جواب: والدین کی زندگی میں اولاد کا فرض ہے کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور ان کی خدمت اور خبر گیری میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔ قرآن وحدیث میں اس کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَقَضَی رَبّْکَ اَلَّا تَعبْدْوا اِلَّا اِیَّاہْ وَبِالوَالِدَینِ اِحسَاناً۔ (بنی اسرائیل:۳۲)
‘‘تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔’’
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: میں اللہ تعالیٰ سے اجر کی طلب میں آپ کے ہاتھ پر ہجرت اور جہاد کی بیعت کرناچاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اس نے جواب دیا : ہاں، دونوں زندہ ہیں۔ آپ نے اس شخص سے پھر سوال کیا: کیا تم اللہ سے اجر کے طالب ہو؟ اس نے جواب دیا: ہاں تب آپ نے فرمایا: فَارجِع اِلَیھِمَا فَاَحسِن صْحبَتَھْمَا (مسلم:۹۴۵۲) ‘‘تب اپنے والدین کے پاس واپس جاواور ان کی اچھی طرح خدمت کرو۔’’
آدمی پوری زندگی والدین کی خدمت کرتا رہے، لیکن ان کی زندگی کے آخری لمحات میں وہ کسی وجہ سے ان کے پاس نہ ہو، اس وجہ سے ان سے اپنی کوتاہیوں کی معافی نہ مانگ سکے تو کوئی حرج نہیں، ان کی دْعائیں اس کی ترقی درجات کا ذریعہ بنیں گی، لیکن اگر وہ پوری زندگی ان سے غافل رہے، ان کے حقوق ادا نہ کرے، بلکہ بات بات پر ناگواری کااظہار کرے، لیکن زندگی کے آخری لمحات میں رسم دنیا نبھانے کے لیے اپنی کوتاہیوں پر معافی مانگنے بیٹھ جائے تو ایسی معافی تلافی کس کام کی؟
والدین کی وفات کے بعد اولاد کے کرنے کا کام یہ ہے کہ ان کے لیے برابر دْعائے مغفرت کرے اور ان کی طرف سے وقتاً فوقتاً صدقہ وخیرات کرتا رہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ‘‘اِذَا مَاتَ الاِنسَانْ انقَطَعَ عَنہْ عَمَلْہ اِلَّا مِن ثَلَاثَ: اِلَّا مِن صَدَقَ جَارِیَ اَوعِلمٍ یّْنتَفَعْ بِہِ اَو وَلَدٍ صَالِحٍ یَدعْولَہ۔’’(مسلم: ۰۱۳۴)
‘‘جب کسی انسان کا انتقال ہوجاتا ہے، تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے، مگر تین کاموں کا ثواب اسے بعد میں بھی ملتا رہتا ہے۔ (۱) صدقہ جاریہ (۲) علم جس سے فائدہ اٹھایا جاتا رہے (۳) نیک اولاد، جو اس کے لئے دْعائے مغفرت کرتی رہے۔’’
حضرت ابن عباس ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے دریافت کیا: ‘‘اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری ماں کاانتقال ہوگیا ہے۔ اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا ان کو اس کا اجر ملے گا؟ آپ نے جواب دیا: ہاں، تب انہوں نے عرض :کیا میرے پاس کھجور کا ایک باغ ہے۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ گواہ رہیے کہ میں نے اسے اپنی ماں کی طرف سے صدقہ کردیا۔’’ (ترمذی ۹۶۶، ابوداود:۴۸۸۲، نسائی:۵۵۶۳)
امام ترمذی نے یہ حدیث نقل کرنے کے بعد لکھا ہے : ‘‘اس حدیث کی بنا پر اہل علم کی رائے ہے کہ کسی شخص کے مرنے کے بعد اسے اجر وثواب ملنے کا سلسلہ بند ہوجاتا ہے۔ ہاں ،کوئی اْس کی طرف سے صدقہ کرے یا اس کے حق میں دْعا کرے تو اس کا اسے فائدہ پہنچتا ہے۔’’
()
جواب:حدیثِ رسولﷺ اگر صحیح ہو تو اس کے بارے میں توجیہ اور تطبیق کاذہن بنانا چاہئے، نہ کہ اس پر اعتراض کرنے، شبہ وارد کرنے اور اسے قرآن کے خلاف سمجھ کر رد کردینے کا۔
یہ حدیث سنن ابی داود (۸۴۳۳) میں جس سند سے مروی ہے، اسے علامہ البانی نے صحیح قرا ر دیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ صحیح بخاری (۳۴۴،۴۹۳۲)، صحیح مسلم (۹۸۶۱)اور سنن بیہقی (۱۶۲۱۱، ۸۰۳۲۱)میں بھی آئی ہے۔ اس مضمون کی اور بھی احادیث دیگر صحابہ سے مروی ہیں۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی موقع پر ایک شخص سے ایک اونٹ قرض لیا تھا۔ اس نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ آپ نے اس کی ادائی کا حکم دیا۔ آپ کو بتایاگیا کہ ویسا اونٹ تو نہیں ہے، ہاں، اس سے اچھا اونٹ ہے۔ آپ نے فرمایا: اسی کو دے دو۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا: فَاِنَّ خَیرَکْم اَحسَنْکْم قَضَاء ًا (بخاری: ۰۹۳۲)
‘‘تم میں سے بہتر لوگ وہ ہیں جو ادائی بہتر طریقے سے کریں۔’’
دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں: فَاِنَّ مِن خِیَارِ النَّاسِ اَحسَنْھْم قَضَاء ً (بخاری:۲۹۳۲)
‘‘بہترین لوگ وہ ہیں جو ادائی بہتر طریقے سے کرتے ہیں۔’’
حضرت جابرسے مروی حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجرعسقلانی اور علامہ شوکانی دونوں نے لکھا ہے:
‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جتنا قرض لیاگیا ہو اس سے بڑھ کر واپس کرنا جائز ہے، اگر معاملہ میں اسے مشروط نہ کیاگیا ہو۔ لیکن اگر قرض لیتے وقت اس میں اضافہ کے ساتھ واپسی کی شرط لگائی گئی ہو تو یہ حرام ہے۔ اس پر جمہور علماء کا اتفاق ہے۔ (فتح الباری، شرح صحیح البخاری، دارالمعرفۃ بیروت، ۷۵۵، نیل الاوطار)
اس سے معلوم ہواکہ سود کا اطلاق اس زیادتی پر ہوتا ہے جسے قرض کے لین دین کے وقت طے کرلیا گیا ہو اور اس کی ادائی قرض لینے والے پر لازم ہو۔ لیکن اگر زیادتی کے ساتھ قرض کی واپسی مشروط نہ ہو اور قرض لینے والا اپنی خوشی سے اس میں کچھ بڑھا کر واپس کرے تو یہ نہ صرف جائز ، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ سے پسندیدہ ہے۔
()
جواب : لاوڈ اسپیکر کے استعمال میں احتیاط ملحوظ رکھنی چاہئے۔ اگر اس کا استعمال مسجد میں باجماعت نماز کے لیے ہورہا ہو تو اسے اسی وقت لگایا جائے جب مجمع اتنا بڑا ہو کہ بغیر اس کے تمام نمازیوں تک امام صاحب کی آواز نہ پہنچ سکتی ہو۔ لیکن اگر صرف چند نمازی ہوں تو لاوڈ اسپیکر کے استعمال کی کوئی ضرورت نہیں۔
مسجد یا کسی ہال میں کوئی دینی اجتماع ہورہا ہو تو لاوڈ اسپیکر کی آواز اتنی تیز رکھنی چاہئے کہ وہاں موجود لوگ اچھی طرح سن سکیں۔ وہاں ہونے والے خطبات ومواعظ کی آواز کو آبادی میں دور دور تک پہنچانے کے لئے لاوڈاسپیکر کا Volumeتیز رکھنا مناسب نہیں۔ اس لیے کہ آبادی میں ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں، جن کے معمولات میں تیز آواز سے خلل ہو یا انہیں اذیت پہنچے۔ اسی طرح پبلک مقامات، شاہ راہوں اور چوراہوں پر مذہبی اجتماعات یا دیگر پروگرام منعقد کرتے وقت بھی خیال رکھنا چاہئے کہ راہ چلنے والوں یا آس پاس میں رہنے والوں کو کسی طرح کی زحمت نہ ہو اور وہ تکلیف یا پریشانی محسوس نہ کریں۔ اس سلسلے میں ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ارشاد گرامی اپنے پیش نظر رکھنا چاہئے: مَن کَانَ یْومِنْ بِاللّٰہِ وَالیَومِ الاٰخِرِ فَلَا یْوذِ جَارَہ۔(بخاری :۸۱۰۶، مسلم ۳۸۱)
‘‘جو شخص اللہ اور روز آخرت پرایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچائے۔’’
ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ ایک غزوے میں نکلے۔ راستے میں وہ کسی اونچے مقام پر چڑھتے یا کہیں نشیبی جگہ میں اْترتے تو زور زور سے نعرہ تکبیر بلند کرتے، اسی طرح جب وہ واپس ہوئے تو مدینہ سے قریب پہنچنے پر بھی بلند آواز سے نعرے لگانے لگے۔ اس موقع پر آپ نے انہیں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: اَیّْھَا النَّاسْ، اربَعْوا عَلٰی اَنفْسِکْم، اِنَّکْم لَیسَ تَدعْونَ اَصَمَّ وَلَاغَائِبًا، اِنَّکْم تَدعْونَ سَمِیعًا قَرِیبًا وَھْوَ مَعَکْم۔ (بخاری، ۶۳۲۶، مسلم،۷۳۰۷)
‘‘لوگو، ٹھہرو، تم کسی بہرے یا غیرحاضر کو نہیں پکار رہے ہو، تم جس ذات کی کبریائی بیان کررہے ہو، وہ ہر بات سننے والا اور قریب ہے اور وہ ہر وقت تمہارے ساتھ ہے۔’’
اگر آبادی مخلوط ہو اور ساتھ ہی دیگر مذاہب کے ماننے والے رہتے ہوں تو اس معاملے میں مزید احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں لاپروائی سے بسااوقات نہ صرف دیگر مذاہب کے ماننے والوں میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بدگمانی اور نفرت پیدا ہوتی ہے، بلکہ کبھی معاملہ اشتعال انگیزی اور تنازعہ تک بھی پہنچ جاتا ہے۔
()
جواب : غزوہ احزاب ہجرتِ مدینہ کے پانچویں سال ہواتھا۔ پورا عرب مدینہ پر چڑھ آیا تھا۔ یہود، مشرکین مکہ اور دیگر بہت سے قبائل اسلام اور مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے کا تہیہ کئے ہوئے تھے۔ اس جنگ کی منصوبہ بندی مسلمانوں نے نہیں کی تھی کہ انھوں نے پہلے اس کے لیے پوری تیاری کرلی ہو، تمام وسائل فراہم کرلیے ہوں، نفع ونقصان کا تخمینہ کرلیا ہو، سامانِ رسد اور غذائی اشیاء کا ذخیرہ کرلیا ہو،اس کے بعد جنگ چھیڑی ہو، بلکہ جنگ ان پر مسلط کی گئی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمنوں کے لشکر عظیم کی خبر ملی تو آپ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا۔ اس موقع پر حضرت سلمان فارسی نے، جو کچھ عرصہ پہلے ہی ایمان لائے تھے، یہ تجویز پیش کی کہ فارس میں جب ہم اس طرح کے محاصرے کی صورت حال سے دوچار ہوتے ہیں تو اپنے گرد خندق کھود لیتے ہیں۔ یہ تجویز آپ کو بہت پسند آئی۔ آپ نے فوراً اس پر عمل درآمد کا حکم دے دیا۔ مدینہ کے بعض اطراف میں پہاڑیاں ، پتھریلی زمین اور کھجور کے باغات تھے۔ ادھر سے حملے کا اندیشہ تھا۔ جو حصہ کھلا ہوا تھا ادھر خند ق کھودنے کا منصوبہ بنایاگیا۔ دس دس افراد کے گروپ بنائے گئے اور انھیں چالیس چالیس ہاتھ خندق کھودنے کا حکم دیاگیا۔ تقریباً تین ہفتوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد خندق تیار ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفس نفیس صحابہ کرام کے ساتھ خندق کی کھدائی میں شریک رہے۔ بعض مواقع پر، جب زیر زمین کوئی چٹان کھدائی میں رکاوٹ ڈالتی تھی اور صحابہ کرام اسے توڑ نہیں پاتے تھے تو آپ آگے بڑھتے تھے اور آپ کی ایک ضرب سے چٹان پاش پاش ہوجاتی تھی۔
صحیح احادیث میں ہے کہ اس زمانے میں مدینہ میں خورونوش کی اشیاء کی شدید قلت تھی۔ بخاری:۴۱۰۱ تھوڑا سا جو مل جاتا تو صحابہ کرام اسے پرانے تیل میں پکاکر کھالیتے تھے۔ فتح الباری، ۳۹۲/۷ کبھی انھیں صرف کھجوروں پر گزارا کرنا پڑتا تھا۔ البدایۃ والنہایۃ، ۹۹/۴ بسا اوقات تین تین دن تک کھانے کی کوئی چیز ان کے منھ کو نہ لگتی تھی۔بخاری: ۴۱۰۱۔ اس دوران آں حضرت کے دست مبارک سے متعدد معجزات کا ظہور ہوا۔ تھوڑا سا کھانا، جو گنتی کے چند افراد کے لیے کفایت کرسکتا تھا، اس میں اتنی برکت ہوئی کہ سیکڑوں افراد اس سے شکم سیر ہوئے۔
اسی موقع کی ایک روایت حضرت ابوطلحہ سے مروی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں: شَکَونَا اِلیٰ رَسْولِ اللّٰہِ صَلّی اللّٰہ علیہ وسلم الجْوعَ وَرَفَعنا عَن بْطْونِنَا عَن حَجَرِ حَجَرِ، فَرَفَعَ رَسْولْ اللّٰہِ صَلّی اللّٰہ علیہ وسلم عَن حَجَرَینِ۔
‘‘ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کی شکایت کی اور اپنے پیٹ کھول کر دکھائے، جن پر ایک ایک پتھر بندھا ہوا تھا۔ یہ سن کر آپ نے اپناشکم مبارک کھول کر دکھایا۔ اس پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے’’۔
اس روایت کی تخریج امام ترمذی نے کتاب الزہد ۱۷۳۲ میں کی ہے، ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے: ھٰذا حدیث غریب لانعرفہ الامن ھٰذا الوجہ یہ حدیث غریب ہے، جو صرف اسی سند سے مروی ہے ۔علامہ البانی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ لیکن غزوہ خندق کے موقع پر بھوک کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیٹ پر باندھنا صحیح روایات سے ثابت ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ایک طویل روایت میں ہے: ثْمَّ قَامَ وَبَطنْہ مَعصْوب بِحَجَرِِ بخاری: ۱۰۱۴
‘‘پھر آپ کھڑے ہوئے۔ اس وقت آپ کے پیٹ پر ایک پتھر بندھا ہوا تھا’’۔
عربوں میں اس زمانے میں ایک چلن یہ تھا کہ وہ شدت بھوک کے احساس کو دبانے کے لیے پیٹ پرپتھر باندھ لیا کرتے تھے۔ ایسے پتھر کو مْشبِعَ کہا جاتا تھا، یعنی بھوک کا احساس ختم کرنے والا اور آسودگی کا احساس دلانے والا۔ علامہ ابن حجر نے بخاری کی مذکورہ بالاروایت کی شرح میں لکھا ہے:
‘‘پیٹ پر پتھر باندھنے کا فائدہ یہ ہے کہ پیٹ جب بھوک کی وجہ سے سکڑ جاتا ہے تو کمر جھک جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں اگر پیٹ پر پتھر رکھ کر اوپر سے کپڑا باندھ لیاجائے تو پیٹھ سیدھی رہتی ہے’’۔ فتح الباری، ۷/ ۳۹۶
کسی واقعے پر غور کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اسے زمانہ وقوع اور اس جیسے حالات میں لے جاکر اس پر غور کیاجائے۔ ہم آج بھی دیکھتے ہیں کہ کھیتوں میں کام کرنے والے یا محنت مزدوری کرنے والے اپنے پیٹ پر انگوچھا کس کر باندھ لیتے ہیں، اس کے بعد کام کرتے ہیں تو انھیں تکان کا احساس کم ہوتا ہے۔ ایئر کنڈیشن کمروں میں بیٹھنے اور مرغن غذائیں آسودہ ہوکر کھانے والوں کی عقل میں اس عمل کی افادیت نہیں آسکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بہتر گھنٹے بھوکے رہیں، پھر پانچ چھ گھنٹے سخت زمین پر پھاؤڑا چلائیں، تب انھیں بہ خوبی اندازہ ہوجائے گاکہ پیٹ پر کپڑا باندھ کر پھاؤڑا چلانے سے تکلیف میں اضافہ ہوتا ہے یا کچھ راحت محسوس ہوتی ہے۔
()
جواب: ۱۔ اگر کسی شخص کے پاس سونے اور چاندی کے زیورات اتنی مقدار میں ہوں کہ دونوں الگ الگ نصاب کو نہ پہنچتے ہوں تو ان پر وجوب زکوٰۃ کے معاملے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ احناف اور مالکیہ کے نزدیک دونوں کو ملاکر اگر کسی ایک کا نصاب پورا ہوجائے تو زکوٰۃ واجب ہوجائے گا۔ یہی امام ثوری اور امام اوزاعی کی بھی رائے ہے۔ امام شافعی کے نزدیک دونوں کو ملایا نہیں جائے گا۔ زکوٰۃ اسی وقت واجب ہوگی جب دونوں یا ان میں سے کسی ایک کا نصاب پورا ہوجائے۔ امام احمد سے دورائیں مروی ہیں۔ فقہاء کے اپنے اپنے دلائل ہیں، تفصیل کتبِ فقہ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
۲۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک زیورات میں زکوٰۃ عائد ہوتی ہے دیگر ائمہ کے نزدیک استعمالی زیورات پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ زکوٰۃ کی ادائی اس کے ذمے ہوگی جو ان کا مالک ہو۔ کسی عورت نے اپنی ہونے والی بہو کے لیے زیورات خریدے تو شادی سے قبل تک اسی کو زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی اور شادی کے بعد جب بہو ان کی مالک ہوجائے گی تو زکوٰۃ کی ادائی اس کے ذمے ہوگی۔
۳۔ سونا چاہے سکوں کی شکل میں ہو یا زیورات کی شکل میں، دونوں صورتوں میں اس پر زکوٰۃ عائد ہوتی ہے۔
()
جواب : کسی زمین کی خریداری کے وقت اگر اس کی تجارت کی نیت نہیں تھی تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے۔ اسے فروخت کرنے کے بعد جو رقم ملے، دوسرے اموال زکوٰۃ کے ساتھ اس پر بھی زکوٰۃ عائد ہوگی، اگر وہ رقم اْس وقت موجود ہو جب اس کا مالک صاحبِ نصاب ہوا ہو۔
اگر کوئی زمین ابتدا ہی میں تجارت کی نیت سے خریدی جائے تو سال گزرنے کے بعد اس پر زکوٰۃ عائد ہوگی۔ اس صورت میں قیمتِ خرید کا نہیں بلکہ اس کی موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا۔
()
جواب : قبر کے پاس تلاوتِ قرآن کریم کے مسئلے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ مالکیہ نے اسے مکروہ قرار دیا ہے اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ سلف سے ایسا کرنا ثابت نہیں ہے۔ البتہ متاخرین مالکیہ نے اس کی اجازت دی ہے۔
احناف، شوافع اور حنابلہ کہتے ہیں کہ قبر کے پاس قراتِ قرآن مکروہ نہیں ہے۔ حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ انھوں نے اپنے انتقال کے وقت وصیت کی تھی کہ ان کی تدفین کے بعد قبر کے پاس سورہ بقرہ کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت کی جائے۔مشہور حنفی فقیہ ابن عابدین نے شرح اللباب کے حوالے سے لکھا ہے:
‘‘آدمی کو قبر کے پاس سورہ فاتحہ، سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات المفلحون تک آیت الکرسی، سورہ بقرہ کی آخری آیات آمن الرسول تا ختم سورہ سورہ یٰس ، سورہ ملک، سورہ تکاثر اور سورہ اخلاص تین، سات، گیارہ یا بارہ مرتبہ میں سے جو بھی توفیق ہو پڑھے’’۔
ایک قول یہ ہے کہ ‘‘قبر کے سرہانے کھڑے ہوکر سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات اور پیروں کی طرف کھڑے ہوکر اس کی آخری آیات پڑھی جائیں’’۔ الموسوع الفقہی، کویت، ۲۳/ ۵۵۲-۶۵۲
()
جواب : حضرت عبدالرحمن بن عوف کا نکاح ہوا۔ اس کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا تو آپ نے انھیں مبارکباد دی اور فرمایا: اَولِم وَلَوبشاۃبخاری: ۸۴۰۲ ، مسلم: ۷۲۴۱ ‘‘ولیمہ کرو ، خواہ ایک بکری کے ذریعے’’
آپ نے خود بھی اس پر عمل کرکے دکھایا۔ چنانچہ روایات میں ہے کہ حضرت زینب بنت حجش سے نکاح کے موقع پر آپ نے بکری ذبح کروائی تھی اور لوگوں نے شکم سیر ہوکر گوشت روٹی کھائی تھی۔ بخاری: ۱۷۱۵، مسلم: ۸۲۴۱
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ولیمہ میں گوشت کھلانا ضروری ہے۔ دعوت میں کچھ بھی کھلایا جاسکتا ہے۔ غزوہ خیبر کے بعد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ سے نکاح کیا تو ولیمہ میں صحابہ کو ‘حیس’ کھلایا تھا بخاری: ۵۱۶۹، مسلم: ۱۳۶۵ ‘حیس’ اس کھانے کو کہتے تھے جسے کھجور ، پنیر اور گھی ملاکر تیار کیاجاتا تھا۔
حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ حضر ت صفیہ سے نکاح کے موقع پر آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ صحابہ کرام کو ولیمہ کے لیے بلاکر لاؤ۔ اس موقع پر گوشت روٹی کا اہتمام نہیں کیاگیا تھا۔ صحابہ آئے تو دسترخوان بچھا دیاگیا اور اس پر کھجور ، پنیر اور گھی رکھ دیاگیا ’’۔ بخاری: ۵۸۰۵ حضرت صفیہ بنت شیبہ بیان کرتی ہیں کہ بعض ازواج مطہرات سے آں حضرت کے نکاح کے موقع پر ولیمہ میں صرف دومْد ایک پیمانہ جَو کا استعمال کیاگیا تھا۔ بخاری: ۲۷۱۵
نکاح ایک خوشی کا موقع ہوتا ہے۔ شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ آدمی اس موقع پر اپنی خوشی میں اپنے اعزہ اور احباب کو شریک کرے۔ اب یہ اس کے اوپر ہے کہ وہ ان کی ضیافت اور لذتِ کام ودہن کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق جو چاہے انتظام کرے۔
()
جواب : وہ چیزیں جو صرف پوجا پاٹ اور مشرکانہ مراسم کی ادائی میں استعمال کی جاتی ہیں ان کی تجارت کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے، اس لیے کہ یہ ایک اعتبار سے شرکت و بت پرستی میں تعاون ہے۔ البتہ وہ چیزیں، جنھیں غیر مسلم پوجاپاٹ کے کاموں میں استعمال کرتے ہیں اور ان کے دیگر عام استعمالات بھی ہیں، انھیں دوکان میں رکھ کرفروخت کیا جاسکتا ہے۔
()