وہ دلاور جو سیہ شب کے شکاری نکلے
وہ بھی چڑھتے ہوئے سورج کے پجاری نکلے
سب کے ہونٹوں پہ مرے بعد ہیں باتیں میری
میرے دشمن مرے لفظوں کے بھکاری نکلے
ایک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کے ساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے
ہم کو ہر دور کی گردش نے سلامی دی ہے
ہم وہ پتھر ہیں جوہر دور میں بھاری نکلے
عکس کوئی ہو خد و خال تمھارے دیکھوں
بزم کوئی ہو مگر بات تمھاری نکلے
اپنے دشمن سے میں بے وجہ خفا تھا محسن
میرے قاتل تو مرے اپنے حواری نکلے
٭٭٭
میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسماں کا ہے
کہ ٹوٹ کر بھی میرا حوصلہ چٹان کا ہے
برا نہ مان میرے حرف زہر زہر سے ہیں
میں کیا کروں کہ یہی ذائقہ زباں کا ہے
ہر ایک گھر میں مسلط ہے دل کی ویرانی
تمام شہر پہ سایہ میرے مکان کا ہے
بچھڑتے وقت سے اب تک میں یوں نہیں رویا
وہ کہہ گیا تھا کہ وقت امتحان کا ہے
وہ برگٍ زرد کی صورت ہوا میں اڑتا ہے
وہ ایک ورق بھی میری اپنی داستاں کا ہے
قفس تو خیر مقدر میں تھا مگر محسن
ہوا میں شور اب تک مری اڑان کا ہے
٭٭٭