بنے ہیں مدحت سلطان دوجہاں کے لیے
سخن زباں کے لیے اور زباں دہاں کے لیے
وہ چاند جس سے ہوئی ظلمت جہاں معدوم
رہا نہ تفرقہ روزوشب زماں کے لیے
گھر اس کا مورد قرآن و مہبط جبریل
در اس کا کعبہ مقصود انس و جاں کے لیے
گہ افتخار مقابل میں اہل نخوت کے
گہ انکسار مدارات میہماں کے لیے
کہیں ہلاک میں تاخیر قوم سرکش کے
کہیں نماز میں تعجیل ناتواں کے لیے
مدینہ مرجع و ماواے اہل مکہ ہوا
مکیں سے رتبہ یہ حاصل ہوا مکاں کے لیے
بس اب نہ غول کا کھٹکا نہ راہ زن کا خطر
ہوا وہ قافلہ سالار کارواں کے لیے
شفیع خلق سراسر خدا کی رحمت ہے
بشارت امت عاصی و ناتواں کے لیے
اسی کا دیں ہے کہ ہے گلشن ہمیشہ بہار
وگرنہ ہر گل و گلزار ہے خزاں کے لیے
نہ حرف و صوت میں وسعت نہ کام ولب میں سکت
حقیقت شب معراج کے بیاں کے لیے
کرم کا دیکھیے دامن کہاں تلک ہو فراخ
ہو میزبان خدا جب کہ میہماں کے لیے
اگر نصیب ہو یثرب میں جا کے شربت مرگ
پیوں نہ آبِ بقا عمر جاوِداں کے لیے
حریف نعت پیمبرؐ نہیں سخن حالیؔ
کہاں سے لائے اعجاز اس بیاں کے لیے
مولانا الطاف حسین حالی
انتخاب ،خضر حیات ناگپوری
مورد: اترنے ، پہنچنے ، آنے ٹھہرنے کی جگہ
مہبط: اترنے کی جگہ
مرجع ، ماوا: جائے پناہ ۔ ٹھکانہ
مولانا (خواجہ) الطاف حسین حالیؔ :(1837-1914)
جدید اردو شاعری کے بانیوں میں سب سے اہم نام حالی کا ہے ۔ ۹ برس کی عمر میں داغ یتیمی کو سہنا پڑا۔ بھائی اور بہن نے پرورش وپرداخت کی ۔ حسب دستور زمانہ پہلے قرآن پاک حفظ کیا۔ عربی و فارسی کی تعلیم حاصل کی ۔ صرف و نحو ، منطق اور علم عروض کا مطالعہ کیا اور ان علوم میں مہارت حاصل کی ۔ 1857 کی پہلی جنگ آزادی کے بعد فلسفہ ، حدیث اور تفسیر کے علوم میں بھی دست رس بہم پہنچائی۔ حالیؔ نے تصنع اور بناوٹ سے پاک ، صاف اور سادہ اسلوب میں شعر کہنے کی طرح ڈالی ان کا کلام خلوص اور دردمندی ، قومی و انسانی ہمدردی اور سادگی ، سنجیدگی اور پاکیزگی کا حسین مرقع ہے ۔ ‘‘مسدس مدوجزر اسلام ’’ان کی بے انتہا موثر ، زوردار اور پرشکوہ نظم ہے ۔ رسول پاکؐ کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے جو نعتیہ اشعار انہوں نے لکھے ہیں وہ زبان زدخلائق اور اپنی مثال آپ ہیں۔ قصیدہ نعتیہ کے ۳۳، اشعار میں سے ۱۳، اشعار کا انتخاب کیا گیا ہے ۔ یہ قصیدہ ۱۲۸۱ھ یا ۱۲۸۲ھ لکھا ہوا حالیؔ کی قدیم شاعری کا نمونہ ہے۔