حصار

مصنف : مصطفی زیدی

سلسلہ : نظم

شمارہ : جون 2013

Click here to read in English

 

بے نْور ہوں کہ شمعِ سرِ راہ گزر میں ہوں
بے رنگ ہوں کہ گردشِ خونِ جگر میں ہوں
 
اندھا ہوں یوں کہ کور نگاہوں میں رہ سکوں
بہرہ ہوں یوں کہ قصہ نا معتبر میں ہوں
 
ذرّے جوان ہو کے اْفق تک پہنچ گئے
میں اتنے ماہ و سال سے بطنِ گہر میں ہوں
 
مستقبلِ بعید کی آنکھوں کی روشنی
اوروں میں ہوں نہ ہوں مگر اپنی نظر میں ہوں
 
لاکھوں شہادتوں نے مجھے واسطے دیئے
میں شب گزیدہ پھر بھی تلاشِ سحر میں ہوں
 
سفّاک بچپنوں کا کھلونا بنا ہوا ہے
دنیا کی زد میں پنجہ شمس و قمر میں ہوں
 
میں جنگلوں کی رات سے تو بچ آگیا
اب کیا کروں کہ وادیِ نوعِ بشر میں ہوں
 
جی چاہتا ہے مثلِ ضیا تجھ سے تجھ سے مِل سکوں
مجبور ہوں کہ محبسِ دیوار و در میں ہوں
 
میں ہم نشینِ خلوتِ شہنازِ لالہ رْخ
میں گرمئی پسینہ اہلِ ہنر میں ہوں
 
خوابوں کے راہروو، مجھے پہچاننے کے بعد
آواز دو کہ اصل میں ہوں یا خبر میں ہوں
 
اتنی تو دور منزلِ وارفتگا ں نہ تھی
کن راستوں پہ ہوں کہ ابھی تک سفر میں ہوں
 
کیسا حصار ہے جو مجھے چھوڑتا نہیں
میں کس طلسمِ ہوش رْبا کے اثر میں ہوں
 
زنداں میں ہوں کہ اپنے وطن کی فصیل میں
عزّت سے ہوں کہ جسم فروشوں کے گھر میں ہوں