مولانا الطاف حسین حالی


مضامین

اُمت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے چھوٹوں میں اِطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ...


اے زمیں آسماں کے مالک ساری دْنیا جہاں کے مالک   تیرے قبضے میں سب خدائی ہے تیرے ہی واسطے بڑائی ہے   تو ہی ہے سب کا پالنے والا کام سب کے نکالنے والا   بھوک میں تو ہمیں کھلاتا ہے پیاس میں تو ہمیں پلاتا ہے   آنکھ دی تو نے دیکھنے کے...


  وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا  مرادیں غریبوں کی بر لانے والا   مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا   فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ   خطا کار سے درگزر کرنے...


  اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے امت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے   جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے   وہ دین، ہوئی بزمِ جہاں جس سے چراغاں اب اس کی مجالس میں نہ بتی ، نہ دیا ہے   جو تفرقے...


  آنی جانی چیز ہیں خوشیاں چلتی پھرتی چھانو ہے ارماں   منگنی بیاہ برات اور رخصت میل ملاپ سہاگ اور سنگت   ہیں دو دن کے سب بہلاوے آگے چل کر ہیں پچھتاوے   ریت کی ایک دیوار تھی دنیا اوچھے کا سا پیار تھی دنیا   ہار...


  کامل ہے جو ازل سے وہ ہے کمال تیرا  باقی ہے جو ابد تک وہ ہے جلال تیرا    ہے عارفوں کو حیرت اور منکروں کو سکتہ  ہر دل پہ چھا رہا ہے رعب جمال تیرا    گو حکم تیرے لاکھوں یاں ٹالتے رہے ہیں  لیکن ٹلا نہ ہر گز دل سے خیال تیرا  ...


  بنے ہیں مدحت سلطان دوجہاں کے لیے  سخن زباں کے لیے اور زباں دہاں کے لیے    وہ چاند جس سے ہوئی ظلمت جہاں معدوم  رہا نہ تفرقہ روزوشب زماں کے لیے    گھر اس کا مورد قرآن و مہبط جبریل در اس کا کعبہ مقصود انس و جاں کے لیے    ...