جواب : قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کا نظام تدبیر پر قائم ہے۔ تقدیر اگرچہ اس تدبیر کے ساتھ بھی چلتی ہے اور اس کے خلاف بھی اور الگ راہ بھی نکالتی اور پیدا کرتی ہے۔ لیکن ہمارے پاس جو سرا ہے وہ تدبیر اور دعا کا ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ تقدیر کیا ہے۔ ہمارے علم میں تقدیر اس وقت آتی ہے جب وہ ماضی بن چکی ہوتی ہے۔ اس لیے ہم اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رکھتے کہ اپنی بہترین صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے تدبیر اور محنت کریں اور کامیابی کے لیے دعا کریں۔ اگر کامیابی ہو تو شکر ادا کریں اور اگر ناکامی ہو تو اپنی تدبیر ہی کی خامیوں کی اصلاح کریں۔ یہ اس دنیا کی حقیقت ہے اور اس کے مطابق ہر پیغمبر نے زندگی بسر کی ہے۔ کوئی کھیت ہل چلائے بغیر نہیں اگتا۔ اور نہ ہل چلانا کامیاب کھیت اگنے کی ضمانت ہے۔ اس لیے ہل چلانا بھی ضروری ہے اور دعا کرنا بھی۔ تقدیر کا عقیدہ ہاتھ پر ہاتھ رکھنے کا نام نہیں۔ اس بات کو ماننے کا نام ہے کہ اس دنیا کا نظام اصل میں اللہ کے ہاتھ میں ہے ہماری تدبیر اسی نظام کا حصہ ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : آپ نے تعمیر کعبہ اور حج کے حوالے سے مختلف پیغمبروں کے عمل سے متعلق بیہقی کی ایک روایت کے بارے میں رائے دریافت کی ہے۔ علاوہ ازیں آپ نے پرویز کے حوالے سے بھی دریافت کیا ہے کہ اس کی فکر پر کیا تنقید ہے۔ آپ نے جس روایت کا حوالہ دیا ہے وہ مجھے تلاش کے باوجود بیہقی میں نہیں ملی۔ البتہ ازرقی کی اخبار مکہ میں یہ روایت نقل ہوئی ہے۔‘‘عثمان کا بیان ہے کہ مجھے ابن اسحاق نے خبر دی کہ مجھے ایک ایسے شخص نے بتایا جسے میں متہم نہیں سمجھتا کہ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ بیت اللہ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے تعمیر ہوا کہ وہ اس کا طواف کریں اور اس میں اللہ کی عبادت کریں۔ اور یہ کہ حضرت نوح نے غرق سے پہلے حج کیا وہ اس کے پاس آئے انھوں نے اس کی تعظیم کی- جب زمین پر غرق کا مرحلہ آیا اور اللہ نے قوم نوح کو ہلاک کر دیا تو بیت اللہ کے ساتھ وہی ہوا جو زمین کے ساتھ ہوا۔ پھر اس کی نشانی کے طور پر ایک سرخ ٹیلہ رہ گیا۔ پھر اللہ نے ہود علیہ السلام کو عاد کی طرف مبعوث کیا وہ اپنی قوم کے ساتھ کشمکش میں رہے یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو گئی۔ چنانچہ انھوں نے حج نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالی نے صالح علیہ السلام کو ثمود کی طرف مبعوث کیا۔ وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ کشمکش میں رہے۔ یہاں تک ان کی قوم بھی ہلاک ہوگئی۔ انھوں نے بھی حج نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو ٹھکانا عطا فرمایا۔ انھوں نے حج بھی کیا اور مناسک بھی سیکھے۔ لوگوں کو اس کی زیارت کے لیے دعوت بھی دی۔ ابراہیم علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں ہوا جس نے اس کا حج نہ کیا ہو۔"
اس روایت کی سند ہی سے واضح ہے کہ قبولیت روایت کے معیار کے لحاظ سے یہ بہت کمزور ہے۔ لیکن میرے نزدیک اس طرح کی روایات کو اس معیار پر پرکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ تاریخی روایات کے بارے میں اصول یہی ہے کہ وہ قابل قبول ہیں الا یہ کہ کسی دوسرے ذریعے سے اس کی غلطی واضح ہو جائے۔ اس روایت میں جتنے بھی بیانات ہیں وہ سب اس زمانے سے متعلق ہیں جن کے بارے میں کوئی تحریری ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ لہذا تردید و تصویب کے لیے ہمارے پاس کوئی محکم بنیاد نہیں ہے۔ قرآن مجید میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے اس کی بعض باتوں کی تائید ہوجاتی ہے لیکن اکثر باتوں کے لیے قرآن میں کوئی تائید نہیں ہے۔
سرسید اور پرویز کی فکر آپ درج ذیل اصولی بات سے سمجھ سکتے ہیں۔
اصل میں مذہب کے بارے میں یہ تصور کہ اس کا مقصود خالق و مالک کے ساتھ تعلق کی درستی اور اس کے لیے مطلوب رسوم و آداب کی تعیین کا ہے، زمانہ حاضر کے بعض مفکرین کے لیے قابل قبول نہیں تھا اور وہ دین کو ایک ایسے نظام کے طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو دنیا میں انسانیت کی فلاح و بہبود کا ضامن ہو۔ اس زاویہ نظر سے نہ نماز کی وہ ہیئت قابل قبول رہتی ہے جو امت میں رائج ہے اور نہ حج کے مناسک قابل قبول رہتے ہیں جنھیں صدیوں سے ادا کیا جا رہا ہے۔بنیادی مسئلہ میرے نزدیک یہی ہے۔ ہمارا دین اصل میں خدا کے اس منصوبے کے فہم پر مبنی ہے کہ اس نے یہ دنیا آزمایش کے لیے بنائی ہے اور اصل مسئلہ آخرت کے امتحان کا ہے اور اس میں کامیابی کے لیے صحیح عقیدہ وعمل اختیار کرنا ہے تاکہ اس امتحان میں سرخروئی حاصل ہو۔اس کے برعکس ان مفکرین کے نزدیک آخرت یہ معنی و مفہوم نہیں رکھتی۔ اور دین بھی پرستش اور پوجا پاٹ کا نام نہیں بلکہ ان طریقوں کو جاننے اور اپنانے کا نام ہے جن سے نوع انسانی کی فلاح وابستہ ہے۔اس تصور کی تبدیلی کے نتیجے میں احادیث کے مقام اور تفسیر کے اصولوں کو نئے سرے سے متعین کرنے کی ضرورت پڑی اور امت کے مانے ہوئے مسلمات علم وعمل کو رد کرنا پڑا ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : آپ نے میاں بیوی میں موافقت کے لیے کوئی سورہ پڑھنے کے لیے پوچھا ہے۔
عرض یہ ہے کہ قرآن مجید سے جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ ہر مسئلے کے لیے صحیح تدبیر کرو اور اس کی کامیابی کے لیے اللہ سے دعا کرو۔ بس یہ دونکاتی فارمولا ہے جس پر ہر مسلمان کو عمل کرنا ہے۔ اس معاملے میں صحیح تدبیر یہ ہے کہ ہر فریق یعنی میاں بھی اور بیوی بھی اپنی غلطی یا اپنی خامی کا صحیح تعین کریں۔ دونوں یہ طے کریں کہ جو چیز دوسرے کے لیے قابل قبول نہیں ہے اس سے بچنے کی کوشش کرے گا۔ دونوں ایک دوسرے پر ایسا بوجھ نہ ڈالیں جو دوسرا آسانی سے اٹھا نہیں سکتا۔ وغیرہ ۔اس کے بعد وہ اللہ تعالی سے خلوص دل سے دعا کریں کہ وہ انھیں صحیح بات کو سمجھنے اور اس کو اپنانے کی ہمت دے اور غلط بات کو سمجھنے اور اس سے بچنے کی صلاحیت دے۔ وہ دعا کریں کہ اللہ ان کے بیچ محبت کو بڑھائے اور ان کے معاملات کو درست کر دے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی اعلی دعا سکھائی ہے۔ ‘‘اے اللہ ہمارے دلوں کو جوڑ دے۔ ہمارے بیچ کے معاملات کو درست کردے۔ ہمیں سلامتی کے راستوں پر چلا۔ ہمیں تاریکیوں سے نجات دے کر روشنیوں میں لے جا۔ ہمیں کھلی چھپی بے حیائی سے محفوظ رکھ۔ اے اللہ ہماری حفاظت فرما: ہماری سماعتوں میں، ہماری بصارتوں میں اور ہمارے ازواج میں۔ ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر گزار بنا کہ ہم ان پر تیرے ثنا خواں رہیں اور ان نعمتوں کو ہم پر پورا کر۔’’
(مولانا طالب محسن)
جواب :آپ نے سورہ یاسین کی آیت 14 کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اس میں تین رسولوں سے کون مراد ہیں۔اس حوالے سے دو آراء ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا دعوتی کام مراد ہے۔ یہ بستی شام کی ایک بستی انطاکیہ ہے۔ لیکن جس طرح قرآن میں بات بیان ہوئی ہے اس سے حواری مراد لینا محل نظر ہے۔ دوسری رائے یہ کہ پہلے دو سے حضرت موسی اور حضرت ہارون علیہما السلام مراد ہیں اور تیسرے سے وہ ہستی مراد ہے جو فرعون کے دربار میں تھی اور کئی موقعوں پر اس نے ان دونوں رسولوں کا ساتھ دیا۔ ہمارے سامنے پیغمبروں کی جتنی داستانیں ہیں ان میں سے بیک وقت دو پیغمبروں کی طرف بعثت کا واقعہ صرف ایک ہی ہے۔ اس لیے زیادہ قرین قیاس یہی ہے کہ اس آیات میں مصر کی طرف اشارہ ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :آپ نے تین الفاظ کے بارے میں پوچھا ہے:صدیقین، شہدا، صالحین۔یہ لفظ ایک ہی آیت میں آئے ہیں۔ ان میں پہلا لفظ انبیا کا ہے وہ غالباً آپ نے اس لیے نہیں لکھا کہ وہ تو واضح ہی ہے۔ اصل میں اس آیت میں صدیقین کا لفظ انبیا کی مناسبت ہی سے آیا ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ ہستیاں جو کسی پیغمبر کی تصدیق کرتی اور اس تصدیق کا حق ادا کر دیتی ہیں۔ صدیقین کے بعد وہ کیٹیگری ہے جو ان کے بعد ان کی امت میں ظاہر ہو گی مراد یہ ہے کہ غیر نبی ہستیاں جو دین کی دعوت کا کام اس طرح کریں کہ لوگوں پر حق واضح ہو جائے اور صالحین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ان کا ساتھ دیں۔
(مولانا طالب محسن)
جواب :آپ نے صدقہ، فطر، زکوۃ اور خیرات میں فرق پوچھا ہے اور مصیبت میں صدقہ دینے کی حقیقت دریافت کی ہے۔یہ تمام الفاظ ایک پہلو سے مشترک المعنی ہیں۔ وہ پہلو انفاق فی سبیل اللہ کا ہے اور یہ لفظ اس مشترک پہلو سے بھی لکھے اور بولے جاتے ہیں۔ انفاق سبیل اللہ ہی کی مختلف صورتوں کے لیے ان میں سے کچھ لفظ مختص بھی ہیں۔ مثلا بچتوں پر شریعت کی طرف سے لازم کیے گئے اڑھائی فیصد انفاق کے لیے زکوۃ کا لفظ مستعمل ہے۔ عید الفطر سے پہلے تمام افراد خانہ پر ایک دن کا کھانا عائد ہوتا ہے، جس کی مقدار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع مقرر کی تھی، اسے فطرانہ یا صدقہ فطر کہا جاتا ہے۔ صدقہ اور خیرات کا لفظ نفلی خیرات کے لیے آتا ہے۔
ان میں سے صدقے کا لفظ ہمارے ہاں ایک نئے تصور کے ساتھ متعلق ہو گیا ہے۔ وہ تصور یہ ہے کہ کسی مصیبت کو ٹالنے کے لیے کوئی چیز خیرات کی جائے۔ میری رائے یہ ہے کہ یہ ایک حقیقت کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر تکلیف یا آزمایش ہوتی ہے یا تنبیہ۔ اس لیے صحیح رویہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی طرف متوجہ ہو اور توبہ اور اصلاح کے راستے کو اختیار کرے۔ اصلاح عمل میں نماز ہے۔ حمد و تسبیح ہے۔ گناہوں سے اجتناب ہے اور اسی طرح خیرات اور دوسرے نیکی کے کام بھی ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم کوئی ایسا راستہ نکال لیں جس میں زندگی میں کوئی تبدیلی نہ کرنی پڑے اور مشکل سے جان بھی چھوٹ جائے۔ صدقے کے اس تصور کی ایک وجہ تو یہ ہے۔ دوسری وجہ عامل حضرات ہیں جنھوں نے لوگوں کو توہم پرستی کی چاٹ لگا رکھی ہے۔
(مولانا طالب محسن)