نومبر 2014
رنج و غم مانگے ہے، اندوہ و بلا مانگے ہے دل وہ مجرم ہے کہ خود اپنی سزا مانگے ہے چپ ہے ہر زخمِ گلو، چپ ہے شہیدوں کا لہو دستِ قاتل ہے جو محنت کا صِلہ مانگے ہے تو بھی اک دولتِ نایاب ہے، پر کیا کہیے زندگی اور بھی کچھ تیرے سوا مانگے ہے ...
فروری 2011
جائیے بیٹھیے حکمرانوں کے بیچ آپ کیوں آ گئے ہم دیوانوں کے بیچ اور کیا ہے سیاست کے بازار میں کچھ کھلونے سجے ہیں دکانوں کے بیچ تھا جنہیں عشق کا حوصلہ اٹھ گئے تذکرے رہ گئے داستانوں کے بیچ عشق کے نام پر اور کیا ہو ...