قسط -۵
عیسائی عالموں کی پشین گوئیاں اور اُن کی کتابوں سے سیر حاصل ثبوت فراہم کرنے کے بعد اب ہم عربوں کے اُن قبائل سے کچھ شواہد پیش کریں گے جنھوں نے تاریخ کے کسی دورمیں عیسائیت قبول کر لی تھی اس لیے کہ وہ عرب جو حضرت عیسیٰ کے پیرو تھے وہ بھی نبی اکرم ﷺ کی آمد سے آگاہ تھے چنانچہ اسی طرح کا ایک واقعہ طلحہ بن عبداﷲ کا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں ایک تجارتی قافلے کے ساتھ بصرہ کے ایک بازار میں سے گزر رہا تھا کہ ایک خانقاہ سے ایک عیسائی راہب باہر نکلا ۔اور اس نے مجھے باز و سے پکڑ لیا ۔اور کہا!مجھے تو اُن لوگوں سے لگتا ہے جو حرم سے آئے ہیں ۔میں نے کہا !ہاں میں مکہ سے آیاہوں۔راہب نے مجھ سے سوال کیا؟کیا احمد ( ﷺ ) کا ظہور ہو گیا ہے ۔میں نے کہا! کون احمد ؟اس نے کہا !
عبداﷲ بن عبدالمطلب کا بیٹا ،کہ یہی وہ مہینہ ہے جس میں اُن کو ظاہر ہونا ہے وہ اﷲ کی طرف سے آخری پیغمبر ہیں اور اُن کے ظہور کی جگہ مکہ ہے اور اُن کا دارِ ہجرت مدینہ ہے پس تجھے لازم ہے کہ تم اُن کی طرف بڑھو اور اُن کی تائید کرو !جب میں مکہ واپس آ یا تو میں نے لوگوں سے سناکہ حضرت محمد ﷺ نے نبوت کا اعلان فرمایا ہے ’۔میں ابوبکر صدیق ؓکے پاس گیا اور اُن سے دریافت کیا کہ کیا ماجرا ہے ۔ انھوں نے کہا !ہاں تم نے درست سنا ہے اور میں تو اُن پہ ایمان بھی لے آ یا ہوں ۔اس کے بعد حضرت طلحہ ؓ بھی اسلام لے آ ئے ۔اور یہ سابقون الاولون میں سے تھے۔اور انھوں نے وہ تمام مظالم سہے تھے جو سابقون الاولون کے حصے میں آئے اور جن کی بنا پہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کو بلند درجہ عطا کیا تھا ۔ اُن کے چچا نوفل بن عدویہ حضرت طلحہؓ اور حضرت ابو بکرؓ کو ایک ہی رسی سے باندھ دیا کرتے تھے ۔اور اسی وجہ سے عربوں نے اُن کو ‘‘ قرینین’’ کا لقب دیا تھا جس کا مطلب ہے باہم جکڑے ہوئے ۔
اسی طرح کا ایک واقعہ سعید ابن عاص ابن سعید نے بیان کیا ہے کہ غزوہ بدر میں میرے باپ کو مسلمانوں نے قتل کر دیا تھا۔
تب میں اپنے چچا ابان ابن سعید کی پرورش میں آ گیا تھا ۔اور ابان ابن سعید اپنے بھائی کے فراق میں رویا کرتے تھے اور ساتھ ہی نبی پاک ﷺ کو برے الفاظ سے یاد کیا کرتے ۔ پھر وہ تجارت کے سلسلے میں ملک شام کو چلے گئے ۔اورسال بھر وہیں رہے ۔جب وہ واپس آئے تو انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی یعنی میرے دوسرے چچا عبداﷲ ابن سعید سے پوچھا ؟محمد ﷺ کا کیا بنا ہے ۔انھوں نے جواب دیاکہ خدا کی قسم وہ تو پہلے سے کہیں زیادہ معزز اور بلند ہو چکے ہیں ۔یہ سن کر میرا چچا ابان ابن سعید خاموش ہو رہے ۔اور اپنی عادت کے مطابق نبی اکرم ﷺ کو برا بھلا نہ کہا !اس نے اپنے غلاموں سے کہا !مہمانوں کے لیے کھانا تیار کرو ۔پھر اس نے بنی امیہ کے سرداروں اور قابل تعظیم لوگوں کی دعوت کی ۔ جب وہ لوگ اکھٹے ہو گئے تو سعید ابن ابان نے کہا !میں ملک شام کے ایک گاؤں میں تھا ۔
اور میں نے دیکھا کہ !سب لوگ ایک طرف کو بھاگے چلے جارہے ہیں ۔میں نے اُن سے اس کی وجہ پوچھی ؟تو لوگوں نے کہا !اُن کا ایک راہب ہے جو چالیس سال سے ایک غار میں عبادت کر رہاہے اور اب وہ ظاہر ہو گیا ہے ۔ چنانچہ میں بھی اسی طرف کو چل نکلا جدھر باقی لوگ جا رہے تھے ۔اور وہاں بہت سے لوگ تھے مگر اس راہب نے جس کا نام بکاء تھا ۔مجھے آ گے بلایا اور کہا !تم مکہ سے ہو ! میں نے کہا ! ہاں۔اس نے مجھ سے پوچھا ؟احمد ( ﷺ ) ظاہر ہو گئے ہیں ۔میں نے پوچھا !کون احمد ؟
اس نے کہا! تمہارا تعلق عربوں کے کس قبیلے سے ہے ۔میں نے کہا !میں قریش سے ہوں !
وہ تمہارے ہی قبیلے سے تو ہے ۔اور وہ اﷲ کا آخری نبی ہے اور اس کے ساتھ کتاب ہے ۔ تب میں سمجھا کہ !اس کی مراد محمد (ﷺ) سے ہے۔میں نے اسے کہا !ہاں ! وہ ظاہر ہو چکے ہیں ۔میں نے راہب سے پوچھا!کہ تم انھیں کیسے جانتے ہو؟راہب نے جواب دیا !میں انھیں تم سے زیادہ جانتا ہوں!اگر تم کہو تو میں تمہیں اُن کے باپ دادا کے متعلق بتاؤں ۔ اس کے بعد میرے استفار کے بغیر ہی اس نے نبی اکرم ﷺ کے آباء کے بارے میں بتایا کہ حتیٰ کہ اس نے آپ ﷺ کا حلیہ بھی ٹھیک ٹھیک بیان کر دیا ۔اس کے بعد اس نے اپنا رخ دوسرے لوگوں کی طرف کیا اور کہا !لوگو! اُن کی پیروی کرو !وہ تمہارے پاس بس تھوڑی ہی دیر کے لیے آ ئے ہیں ۔خدا کی قسم!وہ اس امت کے نبی ہیں اور وہ ضرور غالب ہوں گے حتیٰ کہ اُن کا دین مغرب سے مشرق اور جنوب سے شمال کی طرف پھیلتا ہی چلا جائے گا ۔اس نے پھر سے اپنا رخ میری طرف موڑا اور کہا !
اگر اب تم اُن سے ملو تو میرا سلام اُن تک پہچانا اس کے بعد وہ غار میں داخل ہو گیا ۔تب سعید بن ابان نے اپنا رخ اپنے خاندان کے لوگوں کی طرف کیا اور کہا !میں تو جانتا ہوں کہ وہ سچے ہیں اس لیے تم سوچ لو !۔
اس طرح کے واقعات جن میں اس بات کی تصریح ہے کہ عرب اور یہود و نصاریٰ کے صاحب دانش لوگ نبی اکرم ﷺ کی آمد سے آگاہ تھے بہت سے ہیں اور اِن سب کا احاطہ کرنا یہاں ممکن نہیں اس لیے کہ بہت سے واقعات کے بارے میں جو مورخین نے پیش کیے ہیں محدثین کا خیال ہے کہ وہ روایت اور درایت پہ پورا نہیں اترتے اس لیے ہم نے اِن میں سے بیشتر کو حذف کر دیاہے ۔ ہم نے صرف وہی واقعات درج کئے ہیں جن پہ مورخین اور محدثین نے اطمینان کا اظہار کیا ہے اسی طرح کا ایک واقع حضرت سلمان فارسی ؓ کو بھی پیش آ یا کہ اُن کو بھی تو عیسائی راہبوں ہی نے بتایا تھا کہ نبی اکرم ﷺ عرب میں مبعو ث ہو نے والے ہیں اور حضرت سلمان فاریؓ کی عشق ومحبت کی داستان عجیب بھی ہے اور طویل بھی اس لیے ہم الگ سے اس کا ذکر کرنا چاہتے ہیں ۔
تقریباً تمام ہی مورخین نے حضرت سلیمان فارسیؓ کی داستانِ محبت بیان کی ہے چنانچہ ابن اسحاقؒ نے کہا کہ مجھ سے عاصم بن عمرو قتادہ انصاریؓ نے بیان کیا اور انھوں نے محمود بن لبید اور حضرت عبداﷲ بن عباس ؓ سے روایت کرتے ہو ئے فرمایا کہ حضرت سلیمان فارسیؓ نے خود اُن کے سامنے اپنی داستان عشق بیان کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں اہل فارس میں سے ایک شخص تھا اور ہم لوگ آگ کے پجاری تھے یعنی مجوسی تھے میں ایران کے صوبہ اہواز میں پیدا ہوا اور ہمارا خاندان علاقے بھر میں عزت و تکریم کے باعث جانا جاتا تھا جس کی دو وجوہات تھیں ایک تو یہ کہ میرا باپ بڑا زمیندار تھا اور اس کی بہت جائیداد اور زمینیں تھیں اور دوسرا اس لیے کہ ہمارا گھرانا ایک مذہبی گھرانہ تھا اور میں نے بھی مجوسیت میں ایک درجہ امتیاز حاصل کر رکھا تھا یعنی میں ‘‘ قاطن نار ’’ تھا اور عرب قاطن نار اس شخص کو کہتے تھے جو اگیاری کو آگ دکھاتا ہے ۔ایران میں اہل مجوس کا مذہب زوروں پہ تھا اس لیے کہ آگ پرستوں کا مرکز وہی تھا خود ہمارے گاؤں میں جو اگیاری تھی میں اس کی آگ کا ذمہ دار تھا مجوسی مذہب کے لوگ آگ کے پجاری ہیں اور اُن کی اگیاریوں میں صدیوں آگ نہ بجھا کرتی اور اگیاری اہل مجوس کی عبادت گاہ تھی جہاں ہمیشہ آگ جلتی رہتی تھی۔ حضرت سلیمان فارسیؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنے کئی خادموں کے ساتھ اپنی اگیاری کی آگ کو بھڑکائے رکھتا تھا اور میرا باپ مجھ سے بہت محبت کرتا تھا اور مجھے گھر سے باہر نہ نکلنے دیتا تھا اس لیے کہ میں اسے اﷲ کی تمام مخلوق سے زیادہ محبوب تھا اس کی یہ محبت فزوں تر ہوتی رہی حتیٰ کہ ا س نے مجھے گھر میں ہی مقیدکر دیا جس طرح کہ دوشیزاؤں کو مقید کیاجاتا ہے دوسری طرف مجھے آتش پرستی میں محنت کی ہر طرح سے اجازت تھی۔میرا والد چونکہ بڑا زمیندار تھا اس لیے اس کی مصروفیات بھی زیادہ تھیں ایک دن جب وہ ایک عمارت تعمیر کرا رہا تھا تب اس نے مجھ سے کہا !اے میرے نورِ نظر !آج میں مصروف ہوں اس لیے زمینوں کی طرف تم چلے جاؤ اور دیکھنا کہ سورج غروب ہو نے سے کافی پہلے واپس لوٹ آ نا کیونکہ تم جانتے ہو کہ تمہاری جدائی مجھے ہر چیز سے زیادہ تکلیف دیتی ہے ’’۔میں نے جلدی لوٹ آ نے کا وعدہ کر لیا !حضرت سلیمان فارسی ؓ فرماتے ہیں کہ میں خوشی خوشی گھر سے زمینوں کی طرف روانہ ہوا کہ مجھے باہر نکلنے اور گھومنے پھرنے کا کم ہی موقع ملتا تھا ۔
میرے راستے میں عیسائیوں کا ایک کنیسہ آ یا !
جس کے اندر سے بہت ہی اچھی آوازیں آ رہی تھیں جیسے وہاں کوئی عبادت کر رہا ہو۔ چونکہ میرے والد نے مجھے طویل عرصہ محبوس رکھا تھا اس لیے میں دنیا کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتا تھا ۔اور نہ ہی مجھے یہ بات معلوم تھی کہ دنیا میں مجوسیت کے علاوہ بھی مذاہب ہوتے ہیں چنانچہ میں لوگوں کے حالات سے واقف نہ تھا ۔ میں نے اس عمارت کے اندر جھانکا اور لوگوں کو عبادت میں مشغول دیکھا ۔اِن کی عبادت کا طریقہ میرے دل کو بھلا معلوم ہوا ۔اور میں اس سے متاثر ہوا ۔پھر اُن میں سے ایک شخص نے مجھے دیکھ لیا ۔اس نے مجھے اندر بلا لیا اور مجھ سے پوچھا کہ میں کون ہوں؟میں نے اسے اپنے بارے میں بتایا !اور اس سے پوچھاکہ وہ یہاں کیا کر رہے ہیں ۔تب اس نے مجھے کہا کہ ہم ایک اﷲ کی عبادت کر رہے ہیں ۔یہ اُن کی عبادت گاہ ہے اور اُن کے دین کے عقائد یہ ہیں ۔الغرض میں بہت دیر تک اُن کے پاس بیٹھا رہا اور اُن کی باتیں سنتا رہا ۔اور ہر پل میرے اندر یہ احساس جنم لیتا رہا کہ اُن کا دین اُس دین سے بہتر ہے جس کو ہم اپنائے ہو ئے ہیں ۔میں نے عیسائی عالموں سے پوچھا؟کہ اُن کے دین کا سرچشمہ اور مرکز کہاں ہے انھوں نے جواب دیا کہ شام میں ۔تب میں نے اُن سے اجازت طلب کی ۔اورسورج غروب ہو چکا تھا جب میں اُن کے ہاں سے اٹھا ۔میں نہ تو اپنے باپ کی زمینوں کی طرف گیا اور نہ ہی مجھے اس بات کا خیال رہا کہ باپ نے مجھے جلدی واپس آ نے کے لیے کہا تھا ۔ میں اپنے خیالوں میں گم گھر پہنچا تو میرا باپ سخت پریشان تھا اور اس نے میری تلاش میں اپنے آ دمی دوڑا دئیے تھے ۔اس نے مجھے دیکھا تو لپٹ کر مجھے پیار کیا ۔اور کہا!اے میرے نور نظر میں نے تم سے کہا نہ تھا کہ جلدی لوٹ آ نا ۔میں نے اپنے باپ کی بات سنی ان سنی کر دی اور اس سے کہا !پدر بزرگوار !میں آپ کی زمینوں کی طرف نہیں جا سکا !اس لیے کہ راستے میں عیسائیوں کا جو کلیسا ہے میں سارا دن وہاں رہا ۔اور میں نے اُن کے مذہب کا مطالعہ کیا ہے اورا س نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ اُن کا مذہب ہمارے مذہب سے بہتر ہے اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اسے اختیار کر لوں گا ۔میرا باپ مجھے پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھ رہا تھا ۔شاید اسے مجھ سے کسی ایسے فعل کی ہرگز توقع نہ تھی ۔میرے باپ نے مجھے میرے اس فعل پہ سرزنش کی اور کہا !اُن کے دین میں کوئی بھلائی نہیں ۔اور اب تم کبھی اُن کے ہاں نہ جانا ۔میں چپ ہو رہا ۔اور دل میں فیصلہ کر لیا کہ چاہے جو بھی ہو اب میں اس دین کو قبول کر کے رہوں گا ۔میرے باپ نے مجھ پہ نگاہ رکھنا شروع کر دی تھی ۔میں اب آگ جلانے نہ جاتا تھا اس لیے میرا باپ مجھ سے بے زار رہنے لگا ۔وہ جانتا تھا کہ میرا جھکاؤ عیسائیت کی طرف ہے ۔میں باپ سے چھپ کر ایک بار پھر عیسائیوں کے کلیسا میں چلا گیا ۔
اور اُن سے کہا کہ اگر شام کی طرف جانے والا کوئی قافلہ ہو تو وہ لوگ اس کو اطلاع کر دیں کیونکہ وہ اِن کے ساتھ جانا چاہتا ہے ۔اور اُن کے دین کو سمجھنا چاہتا ہے ۔عیسائی میرے اس خیال سے بہت خوش ہوئے اور انھوں نے وعدہ کر لیا کہ جونہی کوئی شامی قافلہ آئے گا وہ اس کو آ گاہ کر دیں گے ۔میں جب کلیسا سے واپس آ یا تو میں نے جانا کہ میرے باپ کو میرے اس فعل کی خبر ہو گئی ہے۔میرے باپ نے اس پہ شدید غصے کا اظہار کیا اور باوجود اپنی بے پناہ محبت کے اس نے مجھے زنجیروں سے جکڑ دیا اور ایک کمرے میں قید کر دیا ۔پتا نہیں مجھے زنجیروں سے جکڑے اور اس کمرے میں قید ہوئے کتنے دن ہوئے تھے جب عیسائیوں کا ایک آ دمی کسی طرح چھپتا چھپاتا مجھ تک پہنچ گیا اور اس نے کہا !شامی قافلہ آ گیا ہے ۔میں بہت خوش ہوا اور اس سے کہا !جب وہ قافلہ اپنا سامان تجارت بیچ کر واپس جانے لگے تب تم مجھے مطلع کرنا میں تیار رہوں گا ۔اور میرا باپ اپنی مصروفیات کی وجہ سے اِن امور سے بے خبر ہی رہا ۔میں نے کسی طرح اپنی زنجیروں کو ڈھیلا کر لیا تھا ۔اور اس دن کے انتظار میں تھا جب کوئی قاصد مجھے بلانے آ ئے گا ۔پھر وہ دن آ ہی گیا اور میں رات کی تاریکی میں اپنے گھر سے فرار ہو گیا ۔میں اس شامی قافلے کے ہمراہ ہوگیا جو شام کی طرف رواں تھا ۔ایک عرصہ تک اپنے باپ کی قید میں رہنے کے بعد یہ کھلا آسمان جس پہ چاند چمکتا تھا اور اس کی دھیمی دھیمی روشنی میں اونٹوں کی ایک قطار تھی جن میں سے ایک پہ میں سوار تھا مجھے بہت اچھی لگ رہی تھی اور میں خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا ۔وہ قافلہ منزلیں پہ منزلیں مارتا رہا اور آخر ملک شام جا پہنچا ۔میں نے لوگوں سے پوچھا ؟کہ اُن کا سب سے بڑا عالم کون ہے ۔ لوگوں نے کہا اسقف اعظم !اور وہ وہاں کے سب سے بڑے کنیسہ میں تھا میں اس تک جا پہنچا!اور اسے اپنے مقصد سے آ گاہ کیا ۔اس نے مجھے اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی میں نے اب مذہب نصرانیت کو دل سے قبول کر لیا تھا اور اس پادری کے ساتھ رہتا تھا ۔ میں اس پادری سے علم حاصل کرتا اس کے ساتھ نماز پڑھتا اور اس کی خدمت کرتا اس طرح میرے شب و روزاس کنیسہ اور بڑے پادری کی خدمت میں گزرنے لگے ۔اور میں بہت خوش تھا ۔تاہم تھوڑے عرصے کے بعد میں پریشان رہنے لگا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ بڑے پادری کے ساتھ رہتے ہوئے میں اس بات سے آگاہ ہو چکا تھا کہ بڑا پادری ایک برا آدمی ہے وہ لوگوں سے جو کچھ کہتا ہے اس کا اپنا عمل اس کے برعکس ہے وہ لوگوں کو صدقات و خیرات کا حکم دیتا تھا راہ خدامیں خرچ کرنے کی ترغیب دلاتا تھا اور جب لوگ اپنا صدقہ اور خیرات اس کے پاس جمع کرانے آتے تو وہ اس کو لوگوں میں بانٹنے کی بجائے ایک خفیہ جگہ رکھ دیتا اس طرح اس کے پاس بہت سا مال و دولت جمع ہو چکا تھا ۔اس نے سونے اور چاندی کے زیورات سے سات گھڑے بھر لیے تھے پھر ایک روز وہ مر گیا تو شہر میں کہرام مچ گیا لوگ اس کی وفات پہ بہت افسردہ تھے سارا شہر ہی اس کی تدفین وتجہیز کے لیے جمع ہو گیا جب وہ لوگ جمع ہوگئے تو میں اٹھا اور اُن سے خطاب کیا !میں نے اُن سے کہا !تم لوگ بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہو اس لیے کہ جسے تم اﷲ کا برگزیدہ بندہ سمجھتے تھے وہ تو محض غرض کابندہ تھا۔ہجوم میں سے کچھ لوگ مجھے مارنے کے لیے دوڑے ۔اور کچھ دوسرے لوگوں نے اِن کو روک لیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ میں ایک عرصہ سے بڑے پادری کے ساتھ ہوں ۔اس لیے انھوں نے مارنے والوں سے کہا !کچھ دیر رک جاؤ !تاآنکہ معاملے کی اصل صورت سامنے آ سکے ۔انھوں نے مجھ سے پوچھا؟تم نے جو الزام ہمارے بڑے پادری پہ لگایا ہے اس کا تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے ۔میں نے کہا !ہاں ۔آؤ میرے ساتھ میں تمہیں وہ جگہ بتاؤں جہاں وہ تمہارے دئیے ہوئے عطیات اور صدقات چھپاتا تھا ۔لوگ میرے ساتھ چلے آئے ۔اور جب انھوں نے سونے اور چاندی سے بھرے ہوئے گھڑے دیکھے تو ششدر رہ گئے ۔وہ لوگ مشتعل ہو گئے اورکہا!ہم اس غلیظ آ دمی کو دفن نہیں کریں گے بلکہ اسے سنگسار کریں گے ۔ انھوں نے پادری کی نعش کو اٹھا لیا اور اسے شہر کے ایک چوک میں سولی پہ لٹکا دیا گیا اور آتے جاتے لوگ اسے پتھر مارتے رہے اور گوشت خور پرندے اس کا گوشت کھاتے رہے ۔لوگوں نے اس کنیسہ میں نیا پادری مقرر کر دیا ۔ حضرت سلیمان فارسی ؓ بتاتے ہیں کہ میں نے پانچ نمازیں پڑھنے والوں میں سے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو اس سے افضل ہو ۔وہ دنیا سے کنارہ کش رہتا اور آخرت کی حرص رکھتا تھا ۔وہ اوقات کا ر کا پابند اور نہایت عبادت گزار شخص تھا اس کا اخلاق بہت عمدہ اور اعمال اس سے بھی عمدہ تھے اسے دنیا کی کوئی چاہت نہ تھی۔
میں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس کی محبت میں گرفتار تھا اور اس کے ساتھ بہت خوش تھا۔
میرا وقت بہت اچھا گزر رہا تھا اورمیں نے اس پادری کی صحبت میں اہل نصاریٰ کے دین کو اچھی طرح سمجھا !پھر بہت سا وقت اسی طرح گزر گیا ۔اب بڑا پادری بیمار رہنے لگا تھا اور پھر اس کی موت کا وقت آ پہنچا !میں اس کے پاس ہی تھا !میں نے اس سے کہا !مجھے لگتا ہے کہ آپ پہ وہ گھڑی آ رہی ہے جس نے ہر ایک پہ آ نا ہے ۔پادری نے کہا !تم نے درست کہا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وقت آخر آ پہنچا ہے ۔
میں نے اس سے سوال کیا ۔آپ کے رخصت ہو نے کے بعد میں کیا کروں ۔ مجھے کوئی وصیت کر کہ میں تیرے بعد کس کے پاس جاؤں ۔بڑے پادری نے کہا !اے میرے بیٹے !خدا کی قسم ! آج میں اُن خصوصیات کا حامل کسی شخص کو نہیں پاتا جو مجھ میں تھیں اب تو لوگ تباہ ہو چکے ہیں انھوں نے مذہب کو چھوڑ دیا ہے اور غرض کے بندے بن کے رہ گئے ہیں ۔تاہم موصل میں ایک شخص ایسا موجود ہے جو آج بھی اپنے دین کی اصل کو پکڑے ہوئے ہے میرے بعد تو اس کے پاس چلے جانا ۔اس کے بعد بڑے پادری کا انتقال ہو گیا ۔اور میں نے اسے دفن کر کے موصل کی راہ لی ۔ میں موصل کے پادری کے پاس پہنچا۔اور اسے شام کے پادری کا سندیسہ دیا ۔اس پادری نے مجھے اپنے ہاں ٹھہرنے کی اجازت دے دی ۔ اورمیں موصل کے بڑے پادری کے ساتھ رہنے لگا ۔وہ بھی بھلا آ دمی تھا دنیا کی غلاظت سے پاک اور نہایت عبادت گزار ! میں نے اس کو پسند کیا!اس کی عمر بہت زیادہ تھی اور لگتا تھا کہ وہ دِنوں میں ہی گزر جائے گا ۔اور میرا خیال درست نکلا ،اس کا وقت آ خر آ پہنچا ۔میں اس سے سوال کیا ؟مجھے کوئی وصیت کر جاؤ کہ تمہارے بعد میں کہاں جاؤں ۔موصل کے پادری نے جواب دیا ۔میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو اﷲ کے دین پہ مضبوطی سے قائم ہو ہاں مگر نصیبین میں ایک شخص ایسا موجود ہے میرے بعد تم اس کے پاس چلے جانا اس کے بعد وہ وفات پا گیا ۔میں نے موصل کے پادری کو دفن کیا اور نصیبین کی طرف عازم سفر ہوا ۔میں نے نصیبین کے پادری کوموصل کے پادری کا پیغام پہنچایا ۔اور اس نے مجھے اپنے پاس ٹھہرنے کی اجازت دے دی ۔میں اس کے پاس قیام پذیر ہوگیا ۔وہ بھی اپنے ساتھیوں کی طرح پاکباز اور نیک انسان تھا ۔
اس کے ساتھ بھی میرا اچھا وقت گزرنے لگا ۔
وہ لوگوں کو نیکی کی تلقین کرتا اور بدی سے منع کرتا ۔ اسے دنیا کی ذرا بھی رغبت نہ تھی ۔وہ صحیح معنوں میں راہب تھا اور لوگ اس سے محبت کرتے تھے ۔پھر اس کی موت کا وقت بھی قریب آ گیا ۔اس کے مرنے سے پہلے میں نے اس سے کہا؟مجھے کوئی وصیت کر جاؤ کہ میں تمہارے بعد کہاں جاؤں ۔پادری کچھ دیر خاموشی سے سوچتا رہا پھر بولا ۔کہ میں کسی ایسے شخص سے آگاہ نہیں ہوں جواِن اوصاف کا حامل ہو جن سے ہم متصف تھے ۔مگر سر زمین عموریہ میں ایک پادری ہے جو ابھی دین پہ پوری طرح کاربند ہے تم اسی کے پاس چلے جانا ۔پھر یہ پادری بھی مر گیا اور میں اسے دفن کرنے کے بعد عموریہ کی طرف روانہ ہو گیا ۔ میں نے عموریہ کے پادری کو اپنے حالات سے آگاہ کیا اور اس کے پاس رہنے لگا ۔عموریہ کا پادری بھی بھلا آدمی تھا ۔وہ بھی اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرح اﷲ کی راہ پہ گامزن تھا ۔میرا اس کے ساتھ اچھا وقت گزرنے لگا ۔عموریہ پہنچ کر میں نے کاروبار بھی شروع کر دیا تھا جس کے نتیجے میں میرے پاس بہت سی گائیں اور بھیڑ بکریاں اکھٹی ہو گئیں تھیں ۔پھر جب عموریہ کے پادری کی وفات کا وقت قریب آ یا تب میں نے اس سے کہا ! مجھے وصیت کر جاؤ کہ میں تمہارے بعد کہاں جاؤں ۔عموریہ نے پادری نے کہا !اے میرے بیٹے !خدا کی قسم ! اﷲ کی زمین پہ میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو دین اور بھلائی راستے پہ پختہ ہو ۔اور میں وہ آخری آدمی ہوں جس نے اﷲ کے دین کو پختگی سے اختیار کر رکھا تھا اب تو لوگوں نے اپنے دین کو بھلا دیا شاید اس لیے کہ نئے نبی کے ظہور کا وقت قریب آ لگا ہے چنانچہ تیرے لیے میری وصیت یہی ہے کہ تو اس نئے نبی کا انتظار کر اور جب وہ آ جائے تو اس کا دامن تھام لینا ۔میں نے اس سے کہا !مجھے اس آ نے والے نبی کے بارے میں کچھ اور بتاؤ ۔اس نے کہا ! کہ وہ دین ابراہیمی پہ معبوث ہوں گے ۔وہ بنو اسماعیل میں سے ہوں گے اور اُن کا ظہور سرزمین عرب سے ہو گا ۔اِن کی علامات اتنی عیاں ہو گی کہ وہ کسی سے مخفی نہ رہیں گے ۔وہ صدقہ ہرگز نہ کھائیں گے البتہ ہدیہ قبول کر لیں گے ۔اِن کے شانوں کے درمیان مہر نبوت ہو گی ۔وہ سنگلاخ چٹانوں کی طرف ہجرت کریں گے ۔اور اِن چٹانوں کے بیچ میں نخلستان ہوں گے ۔اگر تم اُن کے شہر تک جانے کی قدرت رکھو تو اِن تک ضرور پہنچنا۔ نبی اکرم ﷺ کی صفات اور اوصاف بیان کرنے کے بعد عموریہ کا پادری بھی انتقال کر گیا۔
حضرت سلیمان فارسیؓ اپنی داستان عشق بیان کرتے ہو ئے مزید فرماتے ہیں کہ ۔پھر جتنا عرصہ میرے اﷲ کو منظور ہوا میں عموریہ میں رکا رہا ۔اس کے بعدمیرے پاس سے بنو کلب کے تاجر گزرے اور وہ ملک عرب کی طرف جارہے تھے ۔میں جلدی سے ان کے پاس پہنچا اور اُن سے کہا !میرے پاس بہت سا مال ہے اگر تم لوگ مجھے اپنے ساتھ لے چلو تو میں اپنا سارا مال تم لوگوں کو دے دوں گا ۔وہ رضا مند ہو گئے اور میں اُن کے قافلے میں شامل ہو گیا ۔مگر راستے میں اُنھوں نے مجھ پہ ظلم کیا اور میری مشکیں کس دیں ۔انھوں نے مجھے غلام بنا کر ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا ۔اور میں وادئ القری میں اس یہودی کے ہاں غلام کی حیثیت سے رہنے لگا ۔یہاں کھجوروں کے نخلستان تھے مگر وہ سنگلاخ چٹانیں نہ تھیں جن کا ذکر عموریہ کے پادری نے کیا تھا ۔میرا خیال تھا کہ یہ وہی شہر ہے جہاں نبی اکرم ﷺ اترنے والے ہیں ۔مگر میرے دل نے گواہی نہ دی اور میں چپ ہو رہا ۔پھر جتنا عرصہ اﷲ کو منظور تھا اسی طرح گزرا ۔ایک دن میرے مالک کے ہاں ایک مہمان اترا جو اس کا چچا زاد تھا اس کا تعلق بنو قریظہ سے تھا اور وہ مدینہ سے آ یا تھا
مدینہ کا نام سن کر میرا دل زور سے دھڑکا ۔میں نے خواہش کی کہ کاش یہ شخص مجھے اپنے ساتھ ہی لے جائے ۔اﷲ تعالیٰ نے جیسے میرے دل کی یہ آواز سن لی ۔کچھ دن بعد جب وہ شخص واپس جانے لگا توا س نے اپنے چچا زاد سے مجھے مانگ لیا میرے مالک نے کوئی تعرض نہ کیا اور یوں میرے من کی مراد پوری ہوگئی ۔
وہ کہتے ہیں کہ جب میں اپنے نئے یہودی مالک کے ساتھ مدینے کی طرف رواں تھا تو میرے رگ و پے میں عجیب سی بے چینی تھی کہ آیا یہ وہی شہر ہے جس کے بارے میں مجھے عموریہ کے پادری نے بتایا تھا یا کہ کوئی اور !میں اڑ کے اس شہر تک پہنچ جانا چاہتا تھا۔پھر مدینہ آ گیا ۔اﷲ کی قسم ! وہ شہر خوباں تھا اس کا انگ انگ عموریہ کے پادری کے بیان کی تصدیق پہ مُصر تھا اور میں بہت خوش تھا ۔جیسے راہ سے بھٹکے کسی مسافر کو منزل مل گئی ہو ۔اب مجھے کہیں نہیں جانا تھا اور نہ مجھے اس بات کی پروا تھی کہ میں غلام ہوں میں بس اُس گھڑی کے انتظار میں تھا جب میرے کانوں میں یہ آواز پڑے کہ وہ آگئے ہیں جن کا ایک مدت سے مجھے انتظار تھا ۔میرے شب و روز اسی انتظار کی لذت میں بغیر کسی پریشانی کے گزرنے لگے ۔اور اُس دن میں اپنے مالک کی ایک اونچی کھجور پہ بیٹھا کام کر رہا تھا کہ اچانک میرے مالک کا چچا زاد بھاگتا ہوا اس کے پاس آ یا ۔اور میرے کان اس کی طرف متوجہ ہو گئے ۔اس نے کہا !اﷲ تعالیٰ بنو قیلہ کو ہلاک کرے وہ اب قباء میں جمع ہیں اور اُن کے ہاتھ پہ بیعت کررہے ہیں جو مکہ سے آئے ہیں اورکہتے ہے کہ وہ اﷲ کے رسول ہیں۔میرا جسم لرزا اور ایک لمحے کے لیے مجھے لگا کہ میں کھجور سے نیچے گر جاؤں گا ۔میں نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور تیزی سے نیچے اترا میں نے اپنے مالک کو مخاطب کیا اور وہ اپنے چچا زاد کے ساتھ باتوں میں مصروف تھااور اس کی پیشانی پہ پسینے کے قطرے تھے ۔میں نے اپنے مالک کے چچا زاد سے پوچھا !وہ کون ہیں ؟کیا وہ اﷲ کے رسول ہیں؟ کیا وہ مکہ آ ئے ہیں ۔میں نے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر ڈالے ۔میرا مالک پہلے ہی غصے میں تھا اور پریشان بھی تھا ۔اس نے اپنے دائیں ہاتھ سے زور کا تھپڑ میرے منہ پہ مارا اور چیخا !تمہیں اس مدعی نبوت سے کیا کام ہے جا اپنا کام کر ۔
اب میں اسے کیا بتاتا کہ مجھے اسی سے تو کام ہے میں نے اپنی زندگی میں اتنا طویل سفر اسی گھڑی کے انتظار میں تو کیا ہے ۔میں غلام تھا اور وہ میرا مالک !اور عربوں میں غلامی کی جڑیں بہت گہری تھیں اور غلام کے حالات بہت ابتر تھے ۔اس لیے اگرچہ میں بظاہر چپ ہو رہا مگر میرے اندر جیسے ایک لاوا سا پگھلنے لگا تھا اور میں اُن کی زیارت کرنے کے لیے سسک رہا تھا ۔پھر میری بے چینی نے خود ہی راہ نکال لی ۔جب میرے پاس کچھ مال جمع ہوگیا تو میں نے اپنے مالک کی بیوی سے کچھ وقت کے لیے رخصت حاصل کی اور وہ اچھی عورت تھی ۔میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔اور آپ ﷺکی خدمت میں اپنا مال پیش کرتے ہوئے کہا !یہ صدقہ ہے ۔
دراصل میں عموریہ کے پادری کے الفاظ کی تصدیق کرنا چاہتا تھا کہ وہ صدقہ نہ کھائیں گے البتہ ہدیہ تناول فرما لیں گے ۔نبی اکرم ﷺ نے مجھے دیکھا اور مال کو قبول فرما لیا میں وہیں بیٹھا رہا ۔نبی اکرم ﷺ نے اپنے ساتھ بیٹھے لوگوں کو دعوت دی کہ اس میں سے کھاؤ۔
تاہم خود آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ نہ بڑھایا ۔حتیٰ کہ جو کچھ میں لے کر گیا تھا وہ سب ختم ہو گیا ۔
میرے دل کے اندر لڈو پھوٹ رہے تھے اور کوئی پکار پکار کہ کہہ رہا تھا یہ وہی ہیں، یہ وہی ہیں ۔کچھ دن کے بعد میں پھر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور مزدوری میں کمائی ہوئی کچھ کھجوریں آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیں ۔اور کہا ،یہ ہدیہ ہے ۔اِن کھجوروں میں سے آپ ﷺ نے خود بھی کچھ کھجوریں کھائیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی کھلائیں ۔ اب ایک ہی نشانی بچی تھی یعنی میں نبی اکرم ﷺ کے کندھوں کے درمیان مہر نبوت دیکھنا چاہتا تھا ۔اُس دن میں آپ ﷺ کے ہمراہ تھا اور آپ ﷺ کے ساتھ کئی صحابہ تھے ۔اور وہ جنت البقیع کا قبرستان تھا جہاں مسلمان اپنے کسی ساتھی کو دفن کرنے آئے تھے ۔جب آپ ﷺ جنازہ پڑھانے کے لیے آگے بڑھے تب آپ ﷺ کے جسم پہ دو چادریں تھیں ۔میں نے اس موقع کو درست جانا اور آپ ﷺ کی طرف لپکا !میں آپ ﷺ کو سلام کیا اور آپ ﷺ کی پشت کی طرف ہو گیا تاکہ میری نظر مہر نبوت تک پہنچ سکے ۔نبی اکرم ﷺ شاید میری جستجو کو جان گئے تھے ۔اس لیے آپ ﷺ نے خود ہی اپنی کمر اطہر سے چادر ہٹا دی ۔جو نہی میری نظروں نے مہر نبوت کو دیکھا میرے جسم کو ایک جھٹکا لگا اور میں لرزنے لگا کیونکہ میں جان چکا تھا کہ میں اپنی منزل تک پہنچ چکا ہوں میں رورہا تھا جب نبی اکرم ﷺ نے مجھے پکارا اور کہا ! سامنے آ جاؤ۔میں لگاتار روہ رہا تھا اور نبی اکرم ﷺ کو اپنی داستان جستجو سنا رہا تھا ۔نبی اکرمﷺ نے میرا بازو تھا م رکھا تھا ۔پھر آپ ﷺ نے نماز جنازہ ادا کی اور فارغ ہونے کے بعد مجھ سے کہا !میرے ساتھ آ جاؤ۔ہم کچھ دور ہی گئے تھے کہ آپ ﷺ کے دوسرے اصحاب بھی اب ہمارے گرد اکٹھے ہو چکے تھے ۔تب آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا اپنی داستان محبت ایک بار پھر سے بیان کرو تاکہ میرے یہ اصحاب بھی اس کو سن لیں ۔میں نے پھر سے اپنی زندگی کے اوراق الٹنے شروع کئے ۔ صحابہ میری زندگی کے شب و زور اور اس کے نشیب و فراز جان کررونے لگے تھے ۔اب مجھے ایمان کی دولت حاصل تھی اور میں مسلمان ہو چکا تھا اس لیے میرے یہودی مالک نے مجھ پہ جینا حرام کر رکھا تھا اور میں بہت دن تک نبی اکرم ﷺ کی زیارت تک نہ کر سکا تھا۔اسی سختی میں بہت سا وقت گزر کیا ۔حتیٰ کہ میں غزوہ بدر اور غزوہ احد میں بھی شامل نہ ہو سکا !پھر ایک دن جب میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا! تب آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا اپنے مالک سے مکاتبت کر لو ۔میں نے اپنے مالک سے کھجور کے تین سو پودوں اور چالیس اوقیہ سونے پہ مکاتبت کر لی ۔ بنی اکرم ﷺ نے اپنے اصحاب کو حکم دیا سلیمان فارسیؓ کی مدد کرو ۔صحابہ ؓ نے نبی اکرم ﷺ کے حکم پہ فوراً ہی لبیک کہا اور میری مدد کو دوڑے۔کسی نے مجھے بیس پودے دئیے تو کسی نے پندرہ پودے دئیے کسی نے پانچ اور کسی نے دس پودے دئیے ۔اس لیے کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ میرے سامنے کھجور کے تین سو پودے رکھے تھے ۔تب نبی اکرم ﷺ نے اپنا رخ مبارک میری طرف پھیرا اور فرمایا !سلیمان جاؤ اور اِن پودوں کے لیے گڑھے کھودو۔میرے ساتھیوں نے بھی میری مدد کی اور ہم نے جلد ہی تین سو گڑھے کھود لیے اس کے بعد ہم نے نبی اکرم ﷺ کو اطلاع کی !
آپ ﷺ تشریف لائے اور اپنے ہاتھوں سے یہ پودے لگائے ۔مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے دست ِ قدرت میں سلیمان کی جان ہے کہ اِن پودوں میں سے ایک بھی نہیں مرا وہ سب جوان ہوئے اور پھل دینے لگے۔تاہم وہ مال جو میرے ذمہ تھا اس کا ابھی انتظام نہیں ہواتھا ۔ایک دن کسی نے نبی اکرم ﷺ کو سونے کی کان سے حاصل کیا ہوا مرغی کے انڈے کے برابر سونا پیش کیا ۔نبی اکرم ﷺ نے وہ سونا اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور لوگوں سے دریافت کیا اس فارسی کاکیا بنا ۔نبی اکرم ﷺ کا اشارہ میری طرف تھا ۔لوگوں نے مجھے تلاش کیا اور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔نبی اکرم ﷺ نے مرغی کے انڈے کے برابر وہ سونا میرے ہاتھ پہ رکھ دیا اور کہا اس سے اپنا قرض ادا کرو ۔میں نے اگرچہ وہ سونا لے لیا تھا لیکن سوچ رہاتھا کہ اتنے کم سونے سے میں چالیس اوقیہ سونا کیسے ادا کروں گا ۔نبی اکرم ﷺ نے شاید مجھے اس مخمصے میں الجھا دیکھ لیا تھا ۔چنانچہ انھوں نے مجھ سے کہا ،یہ سونا مجھے دو ۔انھوں نے وہ سونا لیا اور اور اسے اپنے منہ سے لگایا اور پھر مجھے پکڑا دیا ۔اب اس کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کا لعاب دہن لگا ہوا تھا ۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ،اسے لے جاؤ اور اس سے اپنا مال ادا کر دو ۔اور مجھے قسم ہے اس خدا کی جس کے قبضے میں سلیمان کی جان ہے کہ میں نے اسی سونے سے اپنا سارا قرض ادا کیا اور اس میں سے پھر بھی کچھ بچ رہا ۔اس کے بعد حضرت سلیمان فارسیؓ غلامی سے آ زاد ہو گئے ۔اب وہ اکثر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر رہا کرتے ۔انھوں نے اس کے بعد ہونے والے تمام غزوات میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ شرکت کی ۔اور جنگ خندق وہ پہلی جنگ تھی جس میں حضرت سلیمان فارسیؓ ایک آزاد مسلمان کی حیثیت سے نبی اکرم ﷺ کے ہم رقاب تھے ۔بعض مورخین نے بیان کیا کہ مسلمان خندق کھود کر جنگ کرنے کے طریقے سے واقف نہ تھے اور یہ طریقہ بھی اُن کو حضرت سلیمان فارسیؓ نے بتایا تھا کہ اس طرح خندق کھود کر خود کو دشمن کے ضرر سے محفوظ کیا جا سکتا ہے ۔ نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد حضرت سلیمانؓ بہت عرصہ تک زندہ رہے۔بعض نے لکھا ہے کہ حضرت سلیمان فارسیؓ عرب کے معمرین میں سے تھے اور انھوں نے حضرت عمر فاروق کا دورِ خلافت دیکھا ہے اور بعض نے لکھا ہے کہ وہ حضرت عثمان غنیؓ کے دورِ خلافت میں بھی زندہ تھے ۔
حضرت سلیمان فارسیؓ اسلام کے بہت بڑے عالم اور زاہد تھے وہ اکثر صدقہ و خیرات کرتے تھے ۔شاید وہ حضرت عمر فاروقؓ کا دورِ خلافت تھا جب انھوں نے آپ کو مدائن کا حکمران مقرر کیا ۔وہ حکومت سے تنخواہ ضرور لیتے تھے مگر اسے مسکینوں میں بانٹ دیتے تھے ۔خود اُن کی گزر بسر اس طرح ہوتی کہ وہ کھجور کے خشک پتوں سے چٹائیاں بنتے تھے اور انھیں بازار میں بیچ دیتے تھے ۔اور یہ تقویٰ کی انتہا تھی جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں مدائن ایران کا وہ صوبہ تھا جو بہت زرخیز اور دنیا کے مال و دولت سے اٹا ہوا تھا اور اس کے لوگ بے انتہا خوشحال تھے اس کے باوجود اس صوبے کا حکمران بازار میں سوکھے پتوں کی چٹائیاں بیچتا تھا۔ سچ یہ ہے کہ اسلام نے اس دنیا میں جو انقلاب بپا کیا وہ ایک نرالا انقلاب تھا جس نے دلوں کو تسخیر کیا اور اس حد تک لوگوں کو بدل ڈالاکہ وہ خدا سے ایسے ڈرتے تھے جیسے وہ ان کے سامنے کھڑا ہو !اﷲ اِن کو جزا دے اور ہمیں ہدایت عطا فرمائے ۔