حمد رب جليل
کامل ہے جو ازل سے وہ ہے کمال تیرا
باقی ہے جو ابد تک وہ ہے جلال تیرا
ہے عارفوں کو حیرت اور منکروں کو سکتہ
ہر دل پر چھا رہا ہے رعبِ جمال تیرا
گو حکم تیرے لاکھوں یاں ٹالتے رہے ہیں
لیکن ٹلا نہ ہرگز دل سے خیال تیرا
پھندے سے تیرے کیو ں کر جائے نکل کے کوئی
پھیلا ہوا ہے ہر سُو عالم میں جال تیرا
ان کی نظر میں شوکت جچتی نہیں کسی کی
آنکھوں میں بس رہا ہےجن کی جلال تیرا
دل ہو کہ جان تجھ سے کیوں کر عزیز رکھیے
دل ہے سو چیز تیری، جاں ہے سو مال تیرا
بیگانگی میں حالی يہ رنگِ آشنائی
سُن سُن کے سر دھُنیں گے حال اہلِ قال تیرا
الطاف حسين حالی