جواب : آپ نے جس روایت کا حوالہ دیا ہے وہ مجھے تلاش کے باوجود بیہقی میں نہیں ملی۔ البتہ ازرقی کی اخبار مکہ میں یہ روایت نقل ہوئی ہے۔
ترجمہ ۔‘‘عثمان کا بیان ہے کہ مجھے ابن اسحاق نے خبر دی کہ مجھے ایک ایسے شخص نے بتایا جسے میں متہم نہیں سمجھتا کہ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ بیت اللہ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے تعمیر ہوا کہ وہ اس کا طواف کریں اور اس میں اللہ کی عبادت کریں۔ اور یہ کہ حضرت نوح نے غرق سے پہلے حج کیا وہ اس کے پاس آئے انھوں نے اس کی تعظیم کی- جب زمین پر غرق کا مرحلہ آیا اور اللہ نے قوم نوح کو ہلاک کر دیا تو بیت اللہ کے ساتھ وہی ہوا جو زمین کے ساتھ ہوا۔ پھر اس کی نشانی کے طور پر ایک سرخ ٹیلہ رہ گیا۔ پھر اللہ نے ہود علیہ السلام کو عاد کی طرف مبعوث کیا وہ اپنی قوم کے ساتھ کشمکش میں رہے یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو گئی۔ چنانچہ انھوں نے حج نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالی نے صالح علیہ السلام کو ثمود کی طرف مبعوث کیا۔ وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ کشمکش میں رہے۔ یہاں تک ان کی قوم بھی ہلاک ہوگئی۔ انھوں نے بھی حج نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو ٹھکانا عطا فرمایا۔ انھوں نے حج بھی کیا اور مناسک بھی سیکھے۔ لوگوں کو اس کی زیارت کے لیے دعوت بھی دی۔ ابراہیم علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں ہوا جس نے اس کا حج نہ کیا ہو۔’’
اس روایت کی سند ہی سے واضح ہے کہ قبولیت روایت کے معیار کے لحاظ سے یہ بہت کمزور ہے۔ لیکن میرے نزدیک اس طرح کی روایات کو اس معیار پر پرکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ تاریخی روایات کے بارے میں اصول یہی ہے کہ وہ قابل قبول ہیں الا یہ کہ کسی دوسرے ذریعے سے اس کی غلطی واضح ہو جائے۔ اس روایت میں جتنے بھی بیانات ہیں وہ سب اس زمانے سے متعلق ہیں جن کے بارے میں کوئی تحریری ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ لہذا تردید و تصویب کے لیے ہمارے پاس کوئی محکم بنیاد نہیں ہے۔ قرآن مجید میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے اس کی بعض باتوں کی تائید ہوجاتی ہے لیکن اکثر باتوں کے لیے قرآن میں کوئی تائید نہیں ہے۔
آپ کے سوال سے میں یہی سمجھا ہوں کہ مسئلہ کعبے کے بارے میں مسلمانوں میں رائج تصورات پر ایک مکتب فکر کی تنقید کا ہے۔ اصل میں مذہب کے بارے میں یہ تصور کہ اس کا مقصود خالق و مالک کے ساتھ تعلق کی درستی اور اس کے لیے مطلوب رسوم و آداب کی تعیین کا ہے، زمانہ حاضر کے بعض مفکرین کے لیے قابل قبول نہیں تھا اور وہ دین کو ایک ایسے نظام کے طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو دنیا میں انسانیت کی فلاح و بہبود کا ضامن ہو۔ اس زاویہ نظر سے نہ نماز کی وہ ہیئت قابل قبول رہتی ہے جو امت میں رائج ہے اور نہ حج کے مناسک قابل قبول رہتے ہیں جنھیں صدیوں سے ادا کیا جا رہا ہے۔
بنیادی مسئلہ میرے نزدیک یہی ہے۔ ہمارا دین اصل میں خدا کے اس منصوبے کے فہم پر مبنی ہے کہ اس نے یہ دنیا آزمایش کے لیے بنائی ہے اور اصل مسئلہ آخرت کے امتحان کا ہے اور اس میں کامیابی کے لیے صحیح عقیدہ وعمل اختیار کرنا ہے تاکہ اس امتحان میں سرخروئی حاصل ہو۔
اس کے برعکس ان مفکرین کے نزدیک آخرت یہ معنی و مفہوم نہیں رکھتی۔ اور دین بھی پرستش اور پوجا پاٹ کا نام نہیں بلکہ ان طریقوں کو جاننے اور اپنانے کا نام ہے جن سے نوع انسانی کی فلاح وابستہ ہے۔
اس تصور کی تبدیلی کے نتیجے میں احادیث کے مقام اور تفسیر کے اصولوں کو نئے سرے سے متعین کرنے کی ضرورت پڑی اور امت کے مانے ہوئے مسلمات علم وعمل کو رد کرنا پڑا ہے۔
(مولانا طالب محسن)
ج : آپ نے تعمیر کعبہ اور حج کے حوالے سے مختلف پیغمبروں کے عمل سے متعلق بیہقی کی ایک روایت کے بارے میں رائے دریافت کی ہے۔آپ نے جس روایت کا حوالہ دیا ہے وہ مجھے تلاش کے باوجود بیہقی میں نہیں ملی۔ البتہ ازرقی کی اخبار مکہ میں یہ روایت نقل ہوئی ہے۔
‘‘عثمان کا بیان ہے کہ مجھے ابن اسحاق نے خبر دی کہ مجھے ایک ایسے شخص نے بتایا جسے میں متہم نہیں سمجھتا کہ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ بیت اللہ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے تعمیر ہوا کہ وہ اس کا طواف کریں اور اس میں اللہ کی عبادت کریں۔ اور یہ کہ حضرت نوح نے غرق سے پہلے حج کیا وہ اس کے پاس آئے انھوں نے اس کی تعظیم کی- جب زمین پر غرق کا مرحلہ آیا اور اللہ نے قوم نوح کو ہلاک کر دیا تو بیت اللہ کے ساتھ وہی ہوا جو زمین کے ساتھ ہوا۔ پھر اس کی نشانی کے طور پر ایک سرخ ٹیلہ رہ گیا۔ پھر اللہ نے ہود علیہ السلام کو عاد کی طرف مبعوث کیا وہ اپنی قوم کے ساتھ کشمکش میں رہے یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو گئی۔ چنانچہ انھوں نے حج نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالی نے صالح علیہ السلام کو ثمود کی طرف مبعوث کیا۔ وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ کشمکش میں رہے۔ یہاں تک ان کی قوم بھی ہلاک ہوگئی۔ انھوں نے بھی حج نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو ٹھکانا عطا فرمایا۔ انھوں نے حج بھی کیا اور مناسک بھی سیکھے۔ لوگوں کو اس کی زیارت کے لیے دعوت بھی دی۔ ابراہیم علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں ہوا جس نے اس کا حج نہ کیا ہو۔"
اس روایت کی سند ہی سے واضح ہے کہ قبولیت روایت کے معیار کے لحاظ سے یہ بہت کمزور ہے۔ لیکن میرے نزدیک اس طرح کی روایات کو اس معیار پر پرکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ تاریخی روایات کے بارے میں اصول یہی ہے کہ وہ قابل قبول ہیں الا یہ کہ کسی دوسرے ذریعے سے اس کی غلطی واضح ہو جائے۔ اس روایت میں جتنے بھی بیانات ہیں وہ سب اس زمانے سے متعلق ہیں جن کے بارے میں کوئی تحریری ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ لہذا تردید و تصویب کے لیے ہمارے پاس کوئی محکم بنیاد نہیں ہے۔ قرآن مجید میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے اس کی بعض باتوں کی تائید ہوجاتی ہے لیکن اکثر باتوں کے لیے قرآن میں کوئی تائید نہیں ہے۔
(مولانا طالب محسن)
جواب : آپ نے تعمیر کعبہ اور حج کے حوالے سے مختلف پیغمبروں کے عمل سے متعلق بیہقی کی ایک روایت کے بارے میں رائے دریافت کی ہے۔ علاوہ ازیں آپ نے پرویز کے حوالے سے بھی دریافت کیا ہے کہ اس کی فکر پر کیا تنقید ہے۔ آپ نے جس روایت کا حوالہ دیا ہے وہ مجھے تلاش کے باوجود بیہقی میں نہیں ملی۔ البتہ ازرقی کی اخبار مکہ میں یہ روایت نقل ہوئی ہے۔‘‘عثمان کا بیان ہے کہ مجھے ابن اسحاق نے خبر دی کہ مجھے ایک ایسے شخص نے بتایا جسے میں متہم نہیں سمجھتا کہ عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ بیت اللہ حضرت آدم علیہ السلام کے لیے تعمیر ہوا کہ وہ اس کا طواف کریں اور اس میں اللہ کی عبادت کریں۔ اور یہ کہ حضرت نوح نے غرق سے پہلے حج کیا وہ اس کے پاس آئے انھوں نے اس کی تعظیم کی- جب زمین پر غرق کا مرحلہ آیا اور اللہ نے قوم نوح کو ہلاک کر دیا تو بیت اللہ کے ساتھ وہی ہوا جو زمین کے ساتھ ہوا۔ پھر اس کی نشانی کے طور پر ایک سرخ ٹیلہ رہ گیا۔ پھر اللہ نے ہود علیہ السلام کو عاد کی طرف مبعوث کیا وہ اپنی قوم کے ساتھ کشمکش میں رہے یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو گئی۔ چنانچہ انھوں نے حج نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالی نے صالح علیہ السلام کو ثمود کی طرف مبعوث کیا۔ وہ بھی اپنی قوم کے ساتھ کشمکش میں رہے۔ یہاں تک ان کی قوم بھی ہلاک ہوگئی۔ انھوں نے بھی حج نہیں کیا۔ پھر اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو ٹھکانا عطا فرمایا۔ انھوں نے حج بھی کیا اور مناسک بھی سیکھے۔ لوگوں کو اس کی زیارت کے لیے دعوت بھی دی۔ ابراہیم علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں ہوا جس نے اس کا حج نہ کیا ہو۔"
اس روایت کی سند ہی سے واضح ہے کہ قبولیت روایت کے معیار کے لحاظ سے یہ بہت کمزور ہے۔ لیکن میرے نزدیک اس طرح کی روایات کو اس معیار پر پرکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ تاریخی روایات کے بارے میں اصول یہی ہے کہ وہ قابل قبول ہیں الا یہ کہ کسی دوسرے ذریعے سے اس کی غلطی واضح ہو جائے۔ اس روایت میں جتنے بھی بیانات ہیں وہ سب اس زمانے سے متعلق ہیں جن کے بارے میں کوئی تحریری ریکارڈ دستیاب نہیں ہے۔ لہذا تردید و تصویب کے لیے ہمارے پاس کوئی محکم بنیاد نہیں ہے۔ قرآن مجید میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے اس کی بعض باتوں کی تائید ہوجاتی ہے لیکن اکثر باتوں کے لیے قرآن میں کوئی تائید نہیں ہے۔
سرسید اور پرویز کی فکر آپ درج ذیل اصولی بات سے سمجھ سکتے ہیں۔
اصل میں مذہب کے بارے میں یہ تصور کہ اس کا مقصود خالق و مالک کے ساتھ تعلق کی درستی اور اس کے لیے مطلوب رسوم و آداب کی تعیین کا ہے، زمانہ حاضر کے بعض مفکرین کے لیے قابل قبول نہیں تھا اور وہ دین کو ایک ایسے نظام کے طور پر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو دنیا میں انسانیت کی فلاح و بہبود کا ضامن ہو۔ اس زاویہ نظر سے نہ نماز کی وہ ہیئت قابل قبول رہتی ہے جو امت میں رائج ہے اور نہ حج کے مناسک قابل قبول رہتے ہیں جنھیں صدیوں سے ادا کیا جا رہا ہے۔بنیادی مسئلہ میرے نزدیک یہی ہے۔ ہمارا دین اصل میں خدا کے اس منصوبے کے فہم پر مبنی ہے کہ اس نے یہ دنیا آزمایش کے لیے بنائی ہے اور اصل مسئلہ آخرت کے امتحان کا ہے اور اس میں کامیابی کے لیے صحیح عقیدہ وعمل اختیار کرنا ہے تاکہ اس امتحان میں سرخروئی حاصل ہو۔اس کے برعکس ان مفکرین کے نزدیک آخرت یہ معنی و مفہوم نہیں رکھتی۔ اور دین بھی پرستش اور پوجا پاٹ کا نام نہیں بلکہ ان طریقوں کو جاننے اور اپنانے کا نام ہے جن سے نوع انسانی کی فلاح وابستہ ہے۔اس تصور کی تبدیلی کے نتیجے میں احادیث کے مقام اور تفسیر کے اصولوں کو نئے سرے سے متعین کرنے کی ضرورت پڑی اور امت کے مانے ہوئے مسلمات علم وعمل کو رد کرنا پڑا ہے۔
(مولانا طالب محسن)