اردو ادب میں مغربی اصناف اور اسالیب فن کا تعارف کرانے والوں میں عبدالحلیم شرر کا نام نمایاں نظر آتا ہے ۔ شرر ۱۸۶۰ میں لکھنو میں پیدا ہوئے اور ۱۹۲۶ میں لکھنو ہی کی خاک کا پیوند ہوئے۔ اس طرح ان کی تخلیقی زندگی کا زمانہ اواخر انیسویں صدی اوراوائل بیسویں صدی کو محیط ہے۔ یہ زمانہ مسلمانا ن ہند کی تاریخ میں اپنی سیاسی ابتری کے ساتھ ساتھ ادبی زرخیزی کے لیے بھی یادگار حیثیت رکھتا ہے۔ ریاست و حکومت کے ہاتھ سے چلے جانے کے بعد مسلمان من حیث القوم مالی ، ذہنی ،تعلیمی اور نفسیاتی پسماندگی کا شکار ہو چکے تھے۔ قوم کے باشعور طبقے میں اس حالت زار سے اوپر اٹھنے کے لیے ، اورقوم کو اوپر اٹھانے کے لیے تحریک پیدا ہوئی ۔ ایک طرف سرسید اور حالی نے تعلیمی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے سعی و جدوجہد کی تو دوسری طرف مسلمانوں کی ولولہ انگیز تاریخ کے ذریعہ قوم کی نفسیاتی پستی کو دورکرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اس دوسرے طبقے میں عبدالحلیم شرر کا نام ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔انہوں نے اسلامی تاریخی ناولوں کے ذریعے قوم کو یاد دلایا کہ ان کی تاریخ کن ولولہ انگیز اور تحیر خیز واقعات سے بھر پور ہے۔
عبدالحلیم شرر کے والد کا نام حکیم تفضل حسین تھا وہ تاج دار اودھ نواب واجدعلی شاہ کے ملازم تھے۔ جب انگریزوں نے نواب واجد علی شاہ کو معزو ل کر کے کلکتہ میں نظر بند کر دیا تو حکیم صاحب موصوف بھی نواب صاحب کے ساتھ کلکتہ آ گئے اور یہیں اقامت پذیر ہو گئے۔ شرر اس وقت نو سال کے تھے یہاں انہوں نے اپنے والد اور بعض دوسرے علما سے عربی ، فارسی ،منطق اورطب کی تعلیم حاصل کی ۔ فن شاعری میں علی نظم طباطبائی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ پھر وہ لکھنو چلے آئے اورمزیدتعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بھی اچھی دست گاہ پیدا کر لی ۔ ۱۸۸۰ میں منشی نول کشور نے انہیں ‘اودھ اخبار ’ کا نائب مدیر بنا دیا۔ اس اخبار میں انہوں نے مشہور بنگالی ادیب بنکم چندر چٹر جی کے ایک تاریخی ناول ‘‘درگیش نند فی ’’ کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ یہیں سے انہیں اردو میں اسلامی تاریخ کو بنیاد بنا کرطبعزاد ناول لکھنے کا خیال آیاچنانچہ اسی سال انہوں نے اپنا رسالہ ‘دل گداز ’ جاری کیا تو اس میں اپنا پہلا تاریخی ناول ‘‘ ملک العزیز ورجنا’’ قسط وار شائع کیا۔اس کے بعد انہوں نے ‘‘حسن انجلینا’’ اور ‘‘منصور موہنا’’ لکھے جو بے حد مقبول ہوئے ۔
۱۸۹۳ میں شرر نواب وقار الملک کے لڑکے کے اتالیق بن کر انگلستان گئے ۔ وہاں انہوں نے فرانسیسی زبان بھی سیکھی اورانگریزی تہذیب وادب کا مشاہدہ و مطالعہ کیا۔ انگلستان سے واپسی کے بعد وہ مستقل طور پر لکھنو میں قیام پذیر ہو گئے اورتصنیف و تالیف کے کاموں میں ہمہ تن مصروف ہو گئے سوانحی اورتاریخی تصانیف کے ساتھ ساتھ انہوں نے تقریباً پچاس ناول اور ڈرامے لکھے علاوہ ازیں ان کے تحریر کردہ مقالات و مضامین کا مجموعہ ‘‘مقالات شرر’’ کے نام سے آٹھ جلدوں میں شائع ہو چکا ہے۔
مولانا شرر کو تاریخ سے اور اس میں بھی خصوصیت سے اسلامی تاریخ سے بے حد دلچسپی تھی ۔ ان کے زیادہ تر ناولوں کا تانا بانا اسلامی تاریخ پر مبنی ہے ۔اس طرح انہوں نے اپنے تئیں اس بات کی کوشش کی کہ اپنے تاریخی ناولوں میں امت مسلمہ کے شان دار ماضی اور تہذیبی وسیاسی عروج کی داستانیں سنا کر انہیں خواب غفلت سے جگائیں اور ان میں عمل کا جوش اور ولولہ پیدا کریں۔ اپنی تحریر میں دلچسپی اور چاشنی پیدا کر نے کے لیے انہوں نے تاریخ کے ساتھ ساتھ عشق و محبت کے کبھی حقیقی اور کبھی فرضی واقعات کو بھی زیب داستان کیا اور اس طرح ان کے تاریخی ناول رومانی قصوں کی کشش اپنے اندر سموئے ایک ایسی فضا تخلیق کرتے ہیں جس کا تاریخ سے بعض اوقات بہت کم تعلق رہ جاتا ہے۔
شررکے مشہور ناولوں میں ‘‘ملک العزیز ورجنا ’’ اور ‘‘منصور موہنا’’ کے علاوہ ‘‘حسن انجلینا’’ ‘ فلورا فلورنڈا’ شوقین ملکہ ’ مقدس نازنین، بابک خرمی ، ایام عرب اور فردوس بریں قابل ذکر ہیں۔ آخر الذکر ناول کو بقول ڈاکٹر قمر رئیس فنی تکمیل کے اعتبار سے کامیاب ترین کہا جا سکتا ہے ۔ تمام نقادوں نے اس ناول کے پلاٹ کی دل کشی اور کردار نگاری کو خوب سراہا ہے۔