قسط -۲
ابن اسحاق علیہ رحمۃ کہتے ہیں کہ جب آسمانوں سے ٹوٹتے ستاروں کی تعداد میں بے حد اضافہ ہو گیا تب عربوں کا جو قبیلہ سب سے پہلے خوف زدہ ہوا وہ بنوثقیفہ تھے ’’۔
انھوں نے اس شدت کے ساتھ ستاروں کا ٹوٹنا دیکھا تو وہ عمرو بن امیہ کے پاس آ ئے’’۔ اور عمرو بن امیہ اُن کے قبیلے کا ایک صاحب ِ دانش فرد تھا ’’۔لوگوں نے اس سے کہا !اے عمرو !تم نے نہیں دیکھا کہ آسمانوں سے ستارے کس طرح ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں ’’۔اس نے کہا ہاں میں اس امر سے آ گاہ ہوں مگر بوڑھا ہوچکا ہوں ’’۔اس لیے ذرا غور کر کے مجھے بتاؤ کہ ٹوٹنے والے ستارے وہ ہیں جن سے ہم برو بحر میں راہنمائی حاصل کرتے ہیں یا وہ کوئی اور ہیں’’۔اس لیے کہ اگر تو وہ ستارے توڑے جا رہے ہیں جن سے انسان بھلائی کے کام لیتا ہے تب تو جان لو کہ یہ دنیا بھی عنقریب ہی ختم ہو نے والی ہے ’’۔تب لوگوں نے اسے بتایا کہ ۔’’نہیں یہ ستارے اور ہیں ’’۔اس پہ عمرو نے کہا !لوگو! میں تو اس سے یہ سمجھا ہوں کہ اﷲ نے ہماری بہتری کا فیصلہ فرما لیا ہے ’’ور ابن اسحاق ؒ ہی نے نبی اکرم ﷺ سے یہ روایت بھی کی ہے کہ ’ ’۔‘‘ محمد بن مسلم بن شہاب الزہری نے حضرت علی بن حسین بن علی بن ابی طالب سے اور انصار کی ایک جماعت سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ ہم لوگ نبی اکرمﷺ کے ساتھ مسجد نبوی میں بیٹھے تھے کہ ’’۔نبی اکرم ﷺ نے ہم سے سوال کیا ؟اے انصار کی جماعت جب تم ستاروں کو ٹوٹتا دیکھتے تھے تو تم کیا کہتے تھے ؟انھوں نے عرض کی ! یارسول اﷲ ﷺ جب ہم دیکھتے کہ ستارے ٹوٹ کر گر رہے ہیں تب ہم کہتے کہ ۔’’یا تو کوئی بادشاہ بنا ہے یا کوئی بادشاہ مرا ہے ’’۔یا کوئی بچہ پیدا ہوا ہے یا کوئی بچہ اس عالم فانی سے رخصت ہوا ہے ’’۔اس پہ نبی اکرم ﷺ مسکرائے اور فرمایا !حقیقت یہ نہیں ہے ’’۔حقیقت تو یہ ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ اپنی مخلوق کے بارے میں کوئی فیصلہ فرماتے ہیں تو اسے حاملین عرش سنتے ہیں اور وہ اﷲ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں پھر ان کی اس دلنواز صدا سے متاثر ہو کے ان سے نچلے آسمان کے فرشتے بھی اﷲ تعالیٰ کی مدح سرائی کرتے ہیں پھر ان ملائکہ کا عاشقانہ ترانہ سن کر اس سے نچلے آسمان والے بھی اﷲ کی حمدو ثنا میں مصروف ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ یہ خبر آسمان دنیا تک پہنچ جاتی ہے اور آ سمان دنیا والے فرشتے بھی اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے میں مصروف ہو جاتے پھر ملائکہ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں حتیٰ کہ یہ سوال عرش بریں پہ متمکن فرشتوں تک پہنچ جاتا اور وہ ایک دوسرے کو اطلاع کرتے کہ اﷲ رب العزت نے اپنی مخلوق کے بارے میں فلاں فلاں فیصلہ فرمایا ہے ، پھر یہ خبر اسی ترتیب کے ساتھ ایک ایک آسمان سے نیچے اترنے لگتی ہے اور آسمان زمین تک اترتی چلی جاتی ہے اہل آسمان اس امر کی بابت آپس میں گفتگو کرتے ہیں تو اس گفتگو کے کچھ حصے کو شیاطین بھی سن لیتے اور اس بات کو اپنے کاہن کے کان میں ڈال دیتے اور وہ اس خبر میں بہت سا جھوٹ شامل کر کے اسے لوگوں کے سامنے بیان کر دیتے کبھی اِن کی بات سچ ثابت ہو جاتی اور کبھی وہ خطا کھا جاتے ہیں پھر اﷲ تعالیٰ نے شہاب و ثاقب کے ذریعے اِن شیاطین کو روک دیا اس طرح آج سے کہانت ختم ہوئی’’۔اور ابن اسحاقؒ نے ہی غطیلہ کے جن کا قصہ بھی بیان ہے جو کہ یوں ہے ’’۔
وہ کہتے ہیں کہ بعض اہل علم نے مجھ سے بیان کیا کہ بنو سہم کی ایک عورت جو عہد جاہلیت کی معروف کاہنہ تھی اور مدینہ کی رہنے والی تھی ’’۔اس کے قبضے میں ایک جن تھا ’’۔ایک رات اس کا جن آیا اور غطیلہ سے کہا! اَذْزِ مَا اَدْرِ یَوْمَ عَقُرِ وَنَحْرِ میں جانتا ہوں میں ذبح کرنے والے اور ہلاک کرنے والے دن کومیں جانتا ہوں’’۔ جب قریش تک یہ خبر پہنچی تو انھوں نے اس کا مفہوم دریافت کیا ۔
کاہنہ نے اُن سے کہا !ابھی انتظار کرو ’’۔اگلی رات پھر غطیلہ کا جن اس کے پاس آیا اور اس کے قدموں میں بیٹھ کر کہا! شُعُوبّ مَا شُعُوْب ٌ تُضْرِع ُ فِےْہِ کَعْبٌ لِجُنُوْبِ ،،،
وہ درے کیسے درے ہیں جن سے بنی کعب پچھاڑے جائیں گے ’’۔ تاہم غطیلہ نے اہل قریش سے صرف اتنا ہی بیان کیا کہ !یہ امر عنقریب رونما ہو نے والا ہے’’۔ چنانچہ وہ واپس چلے گئے اور اس امر کا انتظار کرنے لگے ’’اور جلد ہی وہ جان گئے کہ غطیلہ کے جن کے اُن الفاظ سے کیا مراد تھا ’’۔اسلام آیا اور قریش نے اس سے دشمنی کی ’’۔اوربدر و احد کے دن جب اِن کے بہت سے سورما تہہ تیغ کئے گئے تب وہ جان گئے کہ کعب ہلاک ہو ئے اور انھیں دروں سے ہانکا بھی گیا ( یعنی وہ قیدی جو روز بدر مسلمانو ں کے ہاتھ لگے تھے )’’۔ابن ہشام علیہ رحمۃ کہتے ہیں کہ غطیلہ کا تعلق بنو مرۃ بن عبد مناۃ بن کنانہ سے تھا اور عرب ا نھیں کو ‘‘ام الغیاطیل ’’ کہا کرتے تھے اپنے اس استدلال کے ثبوت میں انھوں نے حضرت ابو طالب کا یہ شعر بھی پیش کیا ،،،،
لَقَدْ سَفُھَتْ اَحْلَاْم ُ قَوْم ٍ تَبَدَّلُوْا
بَنِیْ خَلَفٍ قَےْضًا بِنَا والغَےَا طِیْلِ
ان لوگوں کی عقل و دانش کا خاتمہ ہوگیا جنہوں نے ہم کو اور بنو غطیلہ کو چھوڑ کر بنو خلف کو اختیار کر لیا ،،اس کے بعد بنو ثقیف کے متعلق ابو جعفر عقیلی نے بنو لہب کے ایک شخص سے یہ روایت کی ہے کہ اُن کا یک شخص تھا جس کا نام لہیب یا لہب تھا وہ فرماتے ہیں کہ میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور کہانت کا ذکر کیا ’’۔
میں نے عرض کی !یارسول اﷲ ﷺ ! ہم پہلے لوگ تھے جنھیں آسمانوں کی حفاظت ، شیطان کی رجز و توبیخ اور ستاروں کے ٹوٹنے کے متعلق علم ہو ا’’۔تب ہم اپنے کاہن خطر بن مالک کے پاس جمع ہوئے اور اس وقت وہ بہت بوڑھا ہو چکا تھا اور عمر کی تیسری صدی میں داخل ہو چکا تھا ’’۔ہم نے اس سے کہا !اے خطر ہمیں بتا ؟یہ ستارے کیوں ٹوٹ رہے ہیں ’’۔ہم تو اِن کی وجہ سے مضطرب ہیں اور ہمیں اپنے انجام کا خطرہ ہے ’’۔خطر نے جواب دیا’’۔ اِئَتُوْنِیْ بَسَحَر۔ وقت سحر میرے پاس آ نا۔اُخْبِرُکُمْ الْخَبَرْ۔ میں تمہیں اس کے متعلق خبر دوں گا۔بِخَےْر ٍ اَمْ ضَرَرْ ۔کہ اس سے بھلائی مقصود ہے یا برائی اَوْلَاْمْنٍ اَوْحَذَر۔ اس سے امن مقصود ہے یا تباہی ۔چنانچہ اس دن ہم اس کو وہیں چھوڑ کے چلے آ ئے پھر دوسرے دن سحر کے وقت اس کے پاس آئے ’’۔اور ہم نے دیکھا !کہ وہ اپنے قدموں پہ کھڑا تھا اور ٹکٹکی باندھے آ سمان کی طرف دیکھ رہا تھا ’’۔ہم نے اسے آ واز دی ’’۔
اے خطر !اس نے اپنی انگلی سے ہمیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا ’’۔اسی اثنا میں آ سمان سے ایک بڑا ستارہ ٹوٹا اور کاہن بلند آواز سے چلایا ’’اسے ملنے والی سزا مل چکی ہے ۔ اس سزا نے اس کا احاطہ کر لیا ہے ۔ اور اس کا عذاب اسے جلد آ پہنچا ۔ شہاب نے اس کو جلا دیا ہے ۔ اس کے جواب نے اسے مضطرب کر دیا ہے ۔ ہائے ہلاکت اس کی کیا حالت ہو گئی ہے ۔ اندوہ غم نے اس کو نڈھال کر دیا ہے ۔ اس کی تباہی لوٹ آ ئی ہے ۔ اس کا رشتہ منقطع ہوچکا ہے ۔ اس کی کیفیت بدل چکی ہے ۔ عرب کاہنوں کو چونکہ صاف بات کرنے کی عادت نہ تھی اس لیے وہ ہر بات سجع میں کرتے تھے جس سے لوگ اپنے مطلب کی بات اخذ کر لیتے ،،،،اس کے بعد اس نے یہ اشعار پڑھے ،،
ےِا مَعْشَرَ بَنِیْ قَحْطَان
اُخْبِرُ کُمْ بِالْحَقِّ وَالبِےَانِ
اے بنو قحطان! میں تمہیں سچی اور حقیقت پہ مبنی بات بتاتا ہوں ،،،، اَقْسَمْتُ بَالْکَعْبَۃِ وَالْاَرْکَان
وَا لْبَلَدِ الْمُوْتَمِنِ السُلَّدان ِ
میں خانہ کعبہ ، اس کے مقدس ارکان اور اس مقدس شہر کی قسم کھاتا ہوں جو اپنے مکینوں کو امن دینے والا ہے ،،،،،
لَقَدْ مُنِعَ السَمْعَ عُتَا ۃُ الْجَانِّ
بَثَاقِب بِکَفِّ ذِیْ سُلْطَا نِ
کہ سرکش جنات کو آ سمانی خبریں سننے سے روک دیا گیا ہے اور ایک طاقتور ہاتھ کے ذریعے اُن پہ شہاب مارے جاتے ہیں ،،،،
مِنْ اَجَلِ مَبْعُوْثِ عَظِےْم الشَانِ
ےُبْعَث ُ بِا لتَنْزِ ےْلِ وَ الْقُرْآنِ
اور یہ تمام انتظامات ایک عظیم الشان رسول مکرمﷺ کے لیے ہو ئے ہیں جو محترم تنزیل اور قرآن کے ساتھ مبعوث ہوں گے ،،
وَبالھُدٰی وَ فَاصِلِ الْقُرْآنِ
تَبْطَلُ بَہٖ عِبَادَ ۃُ ا لاَوْثَانِ
وہ ہدایت اور فیصلے والی کتاب کے ساتھ تشریف لائیں گے ۔ اور ان کی تشریف آ واری سے بتوں کی پوجا ختم ہو جائے گی،،،
اَرٰی لِقَوْمِیْ مَا اَرٰی لِنَفْسِیْ
اَنْ ےَتْبَعُوْا خَےْر َ نَبِیّ الْاِنْسِ
میں اپنی قوم کو بھی وہی مشورہ دیتا ہوں جسے اپنے لیے اچھا جانتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ سب اُس نبی محترم ﷺ کی اطاعت کریں جو تمام نوع انسانی سے بہترین ہیں ،،
بُرْھَانُہٗ مِثْلُ شُعَاعِ الشَمْسِ
ےُبْعَثُ فِیْ مَکَّۃ َ دَارِ الحُمْسِ
اُن کی دلیل سورج کی شعاعوں کی مانند روشن ہو گی اور وہ مکہ دارِ حمس میں مبعوث ہوں گے ،
بِمُحْکَمِ التَنْزِےْلِ غَےْرَ اللَّبْس
وہ ایک ایسی محکم کتاب کے ساتھ مبعوث ہوں گے جس میں التباس کا کوئی اندیشہ نہ ہوگا ،،
عربوں میں صاحب ِ کتاب قوم کی حیثیت سے ایک خاص اہمیت کے حامل تھے اور عرب کسی حد تک اُن کی تکریم بھی کرتے تھے اس لیے کہ وہ مشرک اور بت پرست تھے اور جانتے تھے کہ اہل یہود دین کے اس علم سے واقف ہیں جس سے وہ نابلد تھے تاہم بنی اسرائیل کی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تاریخ کے کسی بھی دور میں انھوں نے اپنے اﷲ کو راضی نہیں رکھا وہ اﷲ کے ا نبیاء کا انکار کرتے تھے اور اُن کا دین ہمیشہ سے فقط اُن کا نفس رہا تھا جس کی وہ پیروی کرتے تھے۔اور عرب کے یہودی شاید دنیا کی اور کسی بھی قوم کی نسبت اس بات سے زیادہ آ گاہ تھے کہ نبی مکرم ﷺ کے ظہور کا زمانہ قریب آ لگا ہے ۔تاہم انھوں نے اپنے حسد اور عناد کی وجہ سے نبی مکرم ﷺ کا انکار کیااور سینکڑوں ایسی روایات موجود ہیں جو اس بات کی گواہ ہیں کہ اہل یہود خاص طور پہ جزیرۃ العرب میں مقیم یہودی تو خاص طور پہ نبی اکرم ﷺ کوجانتے تھے اور قرآن کی زبان میں انھیں ایسے ہی پہچانتے تھے جیسے کہ وہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں مگر اس کے باوجود انھوں نے انکار کیا جس کو اُن کی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے اگرچہ اُن کے بغض وعناد کی داستان طویل ہے تاہم مثال کے طور پہ چند واقعات یہاں پیش کئے جاتے ہیں ۔
چنانچہ مومنین کی ماں حضرت صفیہ ؓبیان کرتی ہیں کہ ’’۔میں یہودیوں کے سب سے بڑے عالم کی بیٹی تھی میرے باپ حیی بن اخطب کی یہودی بہت تکریم کرتے تھے ’’۔اور میرا چچا ابو یاسر بن اخطب بھی کتاب کا عالم تھا ’’۔میرا باپ اور میرا چچا مجھ سے بہت محبت کرتے تھے ۔اور اُن دنوں جب میں اُن کی محبت کے سائے میں پل رہی تھی تبھی اہل مدینہ میں ایک ہلچل مچی ’’۔لوگوں کے چہرے پہ خوشی اور دبادبا جوش تھا ’’۔جسے میں سمجھنے سے قاصر تھی اس لیے کہ میں کم عمر تھی ’’۔تاہم میں اتنا ضرور جانتی تھی کہ کوئی مبارک ہستی قبا میں اتری ہے جس کا تذکرہ اہل مدینہ کی زبان پر ہے ’’۔میرا باپ اور چچا اُن دِنوں پریشان تھے ’’۔اور اگر میں اُن کے سامنے آؤں تب بھی وہ مجھے نظر انداز کرتے اور اپنی باتوں میں مگن رہتے ’’۔اُن کا یہ رویہ میرے لیے اجنبی تھا ’’۔تاہم میں اتنا جان گئی کہ اُن کی پریشانی کا تعلق اسی شخصیت کے ساتھ ہے جو اِن دنوں قباکے محلے بنی عمرو بن عوف میں مقیم تھے ’’۔اُن کی باتوں کا محور اپنی کتاب کی وہ بشارتیں اور نشانیاں تھیں جو نبی مکرم ﷺ کی بابت بیان کی گئیں تھیں ’’۔پھر انھوں نے نبی اکرم ﷺ سے ملنے کا ارادہ کیا ’’۔اور اگلی صبح وہ سورج نکلنے سے پہلے ہی روانہ ہو گئے ’’۔میں سارا دن اُن کا انتظار کرتی رہی مگر وہ نہ آ ئے ’’۔مگر شام ڈھلے جب وہآ ئے تو اُن کے منہ لٹکے ہوئے تھے وہ بہت تھکے تھکے اور مایوس دکھائی دیتے تھے ’’۔میں اُن کی طرف لپکی مگر انھوں نے جیسے مجھے دیکھا ہی نہ ہو ’’۔میں دروازے کی آڑ میں ہوگئی ’’۔میرا چچا ابویاسر میرے باپ سے کہہ رہا تھا’’۔تم اُن کے بارے میں کیا کہتے ہو ’’۔میرے باپ حیی بن اخطب نے کہا ’’۔میں نے وہ تمام نشانیاں اُن میں پائیں ہیں جو ہماری کتاب میں مذکور ہیں ’’۔اس کا مطلب ہے کہ اُن کا دعویٰ نبوت سچا ہے ’’۔ابو یاسر نے پھر سوال کیا ؟ہاں ۔میرے باپ نے آہستہ سے کہا ’’۔پھر تمہارا کیا ارادہ ہے ’’۔ابو یاسر نے پوچھا ؟عداوتہ واللّہ ما بقیتُ خدا کی قسم ! اُن سے عداوت رکھوں گا جب تک کہ زندہ ہوں ’’۔میرے باپ نے جواب دیا ’’۔اور میں اُن کے اِس روپ کو نہ پہچان سکی ’’۔
فتح خیبر کے بعد حضرت صفیہ نبی اکرم ﷺ کے نکاح میں آ ئیں اور مومنین کی ماں کا عظیم الشان لقب حاصل کیا ’’۔
ابن قیم نے اپنی کتاب ‘‘ ہدایہ الحیاری ’’ میں عاصم بن عمرو قتادہ کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے کہ ،،ابن البیہان ایک یہودی عالم تھا ’’۔وہ شام سے ہجرت کر کے مدینے آ یا تھا ’’۔اور ہم نہیں جانتے کہ ہم نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ نمازی اور پرہیزگار کوئی اور شخص دیکھ ہو ’’۔ اور وہ اس وقت سے مدینے میں تھا جب نبی اکرم ﷺ نے ابھی اپنی بعثت کا اعلان نہ فرمایا تھا ’’۔ہم اسے ایک نیک آ دمی کے طور پہ جانتے تھے اور اس کی تکریم کرتے تھے ’’۔وہ اپنی کتاب پڑ ھ کے ہم کو سنایا کرتا تھا ’’۔ جب کبھی ہمارے علاقوں میں قحط شدت اختیار کر جاتا تو ہم اس کے پاس جاتے ’’۔اور اس سے اپنی پریشانی بیان کرتے’’۔وہ ہم کو کہتا کہ صدقہ کرو’’۔
ہم صدقہ کرتے اور وہ ہمارے ساتھ کھلے میدان میں نکل آتا اور اس کے ہاتھ میں اس کی مقدس کتاب ہو تی ’’۔پھر وہ بارش کے لیے دعا کرتا ’’۔اور بارہا ہم نے دیکھا کہ ابھی ہم اپنے گھروں کو بھی نہ لوٹے ہوتے کہ بادل گھرِ گھِر کے آ تے اور خوب برستے اور ہماری پیاسی کھیتیوں کو سیراب کرتے ’’۔پھر وہ علیل ہوگیا اور بہت دن بیمار پڑا رہا ’’۔اور جب اُس کے مرنے کا وقت قریب آ یا تو اُس نے لوگوں کو اپنے پاس آ نے کو کہا ’’۔لوگ اس کے پاس جمع ہو گئے تو اس نے لوگوں کو اپنا آ خری خطبہ دیا ’’۔اور اس خطبے کے دوران یہودیوں کے تین کم سن نوجوان بھی ایک کونے میں موجود تھے وہ ایک طرف کھڑے تھے مگر اُن کے کان ابن البیہان کی طرف لگے تھے اور اُنھوں نے اس کی تمام باتوں کو غور سے سنا ۔اِن نوجوانوں میں سے دو تو ایک یہودی سردار شعبہ کے بیٹے تھے جن کے نام اسد اور ثعلبہ تھے اور تیسرا عبید بن اسد تھا’’۔اور ابن البیہان کہہ رہا تھا ’’۔
اے گروہ یہود!کیا تم جانتے ہو کہ میں شام کی سر سبز و شاداب وادیوں کو چھوڑ کر تمہارے اس شہر میں کیوں آ بسا جہاں بھوک اور افلاس کے سوا کچھ بھی نہیں ؟لوگوں نے کہا !اس کی وجہ تو تُوخود ہی بہتر طور پہ جان سکتا ہے ’’۔تواس نے کہا ! تو سنو۔میں اس لیے یہاں آبسا تھا کہ مجھے ایک نبی کے ظہور کا انتظار تھا جس کا زمانہ بالکل قریب آ لگا ہے ’’۔میں خوش قسمت ثابت نہ ہوا کہ اُن کی زیارت کر سکوں اُن کی پیروی کر سکوں !اے گروہ یہود !مگر تم کو تاہی نہ کرنا کہ عنقریب وہ یہاں ہجرت کر کے آ ئیں گے تم اُن کی پیروی کرنا’’۔یہودیوں نے ابن البیہان سے وعدہ کیا کہ وہ اس نبی کی پیروی کریں گے ’’۔اس کے بعد ابن البیہان نے نبی اکرم ﷺ کی صفات اور حلیہ بیان کیا ’’۔ اور لوگوں سے کہا ! خیال رکھنا اس معاملے میں تم سے کوئی پہل نہ کرنے پائے ’’۔لوگوں نے یہ وعدہ بھی کر لیا ’’۔اس کے بعد ابن البیہان مر گیا ’’۔پھربہت سا وقت گذرا ’’۔وہ تینوں کم سن نوجوان اب بھر پور نوجوان تھے جس شب اُن کی گڑھیوں پہ نبی اکرم ﷺ نے اپنے اصحاب کے ساتھ حملہ کیا ’’۔اُن نوجوانوں نے ایک دوسرے سے کہا !کیا تم کو ابن البیہان کی باتیں یاد ہیں ’’۔تینوں نے کہا !ہاں !پھر کس بات کا انتظار کر رہے ہو ’’۔اُن میں سے ایک بولا !پہلے میں اپنے بڑوں سے بات کر لوں ’’۔
دوسرا بولا !ٹھیک ہے پھر وہ تینوں اپنے بڑوں کے پاس گئے اور اُن کو ابن البیہان کی باتیں یاد دلائیں ’’۔نبی اکرم ﷺ کی صفات گنوائیں ’’۔اُن کے بڑوں نے انکار کر دیا اور ڈھٹائی سے کہا !نہیں یہ کوئی اور ہیں ’’۔ اُن نوجوانوں نے کہا !بخدا ہم تو انھیں پہچان چکے ہیں اس لیے تم ہمیں نہیں روک سکتے ’’۔پھر وہ تینوں نیچے اترے !اور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کے اسلام قبول کیا ’’۔
اُنھوں نے اس بات کی پرواہ بھی نہ کی کہ اُن کے بال بچے اور اموال یہودیوں کے قبضے میں ہیں ’’۔ اور صحابہ کرام میں سے ایسے کئی تھے جو پہلے یہودی تھے پھر اسلام لائے اس لیے وہ یہودیوں کے افعال سے خوب واقف تھے ’’۔
چنانچہ حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاصؓ اگرچہ نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں کمسن تھے اس کے باوجود وہ پڑھنا لکھنا جانتے تھے اور خاص طور پہ انھوں نے یہودیوں کی کتاب پڑھ رکھی تھی چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ کی مدح اور صفات کے بیان میں سورۃ فتح اور سورۃ احزاب کی یہ آیات اتریں تو میں نے جانا کہ میں تو پہلے ہی اُن کو جانتا ہوں اس لیے کہ میں توراۃ میں نبی اکرم ﷺ کی اِن صفات کا پہلے ہی مطالعہ کر چکا تھا ’’۔
قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے کہ ’’ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا۔ لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا۔ ( سورۃ فتح8،9 ) ترجمہ: ہم نے تجھ کو خوشخبری سنانے والااور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے تاکہ تم خدا اور اس کے رسول پہ ایمان لاؤ اور اس کی مدد کرو اس کی تعظیم کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرو۔
مزید ارشاد ہوتا ہے کہ ،، یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ ﴿45﴾ وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا. ( سورۃ الاحزاب45,46 ) ترجمہ: اے پیغمبر ! ہم نے تجھ کو گواہ ،خوشخبری دینے والا ،ڈر انے والا اور اﷲ کی طرف سے اس کے حکم کی طرف بلانے والا روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے ،،
حضرت عبداﷲ بن عمربن العاصؓ کہتے ہیں بالکل اسی طرح کی بات نبی اکرم ﷺ کے بارے میں توراۃ میں بھی موجود ہے وہ کہتے ہیں کہ ،، قَال فی توراۃ ےٰا ےُّھا النبی انا ارسلنک شاھداً و مبشرا وحرز الامیےن انت عبدی و رسولی و سمیتک المتوکل لیس بفطٍ ولا غلیظ ولا سحاب بالاسواق ولا یدفع السئیۃ بالسیئۃ ولکن یعفو ویصیفح ولن یقبضہ اللّٰہ حتی یقیم بہ الملۃ العوجاء بان یقوالاالہ الا اللّٰہ فیفۃ بھا اعینا ء میاواذا ناصما وتلوباً غلفا ۔ترجمہ: اے نبی ! میں نے تجھ کو گواہ اور خوشخبری سنانے والا اور امیوں کا ماویٰ و ملجا بنا کر بھیجا ہے تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے اور میں نے تیرا نام خدا پہ بھروسہ کرنے والا رکھا ہے وہ سخت اور سنگدل نہ ہو گا اور نہ وہ بازاروں میں شور کرے گااور نہ وہ برائی کا بدلہ برائی سے دے گا بلکہ وہ عفو و درگذر سے کام لے گا اور خدا اس کی روح اس وقت تک قبض نہ کرے گا جب تک اس کے ذریعے وہ اس کج کو درست نہ کر لے جو لوگوں میں پایا جاتا ہے یہاں تک کہ لوگ کہنے لگیں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی خدا نہیں پس وہ اس دین سے اندھی آ نکھوں بہرے کانوں اور بے فہم دلوں کو کھول دے گا ۔
نبی اکرم ﷺ کے وصال کے بعد خلفاء کے دور میں یہودیوں کے ایک مشہور عالم حضرت کعب ؓ تھے جو اب مسلمان ہو چکے تھے تو اُن سے عطا تابعیؒ نے پوچھا ؟
اے کعب ؓ! تمہاری کتاب میں نبی اکرم ﷺ کا ذکرِ مبارک موجود ہے ’’۔تو حضرت کعبؓ نے جواب دیا ؟بہت !اس کے بعد انھوں نے توراۃ کے کچھ صفات پڑھے جو بنی اسرائیل کے ایک نبی اشعیا کی کتاب میں سے تھے اور جن میں نبی اکرم ﷺ کا ذکر ِبسیط پایا جاتا تھا ’’۔توراۃ میں اﷲ کے نبی اشعیا کی یہ خوشخبریاں کچھ تغیر کے ساتھ اب تک موجود ہیں جس پہ یہاں ایک نظر ڈال لینے میں کچھ حرج نہیں ’’۔
‘‘دیکھو میرا بندہ جسے میں سنبھالتا ،میرا برگزیدہ جس سے میرا جی راضی ہے ، میں نے اپنی روح اس پہ رکھی ، وہ قوموں کے درمیان عدالت جاری کرائے گاوہ نہ چلائے گا اور نہ اپنی صدا بلند کرے گا اور اپنی آواز بازاروں میں نہ سنائے گا ، ، خداوند خدا جو آسمانوں کو خلق کرتا ہے اور انھیں تانتا ہے جو زمین کو اور انھیں جو اس سے نکلتے ہیں کھلاتا اور اُن لوگوں کو جو اس پرہیں سانس دیتا اور ان کو جو اس پر چلتے ہیں روح بخشتا ہے ، یوں فرماتا ہے ، میں خداوند نے تجھے صداقت کے لیے بلایا ، میں ہی تیرا ہاتھ پکڑوں گا اور میں تجھ کو لوگوں کے لیے عہد اور قوموں کے لیے نور بناؤں گا کہ تو اندھوں کی آنکھیں کھولے اور بند ہواؤں کو قید سے نکالے اور اِن کو جو اندھیرے میں بیٹھے ہیں قید خانے سے چھڑائے ، یہووا ! یہ میرا نام ہے اور اپنی شوکت دوسرے کو نہ دونگااور وہ ستائش جو میرے لیے ہوتی کھودی ہوئی مورتوں کے لیے ہو نے نہ دوں گا ، دیکھو تو ثابت پیش گوئیاں برآ ئیں اور میں نئی باتیں بتاتا ہوں ، اس سے پیشتر کہ واقعہ ہوں میں تم سے بیان کرتا ہوں خداوند کے لیے ایک نیا گیت گاؤ اے تم جو سمندر پر گذرتے اور تم جو اس میں سے ہو، اے بحری ممالک اور اِن کے باشندو تم زمین پر سر تاسر اس کی ستائش کرو ، بیابان اور اس کی بستیاں قیدار کے آباد دیہات میں اپنی آواز بلند کریں گے ، سلع کے بسنے والے ایک گیت گائیں گے پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے للکاریں گے ،وہ خداوند کا جلال ظاہر کریں گے اور بحری ممالک میں اس کی ثنا خوانی کریں گے ، خداوند ایک بہادر کی مانند نکلے گا وہ جنگی مرد کی مانند اپنی عزت کوا سکائے گا وہ چلائے گا ، ہاں وہ جنگ کے لیے بلائے گا ، وہ اپنے دشمنوں پر غالب ہو گا ، میں بہت مدت سے چپ رہا ! میں خاموش ہو رہا اور اپنے آپ کو روکتا گیا ، پر اب میں اس عورت کی طرح جسے درد زہ ہو چلاؤں گا ، اور ہانپوں گا اور زور زور سے ٹھنڈی سانس بھی لوں گا ، میں پہاڑوں اور ٹیلوں کو ویران کر ڈالوں گا اور اُن کے سبزہ زاروں کو خشک کروں گا اور اُن کی ندیاں بسنے کے لائق زمین بناؤں گا ، اور تالابوں کو سکھا دوں گا ،اور اندھوں کو اس راہ سے کہ جسے وہ نہیں جانتے لے جاؤں گا ، میں انھیں اِن رستوں پر جن سے وہ آگاہ نہیں لے چلوں گا ، میں اِن کے آگے تاریکی کو روشنی اور اونچی نیچی جگہوں کو میدان کر دوں گا ، میں اُن سے یہ سلوک کروں گا اور انھیں ترک نہ کروں گا اور وہ پیچھے ہٹیں اور نہایت پشیماں ہوں جو کھودی ہوئی مورتیوں کا بھروسہ رکھتے ہیں اور ڈھالے ہوئے بتوں کو کہتے ہیں کہ تم ہمارے اﷲ ہو ! سنو اے بہرو اور تاکو اے اندھو ،تاکہ تم دیکھو کہ اندھا کون ہے، مگر میرا بندہ ، اور کون ایسا بہرہ ہے جیسا میرا رسول میں بھیجوں گا ،
اندھا کون ہے ، جیسا کہ وہ جو کامل ہے اور خداوند کے خادم کی مانند اندھا کون ہے، تو نے بہت چیزیں دیکھی ہیں ، پر اُن پر لحاظ نہیں رکھا اور کان تو کھلے ہیں ، پر کچھ نہیں سنتا خدواند اپنی صداقت کے سبب راضی ہو اور وہ شریعت کو بزرگی دے گا اور اسے عزت بخشے گا ،(توراۃ باب ۴۲) ( جاری ہے )