پنوں عاقل کی چھاؤنی، گھاس کاٹنے کی ذمہ داری کے علاوہ معاشرتی اعتبار سے بھی دو حصوں میں بٹی تھی۔ قومی شاہراہ کی طرف سے داخل ہوں تو گیٹ سے مکہ چوک تک کا علاقہ، ایک انڈیپینڈنٹ آرمڈ بریگیڈ کے حصے میں آتا تھا جو کہ میکینائزڈ انفنٹری بٹالینز، رسالہ اور سیلف پراپیلڈ رجمنٹس کا ایک بندوبست ہوا کرتا ہے جبکہ مکہ چوک سے گالف کورس کے پیچھے تک غریب و سادہ و رنگین انفنٹری ڈویژن ہے۔ سماجی اور ثقافتی اعتبار سے یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پنوں عاقل کی چھاؤنی میں اس بریگیڈ کو اس ڈویژن کے مقابلے میں وہی اہمیت حاصل تھی جو اقوام عالم کے مقابلے میں امریکہ کو اور باقی صوبوں کے مقابلے میں پنجاب کو ہے۔
اسی آزاد منش آرمڈ بریگیڈ کی ایک رجمنٹ میں، مجھے زندگی کے چند اہم اور خوبصورت سال گزارنے کا اتفاق ہوا۔
ڈیڑھ سو سال سے بھی پرانی اس رجمنٹ میں صوبیدار محمد خان صاحب کی دو باتیں بہت مشہور تھیں۔ ان کا ’’نہیں سر یہ کافی مشکل ہے‘‘ اور ’’ججمنٹ کال‘‘۔
عمومی طور پہ جونئیر کمیشنڈ افسران جنہیں سردار صاحبان بھی کہا جاتا، ہاں کہنے اور ہاں میں ہاں ملانے کے اتنے عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ مشکل سے مشکل کام کے جواب میں بھی ایک ہی جملہ کہتے۔ ’’ہو جائے گا سر، کر لیں گے سر‘‘۔ ایسے میں محمد خاں صاحب، اپنے انکار کی بابت کافی مقبول تھے۔
فاصلوں کے سبب تو پنوں عاقل، دور تھا ہی، فیصلوں کے حوالے سے بھی نزدیک نہیں پڑتا تھا۔ ہمارے کمانڈر صاحب اپنا دفتر کراچی میں لگاتے تھے، سو ان کا پنوں عاقل آنا جانا سال میں ایک آدھ بار ہی ہوا کرتا تھا ورنہ وہ کرنل صاحب کو کارلائقہ کے سبب، ملیر ہی طلب فرما لیتے تھے۔کرنل صاحب، ملیر جاتے تو پنوں عاقل، سکون کا ایک گلیشئیر بن جاتا مگر برف کے اس ریگزار میں اس وقت خوب الانیاں چلتیں، جب کہیں کمانڈر صاحب، پنوں عاقل کا دورہ کرتے۔ دو سے تین دنوں کے اس پروگرام میں انہیں یونٹ کی تربیت، جنگی تیاری اور انتطام و انصرام سے تو آگاہ کیا ہی جاتا ساتھ ساتھ، ٹھیری کی کجھوروں والے انٹر پرینیور زمینداروں کی کامیابی، خیرپور میرس میں سلک کتان کی دم توڑتی صنعت کی بے بسی، اور دریائے سندھ کی بلائنڈ ڈولفن کی ماحولیاتی مجبوری یا لینزڈایون کے پل پہ چلنے والی چھوٹی ریل گاڑی کی ثقافتی اہمیت سے بھی روشناس کروایا جاتا۔ آپ مان لیں کہ جب کراچی والے کمانڈر صاحب، پنوں عاقل والی یونٹ کے دورے پہ آتے تو پورے شمالی سندھ میں ایک دفعہ منجیرے ضرور بج اٹھتے۔
کرنل صاحب کے نزدیک کمانڈر صاحب کا یہ دورہ ہوم گراونڈ کا وہ میچ ہوا کرتا جس میں کھیل کے ساتھ ساتھ تماشائیوں کا بھی مظاہرہ کیا جاتا سو یہ دن گھڑی کی قید سے آزاد ہوا کرتے تھے۔ تمام گملے سرخ اور سب دیواریں سفید کر دی جاتیں۔ وہ بدنصیب درخت جو راستے میں لگ چکنے کے سبب ہر انسپکشن پہ چونا پھانکتے، وہ بھی روایت کے بل پہ سر سبز ہو جاتے۔ مگر یہ دورہ اس وقت زیادہ اہمیت اختیار کر لیتا جب یونٹ میں نئے کرنل صاحب آتے یا ملیر میں نئے کمانڈر صاحب۔ اور اس سال ملیر میں نئے کمانڈر صاحب آئے تھے۔
عسکری روایات کے عین مطابق کمانڈر صاحب کی شہرت ان کے ملیر پہنچنے سے پہلے پنوں عاقل پہنچ گئی۔ وقائع نگاروں نے جو پہلا پرچہ لگایا اس میں کمانڈر صاحب کے مذہبی رجحانات کی خبر تھی۔ ادھر کمانڈر صاحب نے پنوں عاقل کے دورے کی تاریخیں نکالیں ادھر رویت ہلال والوں کو رمضان کا چاند نظر آ گیا۔ ایڈجوٹنٹ کے دفتر سے لنگر کمانڈر کے گرنتھ تک گہری سراسیمگی پھیل گئی۔ عمومی طور پہ ایسے حالات میں یا تو صوبیدارمیجر صاحب کوئی نہ کوئی حل نکال لیتے ہیں یا ہیڈ کلرک صاحب کوئی حوالہ، مگر قسمت کی ستم ظریفی تھی کہ عین دو دن پہلے صوبیدار میجر صاحب کو کسی ضروری کام سے جانا پڑ گیا اور ان کی آمد کمانڈر صاحب کے دورے سے پہلے ممکن نہ تھی۔ ایسے میں یہ بھاری ذمہ داری عبوری صوبیدار میجر محمد خان صاحب پہ آن پڑی۔ صورتحال بہت نازک تھی مگر کرنل صاحب بلاشبہ ایک ذہین آدمی تھے۔ تقریبا آدھا گھنٹہ مختلف جگہ ٹیلیفون گھمانے کے بعد انہوں نے محمد خان صاحب کو یاد کیا۔ دس منٹ بعد ایڈجوٹنٹ صاحب کو انٹرکام آ گئی کہ ٹیوٹا لگوا دیں۔ جب تک سروقد ایڈجوٹنٹ صاحب ڈائری ٹوپی پکڑ کرباہر نکلے کرنل صاحب جا چکے تھے۔خدا معلوم کرنل صاحب نے کونسا منتر پڑھا تھا کہ وہی محمد خان صاحب جو ہر جملے کا آغاز ہی ’’نہیں سر‘‘ سے کیا کرتے تھے، اب مجسم مثبت سوچ دکھائی دے رہے تھے۔ ایڈجوٹنٹ صاحب کو سلیوٹ کرنے کے بعد انہوں نے بتایا کہ کرنل صاحب نے تین آرڈر دیے ہیں۔ کک خالق، پکوڑوں کی نئی اقسام دریافت کرے گا۔ کمانڈر صاحب کا ڈرائیور، نمازوں کے اوقات یاد کرے گا اور کنڈکٹنگ افسر، سکھر کے گردونواح میں اسلامی مقامات کی کھوج لگائے گا۔
مقررہ تاریخ کو کمانڈر صاحب کا جہاز سکھر کے ہوائی مستقر پہ پہنچا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی انہیں پروگرام کی کاپی پیش کی گئی۔ گاڑی ائیر پورٹ کی حدود سے نکلی تو افسر نے اس راستے کی نشاندہی کی جو اروڑ کی طرف جاتا تھا اور جہاں اب کچھ چٹانیں، ایک مندر اور محمد بن قاسم کے دور کی مسجد کی یادگار موجود تھی۔ گاڑی تھوڑا آگے بڑھی تو ڈرائیور نے کمانڈر صاحب کو یاد کروایا کہ عصر کا وقت ہو چلا ہے، گاڑی نزدیکی مسجد کی طرف بھی موڑی جا سکتی ہے ورنہ وضو کے لئے صاف پانی اور جائے نماز بھی ہمراہ ہے۔ انہوں نے ڈرائیور کو شاباش دی اور مناسب جگہ گاڑی روکنے کا حکم دیا۔ گاڑی رکتے ہی کمانڈر صاحب نے جائے نماز بچھائی اور نماز ادا کی۔ کمانڈر صاحب کے چہرے پہ بعد از نماز جھلکنے والی طمانیت میں کرنل صاحب کی آؤٹ سٹینڈنگ رپورٹ کی سبز سیاہی بھی صاف دکھائی دیتی تھی۔
کرنل صاحب کی کمانڈر صاحب سے پہلی ملاقات افطار پہ ہونا تھی۔ نماز والے واقعے کی رپورٹ بھی پہنچ چکی تھی سو کرنل صاحب نے صوبیدار محمد خان صاحب کو حکم دیا کہ مغرب کی نماز، کھلاڑیوں اور گارڈ والوں کے علاوہ پوری رجمنٹ کمانڈر صاحب کی امامت میں ادا کرے گی۔ حکم کی تعمیل میں محمد خان صاحب نے خطیب صاحب کو سٹیند ٹو سے سٹینڈ بائی کر دیا۔سورج قریب قریب ڈوب چکا تھا، جب کمانڈر صاحب فوجی گاڑی سے اترے۔ افطار کا انتظام، قصداً اس لان میں کیا گیا تھا جو مسجد سے متصل تھا۔ سو جب تک انہوں نے افسران اور صوبیداران سے ہاتھ ملایا، ویٹر نے کھجور سامنے کر دی۔ کمانڈر صاحب کی خوب سیرتی کی خبر تو مل گئی تھی لیکن خوش خوراکی اب دریافت ہو رہی تھی۔ کمانڈر صاحب کی پلیٹ اور مسجد ساتھ ساتھ بھر رہی تھی۔اب منظر کچھ یوں تھا کہ دو چار افسران کرنل صاحب کے ساتھ کمانڈر صاحب کا ساتھ دینے کے لئے کھڑے تھے، باقی رجمنٹ اندر نماز کے لئے تیار کھڑی تھی۔ کک خالق البتہ اسی کڑچھے پہ دنیا کا پل صراط پار کرنے پہ تل چکا تھا۔ ادھر اس کے کڑچھے سے توبہ شکن پکوڑے نکلتے ادھر براق کی سی تیزی سے میس ویٹر فیصل اور میس ویٹر عارف انہیں کرنل صاحب اور کمانڈر صاحب کی پلیٹوں میں منتقل کرتے۔
’’نماز کا وقت نکل رہا ہے‘‘، کمانڈر صاحب نے کرنل صاحب کی طرف دیکھا اور کہا۔
کرنل صاحب، سالٹ رینج کے اس خطے سے تھے جہاں لوگ تب بھی فلیٹ بوٹ پہنتے تھے جب یہ جوتے نہ تو سکولوں میں ملتے تھے اور نہ ہی سروس والوں کے شو روم میں۔ فلینڈرس کی خندقیں، سوم کے محاذ اور برائیٹن کے ہسپتال ان کے گرائیوں کے ذکر کے بغیر نا مکمل تھے۔ سو انہوں نے کمال متانت سے جواب دیا۔’’ نہیں سر، ابھی ہے ٹائم‘‘دریں اثنا، فیصل پکوڑوں کا نیا پور لے آیا۔کمانڈر صاحب، ملیر میں روزہ افطار کرتے تھے جہاں گھڑی دیکھ کر روزہ کھلتا اور مرضی سے مغرب پڑھی جاتی سو وہ پکوڑوں کو ایک اور منٹ دینے کو تیار ہو گئے۔یہی وہ وقت تھا جب محمد خان صاحب نے پہلی ججمنٹ کال لی اور خطیب صاحب کو نماز پڑھانے کا سگنل دیا۔جب تک کمانڈر صاحب، پلیٹوں پہ بھاپ دیتے پکوڑوں کی آتش کو گلاس پہ لکیریں چھوڑتے روح افزا سے ٹھنڈا کر کے نماز کے لئے رخصت ہوئے، تب تک لوگ دوسری رکعت کے بعد بیٹھ چکے تھے۔پکوڑوں والی میز سے آخری صف تک کا سفر کمانڈر صاحب نے قریب پانچ منٹوں میں طے کیا مگر محمد خاں صاحب کی دوسری ججمنٹ کال پہ یہ عرصہ بہت جاں گسل رہا۔ جب تک کمانڈر صاحب پہنچے، تمام لوگ ان کے منتظر تھے۔ انہوں نے سلام پھیرا تو ایک طرف کرنل صاحب کا رخ انور تھا دوسری طرف محمد خان صاحب، آنکھیں بند کیے، آبنوسی چہرے پہ دو آنسوؤں کا چھالے اٹھائے خدائے لم یزل سے توبہ کے طلبگار نظر آئے۔ کمانڈر صاحب نے جائے نماز پہ اپنی سمت بدلی اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو یہ دیکھ کر بہت سرشار ہوئے کہ ان کی کمان میں ایک پلٹن ایسی بھی ہے جہاں کوئی نماز کے لئے لیٹ نہیں ہوتا۔کمانڈر صاحب کے پنوں عاقل سے رخصت ہونے کے بعد بریگیڈ کے عملے، آس پاس کی یونٹوں اور آگے پیچھے والوں نے بہت کرید اٹھائی کہ اس دورے میں ایسا کیا تھا جو اب کمانڈر صاحب اٹھتے بیٹھتے پنوں عاقل پنوں عاقل کیا کرتے ہیں۔ مگر یہ راز، صوبیدار محمد خان صاحب جانتے تھے یا دوسری رکعت میں کھڑے وہ جوان جنہوں نے وطن کی خاطر دی گئی قربانیوں والے کھاتے میں مغرب کی یہ دو رکعتیں بھی لکھ دی تھیں۔