جائیے بیٹھیے حکمرانوں کے بیچ
آپ کیوں آ گئے ہم دیوانوں کے بیچ
اور کیا ہے سیاست کے بازار میں
کچھ کھلونے سجے ہیں دکانوں کے بیچ
تھا جنہیں عشق کا حوصلہ اٹھ گئے
تذکرے رہ گئے داستانوں کے بیچ
عشق کے نام پر اور کیا ہو گا
دشمنی ہو گئی دو گھرانوں کے بیچ
لوگ باتیں بنانے پہ ایسے تلے
چھپ گئی ہر حقیقت فسانوں کے بیچ
جلنے والوں کی آہیں کہاں جل سکیں
اک دھواں ہے ابھی تک مکانوں کے بیچ
زندگی کی قدریں بدلنے لگیں
لوگ بٹنے لگے دو زمانوں کے بیچ
کم سے کم ہم میں یہ حوصلہ تو رہا
زندگی کاٹ دی امتحانوں کے بیچ
شعر و فن کی سجی ہے نئی انجمن
ہم بھی بیٹھے ہیں کچھ نوجوانوں کے بیچ