ہوئے مر كے ہم جو رسوا

مصنف : مشتاق احمد یوسفی

سلسلہ : طنز و مزاح

شمارہ : جنوری 2024

طنز و مزاح

ہوئے مر كے ہم جو رسوا

مشتاق احمد يوسفی

اب تو معمول سا بن گیا ہے کہ کہیں تعزیت یا تجہیزوتکفین میں شریک ہونا پڑے تو مرزا کوضرورساتھ لیتا ہوں۔ ایسے موقعوں پرہرشخص اظہارِہمدردی کے طور پر کچھ نہ کچھ ضرور کہتا ہے۔ قطۂ تاریخِ وفات ہی سہی۔ مگر مجھے نہ جانے کیوں چُپ لگ جاتی ہے، جس سے بعض اوقات نہ صِرف پس ماندگان کوبلکہ خُود مجھے بھی بڑا دکھ ہوتا ہے۔ لیکن مرزا نے چپ ہونا سِیکھا ہی نہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ صحیح بات کوغلَط موقع پربے دغدغہ کہنے کی جو خداداد صلاحیّت اُنہیں ودیعت ہوئی ہے وہ کچھ ایسی ہی تقریبوں میں گل کھلاتی ہے۔ وہ گھپ اندھیرے میں سرِرہگزر چراغ نہیں جلاتے، پھلجھڑی چھوڑتے ہیں، جس سے بس ان کا اپنا چہرہ رات کے سیاہ فریم میں جگ مگ جگ مگ کرنے لگتا ہے۔ اور پھلجھڑی کا لفظ تو یونہی مروّت میں قلم سے نکل گیا، ورنہ ہوتا یہ ہے کہ --جس جگہ بیٹھ گئےآگ لگا کراُٹھے -

اس کے باوصف، وہ خدا کے ان حاضرو ناظر بندوں میں سے ہیں جو محلّے کی ہرچھوٹی بڑی تقریب میں، شادی ہویاغمی، موجود ہوتے ہیں۔ بالخصوص دعوتوں میں سب سے پہلے پہنچتےاورسب کے بعد اٹھتے ہیں۔ اِس اندازِ نشست و برخاست میں ایک کُھلا فائدہ یہ دیاھےکہ وہ باری باری سب کی غیبت کرڈالتے ہیں۔ ان کی کوئی نہیں کرپاتا۔ چنانچہ اس سنیچر کی شام کو بھی میوہ شاہ قبرستان میں وہ میرے ساتھ تھے۔ سورج اس شہر خمُوشاں کو جسے ہزاروں بندگانِ خُدا نے مرمر کے بسایا تھا، لال انگارہ سی آنکھ سے دیکھتادیکھتا انگریزوں کے اقبال کی طرح غُروب ہورہا تھا۔ سامنے بیری کے درخت کے نیچے ایک ڈھانچہ قبربدرپڑا تھا۔ چاروں طرف موت کی عمل داری تھی اور ساراقبرستان ایسا اداس اوراجاڑ تھا جیسے کسی بڑے شہر کا بازار اتوار کو۔ سبھی رنجیدہ تھے۔ (بقول مرزا، دفن کے وقت میّت کے سوا سب رنجیدہ ہوتے ہیں۔) مگر مرزا سب سے الگ تھلگ ایک پُرانے کتبے پر نظریں گاڑے مسکرا رہے تھے۔ چند لمحوں بعد میرے پاس آئے اور میری پسلیوں میں اپنی کُہنی سے آنکس لگاتے ہوئے اُس کتبے تک لے گئے، جس پر منجملہ تاریخِ پیدائش و پنشن، مولد و مسکن، ولدیّت وعہدہ(اعزازی مجسٹریٹ درجہ سوم)آسُودہ لحد کی تمام ڈگریاں مع ڈویژن اوریونیورسٹی کے نام کے کندہ تھیں اورآخرمیں، نہایت جلی حروف میں، مُنہ پھیر کر جانے والے کو بذریعہ قطعہ بشارت دی گئی تھی کہ اللہ نے چاہا تو بہت جلد اُس کا بھی یہی حشر ہونے والا ہے۔ میں نےمرزاسے کہا، ’’یہ لوحِ مرزا ہے یا ملازمت کی درخواست؟بھلا ڈگریاں، عہدہ اورولدیت وغیرہ لکھنے کا کیا تُک تھا؟‘‘ انھوں نے حسبِ عادت بس ایک لفظ پکڑ لیا۔ کہنے لگے’’ٹھیک کہتے ہو۔ جس طرح آج کل کسی کی عمر یا تنخواہ دریافت کرنا بُری بات سمجھی جاتی ہے، اِسی طرح، بالکل اِسی طرح بیس سال بعد کسی کی ولدیّت پُوچھنا بداَخلاقی سمجھی جائے گی!‘‘ اب مجھے مرزا کی چونچال طبیعت سے خطرہ محسوس ہونے لگا۔ لہٰذا انھیں ولدیّت کے مستقبل پر مسکراتا چھوڑ کر میں آٹھ دس قبردُور ایک ٹکڑی میں شامل ہوگیا، جہاں ایک صاحب جنّت مکانی کے حالاتِ زندگی مزے لے لے کربیان کررہےتھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ خُداغریقِ رحمت کرے، مرحُوم نے اِتنی لمبی عُمر پائی کہ ان کے قریبی اعزّہ دس پندرہ سال سے ان کی اِنشورنس پالیسی کی امّید میں جی رہے تھے۔ ان امّیدواروں میں سے بیشتر کو مرحُوم خود اپنے ہاتھ سے مٹیّ دے چکے تھے۔ بقیہ کو یقین ہوگیا تھا کہ مرحُوم نے آبِ حیات نہ صرف چکھا ہے بلکہ ڈگڈگا کے پی چکے ھیں۔ راوی نے تو یہاں تک بیان کیا کہ ازبسکہ مرحُوم شروع سے رکھ رکھاؤ کے حد درجہ قائل تھے، لہٰذا آخر تک اس صحّت بخش عقیدے پر قائم رہے کہ چھوٹوں کو تعظیماً پہلے مرنا چاہیے۔ البتّہ اِدھر چند برسوں سے ان کو فلکِ کج رفتار سے یہ شکایت ہوچلی تھی کہ افسوس اب کوئی دشمن ایسا باقی نہیں رہا، جسے وہ مرنے کی بددُعا دے سکیں۔ ان سے کٹ کر میں ایک دوسری ٹولی میں جا ملا۔ یہاں مرحوم کے ایک شناسا اور میرے پڑوسی ان کے گیلڑلڑکے کو صبرِجمیل کی تلقین اور گول مول الفاظ میں نعم البدل کی دعا دیتے ہوئے فرمارہے تھے کہ برخودار! یہ مرحوم کے مرنے کے دن نہیں تھے۔ حالانکہ پانچ منٹ پہلے یہی صاحب، جی ہاں، یہی صاحب مجھ سے کہہ رہے تھے کہ مرحوم نے پانچ سال قبل دونوں بیویوں کواپنے تیسرے سہرے کی بہاریں دکھائی تھیں اور یہ ان کے مرنے کے نہیں، ڈوب مرنے کے دن تھے۔ مجھے اچھیّ طرح یاد ہے کہ انہوں نے انگلیوں پرحساب لگا کر کانا پھوسی کے انداز میں یہ تک بتایا کہ تیسری بیوی کی عمرمرحوم کی پنشن کے برابر ہے۔ مگر ہے بالکل سیدھی اور بے زبان۔ اس اللہ کی بندی نے کبھی پلٹ کر نہیں پوچھا کہ تمہارے منہ میں کے دانت نہيں ہیں۔ مگر مرحوم اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ انہوں نے محض اپنی دعاؤں کے زور سے موصوفہ کا چال چلن قابو میں کررکھا ہے۔ البتہ بیاہتا بیوی سے ان کی کبھی نہیں بنی۔ بھری جوانی میں بھی میاں بیوی 62 کے ہند سے کی طرح ایک دوسرے سے منہ پھیرے رہے اور جب تک جیے، ایک دوسرے کے اعصاب پر سوار رہے۔ ممدُوحہ نے مشہور کررکھا تھا کہ(خدا ان کی روح کو نہ شرمائے) مرحوم شروع سے ہی ایسے ظالم تھے کہ ولیمے کا کھانا بھی مجھ نئی نویلی دلہن سے پکوایا۔

میں نے گفتگو کا رُخ موڑنے کی خاطر گنجان قبرستان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دیکھتے ہی چپّہ چپّہ آباد ہوگیا۔ مرزا حسب معمول پھر بیچ میں کود پڑے۔ کہنے لگے، دیکھ لینا، وہ دن زیادہ دور نہیں جب کراچی میں مردے کو کھڑا گاڑنا پڑے گا اور نائیلون کے ریڈی میڈ کفن میں اوپر زِپ (ZIP) لگے گی تاکہ منہ دیکھنے دکھانے میں آسانی رہے۔ مری طبیعت ان باتوں سے اوبنے لگی تو ایک دوسرے غول میں چلا گیا، جہاں دونوں جوان ستارے کے غلاف جیسی پتلونیں چڑھائے چہک رہے تھے۔ پہلے ’’ٹیڈی بوائے‘‘ کی پیلی قمیض پر لڑکیوں کی ایسی واہیات تصویریں بنی ہوئی تھیں کہ نظر پڑتے ہی ثقہ آدمی لاحول پڑھنے لگتے تھے اور ہم نے دیکھا کہ ہرثقہ آدمی بار بار لاحول پڑھ رہا ہے۔ دوسرے نوجوان کو مرحوم کی بے وقت موت سے واقعی دلی صدمہ پہنچا تھا، کیونکہ ان کا سارا’’ویک اینڈ‘‘چوپٹ ہوگیا تھا۔

چونچوں اور چہلوں کا یہ سلسلہ شاید کچھ دیر اور جاری رہتا کہ اتنے میں ایک صاحب نے ہمت کرکے مرحوم کے حق میں پہلا کلمہ خیر کہا اور میری جان میں جان آئی۔ انہوں نے صحیح فرمایا، ’’یوں آنکھ بند ہونے کے بعد لوگ کیڑے نکالنے لگے ھیں، یہ اور بات ہے، مگرخداان کی قبر کو عنبریں کرے، مرحوم بلاشبہ صاف دل، نیک نیت انسان تھے اور نیک نام بھی۔ یہ بڑی بات ہے۔‘‘ ’’نیک نامی میں کیا کلام ہے۔ مرحوم اگر یونہی منہ ہاتھ دھونے بیٹھ جاتے تو سب یہی سمجھتے کہ وضو کر رہے۔۔۔‘‘جملہ ختم ہونے سے پہلے مدّاح کی چمکتی چند یا یکایک ایک دھنسی ہوئی قبرمیں غروب ہوگئی۔ اس مقام پرایک تیسرے صاحب نے (جن سےمیں واقف نہیں) ’’روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ‘‘ والے لہجے میں نیک نیتی اور صاف دلی کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ بعض لوگ اپنی پیدائشی بزدلی کے سبب تمام عمر گناہوں سے بچے رہتے ہیں۔ اس کے برعکس بعضوں کے دل و دماغ واقعی آئینے کی طرح صاف ہوتے ہیں۔۔۔ یعنی نیک خیال آتے ہیں اورگزرجاتے ہیں۔ شامتِ اعمال کہ میرے منہ سے نکل گیا، ’’نیت کا حال صرف خدا پر روشن ہے مگراپنی جگہ یہی کیا کم ہے کہ مرحوم سب کے دکھ سکھ میں شریک اور ادنیٰ سے ادنیٰ پڑوسی سے بھی جھک کر ملتے تھے۔‘‘ ارے صاحب! یہ سنتے ہی وہ صاحب تو لال بھوککا ہوگئے۔ بولے، ’’حضرات! مجھے خدائی کا دعویٰ تو نہیں۔ تاہم اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اکثر بوڑھے خرّانٹ اپنے پڑوسیوں سے محض اس خیال سے جھک کر ملتے ہیں کہ اگر وہ خفا ہوگئے تو کندھا کون دے گا۔‘‘

خوش قسمتی سے ایک خدا ترس نے میری حمایت کی۔ میرامطلب ہے مرحوم کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم نے، ماشااللہ، اتنی لمبی عمرپائی۔ مگرصورت پرذرانہیں برستی تھی۔ چنانچہ سوائے کنپٹیوں کے اور بال سفید نہیں ہوئے۔ چاہتے تو خضاب لگاکے خوردوں میں شامل ہو سکتے تھے۔ مگر طبیعت ایسی قلندر نہ پائی تھی کہ خضاب کا کبھی جھوٹوں بھی خیال نہیں آیا۔ وہ صاحب سچ مچ پھٹ پڑے’’آپ کو خبر بھی ہے؟ مرحوم کا سارا سر پہلے نکاح کے بعد ہی سفید گالا ہوگیا تھا۔ مگر کنپٹیوں کو قصداً سفید رہنے دیتے تھے تاکہ کسی کو شبہ نہ گزرے کہ خضاب لگاتے ہیں۔ سلور گرے قلمیں! یہ تو ان کے میک اپ میں ایک نیچرل ٹچ تھا!‘‘ ’’ارے صاحب! اسی مصلحت سے انہوں نے اپنا ایک مصنوعی دانت بھی توڑ رکھا تھا‘‘ایک دوسرے بدگونے تا بُوت میں آخری کیل ٹھونکی۔ ’’کچھ بھی سہی وہ ان کھوسٹوں سے ہزار درجے بہتر تھے جو اپنے پوپلے منہ اور سفید بالوں کی داد چھوٹوں سے یوں طلب کرتے ہیں، گویا یہ ان کی ذاتی جدوجہد کا ثمرہ ہے۔‘‘ مرزا نے بگڑی بات بنائی۔ اُن سے پیچھا چھڑا کر کچی پکی قبریں پھاندتا میں منشی ثناءاللہ کے پاس جا پہنچا، جو ایک کتبے سے ٹیک لگائے بیری کے ہرے ہرے پتے کچرکچر چبا رہے تھے اور اس امرپربار بار اپنی حیرانی کا اظہار فرمارہے تھے کہ ابھی پرسوں تک تو مرحوم باتیں کررہے تھے۔ گویا ان کے اپنے آداب جانکی کی رُو سے مرحوم کو مرنے سے تین چارسال پہلے چپ ہو جانا چاہیے تھا، بھلامرزاایسا موقع کہاں خالی جانے دیتے تھے۔ مجھے مخاطب کرکے کہنے لگے، یاد رکھو! مرد کی آنکھ اورعورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔ یوں تومرزاکے بیان کےمطابق مرحوم کی بیوائیں بھی ایک دوسرے کی چھاتی پردوہتّڑ مارمارکربین کررہی تھیں، لیکن مرحوم کے بڑے نواسے نے جو پانچ سال سے بے روزگار تھا، چیخ چیخ کر اپنا گلا بٹھالیا تھا۔ منشی جی بیری کے پتوں کا رس چوس چوس کر جتنا اسے سمجھاتے پچکارتے، اتنا ہی وہ مرحوم کی پنشن کو یاد کرکے دھوڑیں مار مار کر روتا۔ اسے اگر ایک طرف حضرت عزرائیل سے گلہ تھا کہ انہوں نے تیس تاریخ تک انتظارکیوں نہ کیا تو دوسری طرف خود مرحوم سے بھی سخت شکوہ تھا۔ کیا تیرابگڑتا جونہ مرتا کوئی دن اور؟ ادھرمنشی جی کا سارا زوراس فلسفے پر تھا کہ برخوردار! یہ سب نظر کا دھوکا ہے۔ درحقیقت زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں۔ کم ازکم ایشیا میں۔ نیز مرحوم بڑے نصیبہ ور نکلے کہ دنیا کے بکھیڑوں سے اتنی جلدی آزاد ہوگئے۔ مگر تم ہوکہ ناحق اپنی جوان جان کو ہلکان کیے جا رہے ہو۔ یونانی مثل ہے کہ وہی مرتا ہے جومحبُوبِ خُدا ہوتا ہے

حاضرین ابھی دل ہی دل میں حسد سے جلے جارہے تھے کہ ہائے، مرحوم کی آئی ہمیں کیوں نہ آگئی کہ دم بھر کو بادل کے ایک فالسئی ٹکڑے نے سورج کو ڈھک لیا اورہلکی ہلکی پھوارپڑنےلگی۔ منشی جی نے یکبارگی بیری کے پتّوں کا پھوک نگلتے ہوئے اس کومرحوم کے بہشتی ہونے کا غیبی شگون قرار دیا۔ لیکن مرزا نے بھرے مجمع میں سرہلا ہلا کراس پیشگوئی سے اختلاف کیا۔ میں نے الگ لے جا کروجہ پوچھی توارشاد ہوا، ’’مرنے کے لیے سنیچرکا دن بہت منحوس ہوتا ہے۔‘‘ لیکن سب سے زیادہ پتلا حال مرحوم کے ایک دوست کا تھا، جن کے آنسو کسی طرح تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے کہ انھیں مرحوم سے دیرنہ ربط و رفاقت کا دعویٰ تھا۔ اِس رُوحانی یک جہتی کے ثبوت میں اکثر اس واقعے کا ذکر کرتےکہ بغدادی قاعدہ ختم ہونے سے ایک دن پہلے ہم دونوں نے ایک ساتھ سگرٹ پینا سیکھا ۔ چنانچہ اس وقت بھی صاحب موصوف کے بین سے صاف ٹپکتا تھا کہ مرحوم کسی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت داغ بلکہ دغا دے گئے اور بغیر کہے سنے پیچھا چھڑا کے چپ چپاتے جنت الفردوس کو روانہ ہوگئے۔۔۔ اکیلے ہی اکیلے!

بعد میں مرزانےصراحتہً بتایا کہ باہمی اخلاص ویگانگت کا یہ عالم تھا کہ مرحوم نےاپنی موت سے تین ماہ پیشترموصوف سے دس ہزار روپئےسکّہ رائج الوقت بطورقرض حسنہ لیےاوروہ توکہیے، بڑی خیریّت ہوئی کہ اسی رقم سے تیسری بیوی کا مہرمعجّل بیباق کرگئے ورنہ قیامت میں اپنے ساس سسرکو کیا منہ دکھاتے۔

(۲)

آپ نےاکثردیکھا ہوگا کہ گنجان محلوّں میں مختلف بلکہ متضاد تقریبیں ایک دوسرے میں بڑی خوبی سے ضم ہو جاتی ہیں۔ گویا دونوں وقت مل رہے ہوں۔ چنانچہ اکثر حضرات دعوت ولیمہ میں ہاتھ دھوتے وقت چہلُم کی بریانی کی ڈکار لیتے، یا سویم میں شبینہ فتوحات کی لزیز داستان سنا تے پکڑے جاتے ہیں۔ لذّتِ ہمسایگی کا یہ نقشہ بھی اکثر دیکھنے میں آیا کہ ایک کوارٹر میں ہنی مون منایا جارہا ہے تو رت جگا دیوار کے اس طرف ہورہا ہے۔ اور یوں بھی ہوتا ہے کہ دائیں طرف والے گھر میں آدھی رات کو قوال بلّیاں لڑارہے ہیں، تو حال بائیں طرف والے گھر میں آرہا ہے۔ آمدنی ہمسائے کی بڑھتی ہے تو اس خوشی میں ناجائز خرچ ہمارے گھرکا بڑھتا ہےاوریہ سانحہ بھی بارہا گزراکہ مچھلی طرحدار پڑوسن نے پکائی اور

مدّتوں اپنے بدن سے تری خوشبوآئی -اس تقریبی گھپلے کا صحیح اندازہ مجھے دوسرے دن ہوا جب ایک شادہ کی تقریب میں تمام وقت مرحوم کی وفات حسرت آیات کے تذکرے ہوتے رہے۔ ایک بزرگ نے، کہ صورت سے خود پا بہ رکاب معلوم ہوتے تھے، تشویش ناک لہجے میں پوچھا، آخری ہوا کیا؟ جواب میں مرحوم کے ایک ہم جماعت نے اشاروں کنایوں میں بتایا کہ مرحوم جوانی میں اشتہاری امراض کا شکار ہوگئے۔ ادھیڑ عمر میں جنسی تونس میں مبتلا رہے۔ لیکن آخری ایام میں تقویٰ ہوگیا تھا۔

’’پھربھی آخرہوا کیا؟‘‘پابہ رکاب مرد بزرگ نے اپنا سوال دہرایا۔ ’’بھلے چنگے تھے۔ اچانک ایک ہچکی آئی اور جاں بحق ہوگئے‘‘ دوسرے بزرگ نے انگوچھے سےایک فرضی آنسوپوچھتے ہوئے جواب دیا۔

’’سنا ہےچالیس برس سے مرض الموت میں مبتلا تھے‘‘ ایک صاحب نے سوکھے سے مُنہ سے کہا۔

’’کیا مطلب؟‘‘ ’’چالیس برس سے کھانسی میں مبتلا تھےاورآخراسی میں انتقال فرمایا۔‘‘ ’’صاحب! جنّتی تھے کہ کسی اجنبی مرض میں نہیں مرے۔ ورنہ اب تو میڈیکل سائنس کی ترقی کا یہ حال ہے کہ روز ایک نیا مرض ایجاد ہوتا ہے۔‘‘ ’’آپ نے گاندھی گارڈن میں اس بوہری سیٹھ کوکارمیں چہل قدمی کرتے نہیں دیکھاجو کہتا ہے کہ میں ساری عمر دمے پراتنی لاگت لگا چکا ہوں کہ اب اگرکسی اورمرض میں مرنا پڑا تو خدا کی قسم، خودکشی کرلوں گا۔‘‘ مرزا چٹکلوں پراترآئے۔ ’’واللہ!موت ہو تو ایسی ہو! (سسکی) مرحوم کے ہونٹوں پرعالم سکرات میں بھی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔‘‘ ’’اپنے قرض خواہوں کاخیال آرہاہوگا‘‘ مرزامیرےکان میں پھُسپھُسائے۔ ’’گنہ گاروں کا منہ مرتے وقت سؤرجیسا ہوتا ہے، مگر چشم بددُور۔ مرحوم کا چہرہ گلاب کی طرح کھلا ہوا تھا۔‘‘ ’’صاحب! سیٹی رنگ کا گلاب ہم نےآج تک نہیں دیکھا‘‘مرزاکی ٹھنڈی ٹھندی ناک میرے کان کو چھونے لگی اور ان کےمنہ سے کچھ ایسی آوازیں نکلنے لگیں جیسے کوئی بچہ چمکیلے فرنیچر پر گیلی انگلی رگڑ رہا ہو۔اصل الفاظ تو ذہن سے محو ہوگئے، لیکن اتنا اب بھی یاد ہے کہ انگوچھے والے بزرگ نے ایک فلسفیانہ تقریر کر ڈالی، جس کا مفہوم کچھ ایسا ہی تھا کہ جینے کا کیا ہے۔ جینے کوتو جانور بھی جی لیتے ہیں، لیکن جس نے مرنا نہیں سیکھا، وہ جینا کیا جانے، ایک متبسم خود سپردگی، ایک بے تاب آمادگی کے ساتھ مرنے کے لیے ایک عمر کا ریاض درکار ہے۔ یہ بڑے ظرف، بڑے حوصلے کا کام ہے، بندہ نواز! پھرانہوں نے بے موت مرنے کے خاندانی نسخے اور ہنستے کھیلتے اپنی روح قبض کرانے کے پینترے کچھ ایسے استادانہ تیور سے بیان کیے کہ ہمیں عطائی مرنے والوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نفرت ہوگئی۔ خاتمئہ کلام اس پر ہوا کہ مرحوم نے کسی روحانی ذریعے سے سن گن پالی تھی کہ میں سنیچر کومرجاؤں گا۔ ’’ہرمرنے والے کے متعلّق یہی کہا جاتا ہے‘‘باتصویر قمیض والا ٹیڈی بوائے بولا۔ ’’کہ وہ سنیچر کو مرجائے گا؟‘‘مرزا نےا س بدلگام کا منہ بند کیا۔ انگوچھے والے بزرگ نے شئے مذکور سے، پہلے اپنے نری کے جوتے کی گرد جھاڑی، پھر پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے مرحوم کے عرفان مرگ کی شہادت دی کہ جنت مکانی نے وصال سے ٹھیک چالیس دن پہلے مجھ سے فرمایا تھا کہ انسان فانی ہے! انسان کے متعلق یہ تازہ خبر سن کر مرزا مجھے تخلیے میں لے گئے۔ دراصل تخلیے کا لفظ انھوں نے استعمال کیا تھا، ورنہ جس جگہ وہ مجھے دھکیلتے ہوئے لے گئے، وہ زنانے اور مردانے کی سرحد پر ایک چبوترہ تھا، جہاں ایک میراثن گھونگھٹ نکالے ڈھولک پر گالیاں گارہی تھی۔ وہاں انھوں نے اس شغف کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جو مرحوم کو اپنی موت سے تھا، مجھے آگاہ کیا کہ یہ ڈراما تو جنت مکانی اکثر کھیلا کرتے تھے۔ آدھی آدھی راتوں کو اپنی ہونے والی بیواؤں کو جگا کر دھمکیاں دیتے کہ میں اچانک اپنا سایہ تمھارے سر سے اٹھا لوں گا۔ چشم زدن میں مانگ اجاڑوں گا۔ اپنے بے تکلف دوستوں سے بھی کہا کرتے کہ واللہ!اگر خودکشی جرم نہ ہوتی تو کبھی کااپنے گلے میں پھندا ڈال لیتا۔ کبھی یوں بھی ہوتا کہ اپنے آپ کو مردہ تصور کرکے ڈکرانے لگتے اور چشم تصور سے منجھلی کے سونٹا سے ہاتھ دیکھ کر کہتے، بخدا! میں تمہارا رنڈاپا نہیں دیکھ سکتا۔ مرنے والے کی ایک ایک خوبی بیان کرکے خشک سسکیاں بھرتے اور سسکیوں کے درمیان سگرٹ کے کش لگاتے اور جب اس عمل سے اپنے اوپر وقت طاری کر لیتے تو رومال سے باربارآنکھ کے بجائے اپنی ڈبڈبائی ہوئی ناک پونچھتے جاتے۔ پھر جب شدت گریہ سے ناک سرخ ہوجاتی توذراصبر آتا اور وہ عالم تصّورمیں اپنے کپکپاتے ہوئے ہاتھ سے تینوں بیواؤں کی مانگ میں یکے بعد دیگرے ڈھیروں افشاں بھرتے۔ اس سے فارغ ہوکرہرایک کو کہنیوں تک مہین مہین، پھنسی پھنسی چوڑیاں پہناتے (بیاہتا کو چوڑیاں کم پہناتے تھے)۔ حالانکہ اس سے پہلے بھی مرزا کو کئی مرتبہ ٹوک چکا تھا کہ خاقانیِ ہند استاد ذوؔق ہر قصیدے کے بعد منہ بھر بھر کے کُلّیاں کیا کرتے تھے۔ تم پر ہرکلمے، ہرفقرے کے بعد واجب ہیں، لیکن اس وقت مرحوم کے بارے میں یہ اول جلول باتیں اور ایسے واشگاف لہجے میں سن کرمیری طبیعت کچھ زیادہ ہی منغّض ہوگئی۔ میں نے دوسروں پر ڈھال کرمرزاکو سُنائی، ’’یہ کیسے مسلمان ہیں مرزا! دعائے مغفرت نہیں کرتے، نہ کریں۔ مگرایسی باتیں کیوں بناتے ہیں یہ لوگ؟‘‘’’خلق خدا کی زبان کس نے پکڑی ہے۔ لوگوں کا منہ تو چہلم کے نوالے ہی سے بند ہوتا ہے۔‘‘

(۳)

مجھے چہلم میں بھی شرکت کا اتفاق ہوا۔ لیکن سوائے ایک نیک طینت مولوی صاحب کے جوپلاؤکےچاولوں کی لمبائی اورگلاوٹ کومرحوم کےٹھیٹ جنّتی ہونےکی نشانی قراردےرہےتھے، بقیہ حضرات کی گل افشانی گفتارکاوہی انداز تھا۔ وہی جگ جگے تھے، وہی چہچہے! ایک بزرگوار جو نان قورمے کے ہرآتشیں لقمے کے بعد آدھا آدھا گلاس پانی پی کر قبل ازوقت سیر بلکہ سیراب ہوگئے تھے، منہ لال کر کے بولے کہ مرحوم کی اولاد نہایت ناخلف نکلی۔ مرحوم و مغفور شدومد سے وصیت فرماگئے تھے، کہ میری مٹی بغداد لے جائی جائے۔ لیکن نافرمان اولاد نے ان کی آخری خواہش کا ذرا پاس نہ کیا۔ اس پرایک منہ پھٹ پڑوسی بول اٹھے’’صاحب! یہ مرحوم کی سراسر زیادتی تھی کہ انہوں نے خود تو تادم مرگ میونسپل حدود سے قدم باہر نہیں نکالا۔ حد یہ کہ پاسپورٹ تک نہیں بنوایا اور۔۔۔‘‘ ایک وکیل صاحب نے قانونی موشگافی کی’’بین الاقوامی قانون کے بموجب پاسپورٹ کی شرط صرف زندوں کے لیے ہے۔ مردے پاسپورٹ کے بغیر بھی جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔‘‘ ’’لے جائے جاسکتے ہیں‘‘ مرزاپھرلقمہ دے گئے۔ ’’میں کہہ رہا تھا کہ یوں تو ہر مرنے والے کے سینے میں یہ خواہش سلگتی رہتی ہے کہ میرا کانسی کا مجسّمہ (جسے قدِ آدم بنانے کےلیے بسا اوقات اپنی طرف سے پورے ایک فٹ کا اضافہ کرنا پڑتا ہے) میونسپل پارک کے بیچوں بیچ استادہ کیا جائے اور۔۔۔‘‘ ’’اورجملہ نازنینان شہرچارمہینے دس دن تک میرے لاشے کو گود میں لیے، بال بکھرائے بیٹھی رہیں‘‘ مرزا نے دوسرا مصرع لگایا۔

’’مگر صاحب! وصّیتوں کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ چھٹپن کا قصّہ ہے۔ پیپل والی حویلی کے پاس ایک جھونپڑی میں39ء تک ایک افیمی رہتا تھا۔ ہمارے محتاط اندازے کے مطابق عمر 66 سال سے کسی طرح کم نہ ہوگی، اس لیے کہ خود کہتا تھا کہ پینسٹھ سال سے تو افیم کھا رہاہوں۔ چوبیس گھنٹے انٹاغفیل رہتا تھا۔ ذرانشہ ٹوٹتا تومغموم ہوجاتا۔ غم یہ تھا کہ دنیا سے بے اولادا جارہا ہوں۔ اللہ نے کوئی اولاد دیرینہ نہ دی جو اس کی بان کی چارپائی کی جائز وارث بن سکے! اس کے متعلق محلے میں مشہور تھا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد سے نہیں نہایا ہے۔ اس کو اتنا تو ہم نے بھی کہتے سنا کہ خدا نے پانی صرف پینے کے لیے بنایا تھا مگر انسان بڑا ظالم ہے، راحتیں اوربھی ہیں غُسل کی راحت کے سوا

ہاں تو صاحب! جب اس کا دم آخر ہونے لگا تو محلے کی مسجد کے امام کا ہاتھ اپنے ڈوبتے دل پر رکھ کر یہ قول و قرار کیا کہ میری میت کو غسل نہ دیا جائے۔ بس پولے پولے ہاتھوں سے تیمّم کراکے کفنا دیا جائے ورنہ حشر میں دامن گر ہوں گا۔‘‘ وکیل صاحب نے تائید کرتے ہوئے فرمایا، ’’اکثر مرنے والے اپنے کرنے کے کام پسماند گان کو سونپ کرٹھنڈے ٹھنڈے سدھورجاتے ہیں۔ پچھلی گرمیوں میں دیوانی عدالتیں بند ہونے سے چند یوم قبل ایک مقامی شاعر کا انتقال ہوا۔ واقعہ ہے کہ ان کے جیتے جی کسی فلمی رسالے نے بھی ان کی عُریاں نظموں کو شمندۂ طباعت نہ کیا۔ لیکن آپ کو حیرت ہوگی کہ مرحوم اپنے بھتیجے کو ایصال ثواب کی یہ راہ سُجھا گئے کہ بعد مُردن میرا کلام حنائی کاغذ پر چھپوا کر سال کے سال میری برسی پر فقیروں اور مدیروں کو بلا ہدیہ تقسیم کیا جائے۔ پڑوسی کی ہمت اور بڑھی، ’’اب مرحوم ہی کو دیکھیے۔ زندگی میں ہی ایک قطعۂ اراضی اپنی قبر کے لیے بڑے ارمانوں سے رجسٹری کرالیا تھا گوکہ بچارےاس کا قبضہ پورے بارہ سال بعد لے پائے۔ نصیحتوں اور وصیتوں کا یہ عالم تھا کہ موت سے دس سال پیشتر اپنے نواسوں کے ایک فہرست حوالے کردی تھی، جس میں نام بنام لکھا تھا کہ فلاں ولد فلاں کو میرا منہ نہ دکھایا جائے۔ (جن حضرات سے زیادہ آزردہ خاطر تھے، ان کے نام کے آگے ولدیت نہیں لکھی تھی۔) تیسری شادی کے بعد انہیں اس کا طویل ضمیمہ مرتب کرنا پڑا، جس میں تمام جوان پڑوسیوں کے نام شامل تھے۔‘‘ ’’ہم نے تو یہاں تک سنا ہے کہ مرحوم نہ صرف اپنے جنازے میں شرکا کی تعداد متعین کرگئے بلکہ آج کے چہلم کا ’مینو‘بھی خود ہی طے فرما گئے تھے۔‘‘ وکیل نے خاکے میں شوخ رنگ بھرا۔

اس نازک مرحلے پرخشخشی داڑھی والے بزرگ نے پلاؤسے سیر ہو کراپنے شکم پرہاتھ پھیرااور’مینو‘کی تائید وتوصیف میں ایک مسلسل ڈکارداغی، جس کے اختتام پراس معصوم حسرت کا اظہار فرمایا کہ کاش آج مرحوم زندہ ہوتے تویہ انتاگمات دیکھ کر کتنے خوش ہوتے! اب پڑوسی نے تیغ زبان کو بے نیام کیا، ’’مرحوم سداسے سُوء ہضم کے مریض تھے۔ غذا تو غذا، بچارے کے پیٹ میں بات تک نہیں ٹھیرتی تھی۔ چٹ پٹی چیزوں کو ترستے ہی مرے۔ میرے گھر میں سے بتا رہی تھیں کہ ایک دفعہ ملیریا میں سرسام ہوگیا اور لگے بہکنے۔ بار بار اپنا سرمنجھلی کے زانو پر پٹختے اور سہاگ کی قسم دلا کر یہ وصیت کرتے تھے کہ ہر جمعرات کو میری فاتحہ، چاٹ اور کنواری بکری کی سری پر دلوائی جائے۔‘‘

مرزا پھڑک ہی توگئے۔ ہونٹ پرزبان پھیرتے ہوئے بولے، ’’صاحب! وصیتوں کی کوئی حد نہیں۔ ہمارے محلے میں ڈیڑھ پونے دو سال پہلے ایک اسکول ماسٹر کا انتقال ہوا، جنھیں میں نے عید بقرید پر بھی سالم و ثابت پاجامہ پہنے نہیں دیکھا۔ مگر مرنے سے پہلے وہ بھی اپنے لڑکے کو ہدایت کر گئے کہ   پل بنا، چاہ بنا، مسجد و تالاب بنا! لیکن حضورابّا کی آخری وصیت کے مطابق فیض کے اسباب بنانے میں لڑکے کی مفلسی کے علاوہ ملک کا قانون بھی مزاحم ہوا۔‘‘ ’’یعنی کیا؟‘‘وکیل صاحب کے کان کھڑے ہوئے۔

’’یعنی یہ کہ آج کل پُل بنانے کی اجازت صرف پی۔ ڈبلیو۔ ڈی کو ہے۔ اور بالفرض محال کراچی میں چار فٹ گہرا کنواں کھود بھی لیا تو پولیس اس کا کھاری کیچڑ پینے والوں کا چالان اقدام خودکشی میں کردے گی۔ یوں بھی پھٹیچر سے پھٹیچر قصبے میں آج کل کنویں صرف ایسے ویسے موقعوں پر ڈوب مرنے کے لیے کام آتے ہیں۔ رہے تالاب، توحضور! لے دے کے ان کا یہ مصرف رہ گیا ہے کہ دن بھر ان میں گاؤں کی بھینسیں نہائیں اورصبح جیسی آئی تھیں، اس سے کہں زیادہ گندی ہو کر چراغ جلے باڑے میں ہنچیں۔‘‘ خدا خدا کرکے یہ مکالمہ ختم ہوا تو پٹاخوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، ’’مرحوم نے کچھ چھوڑا بھی؟‘‘

’’بچے چھوڑے ہیں!‘‘ ’’مگردوسرا مکان بھی تو ہے۔‘‘ ’’اس کے کرایے کو اپنے مرزا کی سالانہ مرمت سفیدی کے لیے وقف کرگئے ہیں۔‘‘ ’’پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ بیاہتا بیوی کے لیے ایک انگوٹھی بھی چھوڑی ہے۔ اگر اس کا نگینہ اصلی ہوتا تو کسی طرح بیس ہزار سے کم کی نہیں تھی۔‘‘ ’’توکیا نگینہ جھوٹا ہے؟‘‘ ’’جی نہیں۔ اصلی امی ٹیشن ہے!‘‘’’اوروہ پچاس ہزارکی انشورنس پالیسی کیا ہوئی؟‘‘

’’وہ پہلے ہی منجھلی کے مہر میں لکھ چکے تھے۔‘‘’’اس کے بارے میں یار لوگوں نے لطیفہ گھڑرکھا ہے کہ منجھلی بیوہ کہتی ہے کہ سرتاج کے بغیرزندگی اجیرن ہے۔ اگر کوئی ان کو دوبارہ زندہ کردے تو میں بخوشی دس ہزار لوٹانے پرتیارہوں۔‘‘ ’’مرحوم اگرایسا کرتے ہیں تو بالکل ٹھیک کرتے ہیں۔ ابھی توان کا کفن بھی میلا نہیں ہوا ہوگا۔ مگر سننے میں آیا ہے کہ منجھلی نے رنگے چنے دوپٹے اوڑھنا شروع کردیا ہے۔‘‘

’’اگر منجھلی ایسا کرتی ہے تو بالکل ٹھیک کرتی ہے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ ایک زمانے میں لکھنؤ کے نچلے طبقے میں یہ رواج تھا کہ چالیسویں پرنہ صرف انواع و اقسام کے پرتکلف کھانوں کا اہتمام کیا جاتا، بلکہ بیوہ بھی سولہ سنگھار کر کے بیٹھتی تھی تاکہ مرحوم کی ترسی ہوئی روح کماحقہ، متمتّع ہوسکے۔‘‘ مرزا نے ’ح‘ اور’ع‘صحیح مخرج سے ادا کرتے ہوئے مَرے پر آخری دُرّہ لگایا۔ واپسی پر راستے میں میں نے مرزا کو آڑے ہاتھوں لیا، ’’جمعہ کو تم نے وعظ نہیں سنا؟ مولوی صاحب نے کہا تھا کہ مَرے ہُوؤں کا ذکر کرو تو اچھائی کے ساتھ۔ موت کو نہ بھولو کہ ایک نہ ایک دن سب کو آنی ہے۔‘‘سڑک پار کرتے کرتے ایک دم بیچ میں اکڑ کر کھڑے ہوگئے۔ فرمایا، ’’اگر کوئی مولوی یہ ذمّہ لے لے کہ مرنے کے بعد میرے نام کے ساتھ رحمتہ اللہ لکھا جائے گا تو آج ہی۔۔۔ اِسی وقت، اِسی جگہ مرنے کے لیے تیاّرہوں۔ تمہاری جان کی قس سم!‘‘ آخری فقرہ مرزا نے ایک بے صبری کار کے بمپر پر تقریباً اکڑوں بیٹھ کر جاتے ہوئے ادا کیا۔