ج-85 رشوت لینے والا تو ہر حال میں ‘‘فی النار’’ کا مصداق ہے، اور رشوت دینے والے کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ دفعِ ظلم کے لئے رشوت دی جائے تو اْمید ہے کہ اللہ تعالیٰ مواخذہ نہیں فرمائیں گے۔ رشوت دے کر جو نوکری حاصل کی گئی ہو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر یہ شخص اس ملازمت کا اہل ہے اور جو کام اس کے سپرد کیا گیا ہے اسے ٹھیک ٹھیک انجام دیتا ہے تو اس کی تنخواہ حلال ہے، (گو رشوت کا وبال ہوگا)، اور اگر وہ اس کام کا اہل ہی نہیں تو تنخواہ بھی حلال نہیں۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- رشوت کے بارے میں جناب نے مجھ پر جو اعتراض کیا تھا، میں نے اعترافِ شکست کے ساتھ اس بحث کو ختم کردینا چاہا تھا، لیکن آنجناب نے اس کو بھی محسوس فرمایا، اس لئے مختصراً پھر عرض کرتا ہوں کہ اگر اس سے شفا نہ ہو تو سمجھ لیا جائے کہ میں اس سے زیادہ عرض کرنے سے معذور ہوں۔
جناب کا یہ ارشاد بجا ہے کہ رشوت قطعی حرام ہے، خدا اور رسول نے راشی اور مرتشی دونوں پر لعنت کی ہے، اور اس پر دوزخ کی وعید سنائی ہے۔ لیکن جناب کو معلوم ہے کہ اضطرار کی حالت میں مردار کی بھی اجازت دے دی جاتی ہے، کچھ یہی نوعیت رشوت دینے کی ہے۔ ایک شخص کسی ظالم خونخوار کے حوالے ہے، وہ ظلم دفع کرنے کے لئے رشوت دیتا ہے، فقہائے اْمت اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ‘‘اْمید ہے کہ اس پر مواخذہ نہ ہوگا’’ اور یہی میں نے لکھا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس پر عام حالات کا قانون نافذ نہیں ہوسکتا، اس لئے رشوت لینا تو ہر حال میں حرام ہے اور گناہِ کبیرہ ہے، اور رشوت دینے کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ جلبِ منفعت کے لئے رشوت دے، یہ حرام ہے، اور یہی مصداق ہے ان احادیث کا جن میں رشوت دینے پر وعید آئی ہے۔ اور دْوسری صورت یہ کہ دفعِ ظلم کے لئے رشوت دینے پر مجبور ہو، اس کے بارے میں فقہاء فرماتے ہیں کہ: ‘‘اْمید ہے کہ مواخذہ نہ ہوگا’’۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- اگر آپ کے والد کی کمائی کا غالب حصہ حرام ہے تو اس میں سے لینا جائز نہیں، آپ اپنے والد صاحب کو کہہ دیجئے کہ وہ آپ کو جائز تنخواہ کے پیسے دیا کریں، رشوت کے نہ دیا کریں۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- شوہر اگر حرام کا روپیہ کماکر لاتا ہے تو عورت کو چاہئے کہ پیار محبت سے اور معاملہ فہمی کے ساتھ شوہر کو اس زہر کے کھانے سے بچائے، اگر وہ نہیں بچتا تو اس کو صاف صاف کہہ دے کہ: ‘‘میں بھوکی رہ کر دن کاٹ لوں گی، مگر حرام کا روپیہ میرے گھر نہ لایا جائے، حلال خواہ کم ہو میرے لئے وہی کافی ہے۔’’ اگر عورت نے اس دستور العمل پر عمل کیا تو وہ گناہگار نہیں ہوگی، بلکہ رشوت اور حرام خوری کی سزا میں صرف مرد پکڑا جائے گا، اور اگر عورت ایسا نہیں کرتی بلکہ اس کا حرام کا لایا ہوا روپیہ خرچ کرتی ہے تو دونوں اکٹھے جہنم میں جائیں گے۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- رشوت لینا حرام ہے، اور اس حرام روپے سے کسی کی خدمت کرنا اور اس پر ثواب کی توقع رکھنا بہت ہی سنگین گناہ ہے۔ بعض اکابر نے لکھا ہے کہ حرام مال پر ثواب کی نیت کرنے سے ایمان سلب ہوجاتا ہے۔ آپ کے حاتم طائی کو چاہئے کہ رشوت کا روپیہ اس کے مالک کو واپس کرکے اپنی جان پر رحم کریں۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- رشوت کا پیسہ حرام ہے، اور حدیث میں ارشاد ہے کہ: ‘‘آدمی حرام کماکر اس میں سے صدقہ کرے، وہ قبول نہیں ہوتا’’ حضراتِ فقہاء نے لکھا ہے کہ مالِ حرام میں صدقے کی نیت کرنا بڑا ہی سخت گناہ ہے، اس کی مثال ایسی ہے کوئی شخص گندگی جمع کرکے کسی بڑے آدمی کو ہدیہ پیش کرے، تو یہ ہدیہ نہیں گا بلکہ اس کو گستاخی تصوّر کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ عالی میں گندگی جمع کرکے پیش کرنا بھی گستاخی ہے۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- سوال نمبر۵ کے علاوہ باقی تمام سوالوں کا ایک ہی جواب ہے کہ اگر کمپنی کی طرف سے اس کی اجازت ہے تو جائز ہے، ورنہ جائز نہیں، بلکہ چوری اور خیانت ہے۔ سوال نمبر۵ کا جواب یہ ہے کہ ایسا کمیشن وصول کرنا رشوت ہے، جس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- جو لوگ ذاتی تعلق و محبت اور بزرگ داشت کے طور پر ہدیہ پیش کرتے ہیں وہ تو ہدیہ ہے، اور اس کا استعمال جائز اور صحیح ہے۔ اور جو لوگ آپ سے آپ کے عہدے کی وجہ سے منفعت کی توقع پر مٹھائی پیش کرتے ہیں، یعنی آپ نے ان کو اپنے عہدے کی وجہ سے نفع پہنچایا ہے یا آئندہ اس کی توقع ہے، یہ رشوت ہے، اس کو قبول نہ کیجئے، نہ خود کھائیے، نہ گھر والوں کو کھلائیے۔ اور اس کا معیار یہ ہے کہ اگر آپ اس عہدے پر نہ ہوتے، یا اس عہدے سے سبکدوش ہوجائیں تو کیا پھر بھی یہ لوگ آپ کو ہدیہ دیا کریں گے؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے تو یہ ہدیے بھی رشوت ہیں، اور اگر ان ہدیوں کا آپ کے منصب اور عہدے سے کوئی تعلق نہیں تو یہ ہدیے آپ کے لئے جائز ہیں۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- رشوت اگر دفعِ ظلم کے لئے دی گئی ہو تو اْمید کی جاتی ہے کہ دینے والے کے بجائے صرف لینے والے کو گناہ ہوگا۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- کیا یہ ممکن نہیں کہ ایسے راشی افسر کی شکایت حکامِ بالا سے کی جائے؟ رشوت کسی بھی صورت میں دینا جائز نہیں۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- رشوت ایک ایسا ناسور ہے جس نے پورے ملک کا نظام تلپٹ کر رکھا ہے، جن افسروں کے منہ کو یہ حرام خون لگ جاتا ہے وہ ان کی زندگی کو بھی تباہ کردیتا ہے اور ملکی انتظام کو بھی متزلزل کردیتا ہے، جب تک سرکاری افسروں اور کارندوں کے دِل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور قیامت کے دن کے حساب و کتاب اور قبر کی وحشت و تنہائی میں ان چیزوں کی جواب دہی کا احساس پیدا نہ ہو، تب تک اس سرطان کا کوئی علاج نہیں کیا جاسکتا۔ آپ سے یہی کہہ سکتا ہوں کہ جہاں تک ممکن ہو ان کتوں کو ہڈی ڈالنے سے پرہیز کریں، اور جہاں بے بس ہوجائیں وہاں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- جن قباحتوں کا آپ نے ذکر کیا ہے، ان کی اجازت تو نہ عقل دیتی ہے نہ شرع، نہ قانون نہ اخلاق، اگر آپ ان لعنتوں سے نہیں بچ سکتے تو اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ نوکری چھوڑ دیجئے، اور کوئی حلال ذریعہ معاش اپنائیے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوگا کہ آپ نوکری چھوڑ دیں گے تو بچوں کو کیا کھلائیں گے؟ اس کے دو جواب ہیں۔ ایک یہ کہ دْوسری جگہ حلال ذریعہ معاش تلاش کرنے کے بعد ملازمت چھوڑئیے، پہلے نہ چھوڑئیے۔ دْوسرا جواب یہ ہے کہ آپ ہمت سے کام لے کر اس بْرائی کے خلاف جہاد کیجئے اور رشوت کے لینے اور دینے سے انکار کردیجئے۔ جب آپ ایسا کریں گے تو آپ کے محکمے کے تمام شریکِ کار افسرانِ بالا سے لے کر ماتحتوں تک آپ کے خلاف ہوجائیں گے، اور آپ کے افسر آپ کے خلاف جھوٹے سچے الزامات عائد کرکے آپ کو برخاست کرانے کی سعی کریں گے۔ اس کے جواب میں آپ اپنے مندرجہ بالا خط کو سنوار کر مع ثبوتوں کے صفائی نامہ پیش کردیجئے، اور اس کی نقول صدرِ مملکت، وزیراعظم، صوبائی حکومت کے اَربابِ اقتدار اور ممبران قومی و صوبائی اسمبلی وغیرہ کو بھیج دیجئے۔ زیادہ سے زیادہ آپ کا محکمہ آپ کو نوکری سے الگ کردے گا، لیکن پھر اِن شاء اللہ آپ پر زیادہ خیر و برکت کے دروازے کھلیں گے۔ اگر آپ محکمے کی ان زیادتیوں سے کسی بڑے اَربابِ حل و عقد کو اپنا ہم نوا بنانے میں کامیاب ہوگئے تو آپ کی نوکری بھی نہیں جائے گی، البتہ آپ کو کسی غیراہم کام پر لگادیا جائے گا اور آپ کو ۱۷۰۰ روپے میں گزر اوقات کرنی پڑے گی، جس میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے، بشرطیکہ آپ خالی وقت میں کوئی کام کرسکیں۔ تو میرے عزیز! جس طرح آپ ہزاروں میں سے ایک ہیں جو مجھ کو ایسا تقوے والا خط لکھ سکتے ہیں، اسی طرح کسی نہ کسی کو اس اندھیرنگری میں حق کی آواز اْٹھانی ہے، اللہ کی مدد آپ کے شاملِ حال ہو اور ہم خیال بندے آپ کی نصرت کریں۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- فائل نکلوانے، دِکھانے اور ٹائپ کرنے کی اگر سرکار کی اْجرت مقرّر ہے، تو اس اْجرت کا وصول کرنا صحیح ہے (اور اس کا مصرف وہ ہے جو قانون میں مقرّر کیا گیا ہو)، اس کے علاوہ کچھ لینا رشوت ہے اور گناہ میں وہ سب شریک ہوں گے جن جن کا اس میں حصہ ہوگا۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- اگر کام کرنے کا معاوضہ دیتے ہیں تو رشوت ہے، خواہ یہ مانگے یا نہ مانگے، اگر دوستی یا عزیزداری میں ہدیہ دیتے ہیں تو ٹھیک ہے۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- اس قسم کی شیرینی جو سرکاری اہل کاروں کو دی جاتی ہے، رشوت کی مد میں آتی ہے، اس سے پرہیز کرنا چاہئے، کیونکہ یہ شیرینی نہیں بلکہ زہر ہے۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- کام کے عوض جو روپیہ اس کو دیا جاتا ہے وہ رشوت ہے، اس کا لینا اس کے لئے جائز نہیں، اگر بعینہ اسی رقم سے کوئی چیز خرید کر وہ کسی کو تحفہ دیتا ہے تو اس کا لینا بھی جائز نہیں، اور اگر اپنی تنخواہ کی رقم سے یا کسی اور جائز آمدنی سے تحفہ دیتا ہے تو اس کا لینا دْرست ہے۔ اور اگر یہ معلوم نہ ہو کہ یہ تحفہ جائز آمدنی کا ہے یا ناجائز کا؟ تو اگر اس کی غالب آمدنی صحیح ہے تو تحفہ لے لینا دْرست ہے، ورنہ احتیاط لازم ہے، اور اگر اس کی دِل شکنی کا اندیشہ ہو تو اس سے تو لے لیا جائے مگر اس کو استعمال نہ کیا جائے، بلکہ بغیر نیتِ صدقہ کے کسی محتاج کو دے دیا جائے۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- اگر یہ ڈائریاں ایسی کمپنی یا ادارے کی جانب سے شائع کی گئی ہوں جن کی آمدنی شرعاً جائز ہے، تو ان کا لینا جائز ہے، ورنہ نہیں۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- اگر یہ زائد رقم خوشی سے چھوڑ دی جائے تو لینے والے کے لئے حلال ہے۔ اور اپنے بزرگوں کو ہدیہ یا چھوٹوں کو تحفے کے طور پر جو چیز برضا و رغبت دی جائے وہ بھی جائز ہے۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- کوئی کام غیرقانونی تو حتی الوسع نہ کیا جائے، اس کے باوجود اگر رشوت دینی پڑے تو لینے والے اپنے لئے جہنم کا سامان کرتے ہیں، دینے والا بہرحال مجبور ہے، اْمید ہے کہ اس سے مواخذہ نہ ہوگا۔ اور اگر غیرقانونی کام کے لئے رشوت دی جائے تو دونوں فریق لعنت کے مستحق ہیں۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- کوئی کام غیرقانونی تو حتی الوسع نہ کیا جائے، اس کے باوجود اگر رشوت دینی پڑے تو لینے والے اپنے لئے جہنم کا سامان کرتے ہیں، دینے والا بہرحال مجبور ہے، اْمید ہے کہ اس سے مواخذہ نہ ہوگا۔ اور اگر غیرقانونی کام کے لئے رشوت دی جائے تو دونوں فریق لعنت کے مستحق ہیں۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج- حکومت کی طرف سے جو کچھ دیا جائے، اس کے جائز ہونے میں کیا شبہ ہے؟ مگر سرکاری ملازم لوگوں کا کام کرکے ان سے جو ‘‘تحفہ’’ وصول کرے وہ رشوت ہی کی ایک صورت ہے۔ ہاں! اس کے دوست احباب یا عزیز و اقارب تحفہ دیں تو وہ واقعی تحفہ ہے۔ خلاصہ یہ کہ گورنمنٹ یا انتظامیہ اپنے ملازمین کو جو کچھ دیتی ہے، خواہ تنخواہ ہو، بونس ہو، یا انعام ہو، وہ سب جائز ہے۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)
ج-85 کسی شخص کا نمبر نکل آنا ایسی چیز نہیں کہ اس کی خرید و فروخت ہوسکے، اس لئے پیسے دے کر نمبر خریدنا جائز نہیں، اور جس شخص نے پیسے لے کر اپنا نمبر دے دیا اس کے لئے وہ پیسے حلال نہیں ہوں گے، بلکہ ان کا حکم رشوت کی رقم کا ہوگا۔
(مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ)