگرم افراد ، انجمنوں، اداروں اورتنظیموں کے ذمہ داروں کی زندگیوں پر نظر ڈالیں تومحسوس ہو گا کہ متاع دنیا کی محبت میں وہ بھی کسی سے کچھ کم نہیں ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دنیا کی زندگی کی بڑی عمدہ مثال پیش فرمائی ہے:
‘‘دنیا کی یہ زندگی، اس کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے ہم نے پانی برسایا تو زمین کی پیداوار جسے آدمی اور جانور سب کھاتے ہیں خوب گھنی ہو گئی۔پھر عین اس وقت جبکہ زمین اپنی بہار پر تھی اور کھیتیاں بنی سنوری کھڑی تھی اور ان کے مالک سمجھ رہے تھے کہ ہم ان سے فائدہ اٹھانے پر قادر ہیں، یکایک دن کو یا رات کو ہمارا حکم آ گیا اور ہم نے اسے الٹا غارت کر کے رکھ دیا گویا کہ کل وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔’’(سورۂ یونس)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ‘‘جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے وہ دنیا کی زندگی کا سر و سامان ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔’’
ان آیات مبارکہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ انسانوں کے دلوں سے دنیا کی محبت ختم کر کے آخرت کی طلب اور خواہش پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ انسان بلاوجہ دنیاوی زندگی کا اسیر ہو کر اپنی آخرت کو نقصان میں نہ ڈالے۔ دنیا کی تیز رفتار ترقی سے بسا اوقات اہل ایمان بھی متاثر ہو جاتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ دنیا کمانے کی دھن میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور پھر اپنے لیے ایرے غیروں کی مثالیں بھی چن لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں بھی تو دنیا کما رہے ہیں۔ فلاں کا بھی تو دنیا سے اتنا اور اتنا تعلق ہے، فلاں بھی تو فلاں اور فلاں چیزوں اور دولت کے مالک ہیں۔ لیکن اصل مومن ‘‘دنیا کے امور میں اپنے سے کمتر کی طرف دیکھتے اوردین کے امور میں اپنے سے اعلیٰ افراد کی طرف دیکھتے ہیں۔’’ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی زندگیوں پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ انھوں نے دنیا و ما فیہا کی کبھی بھی خواہش، تمنا اور آرزو نہیں کی اور نہ دنیاوی آرام و آسائش ، دنیاوی ساز و سامان اور عیش و عشرت کے سامان کی کبھی فکر کی۔ برخلاف اس کے دنیا کا خیال آتے ہی غمزدہ ہو جاتے اور آخرت اور اس کے انجام کو یاد کر کے رونے لگتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ مرہ کے معمولات اور مصروفیات کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ دنیا اور متاع دنیا کی جستجو اور کوشش کبھی بھی آپ کی سرگرمی کا ہدف نہیں رہی۔
آپ نے کبھی بھی مال و اسباب جمع کرنے یا جائیداد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ حتی کہ آپ دولت مندوں کے مقابلے میں غریب اور مسکینوں کی ہم نشینی کو پسند فرماتے تھے اور مال و جاہ کی کثرت کو آپ نے آخرت کے نقصان کا باعث قرار دیا۔ چنانچہ آپ کا ارشاد مبارک ہے:
‘‘میں تم پر فقر و فاقے سے نہیں ڈرتا، لیکن مجھے تمھارے بارے میں اندیشہ ہے کہ دنیا تم پر وسیع کر دی جائے جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر کر دی گئی تھی۔ پھر تم اس کو زیادہ چاہنے لگو جیسا کہ انھوں نے اس کو بہت زیادہ چاہا تھا اور پھر وہ تم کو برباد کر دے جیسے کہ اس نے ان اگلوں کو برباد کر دیا تھا۔’’ (بخاری و مسلم)
اس ارشاد مبارک کی روشنی میں مسلم معاشرے کا اور پھر معاشرے میں اصلاح اور دعوت دین کے کاموں میں مصروف لوگوں کا جائزہ لیں تو پتا چلے گا کہ دنیاوی امور و معاملات میں وہ بھی دوسروں سے کسی بھی درجہ میں کم نہیں ہیں۔ ہر قسم کی دنیوی عیش و عشرت اور آرام و آسائش کے وہ بھی دلدادہ ہیں اور بعض اوقات دنیا پرستوں سے بھی آگے ہیں۔ حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
‘‘جو شخص دنیا کو محبوب اور مطلوب بنائے گا وہ ضرور اپنی آخرت کو نقصان پہنچائے گا، پس عقلمندی یہ ہے کہ فانی کے مقابلے میں باقی رہنے والی کو ترجیح دو۔’’ (مشکوٰۃ)
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‘‘ دو بھوکے بھیڑیے جو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیے گئے ہوں ان بکریوں کو اس سے زیادہ تباہ نہیں کرتے جتنا تباہ آدمی کے دین کو مال وعزت اور جاہ کی حرص کرتی ہے۔’’ (ترمذی)
مال و دولت کی کثرت آخرت کو کیسے نقصان پہنچاتی ہے؟ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اولاً مال و دولت کے زیادہ سے زیادہ حصول کی خاطر آدمی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی جانب سے تساہل اور غفلت کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ فرائض کی ادائیگی کو بار سمجھنے لگتا ہے او رحقوق العباد کی ادائیگی کو بلاوجہ کی آفت خیال کرنے لگتا ہے جس سے اس کا بیش قیمت وقت نعوذ باللہ ضائع ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ مال و دولت کی کثرت آدمی کو عیش و عشرت کا اسیر بنا دیتی ہے جس کی بنا پر وہ دین کے مختلف تقاضوں کو کما حقہ ادا نہیں کر پاتا حتی کہ بسا اوقات فرائض کی ادائیگی میں بھی کوتاہی برتنے لگتا ہے چنانچہ کئی ایک کروڑ پتی، نامور اصحاب اور سیاسی مناصب پر فائز افراد کے بارے میں مشاہدہ بتلاتا ہے کہ وہ نہ تو ماہ صیام کا ذوق و شوق سے اہتمام کرتے ہیں اور نہ حج جیسی بے مثال عبادت کا اہتمام کر پاتے ہیں۔ سوم یہ کہ مال و دولت کی حرص اور ہوس آدمی کو اتنا بے بس کر دیتی ہے کہ وہ حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی تمیز بھی گنوا بیٹھتا ہے۔ ناجائز ذرائع اختیار کرنا، جھوٹ کا سہارا لینا، رشوت اور کرپشن کی کئی ایک اقسام میں مبتلا ہونا فی زمانہ فیشن بن گیا ہے۔ چنانچہ اچھے خاصے اہل علم او ردینی سمجھ بوجھ رکھنے والے افراد بھی حصول رزق میں بے احتیاطی کا شکار نظر آتے ہیں، کاروبار و تجارت میں تو دھڑلے سے ناجائز ذرائع کو اختیار کرتے ہیں اور ملازمت اور نوکری کے تقاضوں کو دینی ذمہ داریوں کی آڑ میں پورا نہیں کرتے، حالانکہ یہ بھی صریح ناجائز حرام ہے۔ چوتھے یہ کہ بسا اوقات اپنی بے شمار دولت وجائیداد کی حفاظت اور سلامتی بھی آدمی کو اتنا فکر مندر کر دیتی ہے کہ وہ اپنی ذہنی او رجسمانی صلاحیتیں دینی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں استعمال نہیں کر پاتا۔ پانچویں یہ کہ جب حب جاہ کسی انسان کے ذہن و دماغ پر قابض ہو جاتا ہے تو اسے اپنے مال میں خرچ کرنا بار معلوم ہوتا ہے اور وہ نوافل صدقہ و خیرات تو دور کی بات ہے زکوٰۃ کی ادائیگی میں بھی ٹال مٹول کرنے لگ جاتا ہے اور فی سبیل اللہ خرچ سے پہلو تہی کا عادی بن جاتا ہے۔
یہی اسباب ہیں جس کی بنا پر اسلام نے حب دنیا سے منع فرمایا ہے او رحب دنیا اور اسباب دنیا کی خواہش ، تمنا اور آرزو کو ناپسند کیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ اس کی جیتی جاگتی بہترین مثال ہے۔ نبی کریم کے ارشادات مبارکہ میں بھی اسی نقطۂ نظر کو بار بار پیش کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:
‘‘دنیا اس شخص کا گھر ہے جس کا کوئی گھر نہ ہو اور اس شخص کا مال ہے جس کے پاس کوئی مال نہ ہو اور اسے وہ شخص جمع کرتا ہے جس میں عقل نہ ہو۔’’ (مسند احمد)
ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سو کر اٹھے تو جسم پر چٹائی کا نشان پڑ گیا۔ حضرت ابن مسعور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، آپ اجازت دیں کہ ہم بستر بنوا کر بچھا دیں۔ آپ نے فرمایا: مجھے دنیا سے کیا واسطہ میری اور دنیا کی مثال مثال ایسی ہے جیسے کوئی سوار کسی درخت کے نیچے سایہ لینے کے لیے ٹھہر جائے اور پھر اسے چھوڑ کر چل دے۔ (ترمذی، احمد)
مندرجہ بالا واقعے اور حدیث کی روشنی میں ملت اسلامیہ کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ دولت، عیش و عشرت، شاندار مکانات، آرام دہ چمک دمک کی گاڑیاں، باغات وغیرہ کی مسابقت عام ہوچکی ہے۔ فی سبیل اللہ، اشاعت دین کی جد وجہد، کمزوروں اور بے سہارا لوگوں کی امداد کے لیے پیسہ دینا مشکل ہو گیا ہے۔ شان و شوکت، دکھاوے اور نام و نمود کے لیے بے حساب دولت لٹا دی جاتی ہے۔ ظلم و زیادتی ، دھونس و دھاندلی، دھوکا دہی، فریب، چوری و ڈکیتی اور استحصال کے ذریعے دولت کا حصول قابل فخر بن چکا ہے۔
ہر سال جشن میلاد پر لاکھوں روپیہ اور جلسہ ہائے میلاد پر بھی کافی رقم خرچ کر دی جاتی ہے، لیکن اسوۂ رسول کے مندرجہ بالا پہلو کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ملت اسلامیہ کے عوام اور خواص کو خود احتسابی کرنی چاہیے کہ دنیا کے تئیں ان کا رویہ کیا ہے۔ اس لیے کہ دنیا کی محبت آخرت کو نقصان پہنچانے والی ہے اور عقلمند آدمی وہی ہے جو چند روزہ زندگی کے مقابلے میں ہمیشہ کی زندگی کو ترجیح دے اور اس کی بہتری کے لیے شب و روز کوشاں رہے، اس لیے کہ دنیا تو اتنی ہی ملنے والی ہے جتنی کہ خالق کائنات نے تقدیر میں لکھ دی ہے، لیکن دنیا کے پیچھے اگر آخرت کی تیاری میں کوتاہی ہو گئی تو اندیشہ ہے کہ ہمیشگی کی زندگی میں ذلت و رسوائی ہاتھ لگے گی! اللہ تعالیٰ عمل خیر کی توفیق بخشے! آمین